Thursday, 18 July 2013

سلطان الپ ارسلان-- تاریخ کے آئینوں میں

 


سپاہی حیرت کہ عالم میں سلطان کو دیکھ رھے تھے اناطولیہ سے لے کر اصفہان تک بادشاہ ،ایک نڈر و دلیر حکمران آج ان کو ایک عجب خطاب کررھا تھا ، گھوڑے کی رکابوں میں پاوں پھنسائے ھوئے یہ تن کر کھڑا تھا ،اس کی گونج دار آواز سولہ ہزار کہ لشکر کہ ہر سپاہی تک پہنچ رھی تھی
"ھماری تعداد تھوڑی ھے مگر میں اللہ پر توکل کرتے ھوئے دشمن پر اس وقت جھپٹنا چاھتا ھوں جب مسلمان نماز جمعہ کہ لیے کھڑے ھوں اور فتح کہ لیے دعائیں کر رھے ھوں!یا تو مجھے کامیابی مل جائے گی یا میں اللہ کی راہ میں مارا جاوں گا! جو میرے پیچھے آنا چاھتا ھے وہ شہادت کہ لیے لپکے ،اور جو جانا چاھتا ھے اس پر کوئی جوابدھی نہیں ! آج نہ کوئی سلطان ھے اور نہ کوئی فوج ،میں بھی تمھاری طرح کا ایک غازی ھوں جو میرا ساتھ دے گا اس کا انعام جنت ھے اور جو نہ دے گا تو جھنم کی آگ اور ذلت اس کو لیپیٹ لے گی"

