Thursday 5 January 2012

کالی رات ▌▌▌1947▌▌▌ کے مظالم کی سچی داستان


عزیز احمد

گرینڈ ٹرنک ایکسپریس دس گھنٹے لیٹ تھی۔ سکندر آباد کے پلیٹ فارم پر انتظار کرنے والوں کا اضطراب بڑھتا جاتا تھا اور جب سگنل گرا تو دلوں کی دھڑکن کئی گنا تیز ہوگئی اور بالآخر قاضی پیٹھ سے وہ گاڑی آہی گئی۔ جس میں گرینڈ ایکسپریس کے دو ڈبے کٹ کر حیدر آباد تک آتے ہیں۔ وہ تینوں اس ڈبے کی طرف لپکے جس کے سفید تختے پر حیدرآباد لکھا ہوا تھا۔ ڈبے کی کھڑکیاں بند تھیں۔ ان تینوں کے دل ڈوب گئے کسی کا جھانکتا ہوا چہرہ کسی کھڑکی سے نظر نہیں آیا۔ گاڑی دھکا کھا کے ٹھہری ایک کمپارٹمنٹ کا دروازہ جو اچھی طرح بند نہیں تھا جھٹکے سے خودبخود کھل گیا۔ تینوں میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے لپک کے کھلے ہوئے دروازہ کے اندر قدم رکھا۔ اوپر ایک ٹوٹی ہوئی ٹوکری رکھی تھی۔ اس کے سوا کسی قسم کا سامان نہ تھا۔ کوئی جاندار، کوئی آدمی اس ڈبے میں نہ تھا اور فرش پر نشستوں پر، لکڑی کی دیوار پر خون کے دھبے ہی دھبے، جمے ہوئے سیاہ خون کے، جس پر راستے بھر خاک اور غبار نے استرکاری کی تھی۔
اب باقی دونوں بھائی بھی اندر جھانک کر یہ منظر دیکھ چکے تھے۔ ناامیدی سے آخری مقابلے کے لئے اس امید کو برقرار رکھنے کے لئے کہ ممکن ہے وہ لوگ دلی سے روانہ ہی نہ ہوئے ہوں، تینوں نے مسافروں کے نام پڑھنے شروع کئے دھول سے اٹے ہوئے کارڈوں پر نام صاف اور نمایاں تھے۔
مسٹر باقر علی خاں
مسز باقر علی خاں
مس باقر علی خاں
مسٹر سکندر علی خاں
اور قریب ہی فرسٹ کلاس کوپے پر جو کارڈ تھا۔ اس دلہا دلہن کا نام صاف صاف درج تھا۔ مسٹر، مسز تہور علی خاں۔ کوپے کا دروازہ کسی رحمدل گارڈ نے مقفل کر دیا تھا۔
گارڈ آیا اور اس نے بیان کیا کہ دہلی اور مستھرا کے درمیان گرینڈ ٹرنک ایکسپریس پر حملہ ہوا تھا۔ تینوں بھائیوں کے دل ڈوب گئے۔ جب صدمہ ایسا شدید ہو تو نشتر کی تیزی اپنا اثر یکبارگی نہیں کرتی۔ پہلے تو معلوم ہوتا ہے کہ اعصاب اور دماغ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ امید، ناامیدی کے یقین کے مقابل اپنا دھندلا چراغ جلتا رکھنا چاہتی ہے۔ ممکن ہے ان سب کے نام کے کارڈ لگ گئے ہوں۔ مگر یہ اس ٹرین سے روانہ نہ ہوئے ہوں، دہلی میں تین چار دوستوں، پاکستان ہائی کمشنز اور حکومت ہند کے ایک افسر کو جوابی تار دے کے تینوں بھائیوں نے یہ تصفیہ کیا کہ ان میں سے ایک سب سے چھوٹا غضنفر ہوائی جہاز سے دہلی جائے شاید کوئی سراغ ملے۔
اور جس وقت یہ تینوں بھائی اسٹیشن کے تار آفس سے تار دے رہے تھے۔ ایک سکھ ایک بابو سے پوچھ رہا تھا۔ بابو بنگلور کی گاڑی کس پلیٹ فارم سے جاتی ہے، بابو نے اسے جلدی سے کچھ جواب نہ دیا۔ اس سکھ کے کپڑے میلے تھے کیس اور پگڑی پر دھول جمی ہوئی تھی۔ صرف قمیض اور شلوار پہنے تھا۔ کمر کے گرد ایک پٹکا تھا۔ جس سے کرپان بندھی ہوئی تھی۔
وہ ٹہلتا ہوا دوسرے سکھ کے پاس آیا جس کا حلیہ اس سے ملتا جلتا تھا اور اس سے پنجابی میں کچھ کہنے لگا پھر دونوں نے گٹھڑیاں اٹھائیں اور دو جھکی ہوئی برقعہ پوش شکلیں جو ان کے ساتھ تھیں انہیں کہنیاں ماریں۔ دونوں شکلیں ان کے پیچھے پیچھے چلیں۔
خفیہ پولیس کے دو جوان دیر سے ان کی طرف تاک لگائے تھے، اب وہ ریلوے پولیس کے دو کانسٹیبلوں سمیت ان کے سامنے آگئے۔
”سردار جی! تم سکھ ہو نا! تمہارے ساتھ یہ برقعے والیاں کیسی؟“
اکھڑ پنجابی میں ایک سکھ نے جواب دیا ”ہماری عورتیں پردہ کرتی ہیں۔“
خفیہ پولیس والوں کو تشفی نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے انسپکٹر کو پہلے ہی اطلاع کر دی تھی۔ کانسٹیبلوں نے کہا۔ ”ہم ان عورتوں سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ یہ کون ہیں۔“
اس مرتبہ سکھ نے اُردو میں جواب دیا۔ یہ عورتیں پنجابی جانتی ہیں اور اُردو نہیں جانتیں اس پر حجت ہونے لگی۔ خفیہ پولیس کا ایک نوجوان اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کو بلا لایا جو پنجابی تھا۔ اس نے پنجابی میں پوچھا مگر عورتوں نے جواب نہیں دیا اور اب دونوں سکھ ذرا ذرا بوکھلانے لگے۔
ریلوے پولیس کے انسپکٹر نے موقع پر پہنچ کر ان دونوں عورتوں کو زنانہ ویٹنگ روم میں بھجوایا، وہاں جب ان عورتوں کے برقعے اتارے گئے تو دو خوبصورت جوان لڑکیاں نکلیں جن کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور جن کے منہ کو رومالوں سے بند کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک تو وہیں بیہوش ہوکے گر پڑی۔ دوسری نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے زنانہ ویٹنگ روم کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”پانی!“
