Saturday, 13 July 2013

:::::-زندگی کی یادیں-::::::

:::::-زندگی کی یادیں-::::::
 

 
مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب اپنا گھر نہیں ہوتا تھا اور کرائے کے مکانوں میں رہنا پڑتا تھا. چند ماہ ایک گھر میں اور پھر دوسرے گھر میں اور پھر تیسرے میں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ نگری نگری پھرا مسافر. پھر وقت کا پہیہ چلتا گیا اور اللہ نے نصیب میں ایک چھوٹا سا مکان لکھ دیا سو وہ مل گیا
 
ایک چھوٹا سا پلاٹ جس پر ایک کمرہ اس سے منسلک ایک کچن اور ایک باتھ روم آگے آدھا صحن پکا اور آدھا کچا. یہ سب کچھ بھی مکان لینے کے بعد خود سے تیار کروایا تھا. لیکن آج بھی میں حیرت زدہ ہوں کہ اس ایک کمرے میں کتنی جگہ تھی. ہم سب اسی میں رہتے تھے، مہمان بھی آتے تھے تو وہیں ٹھہرتے. وہی ہمارا بیڈ روم ، ڈائینگ روم، ٹی وی لاونج اور گیسٹ روم تھا. بس ایک بات جو شاید کسی مکان میں نا ہو کسی گھر میں نا ہو وہ اس ایک کمرئے میں تھی. اس کمرے کا ظرف بہت بڑا تھا. وہ اپنے اند اتنی جگہ اور اتنی محبت رکھتا تھا کہ سب کچھ سمو لیتا تھا. جاڑا ہو یا گرمی، دسمبر کی یخ ہوا ہو یا جون کی تپتی لو، وہی ہمارا سائبان تھا اور وہی ہمارا سب کچھ.
 
 
 
اس کے آگے آدھا پکا اور آدھا کچا صحن. کیا ہی بات ہے اس صحن کی. مجھے یاد ہے کہ میں نے آٹھویں کلاس میں زراعت پڑھی تھی. اور جسم و جان میں کسانوں کا خون بھی شامل تھا، کھیتی باڑی آباو اجداد کا اوڑھنا بچھونا تھی سو اس کے اثر میں، میں نے زراعت کا سارا شوق اس کچے صحن پر صرف کر دیا. اسی صحن کے ایک کونے سے جہاں دروازہ ہوا کرتا تھا اس کے بلکل ساتھ میں نے ایک بیل لگائی نام تو اس کا یاد نہیں پر اس کی شاخیں جامنی لیکن پتے گہرے ہرئے ہوا کرتے تھے. پھر میری محبت نے اس بیل کو عشق بے لگام کی طرح ایسا پھیلایا کہ اس نے سارے کچے صحن کو ڈھانپ لیا. میں نے اسی بیل کو تاریں باند باند کر کچھ ایسا کردیا کہ وہ ایک چھپر کی مانند پورے صحن پر اپنی چھایا کرنے لگی.


 

اس کے  بعد دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے کی دیوار کے ساتھ ساتھ کالی توری کی بیل جو لگائی تو وہ بھی بے لگام بڑھتی ہی چلی گئی جس سے ملنے والی توریاں خود بھی پکا کر کھائیں اور اڑوس پڑوس کی بھی کھلائیں. اس کی بیل بھی ہمسائے کے گھر بلکہ چھت تک پھیلتی ہی چلی گئی. کیا خوبصورت ہریالی تھی. یہی نہیں ہری مرچ کے پودے ، گلاب کے پودے، اور ہر وہ پودا جو مجھے اچھا لگتا میں کم سے کم جگہ میں اس کو لگانے کی ضرور کوشش کرتا.
 
 

 
 
پھر ایک عدد لکڑی کی ڈولی (الماری) جو اتنی خوبصورت تھی کیا ہی بات ہے. شروع شروع میں اس میں کچن کی چیزیں ،جیسے آلو، پیاز، مرچ مصالحے اور دودھ وغیرہ رکھا جاتا، لیکن پھر جب کچن کو اچھا بنا لیا اور اس میں کچھ نئے طرز کے ڈبے وغیرہ رکھ لیئے تو ڈولی کو ڈربہ کی شکل دے کر اس میں مرغیاں رکھ لیں. اور ان مرغیوں میں ایک مرغی جو کہ میں خود گاوں سے ٹانگیں اور پر باند کر لایا تھا، اور بس میں سارے راستے اس کو پانی بھی پلاتے رہے کہ کہیں مر نا جائے کیا کمال کی کالے رنگ کی بلیک مینارکہ نسل کی مرغی تھی. انڈے تو دیتی ہی رہتی تھی لیکن کمال بات یہ تھی کہ کبھی بھی گھر سے باہر انڈا نہیں دیتی تھی. مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ایک بار کسی سلسلے میں ہم سب کہیں گئے ہوئے تھے اور مرغی کو دوپہر میں انڈہ دینا تھا. اس نے دروازے کے آگے بیٹھ کر انڈہ دئے دیا لیکن کسی کے گھر میں جا کر نہیں دیا.
 
 
پھر ہم نے اس کے انڈے جمع کیئے اور ہر انڈہ مختلف جگہ پر رکھا، جیسے ایک انڈہ زیرہ کے ڈبہ میں اور ایک نمک میں ایک مرچ میں اور ایک کالی مرچ میں. جب مرغی کڑک ہوئی تو ان انڈوں پر اس کو بٹھا دیا. پھر اس کی خوب خاطر مدارت کی، خود دانا دنکا کھلایا. بس 21 دن کے بعد اس نے سارے کے سارے انڈوں میں سے چوزے نکال لیئے، اور حیرانگی کی بات کہ مختلف رنگوں اور ڈیزائینوں کے، جو انڈہ جیس چیز میں پڑا رہا بلکل ویسے ہی رنگ کا چوزہ نکلا. بہت خوبصورت منظر تھا. اور ہماری کٹو!!‌تو پھولے نہیں سماتی تھی. پورا دن صحن میں کٹ کٹ کرتی چوزوں کو لیکر گھومتی پھرتی تھی. اب اس کو باہر بھی نہیں جاناپڑتا تھا کیوں کہ میں نے باجرہ لا کر گھر میں ہی اس کی خاطر شروع کر دی تھی.
 
اور پھر جب چوزے بڑئے ہوئے تو ڈولی پوری کی پوری بھر گئی. مرٍغیاں زیادہ اور مرغے دو تھے بہت زبردست قسم کے لڑاکا. دونوں مرغ مجھے اچھی طرح یاد ہیں، ایک کا قد چھوٹا لیکن موٹا تگڑا تھا. زبردست لڑائی کرتا تھا.
 
بہت پیارا تھا وہ ایک کمرہ، اور بہت سکون تھا اس میں. چھت پر کھڑے ہو کر دور دور تک دکھائی دیتا تھا. جس دن بارش ہوتی تو رات کو اسلام آباد اور مری اتنے بھلے دکھائی دیتے تھے، ٹم ٹماتی روشنیاں. مری شہر تو چھت سے یوں نظر آتا جیسے بہت سارے ہیرے موتی جواہرات کا ایک اونچا ٹیلا ہو جو رات کےاندھیرے میں ٹمٹما رہا ہو.
 
اور رضائی میں گھس کر رات رات بھر بادلوں کی گھن گرج سننا اور ڈرتے رہنا بجلی کی چمک پر منہ رضائی کے اندر کر لینا. اور صبح اٹھ کر کونے میں پڑے حمام کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھونا، کتنا خوبصورت احساس دلاتا تھا. آج بھی وہ صبح صبح سہراب سائکل پر سکول جانا یاد ہے. کتنا مزے دار وقت تھا وہ.
 
بہت زبردست دن تھے بہت شاندار محبت ، خلوص، پیار ، چاو، لگاو اور چاہت بھرئے. اور وہ گھر اور اس گھر کا وہ ایک کمرہ شاید آج کے محلوں سے بھی زیادہ پر آسائش اور پر سکون تھا. کیوں کہ وہ سب کو اپنی پیار کی گود میں سمو لیتا تھا.
 
تحریر: راشد ادریس رانا --------انتخاب: بچپن کی بھول بھلیاں
 
 

5 comments:

  1. بہت عمدہ تحریر۔۔۔ یادیں یاد رکھنے اور انہیں لکھنے کا کمال ہی انداز۔۔۔

    ReplyDelete
  2. بہت خوب ، یادیں زندگی کا حسین سرمایہ ہیں زندگی جتنی بھی مصروف ہو جائے یاد ساتھ نہیں چھوڑتی ۔۔۔

    ReplyDelete
  3. رضوان خان آفریدی13 July 2013 at 23:45

    میں سمجھتا تھا کہ میں نوسٹالیجک ہوں لیکن ۔۔۔۔۔

    شائید مستقبل بعید میں ٹائم مشین ایجاد ہوں اور ہم بیتے وقت کو پکڑ سکیں ان تتلیوں کی طرح جن کو بچپن میں ہم پکڑ کر ان کی دم سے دھاگہ باند لیا کرتے تھے کہ بھاگ نہ جائے کہیں۔

    لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ بیتے ہوئے کل کے خوبصورت لمحات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ہم ہر اس لمحے کو جو ہماری دسترس میں ہے یہ سوچ کر خوبصورت اور یادگار بنائیں کہ یہ وقت پھر کھبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ وقت کا اختیار انسان کے بس میں نہیں ہے۔
    خوش رہئیے۔

    ReplyDelete
  4. آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ
    وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ
    وہ ساتھ سب کے اُڑنا وہ سیر آسماں کی

    ReplyDelete
  5. اللہ پاک کا ہر حال میں شکر ہے۔ بیشک ان دنوں چھوٹے گھروں میں بڑے بڑے ظرف اور دل والے لوگ رہا کرتے تھے۔ مہمان بھی آتے تھے، روکھی سوکھی کھا کر بھی خوش خوش جاتے تھے۔ آج گھر بڑے ہوئے ہیں مگر لگتا ہے لوگوں نے چھوٹا ہونا شروع کر دیا ہے۔

    ReplyDelete