Sunday 17 November 2013

’’حملہ ہو چکا ہے‘‘

یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے ۔میں انگریزی ادب میں آنرز کر رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسرجمیل واسطی مرحوم تھے، جو پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر حیدرآباد آئے تھے۔ ہماری کلاس میں تقریباً بیس سٹوڈنٹ تھے۔ان میں چھ کے قریب طالبات تھیں۔ اس زمانہ میں طالبات انگریزی ادب فیشن کے طور پر پڑھا کرتی تھیں۔ ہماری کلاس نے پکنک کاایک پروگرام بنایا، لیکن اس پراختلاف ہوگیا کہ لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے پکنک منانے جائیں یا الگ الگ؟ یہ معاملہ پروفیسر جمیل واسطی کے علم میں آیاتو انہوں نے رائے دی کہ الگ الگ پکنک کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ "مگریہاں تومخلوط تعلیم ہے۔ واسطی صاحب!" ایک لڑکی نے اٹھ کراحتجاج بھری آواز میں کہا۔ "میں نے کب کہا کہ میں مخلوط تعلیم کاحامی ہوں؟" واسطی مرحوم بولے۔ "سر! یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے۔" وہ بولی۔ واسطی صاحب نے گھوم کرلڑکی کی طرف دیکھا جو ایک معروف، متمول اور فیشن ایبل خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔پھرانہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا: غلام اکبر! تمہاری جیب میں ایک چونّی ہوگی؟ اس عجیب وغریب سوال پر میں چ...ونک پڑا اورجلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ واسطی صاحب فوراً ہی بولے: دروازے سے باہر جا کر چونی کاریڈار میں رکھ دو۔ پوری کلاس حیرت زدہ تھی۔ میں بھی حیران ہوکر دروازے کی طرف مڑا تو واسطی صاحب بولے: سمجھ لوکہ تم چونّی کلاس کے باہر رکھ چکے ہو،اب بیٹھ جاؤ۔ پھر واسطی صاحب اس لڑکی کی طرف مڑے اور بولے: جب ہم کلاس ختم کر کے باہر نکلیں گے تو کیا وہ چونی وہاں موجود ہو گی؟ لڑکی بدحواس سی ہو گئی۔ پھرسنبھل کر بولی: ہوسکتاہے کہ اگر کسی کی نظرپڑے تواٹھا لے۔ اس جواب پرواسطی صاحب مسکرائے اورسب سے مخاطب ہوکر بولے :دیکھ لیں کہ جن لوگوں پرایک چونّی کے معاملے پربھروسہ نہیں کیا جا سکتا، وہ لڑکیوں کے معاملے میں کس قدرشریف ہیں؟ حالانکہ چونّی بچاری تولپ سٹک بھی نہیں لگاتی!! واسطی صاحب کی اس بات پرپوری کلاس کو سانپ سا سونگھ گیا۔ میں آج تک وہ بات نہیں بھولا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دقیانوسی سوچ رکھتاہوں یا واسطی صاحب بہت زیادہ قدامت پسند سوچ کے حامل تھے۔ لیکن کیا اس بات میں کچھ سچ ایسے نہیں چھپے ہوئے جن کاتعلق براہ راست انسان کی فطرت اوران جبلتوں سے ہے جنہیں سدھایا اور سدھارا نہ جائے توان کی رو میں تہذیب وتمدن کے تمام تقاضے بہہ جایا کرتے ہیں؟
روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگارجناب غلام اکبرصاحب کا کالم’’حملہ ہو چکا ہے‘‘ ******************************************

2 comments:

  1. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  2. ادبی ترقی سے ذہنی انقلاب آتا ہے .لیکن کیا ہم ادب کو جدید سے جدید تر اسلوب کے ساتھ تخلیق کر سکتے ہیں ؟

    ReplyDelete