Friday 3 January 2014

بنـــــــــدر اور ڈگڈگــــــــــــی----- خوش آمدید 2014


 
 ایک دفعہ ایک جگہ ایک بندر والا مداری تماشا دکھا رہا تھا، اور جیسا کہ یہ تماشے دلچسپی کی وجہ ہوتے ہیں سو میں بھی باقی لوگوں کی طرح وہ دیکھنے لگا۔ ڈگڈگی والا ایک ہاتھ سے ڈگڈگی بجاتا اور دوسرے سے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو مختلف طریقوں سے کبھی زمین پر مارتا اور کبھی ہلکا پھلکا بندر کو مارتا جس سے بندر عجیب و غریب حرکتیں کرتا اور ادھر ادھر کودتا پھاندتا اور اس کود پھاند کو مدرای  والا اپنی گھڑی ہوئی کہانیوں اور ہنسا دینے والے ڈراموں سے منصوب کرتا جس سے یہی محسوس ہوتا کہ یہ الٹی سیدھی عجیب و غریب حرکتیں دراصل یہ کہانیاں ہیں جو بندر کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھی اس سے خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے، بڑی تعریف کرتے کہ بندر کتنا سیانا ہے۔
جب یہ سارا تماشا ختم ہو جاتا تو بندر ٹوپی لیے لوگوں کے آگے جاتا اور ان سے پیسے مانگتا کوئی روپیہ دیتا کوئی دو کوئی پانچ کوئی دس جسے بندر لیکر واپس مداری کے پاس آتا اور مداری آرام سے یہ سب کچھ کر اپنی جیب میں ڈال لیتا، دن بھر ادھر ادھر گھومتے رہنے مار کھا کھا کر پیسے اکھٹے کرنے کے بعد بلا آخر مداری بندر کو ایک ٹکڑہ روٹی دیتا یا کوئی گلا سڑا پھل کھانے کو دے دیتا۔

بندر مزے سے وہ کھاتا اور ایک طرف بیٹھ جاتا
سارا دن کودنے پھاندنے اور گھلے سڑے پھل یا سوکھی روٹی کھانے کے بعد بھی کبھی بندر کو اندازہ نا ہوا کہ جو پیسے وہ اکھٹے کرتا ہے اور جن کے لیئے وہ اتنی محنت مزدوری اور مشقت کرتا ہے ان کی کیا اہمیت ہے، بندر کو صرف اتنا معلوم ہے

کہ کن کن اشاروں پرکیا کیا کرنا ہے
ہر تماشے کے بعد ٹؤپی میں پیسے بھر کر لانے ہیں
گلا سڑا فروٹ یا پھرسوکھی روٹی کھانی ہے
مداری کی مار کھانی ہے اور ایک جانب پڑے رہنا ہے

کیوں کہ نسل در نسل اس کی رگوں میں یہ باتیں خون کے ساتھ ساتھ سرایت کر چکی ہیں اور عادت ثانیہ بن چکی ہیں

اس کو عزت ، ذلت سے کچھ لینا دینا نہیں
اس کو غیرت کا کوئی مطلب معلوم نہیں
محنت کا پھل سوکھی روٹی اس نے مقدر سمجھ لیا ہے
اور مداری کی غلامی اور اطاعت ہی اس کی زندگی ہے

بھائیو!!!!! کیا ایسا تو نہیں

کہ یہ کہانی کچھ سنی سنی اور اپنایت بھری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ ایسا تو لگ رہا جیسے کوئی ہمارے بارے میں بیان کر رہا ہو، ایسا تو نہیں کہ ہم ان مداریوں کے ہاتھ میں ناچنے والے بندر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مداری کبھی زورداری بن کر ہمیں نچاتے ہیں اور کبھی خان، کبھی شریف بن کر اور کبھی چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ننگے ہوکر اور کبھی وردی پہن کر

اور ہم ہیں کہ اپنے مقدر پر سر جھکائے
ڈنڈے کھاتے اچھلتے کودتے ہیں
پیسے کماتے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر  کہ اس محنت کی کمائی کی کیا اہمیت ہے کیا قدر ہے۔
اور آخر روکھی سوکھی ہمارا مقدر ہے۔

از: راشد ادریس رانا خوش آمدید 2014

1 comment: