Sunday 25 March 2012

کپاس کا پھول ..:::دن رات بلاگ:::..منتخب تحریر

 احمد ندیم قاسمی کا بہترین افسانہ 
کپاس کا پھول
مصنف : احمد ندیم قاسمی

     مائی تاجو ہر رات ایک دو گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ دی۔      پو پُھٹے جب وہ کھاٹ پر سے اتر کر پانی پینے کے لیے گھڑے کی طرف جانے لگی تو دوسرے ہی قدم پر اسے چکر آگیا اور وہ گِر پڑی۔ گِرتے ہوئے اس کا سر کھاٹ کے پائے سے ٹکرا گیا تھا اور وہ بیہوش ہوگئی تھی۔
یہ بڑا عجیب منظر تھا۔ رات کے اندھیرے میں صبح ہولے ہولے گُھل رہی تھی۔ چڑیاں ایک دوسرے کو رات کے خواب سنانے لگی تھیں۔ بعض پرندے پر ہلائے بغیر فضا میں یوں تیر رہے تھے جیسے مصنوعی ہیں اور کوک ختم ہوگئی تو گِر پڑیں گے۔ ہوا بہت نرم تھی اور اس میں ہلکی ہلکی لطیف سی خنکی تھی۔ مسجد میں وارث علی اذان دے رہا تھا۔ یہ وہی سُریلی اذان تھی جس کے بارے میں ایک سکھ سمگلر نے یہ کہ کر پورے گاؤں کو ہنسا دیا تھا کہ اگر میں نے وارث علی کی تین چار اذانیں اور سُن لیں تو واہگرو کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میرے مسلمان ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اذان کی آواز میں گھروں میں گھمر گھمر چلتی ہوئی متھانیاں روک لی گئی تھیں۔ چاروں طرف صرف اذان حکمران تھی اور اس ماحول میں مائی تاجو اپنی کھاٹ کے پاس ڈھیر پڑی تھی۔ اس کی کنپٹی کے پاس اس کے سفید بال اپنے ہی خون سے لال ہو رہے تھے۔
مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ مائی تاجو کو تو جیسے بےہوش ہونے کی عادت تھی۔ ہر آٹھویں دسویں روز وہ صبح کو کھاٹ سے اُٹھتے ہو بےہوش ہوجاتی تھی۔ ایک بار تو وہ صبح سے دوپہر تک بےہوش پڑی تھی اور چند چونٹیاں بھی اسے مُردہ سمجھ کر اس پر چڑھ آئیں تھیں اور اس کی جُھریوں میں بھٹکنے لگی تھیں۔ تب پڑوس سے چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں پنجوں کے بل کھڑی ہو کر دیوار پر سے جھانکی تھی اور پوچھا تھا “ مائی آج لسّی نہیں لو گی کیا؟“ پھر اس کی نظر بے ہوش مائی پر پڑی اور اس کی چیخ سن کر اس کا باپ اور بھائی دیوار پھاند کر آئے تھے اور مائی کے چہرے پر پانی کے چھٹے مار مار کر اور اس کے منہ میں شکر ڈال ڈال کر خاصی دیر کے بعد اسے ہوش میں لائے تھے۔
حکیم منوّر علی کی تشخیص یہ تھی کہ مائی خالی پیٹ سوتی ہے۔ اس دن سے راحتاں کا معمول ہوگیا تھا کہ وہ شام کو ایک روٹی پر دال ترکاری رکھ کر لاتی اور جب تک مائی کھانے سے فارغ نہ ہوجاتی وہیں بیٹھی مائی کی باتیں سُنتی رہتی۔ ایک دن مائی نے کہا تھا۔ “ میں تو ہر وقت تیار رہتی ہوں بیٹی کہ جانے کب اُوپر سے بُلاوا آجائے۔ جس دن میں صبح کو تمھارے گھر لسّی لینے نہ آئی تو سمجھ لینا میں چلی گئی۔ تب تم آنا اور اُدھر وہ چارپائی تلے صندوق رکھا ہے نا، اس میں میرا کفن نکال لینا۔ کبھی دِکھاؤں گی تمھیں۔ وارث علی سے کہہ کر مولوی عبدالمجید سے اس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت بھی لکھوا لیا ہے۔ ڈرتی ہوں کہ بار بار نکالوں گی تو کہیں خاکِ پاک جھڑ  نا جائے۔ بس یوں سمجھ لو کے یہ وہ لٹھا ہے جس سے بعض شہزادیاں بُرقعہ سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے خاص پھولوں کی روئی سے تیار ہوتا ہے یہ کپڑا۔ ٹین کے پترے کی طرح کھڑ کھڑ بولتا ہے۔ چکّی پیس پیس کر کمایا ہے۔ میں لوگوں کو عمر بھر آٹا دیتی رہی ہوں اور ان سے کفن لیتی رہی ہوں۔ کیوں بیٹی یہ کوئی گھاٹے کا سودا تھا؟ نہیں تھا نا؟ میں ڈرتی تھی کے کہیں کھدّر کا کفن پہن کر جاؤں تو لوگ جنت میں بھی مجھ سے چکی نا پسوانے لگیں۔ پھر اپنے پوپلے منہ سے مسکرا کر اس نے پوچھا تھا۔ “ تمھیں دیکھاؤں؟“۔
 ۔“ نا مائی“۔ راحتاں نے ڈر کر کہا تھا۔“ خاکِ پاک جھڑ گئی تو؟“۔ پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی “ ابھی تو تم بیس سال کی اور جیوگی۔ تمھارے ماتھے پر تو پانچ لکیریں ہیں پانچ پیسیاں ہو!“۔
 مائی کا ہاتھ فوراً اپنے ماتھے کی طرف اُٹھ گیا۔ “ ہائے پانچ کہاں ہیں۔ کُل چار ہیں پانچویں تو یہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ توچھری کی نوک سے ذرا دونوں کو ملاوے تو شاید ذرا سا اور جی لوں۔ تیرے گھر کی لسّی تھوڑی سی اور پی لوں“۔ مائی کے پوپلے منہ پر ایک بار پھر گول سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
