Monday, 12 September 2011

مجھے انتظار ہے موت کا ::::رانا راشد

یہ جو لہو لہو میں ہے لکھی ہوئی
یہ ہے داستاں میرے پیار کی
مجھے انتظار ہے موت کا
اب میں اور جی کہ کیا کروں

میرے ہمسفر میرے ہم روا

ہمیں سازشوں نے رلا دیا
ہمیں فاصلوں نے جدا کیا
میں بول نا پاوں تو کیا
میں لب تو اب ہیں سلےہویے
مجھے انتظار ہے موت کا
اب میں اور جی کے کیا کروں

میں نے جو کہا تو نے سب سنا

اور سن کے اس کو بھلا دیا
میں نے جو لکھا اپنے خون سے
تو نے اک ہنسی میں اڑا دیا
میں جو چل پڑا گرم ریت پر
میرا دل جلا میرا غم بڑھا
تو نے اس کو جانا میری خطاء
مجھے اپنی نظر سے گرا دیا
مجھے انتظار ہے موت کا
اب میں اور جی کے کیا کروں

یہ جو شہر ہے، ویران سا

یہ شہر ہے، بیابان سا
اک دل ہےجو ٹوٹا ہے یہاں ،
اسے ایسا اس نے بنا دیا

جب بھی چاہا تجھے بھولنا

میری سوچ نے تیری یاد کو
اک کرب بھر ی آگ کو
میرے ٹوٹے ویران دل میں
کچھ اور بھی بڑھادیا
میں نے جب بھی خود کو سوال کیا
مجھے کچھ نا اس جواب ملا
میرے اندر ہے ایسی وحشت بھری
مجھے جس نے روز رلا دیا
ہوا کیسا عجیب شوق تھا
تجھے مجھ سے جس نے ملا دیا
مجھے انتظار ہے موت کا
اب میں اور جی کے کیا کروں

No comments:

Post a Comment