Monday, 19 September 2011

اوسٹیو پوریسس-۱::::::ہڈیوں کی کمزوری

ہسپتال میں ایک لڑکی لنگڑاتی ہوئ آئ اور میرے برابر بیٹھ گئی۔ عمر یہی کوئ ستائیس اٹھائیس سال۔ ہم دونوں میں وقت گذاری کے لئے بات چیت شروع ہوگئ۔ تب میں نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ کہنے لگی میرا خیال ہے کہ مجھے کیلشیئم کی کمی ہو گئ ہے۔ اچھا، اس خیال کی کیا وجہ ہے؟ میں نے دلچسپی لی۔
میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں۔ دو بچے ہیں۔ پہلا بچہ ابھی چار مہینے کا بمشکل تھا کہ دوسرے بچے نے اپنی آمد کا اعلان کر دیا۔ میں اسے اپنا دودھ بھی پلاتی تھی۔ چھ مہینے کی عمر میں پہلے بچے کا دودھ چھڑانا پڑا۔
دوسرے بچے کو میں نے چھ مہینے تک دودھ پلایا کہ میرے پیر میں تکلیف شروع ہو گئ۔ پہلے یہ کم تھی آہستہ آہستہ یہ اتنی بڑھ چکی ہے کہ میں چل نہیں سکتی۔ سب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا ہوگیا ہے۔
میں نے پہلے بچے سے لے کر اب تک اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ مجھے کیلشیئم زیادہ چاہئیے ہوگا۔ اب ہڈیوں کے ایکسرے کرائے ہیں ڈاکٹر دیکھیں کیا کہتا ہے۔ میں نے ایک نظر اسکی رپورٹس پہ ڈالی۔ ہر چیز صحیح تھی۔ ایکسرے بھی صحیح تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس سے واپس ہو تو مجھے ضرور بتانا کہ اس نے کیا کہا۔ ڈاکٹر کے پاس سے واپس ہوتے ہوئے اس نے کہا کہ اسکا اندازہ صحیح تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے کیلشیئم کی کمی ہو گئ ہے۔
یہ تو ایک نوجوان خاتون کی کہانی تھی۔
دوسری طرف ہم اپنے ارد گرد بہت ساری زیادہ عمر کی خواتین کو دیکھتے ہیں جو چلنے پھرنے سے معذور ہوتی جا رہی ہیں اور اسکی وجہ ہڈیوں کی کمزوری یا جوڑوں کی خرابی بتاتی ہیں۔ بعض افراد کی پیٹھ پہ عمر کے ساتھ کھُب نکل آتا ہے۔
پیٹھ پہ نکل آنے والا کھب
ہڈیوں میں یہ کمزوری زیادہ تر اوسٹیوپوریسس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اوسٹیو پوریسس یعنی سوراخدار ہڈیاں۔ اگر آپ نے جانوروں کی ہڈیاں دیکھی ہیں تومشاہدہ کیا ہوگا کہ ان میں باریک باریک سوراخ پائے جاتے ہیں اگر یہ باریک سوراخ بڑے ہو جائیں تو ہڈیاں بھربھری ہو جاتی ہیں۔ انکی دیواریں پتلی ہو جاتی ہیں اور وہ نرم پڑ جاتی ہیں۔ معمولی سی ٹھیس انہیں توڑ سکتی ہے۔ انسان زیادہ نقل و حرکت کے قابل نہیں رہتا۔ اور یہ چیز اسکی مدت زندگی میں کمی کا بڑا سبب بن جاتی ہے۔