اور پھر ان لڑکیوں نے اپنی بپتا سنائی۔ وہ فیروز پور کے ایک زمیندار گھڑانے کی لڑکیاں تھیں۔ شام تک افواہیں ہی افواہیں تھیں۔ رات کو ست سری اکال کے نعرے لگے، شور ہوا برچھے اور کرپان چمکے، باپ بھائی سب مارے گئے، یہ دونوں مال غنیمت بن گئیں اور اس کے بعد یہ دونوں سکھ انہیں شہر سے شہر لئے پھرتے تھے۔
پولیس کی سختی پر دونوں نے بھی اقبال جرم کیا۔ وہ چک لالہ کے قریب بڑھئی کا کام کرتے تھے، دونوں بھائی تھے، مسلمانوں سے ان کا یارانہ تھا۔ پھر کچھ گڑبڑ شروع ہوئی، وہی جو ان کے دوست تھے انہوں نے ان کا گھر لوٹا۔ ان کی عورتوں کو ان کے سامنے بے عزت کیا۔ ایک سکھ نے سسکیاں لے لے کر کہا کہ اس کے سامنے اس کی عورت کی چھاتی کاٹ ڈالی گئی اور اس کے بعد باقی ماندہ زخمی سکھوں کا سفر شروع ہوا۔ میلوں کا سفر، ہزاروں کا سفر، سفر جس میں بھوک تھی موت تھی طلب تھی۔ پھر آزاد پاکستان کی سرحد ختم ہوئی۔ آزاد ہندوستان کی سرحد شروع ہوئی۔ یہاں فیروزپور کے قریب لوٹ ہورہی تھی۔ یہ بھی لوٹ میں شریک ہوگئے اور ان دو مسلمنیوں کو لوٹ کا مال بنا کے لے چلے، انہوں نے سنا تھا کہ بنگلور میں فرنیچر اچھا بنتا ہے اور وہ ادھر ہی کے ارادے سے نکلے تھے۔
تینوں بھائیوں نے رات کو کھانا نہیں کھایا، تینوں کو یا تو نیند نہیں آئی یا ایسی نیند آئی جس میں اور بیداری میں کوئی فرق نہیں۔ ہر چیز غیر یقینی اور مبہم تھی، ہندوستان کے اخبارات سے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ دہلی میں معمولی سا فساد ہے۔ پاکستان ریڈیو احتیاط برت رہا تھا۔ صرف بی بی سی سے دہشت ناک خبریں آتی تھیں اور ہندوستانی بھائی بی بی سی کی بدنیتی کا دکھڑا رو رہے تھے کہ دہلی کے اتنے معمولی سے واقعے کو افسانہ بنا دیا۔ یہ سب تھا مگر تینوں بھائی غیرجانبداری سے دہلی کے واقعات کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے، اس مرتبہ ان کی اپنی رگیں، نبضیں، اعصاب، خون کی گردش متاثر تھیں، اس سے پہلے کلکتہ میں فساد رہا، بمبئی میں فساد رہا، وہ افسوس کرتے رہے غضنفر بمبئی تھا فساد ہوا۔ وہ سینما سے باہر نکلا تو چاروں طرف پتھر برس رہے تھے۔ ہندو پتھر مسلمان پتھر، بت پرستوں کے پتھر اور خدا پرستوں کے پتھر۔ اس نے یاعلی مشکل کشا مدد کہہ کے ایکسیلیٹر دبایا۔ ایک پتھر ونڈاسکرین سے کوئی نصف انچ کے فاصلے سے نکل گیا۔ اس نے ایکسیلیٹر اور زور سے دبایا اور لالایانہ فارسی کا ایک فقرہ اس کے ذہن میں تھا۔ جس پر بچپن میں ہنسا کرتا تھا۔ ”یک ڈھیلا سن سنات من منات رسید کردم کہ اگر گچیانہ مٹکائے تولیت تو سرشکستہ بود“ سوڈے کی بوتلوں اور تیزاب سے البتہ ڈر معلوم ہوتا تھا۔ مگر یاعلی مشکل کشا مدد، بمبئی میں فساد ہوا تو کیا ہوا۔ یہی نا کہ بسوں نے راستہ بدل دیا۔ ”ب“ روڈ کی بسیں میرین ڈرائیور کے راستے چلیں۔ چلو سمندر کی ہوا کھاﺅ گلیوں میں کہیں فساد ہو رہا ہوگا۔ ہونے دو۔
پھر پنجاب میں فساد ہوا۔ کیا مارا ہے کیا مارا ہے۔ اس وقت تک یہ تین بھائی نہیں تھے پانچ بھائی تھے۔ پانچوں خوش تھے کہ واہ وا مسلمانوں نے سکھوں کو کیا مارا ہے۔ ہندوﺅں کو کیا مارا ہے، یہ سب پنجاب کے مسلم لیگ کا کارنامہ ہے، افتخار حسین خاں ممدوٹ، ان کا نہیں۔ اچھا تو پھر میاں افتخارالدین کا؟ اچھا وہ بھی نہیں تو پھر بیگم شاہنواز کا اور سرفیروز خاں نون کی انگریز بیگم، بھائی وہ تو غضب کی دلیر عورت نکلی، اچھا ان میں سے کسی کا نہیں؟ تو پھر میجر خورشید انور کا کارنامہ ہے۔ بھئی ہم مانے لیتے ہیں۔ یہ پنجابی مسلمانوں کا کارنامہ ہے، اقبال کی وہ نظم ہے نا۔
اور اپریل میں جب غضنفر لاہور گیا تھا تو کیا دھاک تھی، مگر ہندو اور سکھ جوابی حملے کی تیاری کر رہے تھے، وہ سروپ شوری کا اسٹوڈیو دیکھنے ملتان روڈ لاہور سے سات میل دور گیا۔ اسٹوڈیو وغیرہ سے دلچسپی کسے تھی، ان دنوں وہ کلجیت کور کے چکر میں تھا جس نے منورما کی سنبھالی تھی۔ بچارے شوری نے ایک اسٹوڈیو جلنے کے بعد دوسرا بنایا تھا اس کی ہمت کی داد دینی ضروری تھی۔ کیا اب بھی اس کی جو رو ایکٹرسوں سے اتنا ہی جلتی تھی اور پھر سروپ شور نے اسے دوسرے دن کھانے پر بلایا۔ مال پر اس چھوٹے ریستوران میں، کیا نام تھا اس کمبخت ریستوران کا وہاں وہ عجیب و غریب جوڑا تھا۔ سعید جس نے اس سکھ لڑکی شیلا سے پندرہ برس ہوئے شادی کی تھی۔
