Thursday 6 March 2014

مــــــــاں دا لاڈلــــــــــــــــــــــــــــہ

دوپہر کا وقت اور تقریبا دو بجے کے بعد روزانہ ہی میں کھانا کھانے کمپنی کے مہیا کردہ میس میں جاتا ہوں۔ جہاں پر کھانا کھاتے وقت ہم لوگ روزانہ ناک بھنویں چڑھاتے ہیں کہ آج کھانا کیسا ہے، روزانہ ایک جیسا کھا کھا کر تنگ آ جاتے ہیں
 
بچھلے کئی دن سے یہ ہوتا ہے کہ ہماری کپمنی میں تعمیراتی کام کے لیئے کچھ لوگ کسی باہر کی کپمنی سے آئے ہوئے ہیں جن میں پاکستانی، انڈین، بنگلا دیشی سب شامل ہیں۔ جیسے ہی وقت تین بجے کا ہوتا ہے تو ان کے کچھ لوگ  کوئی لگ بھگ چار لوگ ہاتھوں میں لفافہ تھامے میس کی کھڑکی کے قریب تپتی دھوپ میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آج بھی ایسا ہی ہوا، لیکن میس میں کوئی نا تھا تومیں نے کھڑکی کھولی اور سامنے کھڑے بزرگ کو بتایا کہ اندر کوئی نہیں ہے اگر آپ آکر کھانا لینا چاہیں تو لے لیں۔ لیکن وہ تھوڑا سا جھجھکتے ہوئے بولے نہیں میں اندر نہیں آوں گا مجھے اندر آنے کی اجازت نہیں۔ خیر ہے وہ بندہ آ جائے گا تو خود ہی دے دے گا۔
 
ان کی جھجھک اور بے بسی نے مجھے ایک لمحہ میں دور پاکستان کے ایک گاوں میں لاکھڑا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر تھا
 
 
 
ایک اچھے گھر کا کھلا سا صحن جس میں گھر کی مالکن اپنے نونہال اپنے لاڈلے اپنے پیارے کو گود میں لئے پیار سے بہلا رہی ہے ہاتھ میں ایک روایتی کٹورا پکڑا ہوا ہے جس میں سے سوندھی سوندھی دیسی گھی کی کٹی ہوئی چوری کی خوشبو آ رہی تھی۔
 
وہ بار بار اپنے لاڈلے کو پیارسے چوری کھلانے کی کوشش کرتی لیکن وہ ہر بار نخرے کرتا ، تھوڑی کھاتا اور پھر منہ بند کر لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں لاڈ سے سے پھر اسکے منہ میں تھوڑی سی چوری ڈال دیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پھر وقت گزرتا گیا ماں باپ خوشحال دیہاتی تھے اور اپنے بچے کو پڑھانا چاہتے تھے، سو انہوں نے اس کو پہلے سکول میں داخل کرایا، جہاں وہ شان بان سے آتا جاتا، گو کہ سکول اتنا دور نا تھا لیکن پھر بھی ایک شاندار تانگہ اسکو چھوڑ کر آتا اور لے کر بھی آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سکول سے نکل کر اس کو بہت شوق ہوا کہ وہ کوئی مہارت والی پڑھائی پڑھے گا، وقت نے اس کو شہر کی جانب دھکیلا اور وہ وہاں پر آ کر ڈپلومہ کرنے لگا، اور اپنی زہانت کی بنا پر ایک اچھا ہونہار طالب علم ثابت ہوا۔ اسی دوران شہر کی ہوا اور دوستوں کے ساتھ گھومتے گھومتے اس کو جانے کیا سوجھی کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ ڈپلومہ ملتے ہی وہ بیرونے ملک جائے گا اور وہاں کام کر کے انجینئر بن جائے گا۔ پھر بہت سارے پیسے اکھٹے کرئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی دھن میں اس نے پلٹ کر نا باپ کو دیکھا ناماں کی یاد ستائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر کے برگر نے ماں کے لاڈلے کو ماں کی چوری سے دور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
والدین نے بہت سمجھایا کہ پڑھ لکھ کرادھر ہی کچھ کرلو لیکن اس کے دماغ پر ایک ہی دھن سوار تھی باہر جانا ہے اور پھر وہا ں کام کر کے ایک بہت بڑا آدمی بننا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے باپ نے اپنی زمین کا کچھ حصہ بیچ کر اس کے لیئے ویزہ کا بندوبست کیا ساتھ ہی ساتھ اس کو کچھ پیسے دیئے اور آنکھوں میں پیار ، محبت کے آنسو بھرئے اپنے لال کو بیرونے ملک بھیج دیا۔
 