اوپر کی ہڈی صحت مند ہے جبکہ نیچے والی اوسٹیو پوریسس کا شکار ہے

ذہن میں اس طرح کے سوالات آتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پہ اوسٹریو پوریسس شروع ہوتا ہے، اسکا کیا علا ج ہے کیا اس سے بچاءو ممکن ہے، کن لوگوں کے اس میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ ہم باری باری ان سب پہ ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
زیادہ تر یہ خاندانی سلسلے سے جڑا ہوتا ہے لیکن ماحول، غذا اور بعض دوائیں اسکا باعث بن جاتی ہیں۔ ہڈیوں کی ساخت میں کیلشئم سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور پھر فاسفورس۔ اس لئے اگر کیلشیئم کی کمی ہو جائے تو ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ ہڈیوں کی کمزوری اور مضبوطی کا پیمانہ ہڈیوں میں دھاتوں کی کثافت یا مقدار ہے یعنی بون منرل ڈینسٹی۔ اگر یہ زیادہ ہے تو ہڈی مضبوط اور اگر یہ کم ہے تو ہڈی کمزور ہو گی۔
کون لوگ زیادہ شکار ہوتے ہیں؟
جنکے خاندان میں انکے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام دنیا میں دیکھا جائے تو یوروپی اور ایشیئن لوگ زیادہ متائثر ہوتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین، موٹے لوگوں کے مقابلے میں دبلے افراد، کولڈ ڈرنکس حد سے زیادہ استعمال کرنے والے، بعض دوائیں استعمال کرنے والے مثلاً خون کو پتلا کرنے والی دوا ہیپارن، اعصاب کی دوا فینا بارباٹول اور بعض اسٹیرائڈز ۔ وہ لوگ جو چلنے پھرنے سے گھبراتے ہوں، سستی برتتے ہوں یا کسی بیماری کے نتیجے میں یا اسکے بعد ایک طویل عرصے تک چلنے پھرنے سے قاصر ہوں۔
نوجوان خواتین میں اسکی وجہ مستقل حمل کی یا بچوں کو دودھ پلانے کی حالت میں رہنا ایک بڑی وجہ ہے۔ بچہ جب ماں کے جسم میں پرورش پاتا ہے تو وہ ماں کے کیلشیئم کے ذخائر کو بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ماں کی خوراک میں زائد کیلشیئم شامل ہے یا نہیں۔ اگر ماں اپنی خوراک کے ذریعے زائد کیلشیئم حاصل نہیں کرتی تو وہ یہ کیلشیئم ماں کی ہڈیوں سے لینا شروع کر دیتا ہے۔ یہی قانون قدرت ہے۔ جسکے نتیجے میں ماں کی ہڈیاں گھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہڈیوں کی اس کمزوری پہ خوراک اور اضافی کیلشیئم سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
دودھ کا ایک اہم جز کیلشیئم ہوتا ہے اس لئے دودھ پلانے والی مائیں اگر اپنی خوراک میں کیلشیئم کی مقدار کا خیال نہ رکھیں تو اس دودھ کے لئے بھی ہڈیاں قربانی دیتی ہیں اور یہ زچگی کے بعد انہیں مزید کمزور بنا دیتا ہے۔
خواتین میں اوسٹیو پوریسس کی دوسری اہم وجہ مینو پاز یا سن یاس ہے۔ جسکے نتیجے میں انکا ماہانہ نظام بند ہو جاتا ہے۔ خواتین کا تولیدی نظام ایک ہارمون ایسٹروجن پہ انحصار کرتا ہے۔ یہ خواتین کے ماہانہ نظام سے لے کر حمل قرار پانے اور بچے کی تولید تک ہر مرحلے میںشامل ہوتا ہے۔ یہ خواتین کے جسم کے ہر حصے میں پایا جاتا ہے۔ یہ انکی جلد کو خوبصورتی دیتا ہے اور جسم کو تناسب۔ اسکے ساتھ ہی یہ انکے جسم میں کیلشیئم کے جذب ہونے کے عمل میں بھی مدد کرتا ہے۔
عمر کے ساتھ ایک مرحلے میں آکر یہ ہارمون ختم ہونا شروع ہوتا ہے تو یہ نظام بھی اپنے خاتمے پہ پہنچتا ہے۔ اس سے جہاں اور مسائل جنم لیتے ہیں وہاں کیلشیئم کا کم یا نہ جذب ہونا بھی ہے جس سے ہڈیوں کی کمزوری کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
وہ نوجوان خواتین جنکا ماہانہ نظام ہر ماہ نہیں ہوتا بلکہ کسی خامی کی وجہ سے اس میں دو دو تین مہینوں بلکہ بعض اوقات سال کا بھی وقفہ آجاتا ہے انکی ہڈیاں بھی اسی وجہ سے جلد کمزور ہو سکتی ہیں۔ خواتین کے ہارمونل نظام کی یہ خامی عام طور پہ قابل علاج ہوتی ہے۔
کینسر کے لئے ہونے والی کیمو تھراپی کی وجہ سے بھی مینوپاز ہو سکتا ہے اور بعض طبی حالتیں ایسی ہوتی ہیں جنکی وجہ سے خواتین کی بچہ دانی نکال دی جاتی ہے نتیجتاً ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔
ہارمون کی کمی ہونے کے بعد بعض اوقات کیلشیئم کے سپلیمنٹ لینے یا کیلشیئم والی خوراک وافر مقدار میں لینے سے بھی کوئ فرق نہیں پڑتا اور ہڈیوں کی یہ کمزوری اپنی رفتار سے جاری رہتی ہے۔ مینو پاز کے بعد خواتین کی ہڈیوں کی کثافت میں دو سے چار فیصد سالانہ کے حساب سے کمی آسکتی ہے۔
اوسٹیو پوریسس کی دیگر وجوہات میں سگریٹ نوشی، شراب نوشی، ورزش نہ کرنا، ، کیلشیئم والی غذائیں کم استعمال کرنا، کم غذائیت کی حامل خوراک لینا، نظام انہضام میں خرابی کی وجہ سے غذا ئ اجزاء کا صحیح طور پہ جذب نہ ہونا، مردوں میں مردانہ ہارمون ٹیسٹو اسٹرون میں کمی جوعموماً عمر کے ساتھ آتی ہے۔ مختلف غدود کے افعال میں خرابی مثلاً تھائرائڈ گلینڈ کے افعال میں خرابی جسکے نتیجے میں یہ تھائرائڈ ہارمون زیادہ پیدا کرتا ہے یا کم پیدا کرتا ہے۔ ماحول میں بھاری دھاتوں کی آلودگی مثلاً کیڈمیئم سے بھی ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں۔ روماٹائڈ ارتھرائٹس کی وجہ سے بھی یہ ہو سکتا ہے جس میں ہاتھوں اور پیروں کی ہڈیاں مڑ جاتی ہیں، اور گردوں کی خرابی کی وجہ سے بھی۔ خون میں خرابی کی وجہ سے بھی مثلاً لیوکیمیا ، ہیموفیلیا اور تھیلیسمیا کی وجہ سے بھی لاحق ہو سکتی ہے۔
ایک اور اہم وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ وٹامن ڈی، جسم میں کیلشیئم کے جذب ہونے کے لئے ضروری ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی ان سرد ممالک میں زیادہ ہوتی جہاں دھوپ کم نکلتی ہے اسکے علاوہ اگر نظام انہضام میں خرابی ہو تو اسکا مناسب انجذاب نہیں ہو پاتا۔

No comments:

Post a Comment