اس پر راحتاں نے زور سے ہنس کے آس پاس پھیلی ہوئی کفن اور کافور کی بُو سے پیچھا چُھڑانے کی کوشش کی مگر کفن اور جنازے سے مفر نہ تھا۔ یہی تو مائی کے محبوب موضوع تھے۔ ویسے راحتاں کو مائی تاجو سے اُنس ہی اس لیے تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے مرنے کی ہی باتیں کرتی تھی جیسے مرنا ہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہو اور جب مذاق میں ایک بار راحتاں نے مائی سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اسے یہی کفن پہنا کر اپنے باپ کی منت کرے گی کہ مائی کا بڑا ہی شاندار جنازہ نکالا جائے تو مائی اتنی خوش ہوئی تھی کہ جیسے اُسے نئی زندگی مل گئی ہے۔ راحتاں سوچتی تھی کہ یہ کیسی بدنصیب ہے جس کا پوری دُنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے اور جب مری تو کسی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں ٹپکے گا۔ بعض موتی کتنی آباد اور بعض کتنی ویران ہوتے ہیں۔ خود راحتاں کا ننھا بھائی کنویں میں گِر کر مر گیا تھا تو کیا شاندار ماتم ہوا تھا ! کئی دن تک بین ہوتے رہے تھے۔ اور گھر سے باہر چوپال پر دور دور سے فاتحۃ خوانی کے لیے آنے والوں کے ٹھٹ لگے رہے تھے اور پھر انہی دنوں کریمے نائی کا بچہ نمونئے سے مرا تو بس اتنا ہوا کہ اس روز کریمے کے گھر کا چولھا ٹھنڈا رہا۔ ااور تیسرے ہی روز وہ چوپال پر بیٹھا چودھری فتح دین کا خط بنا رہا تھا۔ موت میں ایسا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ مر کر تو سب برابر ہوجاتے ہیں۔ سب مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ امیروں کے دفن کے لیے مٹی ولایت سے تو نہیں منگائی جاتی سب کے لیے یہی پاکستان کی مٹی ہوتی ہے۔
 ۔ “ کیوں مائی “۔ ایک دن راحتاں نے پوچھا۔ “ کیا اس دُنیا میں سچ مچ تمھارا کوئی نہیں؟“۔
   ۔ “ واہ، کیوں نہیں ہے !“۔ مائی مسکرائی۔
 ۔ “ اچھا!“۔ راحتاں کو بڑی حیرت ہوئی۔
 ۔ “ ہاں ایک ہے “۔ مائی بولی۔
راحتاں کو بڑی خوشی ہوئی کے مائی نے اسے ایک ایسا راز بتا دیا ہے جس کا گاؤں کے بڑے بوڑھوں تک کو علم نہیں۔ “ کہاں رہتا ہے وہ؟“۔ اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔
 ۔ “ وہ؟“۔ مائی مسکرائی جا رہی تھی۔ “ وہ یہاں بھی رہتا ہے وہاں بھی رہتا ہے۔ دُنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ نہ رہتا ہو۔ وہ بارڈر کے اُدھر بھی رہتا ہے بارڈر کے ادھر بھی رہتا ہے۔ وہ تو“۔
راحتاں نے بیقرار ہو کر مائی کی بات کاٹی۔ “ ہائے ایسا کون ہے وہ؟“۔
اور مائی نے اُسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔ “ خُدا ہے بیٹی، اور کون ہے!“۔
 راحتاں کو اس کے باپ کے ذریعے پتا چلا تھا کہ آج سے کوئی آدھی صدی ادھر کی بات ہے۔ گاؤں کا ایک خوبصورت پٹواری مائی تاجو کو یہاں لے آیا تھا۔ کہتے ہیں کے مائی تاجو اُن دنوں اتنی خوبصورت تھی کہ اگر وہ بادشاہوں کا زمانہ ہوتا تو مائی ملکہ ہوتی۔ اس کے حسن کا چرچا پھیلا تو اس گاؤں سے نکل کر پٹواری کے آبائی گاؤں تک جا پہنچا۔ جہاں سے اس کی پہلی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں آ دھمکی۔ پٹواری نے مائی تاجو کو دھوکہ دیا تھا کہ وہ کنوارہ ہے۔ تاجو نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف رو پیٹ کر اور نہر میں کود جانے کی دھمکی دے کر شادی کی تھی۔ اُوپر سے جب پہلی بیوی نے جب اپنا سینہ دو ہتڑوں سے پیٹنا شروع کیا اور پر دوہتڑ پر تاجو کو ایک گندی بساندی گالی تھما دی تو تاجو چکناچور ہو کر یہاں سے بھاگی اور اپنے گاؤں میں جا کر دم لیا۔ ماں نے تو اُسے لپٹا لیا مگر باپ آیا تو اسے بازو سے پکڑ کر باہر صحن میں لے گیا، اور بولا۔ “ چاہے پٹواری کی تین بیویاں اور ہوں، تمھیں اس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔ تم نے اپنی پرضی کی شادی کی ہے ہمارے لیے یہی بےعزتی بہت ہے۔ اب یہاں بیٹھنا ہے تو طلاق لے کر آؤ ورنہ وہیں رہو چاہے نوکرانی بن کر رہو۔ ہمارے لیے تو تم اسی دن مر گئی تھیں جب تم نے پوری برادری کی عورتوں کے سامنے چھوکروں کی طرح اکڑ کر کہہ دیا تھا کہ شادی کروں گی تو پٹواری سے کروں گی ورنہ کنواری مروں گی۔ جاؤ ہم یہی سمجھیں گے کے ہمارے ہاں کوئی اولاد ہی نہیں تھی“۔      اس کی ماں روتی پیٹتی رہی مگر باپ نے ایک نہ مانی اور جب تاجو آدھی رات کو واپس اس گاؤں میں‌پہنچ کر اس پٹواری کے دروازے پر آئی تو اس میں تالا پڑا ہوا تھا۔ رات وہیں دروازے سے لگی بیٹھی رہی۔ صبح لوگوں نے دیکھا تو پنچایت نے فیصلہ کیا کہ تاجو پٹواری کی باقاعدہ منکوحہ ہے اس لیے اس کا پٹواری کے گھر پر حق ہے اور اس لیے تالا توڑ دو۔
