Tuesday 3 February 2015

اخلاق کی فتح۔ منتخب تحریر

جالندهر کے خیر المدارس میں جلسہ ہوا اور جلسے کے اختتام پر کهانا لگا، دستر خوان پر امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاه بخاری رحمہ اللہ بهی تهے، انکی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی تو اسکو فرمایا:
" بهائی کهانا کها لو"
عیسائی نے جواب دیا:
"جی میں تو بهنگی ہوں"
شاه جی نے درد بهرے لہجے میں فرمایا:
"انسان تو ہو اور بهوک تو لگتی ہے"
یہ کہہ کر اٹهے اور اور اسکے ہاتھ دهلا کر اپنے ساتھ بٹها لیا .... وہ بیچارہ تهر تهر کانپتا تها اور کہتا جاتا تها:
"جی میں تو بهنگی ہوں"
شاہ صاحب نے خود لقمہ بنا کر اسکے منہ میں ڈالا، اسکا حجاب اور خوف کچھ دور ہوا تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا جب اس نے آدها آلو کاٹ لیا تو باقی آدها شاه صاحب نے خود کها لیا، اسی طرح اس نے پانی پیا تو اسکا بچایا ہوا پانی بهی شاه صاحب نے پی لیا.... وقت گذر گیا اور وہ عیسائی کهانا کها کر غائب ہو گیا.. اس پر رقت طاری تهی، وہ خوب رویا اور اسکی کیفیت ہی بدل گئی....
عصر کے وقت وہ عیسائی اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آیا اور کہا:
" شاہ جی ! جو محبت کی آگ لگائی ہے وہ بجهائیں بهی آپ، اللہ کے لیے ہمیں کلمه پڑها کر مسلمان کر لیں"
اورمیاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے..
وه ادائے دلبری ہو یا نوائے عاشقانہ !!!
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
(بخاری کی باتیں، ص 29.30 )

No comments:

Post a Comment