Friday, 15 August 2025

زبانیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں

کاپی شدہ فیس بک: 

Tariq Mughal

 *بشیرا مراثی اور  معاشرتی المیہ*

کہتے ہیں کے بشیرا نام کا ایک میراثی اپنے گاؤں اور میراثی فیملی کو چھوڑ کے شہر آ گیا ۔ کام پیدائش سے ایک ہی کرتا چلا آیا تھا۔ تو شہر میں بھی گلے میں ڈھول ڈالے، رنگین کپڑے پہنے ، لمبے بال دھمال کے انداز میں ہلاتے تابڑ توڑ ڈھول بجاتا پھرتا تھا ۔ جیسا کہ ہر کسی کا ایک دن آتا ہے تو اسے بھی ایک دن کسی میوزک ڈائریکٹر نے اپنے اسٹوڈیو میں بھرتی کر لیا۔ جہاں سے بشیرا ترقی کرتے کرتے پہلے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنا اور پھر اپنا الگ سٹوڈیو بنا کر میوزک ڈائریکٹر “استاد بشیر خاں” کے نام سے شہرت پائی۔


وقت گزرتا گیا۔ استاد بشیر کی دُھنیں عالمی سطح پر مقبول ہوئیں۔ فلموں میں استاد کا نام میوزک کی مد میں شامل ہونا کامیابی کی ضمانت ہوتا ۔ بات نگار ایوارڈ سے تمغۂ حسنِ کارکردگی تک پہنچی ۔ لالی سے بالی اور پھر ہالی تک کا سفر منٹوں میں طے ہوا ۔ آسکر کے لئے نامزدگی ہوئی ۔ امریکہ منتقلی اور پھر مستقل سکونت اختیار کی۔ گوری میم سے شادی ہوئی ۔ ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند آکسفورڈ نے عطا کی ۔ میلوں ، نمائشوں کے فیتے کٹوائے گئے۔ فراری میں ڈرافٹنگ اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے سوئمنگ پول میں ڈبکیاں لگیں ۔ دنیا کے سفر اور پذیرائی ملی ۔ برطانیہ میں مشرق کی آواز ، جاپان میں مہاتما بودھ کا پرتو اور افغانستان میں واجب القتل قرار دیا گیا۔ کیسینو میں لاکھوں کی شرطیں لگیں اور بیگ سے ڈرگز برآمد ہوئی۔ کپڑوں کا ایک انٹرنیشنل برانڈ متعارف کرایا۔ “چودھری بشیر اینڈ سنز” کے نام سے سپر اسٹورز کی ایک چین بھی بنائی۔


پچاس سال گزر گئے ۔ چوہدری بشیر کے گٹھنے سیڑھیاں چڑھتے کٹک کٹک کرنے لگے۔ گوری میم بھی “ٹائی ٹینک” میں “بلیو ہارٹ” سمندر بُرد کرنے والی بُڈھی جیسی ہو گئی۔ اب چوہدری صاحب کو خدا یاد آیا ۔ حج کیا، برف جیسی سفید داڑھی چھوڑی، پانچ وقت نماز شروع کی ۔ وطن واپس آئے، انسانیت کی خدمت کے لئے ٹرسٹ قائم کیا ۔ وعظ و نصیحت کی، رمضان ٹرانسمین میں غریبوں کے گردے کے آپریشن کرانے ۔ اپنے گاؤں میں بقیہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ گاؤں میں حویلی تعمیر کی، کنواں کھدوایا، اسکول بنوایا، اپنے ماں باپ کی قبر پر مقبرہ اور “استاد حاجی رشید خاں مرحوم” اور “حجن بی بی اللّٰہ بچائی خاتون مرحومہ” کا  کتبہ آویزاں کیا ۔ مسجد و مدرسے کی تعمیر کی اور حویلی میں آخری ایام یادِ الٰہی میں گزارنے لگے۔


تو صاحبو! گاؤں میں چوہدری بشیر خاں کی عزت و احترام اور رعب و دبدبے کا یہ عالم کہ جہاں سے وہ کلف لگے سوٹ اور اونچے شملے کی پگڑی میں ملبوس گزرتے، لوگ 'سلام چوہدری صاحب' کہہ کر جھکتے ۔ اہم مسائل کے فیصلے چوہدری صاحب کی حویلی کے صحن میں سنائے جاتے ۔ غریبوں کا علاج ہو کہ  بچیوں کی شادی ، اسکول کی تقسیمِ اسناد ہو یا الیکشن مہم، چوہدری صاحب کی شرکت کے بغیر سب ادھورا تھا ۔


پھر ایک روز چوہدری صاحب کی خوبرو پوتی ان سے ملنے امریکہ سے گاؤں آئی ۔ پہلی بار گاؤں کا ماحول اور کلچر دیکھا، اچھا لگا، چند دن رہنے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں سے باہر کار میں گھومنے نکلی، ایک پراڈو سے گاڑی کا معمولی سا ایکسیڈنٹ ہوا۔ پراڈو سوار سے بحث، تعارف ، دوستی اور پھر محبت ہوئی ۔ بات شادی تک پہنچی ۔ چوہدری صاحب لڑکے کے باپ سے ملے، حسب نسب پوچھا، جواب ملا چوہدری فرزند علی نام ہے ۔ پڑوس کے گاؤں میں جاگیر ہے، پیسے کی ریل پیل ہے، اچھا اور بااثر خاندان ہے ۔ چوہدری صاحب نے فیصلہ بچوں پر چھوڑ دیا ۔ بقیہ خاندان بھی گاؤں آیا ۔ نکاح کی تاریخ طے ہو گئی ۔ حویلی سجا دی گئی۔


شادی کی محفل تھی ۔ بارات پہنچی ۔ پتا چلا کہ لڑکی کے دادا شہر سے آئے ہیں ۔ چوہدری صاحب کی نشست کے برابر میں لڑکی کے دادا براجمان ہوئے ۔ تعارف ہوا، کچھ آنکھیں چار ہوئیں، کچھ یادداشت کھنگالی گئی، آخر کار ایک دوسرے کو پہچان لیا گیا ۔ پرانی شناسائی نکلی ۔ “اوئے بشیرے کنجر! تو کاہے کا چوہدری” سوال ہوا ۔ “اوئے بوٹے مسیح ! مسلی تو کب مسلمان ہوا؟” کا جواب ملا ۔ تلخ کلامی ہوئی  “اوئے لعنتی دی اولاد”اوئے میراثیاں دا ٹولہ” ، “اوئے بلی، کتے کھان والیو” ۔ “اوئے دلیو، شیدے ، ناجیز اولادو”  ، ”اوئے سورا” ۔۔۔ شرکاء حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔ گالیاں ایسی تھیں کہ لوگوں کے وضو ٹوٹ جائیں ۔ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے واپس جا رہے تھے ۔


اونچے شملے تھے، کلف لگے سوٹ تھے، دولت تھی، عزت تھی، سوشل ورک تھا، اعزازی ڈگری تھی ۔۔۔ پر زبان بازاری تھی ۔ ماؤں کے بچے چھوڑ کے آشناؤں کے ساتھ بھاگ جانے کے قصے تھے ۔ ناجائز تعلقات کی داستانیں تھیں ۔ بشیرے میراثی کو چوہدری بشیر خاں بننے میں گو پچاس برس لگے ہوں، واپسی پانچ منٹ میں ہوئی تھی ۔ سب کو سبق مل گیا تھا کہ زمان و مکاں کی تبدیلی ہو یا پوزیشن و لباس کی ۔ اسے ایوان اقتدار پر براجمان کیا جائے یا عطر میں بسا کر منبر و محراب کا ٹھیکہ دار بنا دیا جائے، انسان کی اصل کبھی تبدیل نہیں ہوتی اور منہ کھولتے ہی اوقات کا پتا چل جاتا ہے۔

Monday, 19 February 2024

پرانی یاد 1995


 1995 پرانی یاد


افغانستان واپسی پہ ایک چیک پوسٹ پہ کمانڈر صاب نے بہت اسرار کر کے رات ٹھہرنے کو کہا، دوران قیام کھانے کے بعد خوش گپیوں کے دوران کمانڈر صاب سے پوچھ لیا جناب، کیا وجہ ہے کہ ہر جگہ ہی چیک پوسٹ اور اطراف میں پتھروں اور درختوں کو سفید چونا لگایا جاتا ہے ۔

کمانڈر صاب زور سے ہنسے اور بولے دراصل دوران تربیت یہ خاص سبق ہے جو ہم یاد کرتے ہیں۔۔۔۔


ہر چلتی چیز کو سلوٹ ٹھوکنا ہے 

اور ہر گھڑی چیز کو چونا لگانا ہے 

“آج یاد آیا کہ پاکستان بھی تو ستر سال میں وہیں کا وہیں کھڑا ہے”


Saturday, 23 December 2023

آپ ہمارا فخر تھے:

 آپ ہمارا فخر تھے:

آپ نے بغض عمران خان میں، 


نصاب میں قرآن و سنت کی تعلیم پہ حملہ کیا، 

غریبوں سے انکا کھانا چھینا، 

پناگاہیں چھینیں، 

صحت کارڈ پروگرام کو خراب کیا ، 


آپ نے سیاسی و غیر سیاسی عام عوام کو جھوٹے مقدمات بنا بنا کر ذلیل و خوار کیا ،

 آپ کے ظلم کی وجہ سے لوگوں کے معصوم بے گناہ بچے موت کی آغوش میں چلے گئے ،

آپ نے ذاتی زندگیوں پہ کیچڑ اچھالا ،

 گندی غلیظ ویڈیوز سے لیکر گندی غلیظ کتابیں چھپوا دیں،


جہاں دوسرے ممالک اپنی افرادی قوت کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کرتے ہیں آپ اپنے ملک کے نوجوانوں کو ذلیل ہونے کے لئے  باہر بھیج کر فخر محسوس کر رہے ہیں 


آپ نے آن لائن جلسہ کو ثبوتاژکرنے کے لئے انٹرنیٹ سروس تک بند کر کے دیکھ لیا 

آپ الیکشن کے اہل لوگوں سے کاغذات نامزدگی چھیننا شروع ہو گئے 

دنیا  آپ  پر ہنس رہی ہے ،

آپ اپنے بلوچیوں کو مار رہے ہیں کہ جن کی داد رسی کی ذمہ داری ریاست کی ہے، آپ نے خود کو مقدس گائے کا درجہ دے دیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا۔۔۔۔۔

لیکن آپ  جناب !!! 

آپ ہمیں فخر دلاتے تھے کہ ہم ایٹمی سوپر پاور ہیں، جناب آپ کی پالیسی اور پوزیشن بلکل واضح ہو گئی جس وقت مظلوم فلسطینیوں پہ ظالم اوربربریت کے پہاڑے توڑے جارہے تھے آپ امریکہ میں دورے فرما رہے تھے آپ سے تو ایک بیان بھی نا دیا گیا 

یہاں تک کہ فلسطینی قیادت نے درخواست تک کی تھی کہ پاکستان صرف ان کے حق کے لئے عالمی سطح پہ آواز اٹھائے۔ لیکن آپ نے فراموش کیا سب کچھ!!!!