یہ تقریر نہ تھی ایک روح تھی جو کہ سپاہیوں کہ بدن میں سرایت کرگئی ، آذربائیجان سے روانہ ھوتے وقت ہی انہیں علم تھا کہ سلطان اپنی وصیت کرچکا ھے کہ میں اللہ کہ راستے میں جارھا ھوں اگر شہید ھوگیا تو میرا بیٹا ملک شاہ میرا وارث ھوگا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ بازنطینی سیزر کی معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے سلطان الپ ارسلان کو اتنا وقت نہیں ملا کہ فوجیں مہیا کرلیتا ، اس لیے چار ھزار فوجیوں کو ہی ساتھ لے کر تین لاکھ بازنطینوں کہ لشکر کا مقابلہ کرنے چل پڑا ھے ! نظام الملک نے بارہ ھزار گھڑ سواروں کا لشکر پیچھے سے روانہ کیا تھا جو کہ ملازکرد کہ میدان میں ان سے آن ملا ھے !
ان سے نے یکجان ھوکر کہا کہ "سلطان ہم آپ کہ ساتھ ھیں جو چاھے کیجیے جیسا چاھیے حکم دیجیے واللہ ہمیں پیٹھ دکھانے والوں میں سے نہ پائیں گئیں"
اس وقت کی مسلم دنیا کہ سب سے نڈر سپہ سالار الب ارسلان نے تیر و کمان وجود سے الگ کردیئے ، تلوار و نیزہ اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا گھوڑے کی دم سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور میدان جنگ کی طرف روانہ ھوگیا ، سلطان اس جنگ کو تیاری نہ ھونے کی وجہ سے ٹالنا چاھتا ھے اس کا اصل ھدف فاطمی رافضی تھے جو کہ مصر میں حکمران تھے ،مگر اس کو بے خبر پاکر سیزر رومانوس تین لاکھ کا لشکر جرار لے کر مسلم سرزمینوں پر چڑھ آیا تھا ،سلطان رومانوس کہ پاس سفارت بھیج چکا تھا جسمیں اسے صلح کہ معاہدے پر جمے رھنے کی تلقین کی تھی اور اسے مال و اسباب دینے کا وعدہ بھی ! مگر متکبر سیزر نے جواب دیا تھا کہ معاہدہ اب سلطان کہ دارلحکومت رے میں ہی ھوگا !!
مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی سے فارغ ھوئے ،آج کا خطبہ سلطان کا خطاب ہی تھا اور بعد از نماز جمعہ ترکی کی سرسبرشاداب جھیل وان کہ شمال میں واقع ملاکرزد کہ میدان میں عیسائی لشکر سے ٹکرا گئے ! مسلم سرزمینوں پر اللہ کی بارگاہ میں اٹھے ھوئے لاتعداد ہاتھ سلطان الپ ارسلان کی فتح کی دعا کررھے تھے !!
سلطان کی تقریر سے مہمیز شدہ سپاہی چیتے کی طرح لپکے اور بجلی کی طرح سیزر کہ لشکر بے کراں میں گھستے چلے گئے ! یہ صف بندی و حکمت عملی کا وقت نہیں تھا دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ھوتا تھا ، گھوڑوں کی سموں سے اٹھنے والی گرد کی ایک دبیز تہ نے مسلم لشکر کو نظروں سے اوجھل کردیا ، تلواروں کی جھنکار اور لشکروں کہ نعروں نے جھیل وان پر بیٹھے پرندوں کو بھی خوفزدہ کردیا ،مسلم لشکر اس کیل کی مانند تھا جس کو ایک سخت پتھریلی دیوار میں ٹھونکنے کی کوشش کی جارھی ھو ! گرد کہ بیٹھتے ہی جو منظر عقل کی سمجھ میں آنے والا تھا وہ مسلم لشکر کا بالکل ہی غائب ھوجانا تھا !!
مگر جب گرد تھمی تو جنوں نے ایک عجب منظر دیکھا رومی لشکر اس دریا کی مانند تھا جس کو عصا موسی کی ایک ہی ضرب نے درمیان میں سے پھاڑ دیا ھو اور اس کہ دونوں اطراف میں سیزر کہ لشکریوں کی لاتعداد لاشیں بکھری پڑی تھیں !!
سیزر کو ایک غلام نے پکڑ لیا ، سلطان کہ سامنے پیش کیا گیا ، سلطان نے پوچھا کہ اگر میں اس حالت میں ھوتا تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ! نڈر سیزر نے جواب دیا کہ تمھیں قتل کروا دیتا ، اولعزم سلطان ھنسا اور کہا کہ میں تم سے اس سے بھی برا سلوک کروں گا جاو میں تمھیں معاف کرتا ھوں !!!
سیزر فدیے کی ادائیگی کہ بعد اپنے ملک پہنچا جہاں اس ذلت آمیز شکست کی وجہ سے اس کہ اہل ملک نے اس کی آنکھیں میں گرم سلائی پھیر دی جس کی ازیت کی وجہ سے وہ کچھ ہی عرصے بعد مرگیا !!
جمعے روز ہی آتے ھیں ، ہاتھ بھی لاتعداد خدا کی بارگاہ میں اٹھتے ھیں ! مگر ان سپہ سالاروں میں کوئی الپ ارسلان نہیں ھے ان حکمرانوں میں کوئی غازی نہیں ھے جو کہ اپنی مسند سے اترے اور پکار کرکہے کہ میں تو چلا جنت کہ راستے پر جس نے میرے پیچھے آنا ھے آجائے ! ھے کوئی یہ مقام لینے والا ؟ واللہ امت میں سے ایک بھی اپنے پیچھے نہ رھے گا اور جو رہ گیا وہ ہاتھ اٹھائے رکھے گا جب تک کہ فتح کی بھیک ان اٹھے ہاتھوں میں نہیں ڈال دی جاتی !!
 
Special Thanks : Mr. Atif Beig - Lahore
 

2 comments:

  1. مسلمان قالب تو اب بہت ہیں
    افسوس کہ دِل مسلماں نہ رہے

    ReplyDelete
  2. جمعے روز ہی آتے ھیں ، ہاتھ بھی لاتعداد خدا کی بارگاہ میں اٹھتے ھیں ! مگر ان سپہ سالاروں میں کوئی الپ ارسلان نہیں ھے ان حکمرانوں میں کوئی غازی نہیں ھے جو کہ اپنی مسند سے اترے اور پکار کرکہے کہ میں تو چلا جنت کہ راستے پر جس نے میرے پیچھے آنا ھے آجائے ! ھے کوئی یہ مقام لینے والا ؟ واللہ امت میں سے ایک بھی اپنے پیچھے نہ رھے گا اور جو رہ گیا وہ ہاتھ اٹھائے رکھے گا جب تک کہ فتح کی بھیک ان اٹھے ہاتھوں میں نہیں ڈال دی جاتی !!

    بے شک ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔

    ReplyDelete