Saturday 9 March 2013

نسلوں کی موت:::::::::از راشد ادریس رانا

 
 
ایک سنہرے دن کا آغاز، جو زندہ رہنے کے کئی ارمان لیئے طلوع ہوا. وہ جلدی جلدی آفس کے لیئے تیار ہوا اور اپنے ننھے سے شہزادے کو لے کر اس کے سکول کی طرف روانہ ہوا، جب سے ننھے شہریار نے سکول جانا شروع کیا تب سے وہ اور اس کی بیوی بہت خوش تھے. مستقبل کے جھلمل کرتے خواب اور اپنے بیٹے کو ایک کامیاب انسان بنانے کی آرزوئیں ہر روز ان میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کرتی تھیں.
سارا دن وہ آفس میں مصروف تھا لیکن جیسے ہی گھڑی نے 12:30 کا الارم بجایا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگتا ہوا باہر آیا اپنا موٹر سائیکل سٹارٹ کیا اور ننھے شہریار کے سکول کی جانب رواں دواں ہوا، چند ہی منٹ کے بعد وہ اپنے اکلوتے اور پیارے ، لاڈلے شہزادے کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر لیئے روانہ ہوا. مصروف شاہراہ کوچھوڑ کر جیسے ہی اس نے اندرونی راستہ پر موٹر سائیکل موڑا اور سپیڈ تھوڑی تیز کی اچانک اس کو اپنے ہاتھ پر کچھ محسوس ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتا اس کو اپنے ہاتھ پر کٹنے کا احساس ہوا اور موٹر سائکل کی بریک لگاتے لگاتے اچانک اس ننھا شہریار ایک طرف لڑھک سا گیا.....
اس نے جلدی سے موٹر سائکل روکی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی "موت کا دھاگہ" اپنا کام کر چکا تھا، بے رحم شوق نے ایک ننھے بچے کی گردن کاٹ دی تھی. اس نے اپنے لال کو اپنی گود میں لیا تو اس کا گلا کٹا ہوا تھا اور ڈور اس کے نرخرے میں پیوست تھی، بچہ ڈھیلا پڑ چکا تھا، لوگوں کا ایک جم غفیر ایک دم اکھٹا ہوا، وہ دیوانوں کی طرح چیخ رہا تھا چلا رہا تھا، موٹر سائیکل ایک طرف گری پڑی تھی، اچانک جیسے اس کو زور کا جھٹکا لگا اور وہ اپنے ننھے لال کو لیکر دیوانوں کی طرح سڑک پر بھاگا، کئی لوگ اس کے ساتھ ساتھ تھے اچانک ایک گاڑی والے نے گاڑی روکی اور لوگوں نے اس کو بچے سمیت گاڑی میں ڈال کر ہسپتال روانہ کیا.....
جہاں چند منٹ کے بعد ہی ڈاکٹر نے معذرت کرتے ہوئے کہا "سوری تیز دھار ڈور سے بچے کی شہہ رگ ایسی کٹی ہے کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خالق سے جال ملا" اب کچھ نہیں ہو سکتا..... دیر ہو گئی ...

وہ دیوانوں کی طرح اپنے ننھے پھول کو بے جان پڑا دیکھ رہا تھا.....
میرا آپ سب سے سوال ہے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ چند روپوں کے منافع کی خاطر جو موت کے سوداگر یہ کام کرتے ہیں ان کے کاروبار کو کون پھیلاتا اور پروان چڑھاتا ہے . جی ہاں میں اور آپ ،،،،،،،ہم ہی وہ لوگ ہیں جو ناصرف اپنے بچوں کی اس گندے کھیل کو کھیلنے دیتے ہیں بلکہ ایسے لوگ جو یہ دھندا کرتے ہیں ان کو نا روک اور ان کے خلاف آواز نا اٹھا کر ان کو سپورٹ کرتے ہیں. ایسے کتنے بے گناہوں کا خون ہمارے ہاتھوں پر ہے جس ایک روز ہم سب کو جواب دینا پڑے گا. سوچیں اگر اس ننھی جان کی جگہ میرا یا آپ کا بچہ ہوتا تو ہم پر کیا گزرتی؟
 
(مصنف: راشد ادریس رانا- ابو ظہبی ، یو اے ای)
ایک خیالی لیکن حقیقت لیئے ہوئے تحریر جو ہم سب کے لیئے ایک سوال ہے.

2 comments:

  1. Dil cheer gayi app ki bat kay main bhi aik shehzaday ka bap ho

    ReplyDelete
    Replies
    1. سر جی، کل ایک بحث چل رہی تھی، کیا پتنگ بازی پر پابندی ہونی چائیے یا نہیں. میرا خون کھول گیا ہے ان لوگوں کا جواب سن کر جو کہتے ہیں کہ نہیں.......

      کتنے ناسور ہیں جو ہماری نسلوں کو کھائیے جا رہے ہیں. ویسے ہی صبح گھر سے روانگی کے بعد شام واپسی کا پتا نہیں کے ہو بھی کہ نا ہو. اوپر سے یہ خاموش موت جو ہر جگہ ہر وقت گھومتی رہتی ہے. اگر پتنگ بازی نہیں ہوگی پاکستان میں تو کونسا قیامت آجائے گی اور پاکستان کی ترقی رک جائے گی.

      اللہ پاک سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے، آمین ثم آمین

      Delete