گو کہ کپمنی اچھی تھی لیکن موسم بہت ظالم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جو کانٹریکٹ ہوا اس کے مطابق وہ دوسال سے پہلے چھٹی نہیں جا سکتا،اور اگر جائے گا تو بغیر تنخواہ کے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا ٹکٹ لیکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنخواہ ملی تو پتا چلا کہ انجئنئیر بننے کے خواب دیکھنے والا ایک الیکٹریشن کے ویزہ پر تھا اور کام بھی وہی کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پہلے چند ماہ اچھے گزرئے اسکو لگا کہ وہ اپنا مقصد پورا کر لے گا لیکن پھر ایک دن گھر سے اطلاع آئی کہ اس کا باپ بہت بیمار پڑ گیا ہے صرف اس کو پریشانی سے بچانے کی خاطر انہوں نے نہیں بتایا تھا ، ابھی زندگی تو بچ گئی لیکن وہ زمین کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا، سو زمین کو ٹھیکہ پر دے دیا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے گھر کا گزارہ اچھا ہو رہا ہے اور باپ کے علاج کا خرچ بھی نکل رہا ہے۔ کچھ مدت بعد اس کی ماں کا پیغام ملا کہ بیٹا تیری بڑی بہن کی شادی کرنی ہے اگر تم کچھ روپے بھیج دو ورنہ زمین بیچنی پڑے گی اور پھر اس کے بعد کفالت کا کوئی زریعہ نا رہے گا۔
اس نے جو بچائے تھے گھر بھیج دئے کہ چلوپھر دیکھتے ہیں جمع ہو جائیں گے۔
کچھ وقت کے بعد اس کے چھوٹے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، برادری نے موقع پر بہت مدد کی لیکن بعد میں سارے پیسے اس کو ادا کرنے پڑئے۔
 
یونہی کرتے کرتے زندگی کے کئی سال گزر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بار چھٹی گیا تو اس کو یاد آیا کہ انجئینر پورے پانچ سال زندگی کے پردیس کاٹ آیا ہے، والد کے انتقال کے بعد ماں نے اس کی شادی کے لیئے بہت زور دے کر اس کو بلایا تھا۔
 
شادی کے بعد کچھ عرصہ رہا، لیکن اب نا تو زمین اتنی تھی اور نا ہی اس کو کچھ کرنے کی سمجھ آ رہی تھی سو دوبارہ اسی  کمپنی میں واپس آگیا۔
 
اور پھر آج زندگی کے بیس سال گزر گئے تھے، آج وہ کپمنی کے کام کے سلسلے میں ایک اور کپمنی الیکٹریشن بن کر مزدوری کر رہا تھا اورکیوں کہ ان کی کپمنی دوپہر کا کھانا نہیں دیتی تھی تو وہ پیسے بچانے اور بھوک سے بچنے کی خاطر اس کپمنی کے میس کے باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ کب سب لوگ کھا کر جائیں اور پھر وہ اپنے اوراپنے ساتھیوں کی خاطر کھانا لفافوں میں بھر کر لے جائے۔
 
آخر کچھ تو بچت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میری آنکھیں اس ماں کے لاڈلے کو پردیس میں دیکھ کر اشک بار تھیں۔
 
ماں دا لاڈلہ دور کہیں دور کسی گردوغبار میں گم ہو چکا تھا۔
 

3 comments:

  1. بہت سی ایسی تحریریں پڑھی ہیں مگر آپ کی ذاتی زندگی کی اس تحریر پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اللہ آپ کو استقامت بخشے اور ہر امتحان میں کامیاب و کامران کرے۔۔آمین

    ReplyDelete
  2. hahahhahahahahahahahhhahhahahahahahahahahahhahaha

    ReplyDelete
  3. @mahmood......hahahahahaha

    ReplyDelete