Thursday 1 December 2011

الّلہ سے ڈرنے والے

دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو الّلہ کے ڈر سے خالی ہوں۔ ایسے لوگ خواہ زبان سے الّلہ کا نام لیتے ہوں، مگر ان کے سینہ میں الّلہ کے ڈر کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ وہ اس طرح رہتے ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہیں جو چاہیں کریں ۔ ان کے سامنے سارا سوال بس دنیا کےنفع نقصان کا ہوتا ہے۔ جس کام میں نفع نظر آئے اس کی طرف دوڑنا اور جس کام میں نقصان کا اندیشہ ہو اس سے رک جانا، یہ ان کا مذہب ہوتا ہے۔ کسی چیز کا اصولی طور پربر حق ثابت ہو جانا ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ ہمیشہ‘‘ دلیل’’ کے بجائے ‘‘مفاد’’ کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔ کوئی کام کرتے ہوئے وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس معاملہ میں الّلہ کی مرضی کیا ہے یا یہ کہ وہ الّلہ کے سامنے کیوں کر بری الزمہ ہو سکتے ہیں وہ وہاں جھک جاتے ہیں جہاں ان کا نفس جھکنے کے لئے کہے۔ اور وہاں اکڑ جاتے ہیں جہاں ان کا نفس اکڑنے کی ترغیب دے۔ وہ الّلہ سے بے خوف زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تا کہ الّلہ کی عدالت میں حساب دینے کے لئے کھڑے کر دیے جائیں۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے دل میں حرام و حلال کا لحاظ رہتا ہے۔ ان کو یہ خیال آتا رہتا ہے کہ مرنے کے بعد الّلہ کے یہاں حساب کتاب کے لئے حاضر ہونا ہے۔ عام حالات مین وہ الّلہ سے ڈر کر زندگی گزارتے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں کسی کو ان سے حق تلفی اور بےاخلاقی کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تاہم وہ اپنئ نفسیاتی پیچیدگیوں سے اٹھے ہوئے نہین ہوتے۔ ان کا خوف خدا اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ وہ ان کے نفس کےاندر چھپے ہوئے جزبات کا احاطہ کرلے۔ عام حالات میںوہ خدا ترس زندگی گزارتے ہیں۔ مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیش آئے تو اچانک وہ دوسری قسم کے انسان بن جاتے ہیں۔ کبھی کسی کی محبت کا لحاظ، کبھی کسی کے خلاف نفرت کا جزبہ،کبھی اپنی عزت کا سوال ان کے اوپر اس طرح غالب آتا ہے کہ ان کا خوف خدا اس کے نیچےدب کر رہ جاتاہے۔ یہ عمل چونکہ اکثر غیر شعوری طور پر ہوتا ہے اس لئے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپراپنے نفس کے اس حملہ سے آگاہ ہوں اوراپنے آپ کو تھامتے ہوئے اپنے کو متقیانہ روش پر قائم رکھیں ، معمول کے حالات میں خدا ترسی کی زندگی گزار نے والا غیر معمولی حالات میں وہی کچھ کر گزرتا ہے جو پہلی قسم کے لوگ اپنے عام زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔
تیسرا انسان وہ ہے جو پورے معنوں ہیں الّلہ سے ڈرنے والا ہے، جو الّلہ کو پہچاننے کے ساتھ خود اپنے آپ کو بھی پوری طرح پہچان چکا ہو۔ ایسا شخص صرف عام حالات ہی میں الّلہ سے نہین ڈرتا بلکہ غیر معمولی حالات میں بھی الّلہ کا خوف اس کا نگراں بنا رہتا ہے۔ کسی کی محبت جب اس کو بے خوفی کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے تو وہ فوراً اس کو دیکھ لیتا ہے۔ کسی سے چھپی ہوئی نفرت جب اس کے نفس میں تیرتی ہے اور اس کو بے انصافی پر اکساتی ہے تو وہ چونک پڑتاہے اور اس سے باخبر ہو کر اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ ذاتی عزت و وقار کا سوال جب اس کے اندر داخل ہوکر اس کو کسی حق کےاعتراف سے روکتا ہے تو وہ بلا تاخیر اس کو جان لیتا ہے۔ اس طوح وہ اپنی تمام خامیوں سے آگاہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے۔ اس کا مسلسل احتساب اس کو ایسے مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو انتہائی بے لاگ نظر سے دیکھ سکے۔ بالفاظ دیگر، وہ اپنے آپ کو اس حقیقی نظر سے دیکھنے لگتا ہے جس نظر سے اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

2 comments:

  1. اللہ ہم کو یہ پہلی والی قسم کا انسان بننے سے بچائے رکھے۔۔۔آمین

    ReplyDelete
  2. کاش کہ ہم سب کا شمار تیسری قسم میں ہو جائے ۔ آمین

    ReplyDelete