اور شیلا کاہسٹریا۔ گرٹن کی تعلیم کو، کیمبرج کی قلعی کو، بین الفرقہ جاتی شادی اور متاہل زندگی کو صرف چند ہفتوں کی اس لڑائی نے ملیامیٹ کر دیا تھا۔ جس میں اس کے ماں باپ کے فرقے پر اس کے شوہر کے فرقے نے عارضی طور پر فتح پائی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ غضنفر کم سے کم نام کی حد تک مسلمان ہوگا۔ پھر بھی اس نے پورک پر اسرار کیا۔ اس نے غضنفر سے پوچھا۔ وہ کس قسم کا مسلمان ہے۔ گرومان (اعتقاد والا) یا پراتیکاں (عمل والا) اس نے کہا اس مرتبہ وہ گولر وادی جائے گی۔ جہاں ”تھینک ہیون ایک بورڈنگ ہاﺅس کا اشتہار آیا ہے کہ صرف اعلی درجے کے ہندو اور سکھ خاندان رہ سکتے ہیں۔“ اس نے کہا۔ ”کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا ہے کہ سعید بھی مسلم لیگر ہے۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے۔ ہم دونوں کا کوئی مذہب نہیں، ہماری سول میرج ہوئی ہے۔ ہم انسان ہیں۔“ پھر ایک مشہور مسلمان لڑکی کا ذکر آیا تو وہ کہنے لگی۔ جانتے ہو وہ سعید سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ مگر میں مضامین پیپلز ایج میں آئے ہیں۔ وہ بمبئی والے رومیش چندر ہیں.... مگر میں بھی پارٹی کا رکن ہوں، پارٹی آفس آئے.... روپ کہہ رہی تھی۔ ”بھائی نان وایولنس آپ کا کیا خیال ہے۔ ایک پارٹی اگر وایولنس کرے یا نان وایولنس....“ بچارے روپ کی بچاری جلتی بھنتی ہوئی۔ ایکٹرسوں کی بازاری کشش کی دائمی رقیب گریجویٹ بیوی سے باتیں کرتے کرتے رومیش چندر نے غضنفر سے کہا۔ ”آج میرے پاس بھی کچھ لوگ آئے تھے کہہ رہے تھے مسلمانوں سے بدلہ لینا ہے۔ چار ہی آنے چندہ دیدو۔ میں نے پہلے تو انہیں سمجھایا۔ جب انہوں نے کسی طرح نہیں مانا تو میں نے کہا۔ ”مجھے تیس روپیہ تو تنخواہ ملتی ہے۔ اس میں سے تمہیں کیا دوں۔“
پھر باتوں باتوں میں کسی نے کہا۔ ”نہنگ“
غضنفر نے پوچھا ”نہنگ کیا؟“
رومیش نے جواب دیا ”جی یہ ذرا سر پھرے سکھ ہوتے ہیں، معلوم ہے امرتسر کے ہنگامے کے متعلق یہ کیا کہتے ہیں، جب مسلمانوں نے حملہ کیا یہ لوگ کسی میلے میں گئے تھے ورنہ مزا چکھا دیتے۔“ اور پھر رومیش پورے ہندوستان کی مجموعی حماقت پر ہنسا۔
”اور سکھا۔“ مسز سعید نے کہا۔ ”اور اب یہ دعوی ان کانوں پر سننا پڑتاہے کہ مسلمان بھی بہادر ہوسکتے ہیں۔“
”وایولنس، نان وایولنس۔“
”پروتماداس گپتا۔“
”میں نے اپنے کانوں سے پاکستان ٹائمز کے دفتر سردار شوکت حیات خاں کو میاں افتخار الدین سے یہ کہتے سنا کہ سکھوں نے بارہ لاکھ کی جیپ اور لاریاں خریدی ہیں۔“
”پٹیال۔‘
”بہاولپور۔“
”ہم لوگوں نے یہ طے کیا تھا کہ تانگوں ہی پر نہ بیٹھو پیدل چلو، لاہور کے سالے سب تانگے والے مسلمان ہیں۔“
”کلجیت کور۔“
”نہیں کافی، کچھ نہیں....“
اور ٹرین پر جب وہ ایک فرضی نام ڈی ڈی سلوا بتا کر شملہ جارہا تھا تو وہ لالہ کس مزے سے تیاریوں کا ذکر کر رہے تھے۔ ”لاہور میں ہم صرف دفاعی لڑائی لڑیں گے۔ لیکن امرتسر سے لے کر دہلی تک ایسا مزہ چکھائیں گے کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے۔“
شملہ میں غضنفر کا اصل نام سب کو معلوم تھا لالہ جی اسے آخر تک ڈی سلوا ہی کہتے رہے، خیریت ہوئی ورنہ بیچاروں کو کیسا صدمہ ہوتا کہ دشمن سے سارا کچا چٹھا کہہ دیا تھا۔
رات کو غضنفر کو باقی دونوں بھائیوں کی طرح نیند آئی، کس قدر واہیات نے سعید کو چھین لیا اور جانتے ہو سکھ چاہتے نہیں لے کے رہتے ہیں“ اور اس پارٹی میں اومیش چندر سے.... جی میں وہ اومیش چندر نہیں جس کے بے معنی مہمل سی بات تھی کہ شام کو گرینڈ ٹرنک ایکسپریس کا ڈبہ اس کے ماں باپ بھائیوں کے خون سے رنگا ہوا تھا اور وہ سروپ شوری کی پارٹی اور پنجاب کے ہنگاموں کی دوسری قسط کی تیاری کے قصے یاد کر رہا تھا۔ لیکن نشتر چبھتا رہا اور دماغ کو بے معنی مہمل چیزوں کی یاد آتی رہی اور اگست کی آخری تاریخوں میں امجد.... اپنے آپ کو آزاد مسلمان کہتا ہے نیشنلسٹ۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ آزاد مسلم کیا ہوتے ہیں۔ میں نے کہا مادر پدر آزاد.... امجد نے کہا دیکھو اب مشرقی پنجاب میں تمہارے مسلمان پٹ رہے ہیں، اب دیکھو ہندو اور سکھ کیسی مار مار رہے ہیں۔
امجد پر اس کا خون کھولنے لگا اور نشتر پھر جگر کے آرپار ہو گیا۔ ماں باپ، بھائی بہن ریل کے ڈبے میں خون کے چھینٹے، خون کے چھینٹوں پر گرد، کارڈوں پر نام، ناموں پر گرد۔
ہندوستان کی تمام ریل گاڑیوں میں کوئی گرینڈ ٹرنک ایکسپریس سے زیادہ نامعقول نہیں۔ جس طرح ترکی یورپ کا مرد بیمار تھا۔ یہ گریٹ انڈین پے نن سلا چزیل ریل گاڑیوں کی زن بیمار ہے، کوئی سیاسی بحران ہو کوئی ہنگامہ، سب سے زیادہ اثر اس پر ہوتا ہے۔ اس کے وجود کی ذمہ داری اور کئی حماقتوں کی طرح مرحوم سر اکبر حیدر پر ہے جنہوں نے قاضی پیٹھ اور بلہار شاہ کے درمیان لائن بنوائی۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک تو یہ ایکسپریس منگلور سے مدراس ہوتی ہوئی پشاور تک سسکتے ہوئے سانپ کی طرح رینگ جاتی تھی، پھر انتہائی شمال اور انتہائی جنوب کی کمپنیاں اس کے رینگنے اس کی مکوڑا چال سے عاجز آگئے۔ یہ صرف مدراس سے دہلی تک لنگڑاتی ہوئی چلتی رہی مگر ہر قدم پر بیمار، کوئی اور ٹرین گزرنے والی ہو یہ بچاری چھوٹے موٹے اسٹیشن پر بھکاریوں کی طرح کھڑی ہے۔ 1942ءکے ہنگاموں میں تو اس کا حال ہی نہ پوچھو۔ چوبیس چوبیس گھنٹے لیٹ ہوجاتی تھی۔ بھلا کہیں یہ ممکن تھاکہ بھارت ماتا کو آزادی کا سرسام ہوجائے اور گرینڈ ٹرنک ایکسپریس اس سے متاثر نہ ہو۔
پرانی دلی کے اسٹیشن کے میرباقر علی خاں اور ان کے اہل و عیال کی جان میں ذرا جان آئی کہ اب دلی سے نکلے اور جان بچنے کی امید بندھی۔ پلیٹ فارم نمبر 9پر ان کے وطن جانے والی گاڑی کھڑی تھی۔ شہر میں جو ہنگامہ تھا اسٹیشن بھی اس سے متاثر تھا۔ مگر اتنا زیادہ نہیں،پولیس بہت تھی اور اسے دیکھ کر ڈھارس بندھتی تھی۔ وہیلر کے بک اسٹال پر سستے رسالے اور ان سے زیادہ سستے ناول اسی طرح پڑے تھے، قلی اسی طرح ٹھیلے دھکیل رہے تھے۔ مدراسی رجمنٹ کے سپاہی پتوں میں دال چاول کھا رہے تھے پلیٹ فارم پر اسی طرح تھوک، قے اور ہر طرح کی مرکب غلاظت کا لیپ تھا۔ ای۔آئی۔آر کے ہر ڈبے اور بی بی اینڈ سی آئی کے ایئرکنڈیشنڈ ڈبوں کو دیکھ دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہاں بھی تمدن دم توڑ رہا ہوگا، ان سب کی نشستیں محفوظ تھیں، وہ دو دن کے بھوکے پیاسے تھے۔مگر اسٹیشن پر انہیں کچھ کھانے کو تو ملا اور اس میںکوئی شک نہیں کہ کچھ سکھ اور کچھ غنڈے جو غالباً راشٹریہ سیوک سنگھ کے ہوں گے ڈبوں کے اطراف چکر مار رہے تھے، مگر اب وہ ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے، کوئی دم میں ریل چلے گی اور ان غنڈوں کے دسترس سے باہر ہوجائیں گے۔
وہ خود بچ گئے تھے۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ ان دنوں میں انہوں نے کیا کیا دیکھا اور کیا کیا سنا تھا، ان میں سے ہر ایک کو ایک خاص واقعے سے دلچسپی، عبرت اور وحشت تھی۔ ان میں سے ہر ایک نے ایک ہولناک واقعے کو اس پورے خواب پریشاں کی انتہا سمجھ کے چن لیا تھا۔
بلوچ رجمنٹ کے سپاہی جو انہیں موت کے منہ سے نکال لائے تھے۔ انہیں کیسے کیسے واقعات سنائے گئے تھے۔ سکینہ کا دل لرز اٹھا۔ وہ ریل کے ڈبے کے کارڈ کی مس باقر علی خاں تھی۔ بیس سال مثنویوں اور غزلوں کی معشوقہ سے چھ سال بڑی۔ اس چھ سال کے عرصہ میں اس نے بی اے کر لیا تھا اور بی ٹی کی تیاری کر رہی تھی۔ ان فسادات کے زمانے میں وہ اکثر سوچتی رہتی کہ ابسن کی ہلڈا کی طرح کیا سچ مچ اٹھا کے لے جائے جانے میں لطف آتا ہوگا۔ پھر اسے مزید تفصیلات کا علم ہوا اور یہ لطف ختم ہو گیا۔ مثلاً ایک بلوچی سپاہی نے اس کی موجودگی میں اس کے باپ کو یہ قصہ سنایا کہ اکثر عورتوں کو خراب کرنے کے بعد ان کی چھاتیاں کاٹ ڈالی جاتی ہیں یا کرپان سے ان کے شکم کو چیرا جاتا ہے یا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت کے سامنے اس کے مرد یا باپ کو مارا جاتا ہے اور ان کے اعضاءاس کے منہ میں گھسیڑے جاتے ہیں۔ ابسن کی ہلڈا کے رامکنگ بہت شریف تھے، وہ عورتوں کو اٹھا کے چھوٹی چھوٹی طاﺅس نما کشتیوں میں امریکہ کی سیر کرانے لے جاتے تھے جہاں سے ابھی تک ہالی ووڈ کی فلم، آتشک کے جراثیم اور امریکی سیاح پرانی دنیا نہیں آئے تھے۔
سکندر پر ایک اور خاص واقعے کا اثر تھا۔ میرا داد روڈ پر ایک چھوٹے سے مکان میں دو بہنیں اکیلی رہ گئیں، دروازے ہی پر عابدہ کا شوہر مارا گیا۔ عابدہ حمل سے تھی، وہ کہیں بھاگ نہ سکی۔ لیکن زاہدہ کوٹھے پر چڑھ کے منڈیر سے دبک گئی اور نیچے تماشا دیکھتی رہی، کچھ لوگ سامان نکالتے اور لوٹتے رہے، چبوترے پر عابدہ ننگی کی گئی۔ اس کے اطراف آٹھ وحشیوں کا ہجوم تھا، جن کی داڑھیاں اور پگڑیاں ان کی خباثت کا جزو معلوم ہوتی تھیں۔ عابدہ حمل سے تھی۔ ایک ایک کر کے انہوں نے عابدہ کو خراب کیا یہاں تک کہ اس کی چیخیں گھٹ گئیں، سسکیاں بند ہوگئیں۔ آنکھیں ساکت ہوگئیں۔ وہ بے حس و حرکت ہوگئی۔ زاہدہ سے دیکھا نہیں گیا مگر وہ دیکھتی وہیں اوپر سے منڈیر کی آڑ سے اور جب وہ ساتواں آٹھواں اپنا منہ کالا کر چکے تو دو تین تو ہائیں ہائیں کرتے رہے مگر ان میں سے ایک نے کرپان کھینچ کے شرمگاہ سے حلق تک عابدہ کا جسم چاک کر دیا۔ زاہدہ کی نگاہوں کے نیچے دنیا گھوم گئی۔ یہ زمین یہ دھرتی ماتا چکر کھانے لگی اور چکر ذرا تھما تو اس نے ایک ہی لحظہ کے اندر طے کر لیا کہ تھمے کیوں، مگر وہ گرے تو اس طرح گرے کہ کسی کے ہاتھ نہ آئے، مثلاً خون میں لت پت ہونے کی وجہ سے عابدہ کتنی کراہت بھری معلوم ہورہی تھی.... اس کی سگی بہن سہی.... عابدہ، میری آپا۔ چشم زدن زاہدہ نے پھرطے کر لیا۔ چبوترہ پتھر کا تھا اگر وہ سر کے بل کودے تو کلیجہ پاش پاش ہوجائے گا۔ ان حیوانوں میں سے کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے گا۔ چشم زدن میں اس کا بھیجاپاش پاش ہو گیا۔ ایک فاتحہ نے دوسرے سے ”سوہنی کڑی“ کے متعلق کچھ کہا، دوسرے نے اسے جواب میں ماں کی گالی دی کہ اس کی صورت تو پہچانی نہیں جاتی تجھے کیا معلوم سوہنی تھی یا کیسی تھی، جب بلوچ سپاہی تخلیہ کرانے پہنچے تو بہت دیر ہوچکی تھی اور سکندر نے ان دو نامعلوم بہنوں کے نام عابدہ، زاہدہ رکھے، یہ نہ سہی اور نام سہی۔ اصغری، اکبری، جمال آرائ، حسن آرائ، ناہید جہاں، خورشید.... کوئی نام سہی.... ان کا انسانی حافظہ میں زندہ جاوید ہونا ضروری ہے۔
دہلی اور متھرا کے درمیان ریل گاڑی رکی۔ روک لی گئی، اس سے پہلے بھی ریل گاڑیاں رکی ہیں۔ ہزاروں مرتبہ۔ سگنل نہیں گرا، بھینسیں گزر رہی ہیں۔ کسی نے زنجیر کھینچ لی، کیا ہوا۔ ہوا یہ کہ سینکڑوں راہزن تھے۔ چمکتی ہوئی کرپانوں کا میلہ لگا ہوا تھا راشٹریہ سیوک سنگھ والے اسٹاف کا کام کر رہے تھے۔ اہم ترین کام یہ تھا کہ مسلمانوں کو ریل سے اتار لیا جائے۔ معلوم ہوتا تھا چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں سے ہزاروں بارو سفر اتارنے والے کیڑے ابل آئے اور انہوں نے انسانوں کی ہیبت اختیار کر لی۔ جے ہند ”ست سری اکال“ ”جے بلی دیو“ شور پکار۔ شکار کا شور۔ قصابوں کا نعرہ، بکروں کی آوازیں، جو اتر نہیں رہے تھے۔ ان پر ویسے ہی کرپانوں اور تلواروں کے وار ہو رہے تھے۔
تہور نے اپنے کوپے کو اندر سے مقفل کر لیا تھا۔ کھٹ کھٹ اور گالیاں اس کی نئی نویلی دلہن جو ہفتہ بھر پہلے بیاہ کے آئی تھی اس سے چمٹ گئی۔ معرکہ کربلا میں شادی کا سماں تھا، ہزاروں انیس اور دبیر مرثیے پڑھ رہے تھے، مرثیے، نوحے، سوز کربلا ہی کربلا۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ مگر اس وقت زندگی کے کوئی آثار نہ تھے، کوئی اُمید نہ تھی، چھن سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا۔ دلہن جس کے مانگ افشاں پر پسینہ کے بڑے بڑے قطرے ابھر آئے تھے جیسے تارے غرقاب ہوجائیں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اب تہور اور اس کی دلہن اور ان باہر کے وحشیوں کے درمیان صرف دینے شین کھڑکی حائل تھی۔


تہور نے اپنا ریوالور کٹ بیگ سے نکالا ”دوچار کو مارے بغیر تو یار لوگ مریں گے نہیں نظام الملک آصف جاہ کی فوج کا نام بدنام ہوگا۔“ صرف چار گولیاں تھیں۔ یہ ریوالور بھی دلی میں کس مصیبت سے بچا تھا۔ ایک اور یورش میں دینی شین بھی نیچے گری۔ ایک شخص نے کھڑکی کے اندر منہ ڈالا اور تہور سے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ”اترو“ تہور نے اسے ڈانٹا۔ ایک اور سکھ نے کرپان کھینچ کے مارا جو تہور کے بائیں ہاتھ میں لگا۔ تہور نے یکے بعد دیگرے دو فائر کئے اور آدمی گرے۔ لیکن دو گولیاں بھی ختم اور کچھ لوگ اس ڈبے کی طرف جھپٹے۔ اس نے خود کھڑکی سے دیکھا کہ دو آدمی اس کی بہن کو پکڑے لئے جارہے ہیں، جھپٹ کے اس نے دینی شین پھر جلدی سے بند کر لی اور جو حملہ آور جھپٹے تھے پھر دینی شین کو گرانے کی کوشش کرنے لگے۔ ”بتول“ کسی چیز پر گر پڑا۔گھاس جیسی ریشہ ریشہ چیز پر، یہ کسی لاش کی داڑھی تھی۔ اس نے لاش کے منہ پر ہونٹوں پر ہاتھ پھیرا، غیر ارادی طور پر اور عین اس وقت گیدڑوں کی آواز آئی مکی ہوا ہوا لیجئے انسان کے مہمان آپہنچے۔ کس زبردست پیمانے پر ان کی ضیافت کی تیاری کی گئی تھی۔ اس نے پہلی مرتبہ خوف کی تیز لہر اپنی ریڑھ کی ہڈی کے اس سرے تک محسوس کی۔ جب اپنا سیدھا ہاتھ بغاوت کرے اور بایاں ہاتھ پوری طرح قبضے میں نہ ہو اور ٹانگیں (غالباً) کسی مری ہوئی عورت کی زلف گیر میں الجھی ہوئی ہوں۔ تو گیدڑوں کے تیز دانتوں کا مقابلہ کرے گا۔ اس سے تو کرپان ہی اچھے تھے۔
آسمان پر چار تارے تھے اور یہ کالی رات خوبصورت تھی۔ ایک بانکی تلنگن سی تھی جس کاکالا کالا روپ اس پورے خون آشام منظر پر چھایا ہوا تھا۔ وہ سوچنے لگا اور سب کا کیا حشر ہوا، کونسی لاش کس کی ہے؟ اس نے سر گھمانا چاہا اور ایسا سخت درد ہوا گویا کسی نے گردن موڑ دی اور اتنے میں گیدڑوں کی آوازوں سے زیادہ بھاری ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ یہ کوئی اور ریل گاڑی تھی۔ پھر نئے قاتل، نئے مقتول؟ نہیں یہ چھوٹی سی ٹرین فوجیوں کی تھی جو زخمیوں اور مردوں کو لے جانے آئی تھی۔ اس نے انجن کی روشنی دیکھی۔ معلوم ہوتا تھا سر کے اندر ریل کے پہئیے گھسے جارہے ہیں۔ سر میں پھر ایک زور کا دھماکہ ہوااور احساس کی رو کہیں ڈوب گئی....!!
دو لالٹینیں اس کے قریب بھی رکیں۔ وہ بے ہوش تھا۔ ڈاکٹر نے کہا یہ مرا نہیں۔ اسٹریچر پر اٹھا اور اس کی زندہ لاش وہاں سے اٹھائی گئی اور اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ وہ رات، وہ بانکی تلنگن پشاور سے سہانپور تک کسی کورنڈی کے کوٹھے پر جانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی، وہ عورت جو پیسے سے خریدی جاتی تھی۔ اب تلوار کے زور سے خریدی جارہی تھی۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، محبت کے لئے، نفرت کے لئے، انسانیت کے لئے، بہمیت کے لئے.... عورت کے بغیر مفر نہیں۔ اب اس کے بچوں کی کسی کو ضرورت نہیں تھی، وہ بھالوں، سنگینوں، برچوں، تلواروں سے چھد کر تڑپ تڑپ کر سوگئے تھے۔
اور دفعتاً بانکی رات، بانکی، تلنگن، اپنی تاروں بھری افشاں لہرا کے سمٹی، اس نے انگڑائی لی۔ ہوا چلی جھاڑیوں کے پتے سرسرائے، رات نے لاشوں سے اپنا تعارف کرایا۔ مجھے پہچانتے ہو میں قرون وسطی سے اور اس سے پہلے کی صدہا صدیوں کی آتی ہوں۔ میری آغوش میں تمہارا نطفہ قرار پایا۔ تم نے جنم لیا، رینگنے، تم گھٹنوں کے بل چلے، تم کھیل کود کے پڑھ لکھ کے جوان ہوئے۔ تم نے بیاہ کیے، جھوٹ بولا کئے، اپنے ساتھیوں کو اپنے آپ کو دھوکا دیا کئے اور آج میری ہی آغوش میں تم اس طرح پڑے ہوئے ہو کہ کبھی نہ اٹھو گے....
کیونکہ میں صرف دائمی، تاریخی مدامی رات نہیں میں والپرگس رات ہوں، میں ہندوستانی معشوقہ کی زلف ہوں۔ اس کی آنکھ کی پتلی ہوں، میں مشرقی شاعر کی شب دیجور ہوں۔ شب فراق ہوں، میں تم سے کیا بتاﺅں کہ اپنی ہزاروں آنکھوں سے میں نے ملتان، راولپنڈی، لاہور، امرتسر، جالندھر، گڑگاﺅں، دہلی اور دہرہ دون میں کیا کیا دیکھا۔ابھی میں اور کیا کیا دیکھوں گی۔
ہسپتال میں جب سر اور گردن کے زخم پر پٹی باندھی جارہی تھی اور ایک سو پانچ کے قریب بخار تھا۔ سکندر کے لاشعور نے اس تاریک رات کی سیڑھیاں چڑھناشروع کیا ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک، ایک تاریکی سے دوسری تاریکی تک، یہاں تک کہ سیڑھی ختم ہوگئی اور آسمان ابھی بہت دور تھا۔
تب والپرگس رات سے اس نے گڑگڑا کے کرسمس کا ایک جرمن کیرول دہرایا۔ ”ہائی لی گانا فٹ، شون نافٹ“ (مقدس رات، خوبصورت رات) ہسپتال کی دیوار پر کوئی تیز روشنی پڑی۔ ممکن ہے اس روشنی کی کرن اس کے دماغ ہی سے نکلی ہو وہ سیڑھی کے سب سے اونچے زینے پر کھڑا تھا اور سیڑھی ہوا میں ادھر سے ادھر جھول رہی تھی کہ اتنے میں جادوگرنی کی جھاڑو کی رات نے اس کے حوالے کر دی اور بھی کتنی لاشیں تھیں جو جھاڑوﺅں پر بیٹھی آسمان کی نیلاہٹ کی طرف جارہی تھیں۔ نہیں، مگر اسے تو نیچے زمین کی طرف اترنا تھا۔
اس کا پورا جسم پلاسٹر میں بندھا تھا۔ وہ کروٹ نہیں لے سکتا تھا۔ ذہنی طور پر اس نے کروٹ لی اور تکئے کو ٹانگ کے نیچے دبا کر پلنگ کی پٹی کو بھینچ کر سو گیا۔ کالی رات کی طرح اس کے لاشعور نے اس کے بیمار جسم سے تھوڑی دیر کے لئے بچ نکلنے کے لئے ایک انگڑائی لی اور عام انسان کے لاشعور میں ضم ہو گیا۔
اب وہ پھر سیڑھی کے سب سے اونچے زینے پر کھڑا جھول رہا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ سیڑھی اب گری، اب گری، دور دور تک کسی جادو گرنی کی جھاڑو کا پتہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ سکینہ کا، بتول کا، کسی کاپتہ نہ معلوم ہوتا تھا تمام لاشیں جو جھاڑوﺅں پر بیٹھی آسمان کی نیلاہٹ کی طرف جارہی تھیں، اب وہاں پہنچ گئیں۔ تمام طائران بام حرم اپنے کابکوں میں بیٹھے آرام سے غٹرغوں کر رہے تھے اور وہ اسی طرح سیڑھی کے سرے پر، اب گرا، اب گرا۔
اور عام انسان کے لاشعور کو پھر ہسپتال اس کے پاس بھیج کے سیڑھی پر اکیلا جھولنے لگا۔ اس سیڑھی پر وہ کتنے ہزار سال کی مشقت سے چڑھا تھا۔ اس نے کتنے حربے ایجاد کئے تھے، کیسے کیسے اوزار تراشے تھے اور اب یہ سیڑھی جھول رہی تھی۔ گرنے کے قریب تھی، پشاور سے سہارنپور تک، ہیروشیما سے لیک سکسکس تک اس خطرے کے عالم میں جبکہ سیڑھی ٹوٹ کے گرنے کے قریب تھی اس عام انسان نے اعتراف کیا میں انسان ہوں، میں وہی ہوں جو ارتقاءکی سیڑھی کی اتنی منزلیں طے کر کے یہاں پہنچا ہے۔ زندگی کے مرکز سے حیات کے کتنے مظاہر نکلے! لیکن ایک محیط پر پہنچ کر سب کے سب رک گئے۔ میں اکیلا تھا جس نے اس محیط کو پار کیا۔ میں نے جبلت کو چھوڑ کے عقل کا راستہ پکڑا۔ میں نے موٹی کھال اتار دی، کپڑے بنائے، میں نے سانپوں کی پرستش کی اور سانپوں کو مارا، میں نے بیان کو گھوڑے کو، بھاپ کو، بجلی کو، جوہر کو اپنا غلام بنایا لیکن میں نے اپنے آپ کو بھی اپنا غلام بنایا، میں نے اتنا سب کیا پھر بھی میں کتنا مجبور ہوں۔ اس وقت ایک اسپیشل ٹرین شرنارتھیوں سے بھری گوجرانوالہ سے آرہی ہے۔ میں ہی اس ٹرین میں ہوں اور آزادی، خودارادیت اور اطمینان کی طرف جارہا ہوں۔ میں ہی اس ٹرین پر بین گن، اسٹین گن، مشین گن سے موت کی بوچھاڑ کر رہا ہوں۔ میرے ہی دماغ سے، میرے ہی ارادے سے وہ تمام قیاسات، حسابات، اعمال، افعال پیدا ہوتے ہیں۔ جن سے فطرت میری غلام ہے اور میرے ہی ارادے سے تلوار اٹھتی ہے اور اندھیرا چھا جاتا ہے اور ایک لمحے کے اندر سب غائب۔ فنا ہی فنا۔
”اور تب انسان کے ارادے اور عمل اور قوت اور تخیل نے اپنی جڑیں ساری کائنات میںپھیلائیں نہ صرف روشنی بلکہ ہر قسم کی توانائی جیسے حرارتی، برقی، مقناطیسی، توانائی کا وزن بھی ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ توانائی اور مادہ اصل میں ایک ہی چیز کی مختلف حالتیں ہیں اور ایک دوسرے میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔“ یہ کہہ کے آئن سٹائن کا شاگرد خاموش ہو گیا۔
کیسی توانائی، کیسا مادہ، پناہ گزینوں کی ٹرین ایک اندھیاری گلی سے دوسری اندھیاری گلی جارہی تھی، جو فوجی افسر حفاظت کے لئے مامور تھا اس نے اپنے صوبیدار میجر سے کہا۔ یار اس ڈبہ میں وہ عورت بڑی خوبصورت ہے۔ اگلے اسٹیشن پر دو چار سپاہیوں کی مدد سے صوبیدار میجر اس بیس سال کی حسین عورت کو، اپنے افسر کے لئے سترہ اٹھارہ سال کی ایک اور سانولی سی لڑکی کو اپنے لئے اتار لایا اور اس کے ساتھی روتے گالیاں دیتے رہ گئے اور جب ٹرین سرحد کے پار پہنچی تو ڈاکٹروں نے معائنہ کیا کہ دونوں عورتوں کے جسم سوج گئے ہیں۔
اے انسان دیکھ کسی دن ذی مفاصل کیڑے، یہ چیونٹیاں، یہ شہد کی مکھیاں، یہ مکڑیاں تجھے شکست دیں گی۔
اخلاقی فضیلت نہ انسان کے اندر جوں کی توں ودیعت کی گئی ہے اور نہ اس کی فطرت کی مخالف ہے۔ اگر اخلاق انسانی فطرت کے بنے ہوئے موجود ہوتے تو ان کے حصول کا کوئی مسئلہ بھی درپیش نہ آتا اور جبلت کے اخلاف ہوتے ان کے حصول کی صلاحیت فطرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ یہ ایک بالقوہ صلاحیت ہے، اس کے بالفعل آنے کے لئے صرف علم نہیں بلکہ عادت کی ضرورت ہے۔
ہے کوئی لاش پھر سے سیڑھی کے تمام زینے چڑھ کے اوپر کے زینے تک پہنچ جائے اور انسان کا شعور پھر سکندر کے لاشعور میں ضم ہو گیا، جو پلاسٹر میں بندھا ہوا ایک سو پانچ بخار میں بھنتا ہوا ہسپتال میں اپنے بستر پر بستر عظیم الشان وسعت میں ذہنی کروٹیں بدل رہا تھا۔
غضنفر دوسرے ہی دن دکن ایرویز کے ہوائی جہاز سے دلی روانہ ہوا۔ امید کے خلاف امید کا دیا جھلملاتا رہا۔ یہ ساری آگ ہمارے لیڈروں نے لگائی ہے اس آزادی سے اس تقسیم سے، اس پاکستان سے، اس ہندوستان سے کیا مل گیا۔ اچاریہ کیا شاندار نام ہے اور اکساﺅ، اور اکساﺅ ملک.... ارے یہ بھی خیال نہیں رہا کہ چنگیز اور ہلاکو مسلمان نہیں مسلمانوں کے قاتل تھے، ان کی پیروی کی دھمکی دینا کیا ضروری تھی۔ اس دن میاں بشیر احمد سر سے ہاتھ لگائے بیٹھے تھے کہ پنجاب لیگ کے صدر اور معتمد میں یہ حجت تھی کہ فسادات ان سب سے بڑھ کر اکی دکی داستان کا خیال آتے ہی اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کی یاد کی خلش ذراکم ہوئی، پریشانی سے دماغ میں جو الجھاﺅ تھا ذرا کم ہوا اور وہ خود مسکرانے لگا۔ یہ اکی دکی داستان۔ اس کا جواب شاید ہی ملے....