 گاؤں والوں نے چند روز تک تو پٹواری کا انتظار کیا مگر اس کی جگہ ایک نیا پٹواری آنکلا۔ معلوم ہوا کہ اس نے کسی اور گاؤں میں تبادلہ کرا لیا ہے۔ گاؤں کے دو آدمی اسے ڈھونڈنے نکلے۔ اور جب وہ مل گیا تو پٹواری نے انھیں بتایا کہ اس نے ان کے گاؤں کا رخ کیا تو اس کی پہلی بیوی کے چھ بھائی اسے قتل کر دیں گے۔ “ میں نے یہ بات اپنی پہلی بیوی کو بھی نہیں بتائی کہ میں تمھارے گاؤں کے جس مکان میں رہتا تھا وہ میں نے خرید لیا تھا اور وہ میری ملکیت ہے، یہ مکان میں اپنی دوسری بیوی تاجو کے نام لکھے دیتا ہوں۔ میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔ مجھے اس سے محبت ہے“۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگا تھا۔
  سو گاؤں والوں کی مہربانی سے پٹواری نے اسے طلاق کے بدلے مکان دے دیا۔ اور یہ بھی صبر شکر کر کے بیٹھ گئی کیونکہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا۔ یہ بچہ جب پیدا ہوا تو اس کا نام اس نے حسن دین رکھا۔ محنت مزدوری کے کے سے پالتی پوستی رہی، مڈل تک پڑھایا بھی مگر اس کے بعد ہمت نہ رہی۔ تاجو کے حُسن کی وجہ سے اس پر ترس تو سب کو آتا تھا مگر پٹواری سے جُدا ہونے کے بعد وہ اپنی جوانی پر سانپ بن کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بھلے آدمی نے حسن دین کو اعٰلی تعلیم دلانے کا لالچ دے کر تاجو سے عقد کرنے کا خواہش ظاہر کی تو تاجو نے اس کی سات پشتوں کو توم ڈالا اور حسن دین کلہاڑی لے کر اس خُدا ترس کے پیچھے پڑ گیا۔ اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ حسن دین برگِ آوارہ پھرتا رہا۔ پھر جب اس کے عشق کرنے کا زمانہ آیا تو فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کے بعد مائی تاجو کے چند برس اچھے گزرے۔ حسن دین حوالداری تک پہنچا۔ اس کے رشتے کی بھی بات ہوگئی مگر پھر دوسرے بڑی جنگ چھڑگئی، اور حسن دین اوہر بن غازی میں مارا گیا۔ تب مائی تاجو نے چکی پیسنی شروع کی۔ اور اس وقت تک پیستی رہی جب وہ ایک دن چکی کے پاٹ پر سر رکھے بےہوش پائی گئی۔ اس روز جب وہ ہوش میں آئی تھی تو حکیم کے ہاتھ کو چکی کی ہتھی سمجھ کر گھُما دیا تھا۔
 اگر اس کے پڑوس میں چودھری فتح دین کی بیٹی راحتاں نہ ہوتی تو وہ اپنی بار بار کی بےہوشیوں سے کسی بےہوشی کے دوران کوچ کر جاتی۔ وہ راحتاں سے کہا کرتی تھی کہ۔ “ بیٹی اگر میرا حسن دین ہوتا تو میں تجھے تیری شادی پر سونے کا ست لڑا ہار دیتی۔ اسے خدا نے اپنے پاس بُلا لیا سو اب میں ہر وقت تیرے لیے دُعا کرتی ہوں کے تو جُگ جُگ جئیے اور شادی کے بعد بھی اسی طرح سُکھہ رہے جیسے اپنے باپ کے گھر سُکھی ہے“۔
     ایک رات مائی تاجو کو اس بات کا غصہ تھا کہ جب اندھیری رات تک راحتاں اس کی روزانہ کی روٹی نہ لائی تو وہ خود ہی لاٹھی ٹیکتی فتح دین کے گھر چلی گئی۔ فتح دین کی بیوی سے راحتاں کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کی شادی میں‌گئی ہے اور آدھی رات تک واپس آئے گی۔ پھر اس نے روٹی مانگی تو راستاں کی ماں نے بس اتنا کہا۔ “ دیتی ہوں۔ پہلے گھر والے تو کھا لیں“۔  راحتاں کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو فتح دین کے گھر والوں میں شامل سمجھتی تھی۔ اس لیے ضبط نہ کر سکی۔ بولی۔ “ تو بی بی، کیا میں بھکارن ہوں؟“۔
   سونے کی بالیوں سے بھرے ہوئے کانوں والی بی بی کو بھی مائی تاجو کسی مسکین عورت کے منہ سے یہ بات سن کر تکلیف ہوئی۔ اس نے کہا۔ “ نہیں مائی، بھکارن کو خیر نہیں ہو، مگر محتاج تو ہو نہ“۔
اور مائی کو کپکپی سی چھوٹ گئی۔ وہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔ اب دوبارہ راحتاں کی ماں نے اسے پکارہ بھی مگر اس کے کانوں میں تو شاں شاں ہو رہی تھی۔ گھر آکر آنگن میں‌پڑی کھاٹ کر گِر پڑی اور اپنی موت کو یوں پکارتی رہی جیسے وہ دیوار سے ادھر بیٹھی ہوئی اس کی باتیں سن رہی ہو۔
آدھی رات کو جب چاند زرد پڑ گیا تھا۔ دیوار پر سے راحتاں نے اسے پکارا۔
 ۔ “ مائی جاگ رہی ہو؟“۔
۔ “ میں سوتی کب ہوں بیٹی“۔ اس نے کہا۔
 ۔ “ ادھر آکر روٹی لو دیوار پر سے“۔ راحتاں بولی۔
 ۔ “ نہیں بیٹی راحتاں۔ نہیں لوں گی“۔ اس کی آواز بھر آنے لگی۔ “ آدمی زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے نہ۔ تو میں کب تک زندہ رہوں گی۔ جبکہ میں جدھر جاتی ہوں میری قبر میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میں کیوں تمھارا اناج ضائع کروں بیٹی“۔
  راحتاں دیوار کے پاس کچھ دیر خاموش کھڑی رہی۔ پھر پنجوں کے بل کھڑی ہوکر بڑی منت سے کہا۔ “ لے لو مائی، میرا خاطر سے لے لو“۔
 ۔ “ نہیں بیٹی“۔ مائی تاجو کھل کر رو رہی تھی۔ “ لے لیتی پر آج تمھاری ماں نے مجھے بتایا ہے کہ میں محتاج ہوں اور چکی پیس پیس کر جو میرے ہاتھوں پر جو گٹے پڑ گئے ہیں وہ مجھے کچھ اور بتاتے ہیں۔ سو بیٹی یہ روٹی میں نہیں لوں گی۔ اب کبھی نہیں لوں گی۔ تمھاری لائی ہوئی کل شام والی روٹی میری آخری روٹی تھی۔ یہ روٹی اپنے کتے کے آگے ڈال دو“۔
اس کے بعد اس نے سنا کہ راحتاں اور اس کی ماں کے درمیان کچھ تیز تیز باتیں ہوئیں۔ پھر راحتاں رونے لگی اور اس کی ماں اسے ڈانٹنے لگی۔ اس کے بعد فتح دین کی آواز آئی۔
 ۔ “ سونے دو گی یا میں چوپال پر جا کر پڑ رہوں؟“۔
پھر جب سب خاموش ہوگئے تو مائی تاجو اٹھ بیٹھی۔ اسے لگا کے راحتاں اپنے بستر پر پڑی آنسو بہا رہی ہے وہ دیوار تک گئی بھی مگر پھر فتح دین کے ڈر سے پلٹ آئی۔ گھڑے میں سے پانی پیا اور دیر تک ایلومینیم کا کٹورا اپنے چہرے پر پھیرتی رہی۔ آج وہ کتنی تپ رہی تھی اور یہ پیالہ کتنا ٹھنڈا تھا۔ اب گرمیاں ختم سمجھو۔ اسے اپنے لحاف کا خیال آیا۔ جس کی روٹی لکڑی کی طرح سخت ہوگئی تھی۔ اب کے اسے دھنکواؤں گی۔ پر اللہ کرے دھنکوانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اللہ کرے اب کے لحاف کی بجائے میں کفن اوڑھوں ۔۔۔۔ !!!      وہ گھڑے کے پاس سے اٹھ کر چارپائی تک آگئی۔ کچھ دیر تک پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔ پھر اسے ایک لمبی سانس سنائی دی۔ یہ راحتاں کی سانس ہوگی۔ہائے خدا کرے وہ سدا سُکھی رہے۔ اسی پیاری بچی اس نک چڑھی کے ہاں کیسے پیدا ہوگئی! اسے تو میرے ہاں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ اسے اپنا حسن دین یاد آگیا اور وہ رونے لگی۔ پھر آنسو پونچھ کر لیٹی تو آسمان سے ستارے جیسے نیچے لٹک آئے اور ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ہلنے لگے۔ فتح دین کا کتا غرا کر ایک بلی پر جھپٹا اور بلی دیوار پر سے پھاند کر اس کے سامنے سے گولی کی طرح نکل گئی۔کسی گھر میں مرغے نے بانگ دی اور پھر بانگوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔
 یکایک سب مرغے ایک دم یوں خاموش ہوگئے، جیسے ان کے گلی ایک ساتھ گھونٹ دئیے گئے ہیں۔ پورے گاؤں کے کتے بھونکنے لگے۔ پھر مشرق کی طرف سے ایسی آوازیں آئیں جیسے قریب قریب ہر رات آتی ہیں۔ بارڈر پر رینجرز سمگلروں کے تعاقب میں ہوں گے۔ پھر اس پر غنودگی سی چھانے لگی اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پھر ایک دم کھول دیں۔ بڑی آئی وہاں سے مجھے محتاج کہنے والی! چکی پیستے پیستے ہاتھوں کی جلد ہڈی بن گئی ہے اور مجھے محتاج کہتی ہے! قیامت کے دن شور مچا دوں گی کی اسے پکڑو اس نے مجھ پر بہتان باندھا ہے۔ مگر وہاں کہیں یہ میری راحتاں بیچ میں نہ بول پڑے۔
  اٹھ کر اس نے پانی پیا اور واپس جا کر چارپائی پر پڑگئی۔ پھر جب پو پھٹی تو اس کا حلق اس کے جوتے کے چمڑے کی طرح خشک ہو رہا تھا۔ وہ پھر پانی پینے کے لیے اٹھی لیکن دوسرے ہی قدم پر چکرا کر گِر پڑی۔ سر گھاٹ کے پائے سے ٹکرایا اور بے ہوش ہوگئی۔      جب مائی تاجو ہوش میں آئی تو اسے پہلا احساس یہ ہوا کہ نماز قضا ہوگئی ہے۔ پھر ایک دم وہ بڑبڑا کر اٹھی اور دیوار کی طرف بھاگی۔ ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں اور عورتیں چیخ رہی تھیں اور بچے بلبلا رہے تھے اور دھوپ میں جیسے سوراخ ہوگئے ہوں جن میں سے دھواں داخل ہورہا تھا۔ دور سے گڑگڑاہٹ اور دھماکوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں اور گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے گزر رہے تھے۔
