Sunday 11 May 2014

یوم ماں کے حوالہ سے اشعار_شکریہ ڈاکٹر ارشد محمود (بھائی جان)

Happy Mother's day
یوم ماں کے حوالہ سے اشعار
 
 
میری انگلی پکڑلینا، مجھے تنہا نہیں کرنا
یہ دنیا ایک میلہ ہے، تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں
شاعر نامعلوم
 
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی...

شاعر نامعلوم
 
ماں کا مفلوج بدن اور معیشت کی گھٹن
کتنی مشکل تھی مری زیست جواں ہوتے ہوئے ۔
عاکف محمود
 
بتاوں کیوں دمکتا ہے یہ چہرہ ؟
مری ماں نے اسے بوسہ دیا تھا
طارق ہاشمی
 
وقت کی دھوپ میں جلنے نہیں دیتی مجھے ماں
تان رکھتی ہے مرے سر پہ دعاؤں کے سحاب
سلمان باسط
 
ہر اک قدم پہ ہم قدم باپ کا حوصلہ رہا
سر پر ردا کے روپ میں ماں کی دعا تنی رہی
افتخار حیدر
 
بولنا کس نے سکھایا تھا اسے بچپن میں
اب جواں ہو کے جو کہتا ہے کہ ماں بولتی ہے
احمد ادریس
 
تُو کہ مٹی کے منوں بوجھ میں مدفون ہے ، ماں
اب بھی لگتا ہے ترا دستِ دعا جاگتا ہے
مجید اختر
 
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اسلم کولسری
 
مِری ماں، عالمِ بالا سے اک رخصت پہ آ جاؤ
عجب مشکل میں ہوں، مجھ کو دعاؤں کی ضرورت ہے
قیصر مسعود
 
گر مجھے ماں کی دعا کا نہ سہارا ہوتا
میں بھی اس وقت کوئی وقت کا مارا ہوتا
جبار واصف
 
اور عباس تابش صاحب کے شہرہ افاق شعر کے بغیر تو ماں کے حوالہ سے بات مکمل ہی نہیں ہوتی۔
 
ایک مُدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش
 
ماں
------------
ایک بچہ
اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے
اس میلے میں...

اب کیا ہوگا؟
کون اسے گھر لے جائے گا؟
حیراں حیراں دیکھ رہا ہے
چاروں طرف چہرے ہی چہرے
دھندلے چہرے
کیا یہ ، اُس کو پہچانیں گے
کیا یہ ، اُسے گھر تک پہنچا دیں گے؟
کوئی نہیں
سب اَن دیکھے ، اَن جانے ہیں
سہما سہما چیخ رہا ہے
ماں
ماں
ماں
(ابن صفی نے اپنی والدہ کے انتقال پر درج ذیل آزاد نظم لکھی تھی اور اپنی والدہ کے انتقال کے چودہ ماہ بعد خود بھی انتقال کر گئے !)
 
خدا کچھ اس طرح آساں بناتا ہے غم محشر
جنت ماں کے قدموں میں اٹھا کر ڈال دیتا ہے
شکریہ جناب !!! افسر زمان
 
’’ماں‘‘
جب سے تُو نے الگ سُلایا
تب سے اب تک سو نہیں پایا
 

No comments:

Post a Comment