Wednesday 25 January 2012

بات ہے رسوائی کہ لیکن بات ہے سچائی کی

پہلے کہتے تھے کہ :

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

لیکن میں کہتا ہوں :

بات ہے رسوائی کہ لیکن بات ہے سچائی کی

خوب کہا بہت خوب کہا۔ رشتوں ناتوں میں جب مول تول اور خود غرضی آ جائے تو ان کا سارا تقدس پامال ہو جاتا ہے۔ لیکن کوئ ان کو سمجھائے جو ہر رشتے کو غرض کی نظر سے دیکھتے ہیں،

خلوص بیچ دیا  غرض خریدنے  کو راشد
سودا مہنگا نہیں‌ کہتے  سر بازار بھی ہیں
جن کے واسطے ہم نے دلوں کو  محل کیا
رشتوں کو روندنے والے رشتے دار ہی ہیں

No comments:

Post a Comment