جناب آپ طاقتور نہیں آپ بزدل اور ڈرے ہوئے ہیں،

 اپنے ہی لوگوں سے اپنی ہے عوام سے جس کے اندھے پیار کا ناجائز فائدہ آپ پچھلے ستر سالوں سے اٹھا رہے تھے۔

آپ نے ہمیں پچھلے بیس سالوں سے کہتے رہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو ففتھ جنریشن وار کے لئے دشمن سے مقابلہ کے لئے تیار رہنا ہے ، اور جب وہی نوجوان آپ سے سوال کرنے لگے تو آپ نے انکو کئی بورڈ 

وارئیر اور غداری کے تمغات سے نوازنا شروع کر دیا۔

بہت کچھ اور بھی ہے کہے کو لیکن !!!!!! آپ کی انا کا مسئلہ جو ہے !!!! 


ازخود راشد: قلم ناتواں  22 Dec 2023

Saturday, 28 October 2023

پاکستانی دولے شاہ دے چوہے

 پاکستانی دولے شاہ دے چوہے


دولے شاہ کے چوہوں بارے کہا جاتا ہے کہ یہ بچے پیدائشی چھوٹے دماغ اور چھوٹے سر کی وجہ سے سائیں ہوتے ہیں اللہ والے ہوتے ہیں اور لوگوں کو اُنکی دعایں لگتی ہیں

حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، 


دولے شاہ کا ایک پورا منظم نیٹ ورک ہے جو باقاعدہ ان بچوں کے سر پہ لوہے کی ٹوپیاں پہنا کر رکھتے ہیں تاکہ جسمانی افزائش کے ساتھ ان کے سر اور دماغ چھوٹے رہیں اور ان کے زریعے سے کاروبار چلتا رہے چاہے مانگنے کا کام ہو یا دم درود کے زریعے لوگوں کو بیوقوف بنا کر پیسے بٹورنے ہوں۔


تو کل ملا کر بات یہئ ہے کہ ہم پاکستانی کسی حد تک دولے شاہ کے وہ چوہے ہیں جن سے دعاووں اور مانگنے کا کام پچھلے لگ بھگ چوہتر سال سے لیا جاتا ہے ، لوہے کی ٹوپیاں نسل در نسل ہمارے سروں پہ پہنا کر ہمارے دماغوں کو محدود کیا گیا ہے : 


جیسے کہ دولے شاہ سرکار موتیاں والے کرامتاں والے!!!!


٭جب چاہیں ہمیں سیلاب میں ڈبو کر ہماری ابتر حالت اقوام عالم کو دکھا کر پیسا وصول کر سکیں 

٭ یا پھر ، ہمیں ڈالرز کے عوض گوانتاموبے بیچ دیں 


٭ یا پھر ہمیں گناہ گار بدکار غدار دھشت گرد ، کچھ بھی ثابت کر کے ہمیں گولیاں مار دیں 


جب کہ اقوام عالم میں ہم بڑے پہنچے ہوئے ہیں کہ جن سے

کشمیر تا فلسطین شجاعت جرآت اور پتا نہیں کس کس ان دیکھی نمبر ون طاقتوں کے معجزوں کی توقع کیے مظلوم لوگ ہیں۔ 


لیکن کیا بتائیں کہ ہم تو

دولے شاہ کے وہ چوہے ہیں جو اپنے لئے کچھ سوچ نہیں سکتے جن کے اپنے دماغ چھوٹے رہ چکے ہیں، کسی کے لئے کیا کریں گے ، ہم خود دولے شاہ سرکار کے مکمل قبضے اور تسلط میں نسلوں سے محکوم ہیں۔


28 October 2023

ازخود : راشد 

قلم ناتواں 

#پاکستان #followers

Thursday, 15 December 2022

Long live Pakistan 🇵🇰 ❤ 🇲🇦 Morocco brotherhood !

Long live Pakistan 🇵🇰 ❤ 🇲🇦 Morocco brotherhood !
https://drive.google.com/uc?export=view&id=1iFNEpysYq4bgxVQAtO-YHqV-GngXwPud
When Morocco was under the French authority and striving for independence, Sultan Muhammad (V) sent Ahmed Balafrej to the United States to address the UN Security Council. However, French delegates refused to let him speak, claiming that Morocco is a French colony.

