Monday 8 October 2012

زندہ لاشیں نوچتے نوچتے:by Rashid Idrees Rana

تنگ آگیا ہوں سوچتے سوچتے
زندہ لاشیں نوچتے نوچتے


کسی کو روٹی نہیں ملتی

کسی کی عزت سرراہ بکتی

کسی کے زخم تازہ ہر دم ہیں

بنا جہیز ہے کسی کی بیٹی

کسی کی نیند ہر پل ہے روٹھی

کسی کی آس امید ہے ٹوٹی 


 ترسی نگاہ خوشی کے لیئے

کسی کی مسکراہٹ ہے روٹھی

کسی کو خون دے کر کیا ملا

کسی کو جان دے کر کیا ملا

کسی نے خاک ہوکر کیا پایا

کسی نے راکھ ہو کرکیا پایا

تنگ آگیا ہوں سوچتے سوچتے

زندہ لاشیں نوچتے نوچتے
کیا میں زندہ ہوں یا مر چکا راشد
یہ دکھ نسلوں کو سونپتے سونپتے
شاعر
راشد ادریس رانا
2012-10-08

3 comments:

  1. wah... kia Khoob likha hai

    ReplyDelete
  2. راشد بھائی !
    اتنی سی عمر میں آپ نے کیا کیا غم پال لیے ہیں۔
    جناب ، یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے۔
    جب ہم قدرت کے اٹل قوانیں کی پرواہ نہیں کرتے تو قدرت بھی ہمین اپنا اٹل فیصلہ سنا دیتی ہے۔
    خواہ مخواہ میں ایک مجرم قوم کا غم مت پالیے۔ بنی اسرائیل کی طرح ہم نے ہر وہ کام کیا اور کرنے جا رہے ہیں جو خداوند رحمن و رحیم کو غضبناک کردیتی ہے۔
    اپنی فکر کیجیے اور عذاب کی جگہوں سے دور نکل جائیے

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ڈاکٹر صاحب، کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں لیکن،

      جیسا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے لیے جب نارِ نمرود بھڑکائی جا رہی تھی تو ایک ننھا پرندہ (غالباً چڑیا) اپنی ننھی چونچ میں ایک قطرہ پانی کا لا کر اس آگے کے الاؤ کے اوپر ڈال دیتا۔ کسی نے اسے کہا کہ تمھارے ایک قطرہ پانی اور اس چھوٹی سی کوشش سے یہ آگ بجھ نہیں سکتی۔ تو پھر یہ لاحاصل کوشش کیوں ؟
      تو اس ننھے پرندے نے قابل توجہ جواب دیا ۔ کہا
      "مجھے بھی معلوم ہے کہ میرے ایک قطرے سے یہ آگ نہیں‌بجھ سکتی ۔ لیکن قیامت کے دن میرا شمار تو ابراھیم علیہ السلام کے ان حمایتیوں میں ہوگا جو آگ بجھانے کی کوشش میں تھے۔ "

      بس میں یہی سوچتا ہوں کہ کیا آج ہم اس چڑیا جتنی بھی طاقت نہیں رکھتے، اتنے حقیر ہوگئے ہیں?

      اللہ ہمیں ہدایت دے اور راہ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے، آمین

      Delete