ہوائی جہاز میں اونگھتے اونگھتے غضنفر نے سوچا کیا یہ لاکھوں اس لئے مرے کہ یہ لوگ حکومت کریں۔ پاکستان پر، ہندوستان پر.... یہ مزے اڑائیں اور انسان مارے جائیں اور میرے اپنے ماں باپ، بھائی بہن.... ہوائی جہاز اتر رہا تھا۔ نربدا بڑی شان و شوکت سے ایک گندے نالے کی طرح نیچے بہ رہی تھی۔ ایک پہاڑ زن سے ہوائی جہاز کے نیچے آکر گزر گیا اور بھوپال کا تال، ایک چوڑے سے نیلے نگینے کی طرح نظر آیا۔ اس کے بعد گوالیار پھر دہلی۔
دہلی پہنچ کر غضنفر نے ایک لمحہ رائیگاں نہیں کیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا میں اس کے کافی دوست تھے۔ وہ ایک ہندودوست کے ہاں ٹھہرا۔ وہ موقع واردات پر گیا جہاں اس نے اپنی ماں، باپ تہور اور بتول کی لاشیں پہچانیں۔ کٹی، سڑی، گلی لاشیں، سکینہ کا کچھ پتہ نہیں چلا.... اور اب تک پتہ نہیں کوئی دو سو قسم کے فاصلے پر جھاڑیوں کے جھنڈ میں ایک نوجوان لڑکی کی برہنہ لاش تھی۔ سینکڑوں جانوروں کی ہوس سے پامال جسم سوج گیا تھا اور درندوں نے اس کے بیہوش جسم کو تنہا چھوڑنے سے پہلے ایک بڑے سے پتھر سے اس کا چہرہ اور سر کچل دیا تھا۔ لاش پہچانی نہ جاسکتی تھی۔ غضنفر جس نے پندرہ سال پہلے سے اب تک اپنی بہن کو ریشم میں ملبوس دیکھا تھا کیونکر پہچان سکتا کہ یہ جوان لڑکی کون تھی، پھر مہینوں بعد جب خواجہ شہاب الدین کا بیان اخباروں میں چھپا کہ ایک گریجویٹ لڑکی ایک ان پڑھ کمہار کی کنیز اور داشتہ کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہے، تو تینوں بھائیوں کی نبضیں تیز ہوئیں اور پھر ڈوب گئیں، مگر وہ تو کپور تھلہ کا ذکر تھا اور وہ لڑکی کوئی پنجابی لڑکی ہوگی جو پاکستان پہنچا دی گئی ہوگی۔
پھر وہ ہسپتال گیا اور اس نے اپنے بھائی سکندر کو دیکھا جو گردن اور سر کے زخم سے بیہوش سرسام کے عالم میں تھا۔
سکندر اعظم، ارسطو کا شاگرد، ارسطو نے فوجیوں کی حفاظت میں برہنہ عورتوں کو دیکھ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ ہزارہاسال پہلے اس نے سکندر سے کہا تھا۔ ساری دنیا کو فتح کر، سکندر، ارسطو، انسان کامل۔
کالی رات آئی۔ بانکی تلنگن۔ مانگ میں تاروں کا افشاں، پیشانی پر چاند کا جھومر، انسان جو سیڑھی کے سب سے اونچے زینے پر فضامیں جھول رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور انسان کامل ہونے کا دعویٰ کیا۔ جاننا چاہئے کہ انسان کامل بذات خود جمیع حقائق وجودیہ کے مقابل ہے اور وہ اپنی لطافت اور حقائق علویہ کے مقابل ہے اور کثافت میں حقائق سفلیہ کے مقابل ہے۔ حقائق خلقیہ سے اولاً جو چیز اس کے مقابل ہے وہ عرش ہے ارتقا کی سیڑھی سے انسان کامل عرش کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیکھو میں برق کا پیغامبر ہوں میں ایک بڑا سا قطرہ ہوں جو ابر سے ٹپکا ہے۔ برق بہرحال انسان کامل ہے، یوں کہا زرتشت نے۔
پاکستان اور ہندوستان کی سرحد پر ایک معبد میں جو معلوم نہیں مسجد تھا یا گوردوارہ یا مندر یا کلیسا، ایک عورت کی لاش سڑ رہی تھی اور جہاں سے دیوی ماتا انسان کو کائنات کو، انسان کامل کو جنم دیتی ہے، وہاں ایک کتاب کا ورق، بہمیت اور قتل کے بعد ٹھونس دیا گیا تھا۔ ذرا ہندوستان کے وزیراعظم اور پاکستان کے قائد کو بلاﺅ۔ اس کالی رات میں شاید وہ پڑھ کر بتا سکیں کہ یہ ورق کس مقدس کتاب کا ہے۔ قرآن مجید کا؟ مقدس وید ہے؟ گرنتھ صاحب کا؟ انجیل مقدس کا؟ کمیونسٹ مینی فسٹو کا؟ برگساں کی ارتقائے تخلیقی کا؟ شرما کے انسان کامل نے سیڑھی پھر سے کنوئیں میں لٹکا دی جس میں لاشیں سڑ رہی تھیں اور نیچے اترنا شروع کیا۔ اس زینے پر جہاں درندے تھے.... اس زینے پر جہاں حشرات الارض تھے جہاں لاشوں میں بلبلاتے ہوئے کیڑے تھے اور پھر انسان کامل معدوم ہو گیا۔
جب غضنفر ماں باپ کی اور اس نامعلوم لڑکی کی لاش سپردخاک کر کے آیا تو ہسپتال میں سکندر سرسام کی حالت میں ختم ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا ”بڑا افسوس ہے.... اس کی جان بچانے کی ہم نے بہت کوشش کی۔“


No comments:

Post a Comment