  “ راحتاں !۔۔۔ اے بیٹی راحتاں !!“۔ وہ پکاری۔
 راحتاں اندر کوٹھے سے نکلی۔ اس کا سنہرا رنگ مٹی ہورہا تھا اور اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس کی آواز میں چیخیں اور آنسو اور کپکپی اور ناجانے کیا کچھ تھا۔ “ جلدی سے نکل آؤ مائی، گاؤں‌میں سے نکل جاؤ، لاہور کی طرف بھاگو۔ ہم بھی لاہور جا رہے ہیں۔ تم بھی لاہور چلو۔ ہندوستان کی فوج آگئی ہے“۔ یہ کہہ کر وہ پھر اندر بھاگ گئی۔
 ۔ “ ہندوستان کی فوج آگئی۔ یہاں ہمارے گاؤں میں کیوں آگئی؟ بارڈر تو تین میل ادھر ہے۔۔۔ !! “۔
  ۔ “ یہ فوج یہاں کیوں آئی ہے بیٹی؟“۔ مائی حیران ہو کر پکاری۔ “ کہیں غلطی سے تو نہیں آگئی! بھائی فتح دین کہاں ہیں؟ اسے بھیجونا وہ انہیں سمجھائے کے یہ پاکستان ہے“۔
   مگر راحتاں کا کوئی جواب نہ آیا۔ شور بڑھ رہا تھا۔ مشرق کی طرف کوئی گھر جلنے بھی لگا تھا۔ چند گولیاں اس کے کوٹھے کی دیوار کے اوپر والے حصے پر تڑاخ تڑاخ سے لگیں اور مٹی کی لپائی کے بڑے بڑے ٹکڑے زمین پر آرہے۔ چند گولیاں ہوا کو چیر دینے والی سیٹیاں بجاتی چھت پر سے گزر گئیں۔  فتح دین کے صحن کی ٹاہلی پر سے پاگلوں کی طرح اُڑتا ہوا ایک کوا اچانک ہوا میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا آیا اور مائی تاجو کے گھڑے کے پاس پتھر کی طرح گر پڑا۔
 پھر زور کا ایک دھماکا ہوا اور مائی جو دیوار سے ہٹ آئی تھی، پھر دیوار کی طرف بڑھی۔ ایک دم چودھری فتح دین کے دروازے کو کسی نے کوٹ ڈالا۔ پھر کواڑ دھڑام سے گرے۔ اکٹھی بہت سی گولیاں چلیں اکٹھی سب سے چیخیں بلند ہوئیں۔ ماں نے ان میں سے راحتاں کی چیخ کو صاف پہچان لیا۔ “ راحتاں بیٹی!“۔ وہ چلائی لاٹھی ٹیکتی ہوئی لپکی اور اپنے دروازے کی کنڈی کھول کر باہر گلی میں آگئی۔      گلی میں شہاب دین، نور اللہ، محمد بشیر، حیدر خان اور جانے کس کس کی لاشیں پڑی تھیں۔ چودھری فتح دین کے گرے ہوئے دروازے کے پاس مولوی عبدالمجید مردہ پڑے تھے۔ ان کا آدھا چہرا اُڑ گیا تھا۔ مائی نے مولوی صاحب کو ان کی نورانی داڑھی سے پہچانا۔      چودھری فتح دین کے صحن میں خود فتح دین اور اس کے بیٹے مرے پڑے تھے۔ فتح دین کی بیوی کی بالیوں بھر کان غائب تھے۔ اندر کوٹھیوں میں اٹھا پٹخ مچی ہوئی تھی اور باہر راحتاں بہت سے فوجیوں میں گری اپنی عمر سے چودہ پندرہ سال چھوٹے بچوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ پھر ایک سپاہی نے اس کے گریباں میں ہاتھ ڈال کر جھٹکا دیا تو کُرتا پھٹ گیا اور وہ ننگی ہوگئی۔ فوراَ ہی ہو گھٹھری سی بن کر بیٹھ گئی۔ مگر پھر ایک سپاہی نے اس کے کرتے کا باقی حصہ بھی نوچ لیا اور قہقہے لگاتا ہوا اس سے اپنے جوتے پونچھنے لگا۔ پھر مائی تاجو آئی، راحتاں پر گر پڑی، اسے آسماں کی طرح ڈھانپ لیا اور ایک عجیب سی آواز میں، جو اس کی اپنی نہ تھی بولی۔ “ اللہ تیرا پردہ رکھے بیٹی، اللہ تیری حیا قائم رکھے“۔
  ایک سپاہی کے مائی کا سفید چونڈا پکڑ کر اسے راحتاں پر سے کھینچنا چاہا تو خون سے اس کا ہاتھ بھیگ گیا اور مائی وہیں راحتاں کو ڈھانپے ہوئے بولی۔ “ یہ لڑکی تم میں سے کسی کی بہن بیٹی ہوتی تو کیا تم جب بھی اس کے ساتھ یہی کرتے؟ یہ لڑکی تو ۔۔۔۔“۔
  کسی نے یہ کہہ کر مائی تاجو کی پسلیوں میں زور دار ٹھوکر مار دی کہ۔ “ ہٹو یہاں سے، ہمیں دیر ہو رہی ہے اور ابھی دوپہر تک ہمیں لاہور بھی پہنچنا ہے“۔۔۔۔ اور مائی یوں ایک طرف لڑک گئی جیسے چھیتھروں سے بنی ہوئی گُڑیا تھی۔ پھر سب کے ہاتھ راحتاں کی طرف بڑھے۔ جو اب چیخ نہیں رہی تھی۔ اب وہ ننگی کھڑی تھی اور یوں کھڑی تھی جیسے کپڑے پہنے کھڑی ہو۔ اس کا رنگ مائی تاجو کے کفن کے لٹھے سا ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں اتنی پھیل گئی تھیں معلوم ہوتا تھا جیسے ان میں پتلیاں کبھی تھیں ہی نہیں۔
  مائی تاجو ہوش میں آئی تو اس نے دیکھا اس کے پاس وارث علی مؤذن کھڑا ہے پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ لاشوں کے چہرے ڈھبنے ہوئے تھے۔ “ راحتاں کہاں ہے؟“۔ وہ یون چیخ کر بولی جیسے اس کے جسم کی دھجیاں اُڑ گئی ہیں۔ وارث علی سر جھکائے ایک طرف جانے لگا۔ “ میرے راحتاں بیٹی کہاں ہے؟“۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور وارث علی کی طرف یون قدم اٹھایا جیسے اسے قتل کرنے چلی ہے۔ “ کہاں ہے وہ؟“۔
 وارث علی کے پاس وہ جیسے سُن ہوکر رہ گئی۔ وارث علی کا چہرہ لہولہان ہو رہا تھا، اور اس کے ایک بازو پر سے اس کا گوشت ایک طرف کٹ کر لٹک رہا تھا۔ وہ بولا تو مائی تاجو نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ بھی کٹے ہوئے ہیں اور اس کے منہ میں بھی خون ہے۔    ۔ “ کسی کو کچھ پاتا نہیں مائی کے کون کہاں گیا۔ بس اب تو یہاں سے چلی جا۔ ہندوستانی فوج یہاں سے آگے نکل گئی ہے اور گاؤں کے گرد ان کے آدمی گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ تم کماد کے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی لاہور کی طرف پہنچ سکتی ہے تو چلی جا۔ وہاں مرے گی تو کوئی تیرا جنازہ تو پڑے گا۔ اب جا مجھے کام کرنے دے“۔
 ۔ “ دیکھ بیٹا“۔ مائی بولی۔ “ میں پانی لاتی ہوں تو ذرا کلی کر لے۔ تو موذن ہے اور منہ میں اتنا بہت سا خون لیے کھڑا ہے! خون تو حرام ہوتا ہے بیٹا“۔
۔ “ میں سب کر لوں گا“۔ وارث علی چلایا۔ مگر پھر ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے بولا۔ “ خدا کے لیے مائی، اب چلی جا یہاں سے۔ میں نے اتنے بہت سے لوگ مرتے دیکھے ہیں کی اب تو مرے گی تو میں سمجھوں گا کہ پوری دُنیا مر گئی۔ چلی جا خدا کے لیے“۔    ۔ “ پہلے بتا میری راحتاں بیٹی کدھر گئی؟“۔ مائی نے ضد کی۔
  وارث علی نے پوچھا۔ “ تجھے یاد ہے نہ اسے ننگا کر دیا گیا تھا؟“۔
  ۔ “ ہاں“۔ مائی نے سر ہلایا۔ اور اس کے ایک خون آلود لٹ رسی کی طرح اس کے منہ کر لٹک آئی۔
 ۔ “ تو پھر تو یہ کیوں پوچھتی ہے کہ وہ کدھر گئی“۔
 اور مائی نے اپنے منہ پر ایک زور کا دوہتڑا مرا جیسے چودھری فتح دین کا دروازہ ٹوٹا ہے۔ وہ دھب سے بیٹھ کر اونچی آواز میں رونے لگی۔
 وارث علی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ “ کسی نے سن لیا تو آجائے گا“۔ وہ بولا۔ پھر اسے بڑی مشکل سے کھینچ کر اٹھایا۔ “ تو میری حالت دیکھ رہی ہے مائی صرف اپنے خدا کی قدرت اور اپنے ایمان کی وجہ سے زندہ ہوں ورنہ میرے اندر کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ میں گلیوں میں سے لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک گھڑے میں جما کر رہا ہوں۔ ابھی مجھے فتح دین اور لال دین اور نورالدین اور ماسی جنت کی لاشیں وہاں پہنچانی ہیں، پھر میں ان پر مٹی ڈال کر ان کا جنازہ پڑھوں گا۔ اور مر جاؤنگا۔ مائی بے جنازہ نہ مر۔ لاہور چلی جا۔ ہندوستانی فوج ادھر سے گئی ہے تو ادھر سے کھیتوں میں چھپتی چھپاتی نکل جا۔ میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ دیکھ تو میرے تو جوتے بھی خون سے بھر گئے ہیں“۔
 ٹوٹے ہوئے دروازے پر سے گزرتے ہوئے وہ رُک گئی۔ “ وارث بیٹے “۔ وہ بولی۔ “ لاہور تو چلا جا۔ جنازہ میں پڑھ دوں گی میں بچ گئی تو یونہی کسی کو روز ایک روٹی حرام کرنی پڑے گی۔ تو مر گیا تو تیرے ساتھ تیری اذان بھی مر جائے گی۔“
 ۔ “ نہیں مائی“۔ وارث علی جلدی سے بولا۔ “ اذان بھی کبھی مری ہے خدا کے لیے تو اب چلی جا“۔
 گلی میں قدم رکھتے ہوئے اس نے پلٹ کر پوچھا۔ “ تیرا کیا خیال ہے بیٹا، راحتاں کو انہوں نے مار تو نہیں ڈالا ہوگا؟“۔      وارث علی نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی اور چودھری فتح دین کی لاش پر جھک گیا۔
 مائی تاجو گلی میں سے گزر رہی تھی اس نے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھام رکھی تھی۔ دوسرا ہاتھ پیٹھ پر تھا، اور وہ یوں جھک جھک کر چل رہی تھی جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے نکلی ہے۔
   مائی تاجو گاؤں کی آخری گلی میں سے نکل کر  کھیت میں‌قدم رکھنے لگی تھی کہ جیسے پر طرف گولیاں چلنے لگیں اور وہ ایک کھالے میں لڑھک کر لیٹ گئی۔ ہائے کہیں وہ وارث علی کو نہ مار رہے ہوں ! مگر کیا ایک آدمی کو مارنے کے لیے اتنی بہت سی گولیوں کی ضرورت ہوتی ہے! کھالے میں سے اس نے کھیت کے کئی گنے گولیوں کی زد میں ٹوٹتے ہوئے دیکھے۔ اس نے یہاں تک دیکھا کی جہاں سے گنا ٹوٹتا ہے وہاں سے رس کی ایک دھار نکل کر جڑ کی طرف بہنے لگتی ہے۔۔۔ اور اسے راحتاں یاد آگئی اور وہ کھالے میں سے اٹھ کھڑی ہوئی، ایک گولا اس کے سر کے پاس سے گزر کر پیچھے ایک درخت کے تنے میں جا لگا، اور پورا درخت جیسے جھرجھری لے کر رہ گیا۔ وہ پھر کھالے میں لیٹ گئی اور اسے ایسا لگا کہ وہ مرگئی ہے اور قبر میں پڑی ہے۔ تب اسے اپنا کفن یاد آیا۔ اور وہ اتنی تیزی سے کھالے میں سے نکل کر گلی میں داخل ہوئی جیسے اس کے اندر ایک مشین چلنے لگی ہے۔ اسے پہلی بار یاد آیا کی وہ تو خالی ہاتھ لاہور جا رہی تھی۔ وہ تو اپنی کمائی گھر پر ہی بھول آئی تھی۔ اس کا کفن تو وہیں بکسے میں رکھا رہ گیا تھا۔ زندگی میں‌اتنی محبت بھی کیا کہ انسان اسے بچانے کے لیے بھاگے تو اپنا کفن ہی بھول جائے۔ اور یہ کفن اس نے اتنی مشقت سے تیار کیا تھا۔ اور اس پر کتنے چاؤ سے کلمہِ شہادت لکھوایا تھا خاکِ پاک سے اچھے کفن اور اچھے جنازے ہی کے لیے تو وہ اب تک زندہ تھی۔