Pakistan's Foreign Minister Sir Zafaullah Khan immediately opened the Pakistani embassy in the United States at night and offered Bulferg Pakistani nationality. 

He issued him a Pakistani passport, allowing him to address the UN Security Council as a Pakistani citizen in favor of Morocco the following day. 

This encouraged the Moroccan independence movement both globally and at home.

Finally, after Morocco won independence in 1956, he served as Prime Minister of Morocco between May 12, 1958, and December 2, 1958, and he proudly displayed his framed Pakistani passport in his office, telling all guests about the importance the passport played in Morocco's liberation.

Report by Muneeb bin Majeed

Image Source :  https://lnkd.in/dQDKWkFK

Information Sources : 

Tweet by Pakistan Embassy Morocco : https://lnkd.in/dr3KPr7s

Copy of Ahmed Balafrej Passport : https://lnkd.in/d-zZXRrU

Journal Article on Sir Zafarullah and his contributions to Morocco and other countries :
https://lnkd.in/d-rN2q3W

And Ahmed Balfarej wikipedia article : https://lnkd.in/diwgfCap

Monday, 10 January 2022

انڈسٹری 4.0

Copy from Respectable
انڈسٹری 4.0 کا تصور چند برس قبل جرمنی سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری صنعتی دنیا پہ چھا گیا۔ 

اس مضمون میں انڈسٹری 4.0 منزل نہیں پڑاؤ ہے۔ تو بس اتنا سمجھ لیں کہ اس کی جان یا روح آٹومیشن ہے۔ 

خام مال کی پروکیورمنٹ سے لے کر اینڈ یوزر تک اپنی پیداوار پہنچانے تک کے تمام مراحل کو چھوٹے چھوٹے انڈیپنڈنٹ پراسیسز میں کنورٹ کرنا اور ان تمام پراسیسز کو ممکنہ حد تک آٹومیٹ کر دینا۔ 

انڈسٹری 4.0 کی سب سے ایکسائٹنگ بات یہ ہے کہ اس میں آپ کو تمام کی تمام ایمرجنگ ٹیکنالوجیز جن کا آپ ادھر ادھر تذکرہ سنتے پڑھتے رہتے، ایک ساتھ بروئے کار دکھائی دیتی ہیں۔ 

آٹومیشن کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، مشین لرننگ، روبوٹکس، میکاٹرانکس مل کر کام کرتی ہیں، ڈیزائننگ اور ویژولائزیشن کیلئے آگمنٹڈ رئیلٹی اور مکسڈ رئیلٹی استعمال ہوتی ہے۔ ایک ایک مرحلے کے درجنوں یا سینکڑوں پراسیسز کی آٹومیشن کے نتیجے میں جو ماسیو ڈیٹا جنریٹ ہوتا ہے اس کیلئے کلاؤڈ سرورز، اس ڈیٹا کی انٹرپریٹیشن کیلئے ڈیٹا سائنس اور اینالٹکس، سرورز کو زیادہ بوجھ سے بچانے کیلئے ایج کمپیوٹنگ اور ڈیوائسز کو ہر وقت سرور سے پیغام رسانی میں لگے رہنے سے بچانے اور سمارٹ بنانے کیلئے ٹائنی مشین لرننگ۔ 

ان سب کاموں کیلئے آپ کو درکار ہے تیز ترین کنیکٹیویٹی تو اس کیلئے 5G انٹرنیٹ، اور ان سارے پراسیسز سے ملنے والی معلومات کا مستقبل کی پالیسی سازی میں فائدہ اٹھانے کیلئے بزنس انٹیلیجنس، ڈیزائن انٹیلیجنس۔ اب یہ سب کچھ انٹرنیٹ پہ چل رہا تو اسے محفوظ بنانے کیلئے سائبر سکیورٹی۔ اور اس سارے عمل کو پر لگانے کیلئے دو تین سال میں اس مسکچر میں کوانٹم کمپیوٹنگ بھی پوری طرح شامل ہو جائے گی۔ 

