Wednesday, 20 June 2012

نقاد کی نقدی:::::::......

ہر بار ہماری تاریخ نے پلٹا کھایا اور سب کچھ پلٹ دیا

بھٹؤ گیا، ضیاء گیا، یحییٰ گیا، بے نظیر گئی

میاں گیا تو پرویز آیا :::::: ہم نے مٹھایاں بانٹی، بھنگڑے ڈالے، خوشیاں منائیں، فائرنگ کی

پرویز گیا تو گیلانی آیا،زرداری آیا :::::: ہم نے مٹھایاں بانٹی، بھنگڑے ڈالے، خوشیاں منائیں، فائرنگ کی

گیلانی گیا تو اب آنیوالا ہے مخدوم یا پھر کوئی چوہدری :::::: اور ہم


پاکستان ایک سٹیج ہے اور ہم سب تماشائی، ہر آنیوالا ایک نقاد ہے جس کو ہر حال میں اپنے حصے کی نقدی اکھٹی کرنی ہے سٹیج چلانے والے کو پتا ہے کہ جب تماشائیوں کی جیبوں میں سے نقدی ہلکی ہو جائے گی تو پہلے نقاد کو ہٹا کر ایک نیا چہرہ ،ایک نیا نقاد لا کھڑا کرنا ہے تاکہ کھیل جاری رہے اور کبھی ختم نا ہو، نقدی آتی رہے آتی رہے اور بس آتی رہے لیکن ہو گا کیا، جس سٹیج پر ہم بیٹھ کر نعرے لگاتے ہیں اور انتظار کرر ہے ہیں کے اگلا آنیوالا کچھ الگ کرنے آ رہا ہے یہ سٹیج ایک دن زمین بوس ہو جائے گا، اور جو بھی اس میں ہے وہ بھی زمین بوس ہو کر تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ اور عبرت ناک انجام بن جائے گا۔ سٹیج کے پیچھے سب نقاد بھاگ جانے والے ہیں، جو بھاگ جائیں

میاں ہمیشہ میاں ہی رہےگا،
 پرویزی نسل در نسل پرویزی رہے گا،
 گیلانی اپنی گدی پہ جا بیٹھے گا،
 زرداری اپنے زر کا دار ہوگا،
 مخدوم اپنی لڑی کو چلاتا رہے گا،
 کوئی شاہ جی اور کوئی شاہ صاحب،
 کوئی گدی نشین کوئی زمین دار،
 کوئی جاگیردار،
 کوئی جدی پشتی نواب ابن نواب،

 سب نقاد اپنی نقدی لیکر چلتے بنیں گے۔

مجھے کورٹ کے فیصلے سے اختلاف نہیں لیکن میں اس سے خوش بھی نہیں ، نااہل قرار دے کر? ہے نا ہنسنے والی بات ، ان میں سے اہل ہے کون

ہم وہ تھالی کے بینگن ہیں جو کبھی ادھر لڑکھتے ہیں اور کبھی ادھر، ابھی پھر لوگوں نے سوچا ہو گا کہ ایک مسیحا آ رہا ہے جو ان کی تقدیر بدل دے گا، جب کہ ایسا نہیں ہے جب تک ہم اپنے اعمال ٹھیک نہیں کرتے تب تک ایک فرعون کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا آتا رہے گا، اور ہر آنے والے پر اور جانے والے کے بعد ہم خوشیاں مناتے رہیں گے اور مٹھایاں تقسیم کرتے رہیں گے، یہ سب بساط کے مہرے ہیں، یہ سب وہ اسباب ہیں اور وسیلے ہیں جن کے زریعے ہم لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ سدھر جاو، سبق سیکھ لو، ٹھیک ہو جاو، اپنی نیتوں کو اپنے اعمال کو سیدھے راستے پر لاو، صراط مستقیم پر آ جاو
ابھی تو تاریخ پلٹ رہی ہے کہیں ایسا نا ہو جائے  یہ زمین یہ دھرتی اور یہ ملک ہی پلٹ جائے اور جس زمین پر اور جن چیزوں ہم بہت غرور کرتے ہیں تکبر کرتے ہیں وہی ہمیں اپنے نیچے دبا لیں۔ اور موجودہ صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہونے والا ہے، کیوں کہ ہم نے تو نا سدھرنے کی قسم کھا لی ہے۔ اور اصل سبق ہے جو ہمیں دیا جا رہا ہے ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔


شامل گناہ، بحثیت قوم
ایک خاکسار ارض پاکستان
راشد ادریس رانا، یو اے ای

2 comments:

  1. جناب، آپ کی آہ و بکا کسی کا دل بدلنے والی نہیں۔۔۔ ہم انسان نہیں۔۔۔ جانور ہیں۔۔۔ اور ہمارے اوپر مسلط کیے گئے لوگ بھی ہمارے جیسے جانور ہیں۔۔۔ تو ان سے کیا توقعات وابستہ کرنا۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بھائی عمران،

      میری توقع حکمرانوں سے تو نا تھی اور نا ہے اور نا کبھی ہو گی، انشاء اللہ

      میری تو التجا ہے ، اپنے لوگوں سے جن کا خون نچڑتا ہے اور حکمرانوں کی گاڑیوں میں جلتا ہے، بنگلوں کو روشن کرتا ہے اور ان کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔

      اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

      شاید کہ تیرے دل میں
      اتر جائے میری بات


      شکریہ

      Delete