Saturday 14 July 2012

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

 

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا مجھے خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد سے سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہے
اس قدر تند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے
احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment