Friday, 29 March 2013

کالے چھولے::::::;ایک منتخب تحریر.

ایک منتخب تحریر.
 
سڑک پر کالے چھولے بکھرے دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اگرچہ اس مسکراہٹ میں گہرا دکھ بھی شامل تھا۔ بکھرے ہوئے چھولوں کے قریب ہی ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ چھولوں کی خالی تھالی کو حسرت سے کھڑا تک رہا تھا۔
"اوہ! وہی ڈرامہ میں نے دل میں سوچا اور میرے ذہن میں وہی پرانی کہانی گھوم کرختم ہو گئی، یعنی کالے چھولوں کو بڑی ادا کاری سے سڑک پر بکھیر دینا اور اپنی غربت کی من گھٹرت کہانی سنا کر راہگیروں سے پیسے بٹورنا۔

ہوں ٹھیک ہے! آج میں بھی دیکھتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں اپنی موٹر سائیکل اس بچے کے قریب لے آیا اور اس کی کہانی اس کی زبانی سننے کے لیے انتظار کرنے لگا۔ اس بچے نے ایک اچٹتی نظر مجھ پر ڈالی اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اچانک مجھے یاد آیا، اس کی تھالی تو میرے سامنے ہی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری تھی اور ایسا ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکر سے ہوا تھا۔

مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر سائیکل والے کے آگے آگیا ہو، یا پھر ایسا جان بوجھ کر نہ کیا ہو مگر وہ کچھ دیر بعد ایسا ہی کرنا چاہتا ہو اور سائیکل سوار نے اس کی مشکل آسان کردی ہو۔ میں خود ہی سوچ رہا تھا، اس بچے نے ابھی تک کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
کیا ہوا؟ میں نے خود ہی آگے بڑھ کر اس سے پوچھ ہی لیا۔ وہ چند لمحے مجھے خاموش نگاہوں سے دیکھتا رہا، پھر مختصر لفظوں میں اپنی رواداد سنا کر خاموش ہو گیا۔

اچھا !!! میں نے مزاق والے انداز میں اچھا کو کھینچتے ہوئے کہا۔
تو پھر میں کچھ مدد کروں آپ کی! نہ چاہتے ہوئے بھی میرا انداز طنزیہ ہوگیا تھا ۔ اگرچہ غریبوں کی ہمدردی اور مدد کا جزبہ میرے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ کسی ضرورت مند کی ضرورت کا علم ہو جاتا تو اس وقت تک سکون نہ ملتا جب تک اس کی ضرورت پوری نہ کر دیتا۔ اپنی جیب خرچ کسی غریب پر خرچ کرنے کا موقع مل جاتا تو میرے چہرے سے خوشی کی کرنیں پھوٹ پھوٹ پڑتی تھیں مگر یہ تو سراسر ڈرامہ تھا جسے میں آج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ضروری کام چھوڑ کر بھی رک گیا تھا۔

بولو۔ میں پھر مزے لینے والے انداز میں بولا۔
آپ مدد کریں تو احسان ہوگا۔ بس یہی تو میں اس کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ جونہی اس نے جملہ مکمل کیا۔ میرا زور دار قہقہ فضا میں بلند ہوگیااور اس بچے کو لگا جیسی اس نے یہ کہ کر بہت بڑی غلطی کردی ہو۔ وہ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہو گیا۔ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ میں ان کارستانیوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ اداکاری ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کچھ دیر میں اس کی طرف دیکھ کر ہنستا رہا۔ اس کا چہرہ اس قدر معصوم تھا کہ اگر مجھے حقیقت کاعلم نہ ہوتا تو میں اپنی جیب سے کل رقم نکال کر اس کے ہاتہ میں تھما دیتا۔

میاں پاگل کسی اور کو بنانا، ہمیں تو معلوم ہے تمھارے ان دھندوں کے بارے میں۔ میں نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا اور موٹر سائیکل سٹارٹ کرکے آگے بڑھ گیا۔
کچھ ہی دیر بعد میں واپس اسی طرف آ رہا تھا۔ وہی بچہ چپ چاپ سڑک پر سے اپنے چھولے چننے میں مصروف تھا۔ میں کچھ فاصلے پر رہ کر اسے دیکھ رہا تھا۔ صاف صاف چھولے چننے کے بعد اس نے تھالی اٹھائی اور ایک طرف کو چل پڑا۔
ہوں!! تو اس کا کام بن گیا۔

یہ سوچ کر میں بھی اس کے پیچھے چل۔ ہاں اب میں اس شخص کو دیکھنا چاہتا تھا جو اس بچے سے غلط کام کروا رہا تھا۔ وہ بچہ بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کا پیچھا کرنے کے لیے مجھے موٹر سائیکل پیدل چلنے والوں کی طرح چلانی پڑ رہی تھی۔ تقریبًا 20منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ ایک تنگ سی گلی میں داخل ہو گیا۔ یہاں پہنچ کر اس کی رفتار بہت کم ہو گئی۔ پھر اس نے گلی کے چوتھے مکان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ میں بھی کچھ فاصلے پر ہی تھا۔ جلد ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے دروازہ کھولا اور اندر آنے کے لئے راستہ دینے لگی۔
ماں۔ یہ کہ کر وہ تھالی زمین پر رکھ کر ماں سے لپٹ گیا اور بلک بلک کر رونے لگا۔

"کیا ہوا میرے بچے۔" وہ خاتون ایک دم پریشان ہو گئی۔ پھر اس نے ایک نظر تھالی پر ڈالی اور معاملہ سمجھ کر بولی۔
کیا ہو نقصان ہو گیا تو، اچھے بچے روتے نہیں، اللہ سے دعا کرتے ہیں، اللہ پاک نقصان کو پورا کر دیں گے۔ بلکہ اس سے بہتر عطا فرمائیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے بچے کو ڈھیر سارا پیار دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ ابھی تک مجھے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ اور اب دروازہ بند ہو گیا تھا۔ ادھر میری کیفیت عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی تھی۔ میں غیر ارادی طور پر موٹر سائیکل سمیت ان کے گھر کے دروازے کے قریب آگیا۔ گلی میں کوئی نہیں تھا۔
ماں! میں نے چھولے چن لیے ہیں، سوچا دھو کر ان پر مصالحہ ڈال کر ہم شام کو کھالیں گے، شام کے کھانے کا خرچ بچے گا۔
پھر تو رو کیوں رہا تھا؟ ماں کے لہجہ میں گہرا شکوہ تھا۔
"ماں میں نقصان پر نہیں رویا تھا۔ بچے کا انداز کھویا کھویا سا تھا۔
نقصان پر نہیں رویا، پھر کس بات پر رو رہا تھا، ماں نے حیرت سے پوچھا۔ بچہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا۔
ماں آج ایک شخص نے میرا خوب مزاق اڑایا ہے، پتہ نہیں کیوں۔ غریبوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی کیا، ان کے سینوں میں دل نہیں ہوتے، پھر، پھر یہ امیر لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں۔

اف میرے مالک۔۔ مجھ سے مزید کچھ نہ سنا گیا۔ میں گلی سے نکل آیا۔ اس وقت میں خود کو ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا محسوس کر رہا تھا۔ خود پر غصہ آ رہا تھا کہ بلا تحقیق کیے کسی سے بدگمان ہوا اور ایک غریب کا دل دکھا کر بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔ اب کیا کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس کی مدد کروں تو کیسے؟ دل میں عجیب سی بے قراری پیدا ہو گئی تھی۔ آخر کچھ سوچ کر میں پلٹ آیا اور اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ دوسری مرتبہ کھٹکھٹانے پر وہی بچہ دروازے پر آیا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ اُچھل بڑا۔ ادھر مجھ میں اس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی جیب کے کل پیسے نکالے اور اس بچے کی مٹھی میں دبا دیے۔

"یہ رکھ لو تمھارے کام آئیں گے۔ مجھے معاف کردینا مجھ سے ایسا غلط فہمی میں ہوگیا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا مگر پیسوں پر اس کی گرفت اتنی ڈھیلی تھی کہ میں ہاتھ ہٹاتا تو پیسے زمین پر گر جاتے۔
"پلیز"۔ میں نے التجائیہ انداز میں کہا اور اس نے پیسے پکڑ لیے۔ میں تیزی سے مڑ کر گلی سے نکل آیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر، ہاں مجھ میں مزید وہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں تھی۔ واپسی پر میں سوچ رہا تھا۔

"اللہ رب العزت کے ہر حکم میں بے شمار مصلحتیں، حکمتیں اور فوائد پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی میں نقصان کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں بلا تحقیق کسی کے عمل پر کوئی قدم اٹھانے سے منع فرمایا ہے اور اس حکم کے خلاف ورزی کا نقصان آج میری آنکھوں کے سامنے تھا۔

No comments:

Post a Comment