Tuesday, 20 September 2011

|||||شب بھر میں شہر برف نے ویران کر دیا|||||

سو کر اٹھے پرندوں کو حیران کر دیا
شب بھر میں شہر برف نے ویران کر دیا

اک ننھا پنچھی ، ’’پتوں‘‘ کے وعدے پہ رک گیا!
ٹھنڈی ہوا نے پیڑ ہی سنسان کر دیا

محشر سی سرد رات میں ، گھر کی تلاش نے
نازک ترین تتلی کو ہلکان کر دیا

خدمت میں اس کی عمر گزاری ، نصیب نے
برفانی شخص کا مجھے مہمان کر دیا

دل کا شجر بہار کی ’’قم‘‘ کا تھا منتظر
اس نے مری بہار کو بے جان کر دیا

شاخوں کی چیخ ، سرد ہوا نے نہ جب سنی
اس نے تب اک درخت کو انسان کر دیا

اس کو دلیل مل گئی سجدے کی بات کی
میں نے کسی فرشتے پہ احسان کر دیا!

ننھے جزیروں سے ملے ، خط اشک شوئی کے
مجھ کو مرے عروج نے حیران کر دیا

احسان زندگی کا اٹھاؤں کہ چھوڑ دوں!
زخمِ جگر نے فیصلہ آسان کر دیا

طوفانِ درد ، دل میں سلا ہی چکے تھے قیس
موسم نے پھر سے رونے کا سامان کر دیا

No comments:

Post a Comment