Monday 31 October 2011

زندہ قوم اور مردہ قوم::::::فرق صاف ہے


شکریہ جناب: بشارت علی صاحب
ایک خود سوزی نے تیونس میں انقلاب بر پا کر دیا اور پاکستان میں خود سوزی نے ؟؟؟؟

محمد باﺅ عزیزی گریجویٹ تھا اور جنوری 2010 سے تیونس کی سڑکوں اور گلیوں میں نوکری تلا ش کرتا رہا۔مایوس ہوکر اس نے کام کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا اور آخر تنگ آ کر اس نے پیٹرول کی بھری ہوئی بوتل سے تیونس کی پا رلیمنٹ کے سامنے اپنے اوپر پیٹرول ڈال کر خود کو آگ لگالی۔ باﺅ عزیزی کی زندگی تلخیوں کی پوری کتاب تھی۔

باﺅ عزیزی نے جب اپنے آپ کو آگ لگائی تو اس وقت تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کی حکومت تھی جو پورے ملک پر قابض تھے ملک کا میڈیا مکمل طور پر حکومت کا پابند تھا ہر خبر حکومت کی مر ضی سے نشر ہوتی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ باﺅ عزیزی کی خود سوزی کی تصاویر یا ویڈیو کسی چینل پر نشر نہیں ہوئی بلکہ تیونس کے ایک شہری کے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچی جس نے تیونس میں انقلاب کو جنم دیا جس کے زدمیں عرب کے دیگر ڈیکٹیٹرز بھی آگئے ۔

نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے راجہ رند خان نے بھی 24 اکتوبر کو یہی کیا ۔ وہ میٹرک پاس تھا۔ اس کی عمر بھی باﺅ عزیزی کی طرح 25 سال تھی وہ دو بچوں کا باپ اور ایک حاملہ بیوی کا خاوند تھا۔ راجہ نوکری کی تلا ش میں اسلام آباد آیااور اپنے علاقے کے ایم این اے سے ملا قات کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے پا رلیمنٹ لاجز میں گھسنے کی اجازت نہ دی تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوگیا اور اس کے دھرنے پر کسی نے دھیان نہ دیا ۔ چناچہ وہ خود سوزی کرنے پر مجبور ہوگیا اور راجہ رند نے 24 اکتوبر کو خود کوپارلیمنٹ کے سامنے آگ لگالی۔راجہ رند کی خبر جب میڈیا پر نشر ہوئی تو تھوڑی دیر تک پورا ملک سکتے کی حالت میں رہا لیکن پھر زندگی معمول پر آگئی اور لوگوں نے راجہ کی موت کو ایک نیوز پیکج یا ایک amazing نیوز کے طور پر لیا اور یوں میں غلط ثابت ہوگیا اور راجہ کی قربانی رائیگاں چلی گئی۔

باﺅ عزیزی کی موت تو تیونس میں انقلاب برپا کرگئی مگر افسوس راجہ رند کی خود سوزی پاکستان کو کچھ نہیں دے سکی اور پاکستان آج بھی راجہ رند کی طرح روز جی رہا ہے اور روز مررہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انقلاب برپا کیوں نہ ہوسکا کیونکہ ہم لوگ صرف زندہ ہیں مگر ہم میں زندہ قوموں والی کوئی بات نہیں، اندر سے سب گل سڑ چکے ہیں، الزام لگاکے روز رات کو رضائی اوڑہ کے سونا اور دوسرے دن اٹھ کے دوبارہ حکومت کو برا بھلا کہناہمارا معمول بن گیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور صرف زرداری و رحمان ملک کو برا بھلا کہ کر اپنی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں ۔

یہ تو ایک معمولی راجہ رند تھا ایک وہ حبیب جالب تھے جو انقلابی نظمیں لکھتے رہے اور انقلاب کی باتیں کرتے ہوئے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے مگر اس قوم پر کو ئی فرق نہ پڑا۔ پاکستان میں پچھلے برس 1600 افراد نے ریکا رڈخود کشی کی مگر کیا ہوا؟ راجہ رند خان کی موت نے اس کی بیوی کو پولیس میں نوکری دلوادی مگر کیا راجہ رند خان کی خود سوزی نے اس ملک کو کچھ دیا۔

1 comment:

  1. مسئلہ فرد کا نہيں قوم کا ہے جو بے حِس ہو چکی ہے ۔ وجہ ماديّت پرستی

    ReplyDelete