   اب وہ اتنی تیزی سے چل رہی تھی کہ جوانی میں بھی یوں نہیں چلی ہوگی۔ اس کے قد کا خم بھی ایک دم ٹھیک ہوگیا تھا اور لاٹھی کو ٹیکنے کی بجائے اسے تلوار کی طرح اٹھا رکھا تھا۔راحتاں کے گھر کے سامنے سے بھی وہ آگے نکلی چلی گئی۔ مگر پھر جیسے اس کے قدم جکڑے گئے۔پلٹی۔ ٹوٹے ہوئےدروازے میں سے جھانکا۔ وارث علی سب لاشیں سمیٹ لے گیا تھا۔ صرف راحتاں کے کُرتے کی ایک دھجی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پورے صحن میں یہاں سے وہاں ایک بےچین روح کی طرح بھٹکتی پھرتی تھی۔
 مائی تاجو کا جی چاہا کہ دوہتڑ مار کر اپنا سینے ادھیڑ دے۔ مگر ساتھ ہی اسے وارث علی یاد آیا۔ جس نے کہا تھا ۔۔۔ فوراً اسے اپنا کفن یاد آیا۔اس کے کوٹھے کا دروازہ کھلا تھا۔ گھڑے کے پاس کوا اسی طرح پڑا تھا۔ اس کا کھٹولا اسی طرح بچھا تھا۔ اندر اس کا بکس کھلا پڑا تھا مگر اس میں کفن موجود تھا، کیسی منہ کی کھائی ہوگی انہوں نے جب بکسا کھولا ہوگا اور اس میں سے صرف کفن نکلا ہوگا۔
مائی کفن کو سر کی چادر میں چھپا کر باہر آئی تو فتح دین کا کتا بھاگتا ہوا آیا۔ اور اس کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہنس نہیں سکتا ورنہ خوب خوب ہنستا۔
 ۔ “ چل ہٹ“۔ مائی نے اسے ڈانٹا۔ “ میرے نمازی کپڑے پلید نہ کر“۔      کتا اٹھ کھڑا ہوا۔
  مائی نے دوسری گلی میں پڑتے ہوئی پلٹ کر دیکھا تو کتا وہیں کھڑا تھا۔اور اسی طرح کھڑا تھا جیسے لکڑی کا بن کر رہ گیا۔ “پچ پچ“۔ مائی نے کتے کو اپنی طرف بلانا چاہا۔ مگر وہ پلٹا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک دیوار کے سائے میں ایک دم یوں بیٹھ گیا جیسے گِر پڑا ہے۔ “ ہائے بیچارہ“۔ مائی کا احساسِ جرم پکارا۔
 مگر پھر فضا میں اوپر ایک دو دھماکے ہوئے کہ مائی تاجو کو زمین اپنے قدموں تلے ٹکڑے ٹکڑے ہوتی محسوس ہوئی۔ تیزی سے چلتی وہ پھر کھالے میں جاگِری۔ اب زمین ہِل رہی تھی۔ فضا میں جیسے بہت سارے شیر دھاڑے جا رہے تھے اور دھماکوں اور گولیوں اور گڑگڑاہٹوں کا شور قریب آتا جا رہا تھا۔ اب وہ کفن کو اپنے سینے سے چمٹائے کھالے میں رینگنے لگی۔ پرسوں پہلے وہ چراغوں کا میلہ دیکھنے کے لیے وہ گاؤں کی دوسری عورتوں کے ساتھ اسی کھالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی لاہور چھاؤنی میں‌جا نکلی تھی۔ اور وہاں کیسا غضب ہوا تھا۔ بےچاری شہابی ایک ٹانگے کے پہیہ تلے آکر وہیں شالامار کے دروازے پر ہی مر گئی تھی۔۔۔ تو کیا راحتاں مر گئی ہوگی۔ کیا راحتاں مرنے کے لائق تھی؟ لا بیٹی۔ میں تیرے ہاتھ کی روٹی واپس نہیں کروں گی۔ روٹھ مت مجھ سے راحتاں۔۔ اے راحتاں بیٹی!!!      اس نے سنا کی وہ اونچی اونچی بول رہی ہے۔۔۔ مگر اتنے شور میں اس کی آواز کون سنے گا۔۔۔ راحتاں۔۔۔اے میری اچھی، میری نیک، میری خوبصورت راحتاں!
 ہائے یہ کپاس بھی عجیب پودا ہے۔ اس کے پھول کا رنگ کیسا الگ ہوتا ہے دوسرے پھولوں سے۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!      کھالے سے کپاس کے کھیت میں اور وہاں سے وہ گنے کے کھیت میں گھس گئی۔ دھماکے اتنے تیز ہو رہے تھے جیسے اس کے اندر ہورہے ہیں کہتے ہیں کے گولا لگے تو انسان گولے کی طرح پھٹ جاتا ہے۔ کون چُنتا پھرے کا میری ہڈیاں اور پھر میرا کفن جس پر خاکِ پاک سے کلمہِ شہادت لکھا ہے۔
  کتنا گھنا ہے گنے کا یہ کھیت! یہ چودھری فتح دین کا کھیت ہے۔ راحتاں اسی کھیت کے گنے چوس چوس کر کہتی تھی مائی مجھے بڑھاپے سے صرف اس لیے ڈر لگتا ہے کہ منہ پوپلا ہوجاتا ہے اور گنا نہیں چوسا جا سکتا۔      مائی تاجو مسکرائی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ راحتاں بیٹی ۔۔۔۔ اے میری راحتاں بیٹی ۔۔۔!
  ۔ “ مائی “۔ آواز جیسے پاتال سے آئی تھی۔      انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ چاہے زمین اور آسمان بج رہے ہوں مگر اس کے کان بجنے سے باز نہیں آتے۔    ۔ “ مائی “۔      ہائے یہ آواز تو جیسے میری پسلی سے آئی ہے۔
 وہ کفن کو سینے سے چمٹا کر دھک گئی۔ اس کی انگلیوں نے محسوس کیا کہ اس کا دل اس کے سینے سے نکل کر کفن میں آگیا ہے اور یوں دھڑک رہا ہے جیسے توپیں چل رہی ہیں۔
 ۔ “ مائی “۔ اس کے سر پر کوئی بولا۔
   پھر وہ دیکھتی رہ گئی۔ کفن اس کی گرفت سے نکل کر گِر گیا اور وہ دیکھتی چلی گئی۔
  ۔ “ مائی“۔ راحتاں کہہ رہی تھی۔ “ تم تو میری طرف بس دیکھتی ہی جا رہی ہو۔ دیکھتی نہیں ہو میں ننگی ہوں مجھے کچھ دو“۔
  مائی نے زور زور سے ہنستے ہوئے اور زور زور سے روتے ہوئی راحتاں کو یوں گود میں کھینچ لیا۔ جیسے ننھے سے حسن دین کو دودھ پلانے چلی ہے۔
 اب دھماکے جیسے کھیتوں کی چاروں منڈیروں پر ہورہے تھے۔ مگر مائی اس سے بےنیاز راحتاں کا ماتھا چومے جا رہی تھی۔ “ ہائے تو زندہ ہے میری بیٹی۔ جبھی میں کہوں کہ میں مرتی کیوں نہیں ہوں۔ ہائے اب تو کبھی نہ مروں۔ ہائے مجھے یہ اپنا کفن کیسا فالتو فالتو سا لگنے لگا ہے“۔
 ۔ “ کفن؟“۔ راحتاں تڑپ کر مائی کی گود سے نکلی۔ کفن اٹھا کر اسے جلدی سے کھولا، اور اپنے پورے جسم پر لپیٹ کر یوں مسکرائی جیسے وہ دیوار پر سے مائی کو روٹی تھمانے آئی ہے۔
 اور مائی نے دیکھا کہ راحتاں اس کے کفن میں بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔
  ۔ “ ہائے میری بیٹی، اللہ تیرا پردہ رکھے۔ اللہ تیری حیا قائم رکھے میری بیٹی“۔
  پھر راحتاں نے مائی کو بتایا کہ جب وہ اسے لے جارہے تھے تو اوپر سے پاکستان کے ہوائی جہاز آئے اور وہ لوگ ادھر اُدھر کھالوں اور گڑھوں میں جا دبکے ۔۔۔۔۔، “ اور میں بھاگ آئی۔ مجھے پتا تھا کہ میرے وطن کے جہاز مجھے پہچانتے ہیں، اور وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ تم میں گاؤں پار کر کے یہاں آگئی اور جب سے یہیں بیٹھی ہوں اور جب سے میں یہاں اکر بیٹھی ہوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میری مائی مجھے پکار رہی ہے ۔۔۔۔۔“۔
  ۔ “ راحتاں ۔۔۔ اے راحتاں بیٹی!“۔      کفن پر جگہ جگہ دھبے نمایاں ہونے لگے تھے۔ نوچی کھسوٹی ہوئی راحتاں کا جسم اپنا کرب کفن کو منتقل کر رہا تھا، اور خاکِ پاک نے اس خون کے لیے جگہ خالی کر دی تھی۔
   اور لاہور کے کہیں آس پاس مائی نے کہا۔ “ راحتاں بیٹی تو کتنی سچی ہے۔ تو نے میرا شاندار جنازہ نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔ تو نے یہ وعدہ سچ مچ پورا کیا۔ تو میرے کفن میں کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ میری اچھی۔ میری نیک، میری خوبصورت راحتاں“۔

3 comments:

  1. محترم اچھا کاپی پیسٹ کیا ہے :) ۔۔

    ReplyDelete
  2. سر بہت خوبصورت تحریر اور آپ کی چوائیس کا جواب نہیں۔
    سر جی کاپی پیسٹ کیا تھا کیوں کہ ایک اچھی بات اور تحریر جیسے آپ کے توسط سے مجھ تک آئی ہے اسی طرح میرے توسط سے دوسروں تک پہنچ جائے، آپ کے بلاگ کا ریفرنس ہیڈر میں دیا تھا لیکن جگہ کم ہونے کی وجہ سے پورا نظر نہیں آیا۔ میں نے ترمیم کر کے لکھا ہے اور ٹائٹل پر آپ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ امید ہے آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی۔ میں کوئی رائٹر تو ہوں نہیں بلاگ لکھتا ہوں لیکن آپ جیسے اہل ادب کے بلاگز سے یا ویب سائیٹ سے مدد لے کر۔ ہر بار ریفرنس ضرور دیتا ہوں،
    پھر بھی اگر آپ صرف اس کو اپنے بلاگ کی زینت بنانا چاہتے ہیں تو میں پوسٹ ڈیلیٹ کر دیتا ہوں کوئی مسئلہ نہیں۔ مہربانی کر کے اگر اپنا ای میل ایڈریس دے دیں تو بلاگ بلاگ کمنٹس دینے سے بہتر ہے کہ ہم ای میل پر رابطہ کر لیں۔

    ReplyDelete
  3. اچھی بات ہے ۔۔ غلط فہمی دور ہوگئی۔ شکریہ ۔۔

    ReplyDelete