غرضیکہ انڈسٹری 4.0 آپ یوں کہہ لیں کہ تمام ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا باہمی اشتراک ہے۔ سوائے ویب تھری یا بلاک چین کے۔ اسی لئے میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ 

یہاں ایک اور پوائنٹ ذہن میں رکھیں کہ انڈسٹری 4.0 میں زراعت بھی شامل ہے۔ ہم لوگ عموماً صنعت اور زراعت کو مختلف بلکہ متضاد سمجھتے ہیں۔ دنیا نے عرصہ ہوا ایسا سمجھنا چھوڑ دیا۔ 

تو اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انڈسٹری 4.0 کے نالائق طالب علموں کو روزانہ کیا کچھ پڑھنے، سننے اور سمجھنے کو ملتا ہوگا۔ دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے اور بندہ باؤلا سا ہو جاتا ہے، یہ سوچ کر کہ اگلے آٹھ دس برسوں میں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ 

خیر، اب دنیا سے واپس مملکت خداداد میں آتے ہیں۔

 ہماری زراعت میں آٹومیشن بمشکل دس فیصد کے قریب ہو گی، زیادہ سے زیادہ۔ 

جو ہماری لیڈنگ انڈسٹریز ہیں۔ ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، آٹو اسمبلنگ، لیدر، سرجیکل اینڈ سپورٹس، شوگر اینڈ فلور انڈسٹری۔ ان میں آٹومیشن تیس سے چالیس فیصد ہے۔ انڈسٹری 4.0 کے نقطہ نظر سے یہ بہت سادہ سی انڈسٹریز ہیں اور ان میں نوے پچانوے فیصد پراسیسز کی آٹومیشن ممکن ہے۔ 

ہم سو فیصد آٹومیشن کی طرف کیوں نہیں جا رہے؟ 

بہت سی وجوہات میں سے یہ دو بڑی وجہ ہیں۔ 

1-   ہمیں لیبر بہت سستی پڑتی ہے۔
2- ہمیں ٹیکنالوجی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ 

لیبر سستی اور ٹیکنالوجی مہنگی ہونے کی وجوہات کو چھوڑتے ہوئے، آپ یوں سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی زراعت اور صنعت میں سٹیٹس کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ 

اس سٹیٹس کو کا فائدہ یہ ہے کہ ہماری ورک فورس کا بڑا حصہ ان سکلڈ یا سیمی سکلڈ ہے۔ اسے ہم نے کسی نہ کسی طرح کام پہ لگایا ہوا ہے۔ 

اس کا نقصان یہ ہے کہ ہم بڑی تیزی سے دنیا سے مقابلہ کرنے کی استعداد کھو رہے ہیں۔ 

آٹومیشن ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ ہمارے انڈسٹریلسٹس زیادہ دیر اس سے دور نہیں رہ پائیں گے۔ مسابقت برقرار رکھنے کے علاوہ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ 

1- لیبر روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ 
2- ٹیکنالوجی دن بدن سستی ہوتی جا رہی ہے۔ 

لیبر مہنگی اور ٹیکنالوجی سستی ہوتے چلے جانے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ فیسبک کے مضمون میں بندہ کیا کچھ گھسیڑے، انہیں بھی جانے دیجئے۔ 

اب آ جائیں آٹو میشن کے ممکنہ نتائج کی جانب۔ 

اگر ہم اپنی زراعت اور صنعت کو کم از کم اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہی بنائے رکھنا ہچاہتے ہیں تو اس کیلئے آٹو میشن ناگزیر ہے۔ 

دوسری طرف آٹومیشن ہماری ورک فورس سے اس کا روزگار چھین لے گی۔ کسی نہ کسی سطح پر یہ پراسیس شروع ہو چکا۔ آنے والے برسوں میں یہ عروج پر پہنچ جائے گا۔ 

سان ٹیاگو اے آئی کے ان ایکسپرٹس میں سے ہیں جنہیں میں فالو کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2025 تک اے آئی دنیا سے 85 ملین یا ساڑھے آٹھ کروڑ نوکریوں کا خاتمہ کر دے گی۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ 2025 تک ہی اے آئی سے ریلیٹڈ 97 ملین یعنی نوکروڑ ستر لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ 

کہنے کا مقصد یہ کہ ٹیکنالوجی جہاں بہت سی فرسودہ اور سادہ نوکریوں کو ختم کرتی جا رہی ہے وہیں نت نئی فیلڈز، نت نئے جہاں، اور نت نئے امکانات کے دروازے بھی کھولتی چلی جا رہی ہے۔ 

گلوبل ویلج میں یہ نئے جہاں، امکان اور مواقع ہر ملک کی یکساں رسائی میں ہیں۔ جو زیادہ فائدہ اٹھا لے۔ 

پاکستان کے پاس بھی بے شمار مواقع ہیں۔ اپنی نئی نسل کو ہم ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ انہیں دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ان کیلئے روزگار کے لامتناہی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ 

لیکن مواقع جتنے بڑے ہیں، ان سے فائدہ اٹھانے کا وقت اتنی ہی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس صرف سات آٹھ برس کی ٹائم ونڈو بچی ہے۔ ان سات آٹھ برسوں میں ہمیں انسان کا بچہ بننے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے کچھ لانگ ٹرم پالیسیاں بنانے اور نوجوانوں کو بہت بڑے پیمانے پر تربیت مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اور یہ ایک آدھ انسٹیٹیوٹ یا ڈیجی سکلز جیسے ایک آدھ آن لائن پلیٹ فارم کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہمیں اپنے پورے تعلیمی ڈھانچے کو استعمال کرنا ہوگا۔   

ہم عربوں کو لعنت ملامت کرتے تھے کہ یہ اپنے وسائل سائنس اور ٹیکنالوجی پہ صرف نہیں کرتے۔ پچھلے دس بارہ برس میں انہوں نے یہ گلہ کافی حد تک دور کر دیا ہے۔ خصوصاً قطر، یو اے ای اور سعودی عرب میں جدید ٹیکنالوجیز کے فروغ اور نئی نسل کو ان سے ہم آہنگ کرنے کے ضمن میں بہت کام ہو رہا ہے۔ 

ترکی، ملائشیا اور بنگلہ دیش غیرعرب مسلم ممالک میں ٹیکنالوجی کو ایڈاپٹ کرنے والے نمایاں ملک ہیں۔ 

بھارت میں سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کروڑوں بچوں کی تعلیم کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے سال ڈیڑھ سال کی محنت اور مائکروسافٹ کے تعاون سے بچوں کیلئے مشین لرننگ کا سلیبس تیار کیا ہے۔ 

یہ چھٹی سے بارہویں جماعت کے طالب علموں کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اور یہ بتدریج آسان سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو بچہ پانچ سال اسے پڑھ کر نکلے وہ مشین لرننگ کے میدان میں انٹری لیول کی جاب حاصل کرنے کے قابل ہو۔

اسے بچوں پر جبری مسلط کرنے کی بجائے اس کی ویب سائٹ بنا دی گئی ہے۔ جس پر بھارت کے کسی بھی سکول کا طالب علم نام، رول نمبر، کلاس اور سکول کے نام سے خود کو رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ پچھلے سال جب اسے لانچ کیا گیا تو میں نے پڑھا تھا کہ پندرہ لاکھ بچوں نے داخلہ لے لیا۔ 

آپ تصور کر لیں کہ پانچ سال بعد انڈیا کا سکول سسٹم ہر سال پندرہ بیس لاکھ بچے ایسے نکال رہا ہوگا جو اس وقت کے سب سے ان ڈیمانڈ پروفیشن میں فوری جاب حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ 

کیا ہم اس وقت بھی بچے کو بارہ پڑھا کر سر جوڑ کر سوچ رہے ہوں گے کہ اب اسے کہاں داخل کروایا جائے؟ 

مطلب اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں کہ ہمارا سب سے بڑا صوبہ ستر ہزار عربی اساتذہ بھرتی کرنے کے چکر میں ہے تاکہ پیدائشی مسلمانوں کو مزید مسلمان بنایا جا سکے۔ اس سے کیا ہوگا؟ 

اور اگر یہی کرنا ہے تو ستر ہزار بندے  بھرتی کرنے کی بجائے ستر لاکھ لگا کر ایک اچھی سی ویب سائٹ بنا دیں جس پر پاکستان کے بہترین عربی دان قرآن فہمی اور عربی کی تعلیم دیں۔ سکول کے بچوں کیلئے یہ لازمی اور مفت کر دیں۔ باقی جو چاہے ایک مناسب فیس دے کر اس سے استفادہ کر سکے۔ ہم بڈھے طوطے بھی ہو سکتا ہے عربی سیکھ لیں۔ حکومت ہر ماہ کروڑوں تنخواہ پر خرچ کرنے کی بجائے لاکھوں کمانے لگ جائے۔

مطلب ایک بیکار کام ہی کرنا ہے تو وہ بھی ڈھنگ سے کیا جا سکتا ہے۔ 

لیکن یہ ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی پہ توجہ دیں تو ہم پہ احسان ہوگا۔ 

ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ اگلے پانچ برس میں ہم نے پچاس لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو ان ایمرجنگ ٹیکنالوجیز میں ہنرمند بنانا ہے۔ اس میں ترجیح دیہی اور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو دینی ہے۔ 

حکومت نیت کرے، وسائل اور راہیں خود کھلتی چلی جائیں گی۔

Monday, 15 November 2021

جنات اور سائنسی

ایک گروپ سے کاپی شدہ۔
#copiedpost 
(جنات کا سائنسی تجزیہ ایک سائنسدان کے قلم سے۔۔۔۔ بہت دلچسپ۔۔۔ضرور پڑھیں )
‏جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ، وہ آگ سے پیدا کیے گئے ، ان میں شیاطین و نیک صفت بھی موجود ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔ یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔ کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ 
لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں
‏جو (electromagnetic spectrum) بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔ جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔ میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ 
اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔ اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔ اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔
‏روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-vision جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔
کائینات میں پائی جانی والی تمام ‏چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ‏ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔ 
ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔ جانور ، سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ رنگ ‏مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔ امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔ جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔ درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں ‏دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔
‏ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔
‏جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔ پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ اور دوسری چیز fovea جو‏انتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن‏ گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ 
البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے‏ جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہے اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔ اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ‏ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔ ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے اور یہی وہ فریکوئینسی ہے جس میں انسان کا اپنے ذہن👇👇👇👇
 پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔ اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہے جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔‏اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔ 
سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی‏ اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔ اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔ پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ، صرف 2 سال‏بعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔
جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں‏ حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔ ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ 
انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسے‏جسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔ 
اگر آپ پہلی ڈائیمینش‏میں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔ 
اگر آپ دوسری ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔
تیسری ڈائیمینشن میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔‏اگر آپ کسی طرح سے چوتھی ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔ 
پانچویں ڈائیمینشن میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔
چھٹی ڈائیمینشن میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کے‏قابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔
ساتویں ڈائیمینشن آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا
آٹھویں ڈائیمینشن آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں‏ میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔
نویں ڈائیمینشن ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو ۔
اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔۔۔ اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ‏ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔
اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔۔۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نے‏دیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔ اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔
بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہے جس کی‏ بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ، یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہے‏کہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔ یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ، یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیا‏تھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ، یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ، یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔
 ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ، لیکن جس چیز نے ذاتی طور پر‏پر میرے دل کو چھوا وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔
الحمد للہ رب العالمین ۔
 تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔
تحریر : فرقان قریشی
https://www.facebook.com/profile.php?id=100072240336342