Friday 23 November 2012

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ

 
 
 
بارہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا، آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے والے نے شفقت سے پوچھا:

" میرے پیارے بیٹے! ایسے وقت میں تم یہاں کیسے؟"

بچے نے جواب دیا : " آپ کی تلاش میں۔"
...

اس بچے کا نام زبیر تھا۔ باپ کا نام عوام اور ماں کا نام صفیہ رضی اللہ عنھا تھا۔ یہ بچہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کا پھوپی زاد بھائی تھا۔

قصہ یہ پیش آیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں افواہ پھیلی کہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کو کفار نے پہاڑوں میں پکڑلیا ہے۔ مکہ میں دشمن تو بہت زیادہ تھے، اس لیے ایسا ہوبھی سکتا تھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر بارہ سال تھی فوراً تلوار اٹھائی اور اکیلے ہی آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آخر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم مل گئے۔ پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس حالت میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا:

" اگر واقعی مجھے پکڑ لیا گیا ہوتا تو پھر تم کیا کرتے۔"

اس بارہ سالہ بچے نے جواب دیا:

" میں مکّہ میں اتنے قتل کرتا کہ ان کے خون کی ندیاں بہادیتا اور کسی کو زندہ نہ چھوڑتا۔"

پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم یہ بات سن کر ہنس پڑے اور اس جرأت مندانہ انداز پر اپنی چادر مبارک انعام کے طور پر عطافرمائی۔
 
اللہ تعالٰی کو یہ ادا پسند آئی۔ جبرئیل( علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوئے اور عرض کیا زبیر کو خوش خبری دے دیں کہ اب قیامت تک جتنے لوگ اللہ کے راستے میں تلوار اٹھائیں گے، ان کا ثواب زبیر کو بھی ملے گا۔

بہادری اور جرأت اللہ اور اس کے پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کو بہت پسند اور محبوب ہے۔ خود رسول اللہ بھی بہادر تھے بہادری کو پسند فرماتے تھے اور بزدلی سستی کاہلی سے آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو نفرت تھی۔ ہر مسلمان کو بہادر بننا چاہیے.

1 comment: