::::میں بڑا کیوں ہوا ماں:::::راشد ادریس رانا کی کتاب "بچپن کی بھول بھلیاں".
جانے یہ بچپن کیوں گزر جاتا ہے اور ہم کیوں بڑے ہو جاتے ہیں. ماں مجھے بڑا نہیں ہونا،
ہمیشہ مجھے چھوٹا رہنا ہے ہمیشہ تیری آغوش میں چھپ کر ماں.
ہمیشہ گرجتے بادلوں اور چمکتی بجلی سے ڈرتے رہنا ہے ماں.
تیرے ہاتھوں سے روٹی کھانی ہے ماں.
تیرے ہاتھوں سے اپنا پسینہ صاف کرانا ہے ماں.
تیرے لبوں سے اپنے ماتھے پر بوسا لینا ہے ماں.
ہمیشہ تیری گود میں سونا ہے ماں.
ہمیشہ رات کو ڈر کر تجھ سے لپٹنا ہے ماں.
تیرے ہاتھوں سے اپنا پسینہ صاف کرانا ہے ماں.
تیرے لبوں سے اپنے ماتھے پر بوسا لینا ہے ماں.
ہمیشہ تیری گود میں سونا ہے ماں.
ہمیشہ رات کو ڈر کر تجھ سے لپٹنا ہے ماں.
مجھے خود سے جرابیں نہیں پہننی.
مجھے خود سے پانی نہیں پینا.
مجھے خود سے بال کنگھی نہیں کرنے.
مجھے اپنے کپڑے گندے کر کے تیرے پاس آنا ہے
مجھے اپنا منہ ہاتھ مٹی سے گندا کرکے آنا ہے
مجھے تیری مار ہی اچھی ہے ماں
مجھے تیری مار ہی اچھی ہے ماں
مجھے خود سے پانی نہیں پینا.
مجھے خود سے بال کنگھی نہیں کرنے.
مجھے اپنے کپڑے گندے کر کے تیرے پاس آنا ہے
مجھے اپنا منہ ہاتھ مٹی سے گندا کرکے آنا ہے
مجھے تیری مار ہی اچھی ہے ماں
مجھے تیری مار ہی اچھی ہے ماں
تیری مار کا جو پیار ہے ، وہی میری کل کائنات کا خزانہ ہے
یہ سہولتوں کے انبار ، یہ آشائسوں کے پہاڑ ماں
سب کچھ دیتے ہیں ، پر نہیں دیتے تیرا پیار ماں
سب کچھ دیتے ہیں ، پر نہیں دیتے تیرا پیار ماں
ماں مجھے بڑا نہیں ہونا، پلیز ماں مجھے چھوٹا رہنا ہے.
اے کاش میںکبھی بڑا نا ہوتا ، اے کاش میں ہمیشہ اپنی ماں کے دامن میں چھپا رہتا.
..............اے کاش..............