شکرپڑیاں بھی ان 85 دیہات میں شامل تھا جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ جن میں تقریباً 50 ہزار افراد آباد تھے۔ یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔ 85 دیہات کی 45 ہزار ایکٹر زمین جب سی ڈی اے نے حاصل کی تو متاثرین میں اس وقت 16 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے جبکہ انہیں ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور سندھ کے گدو بیراج میں کاشت کے لیے 90 ہزار ایکڑ زمین بھی الاٹ کی گئی جس کے لیے 36 ہزار پرمٹ جاری کیے گئے۔
ان میں جو بڑے گاؤں تھے ان میں *کٹاریاں* بھی شامل تھا جو موجودہ شاہراہ ِ دستور اور وزارت خارجہ کی جگہ آباد تھا۔
شکر پڑیاں لوک ورثہ کی جگہ،
بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کے عقب میں *سنبل کورک*
مری روڈ پر سی ڈی اے فارم ہاؤسز کی جگہ *گھج ریوٹ*،
جی سکس میں *بیچو*
ای سیون میں *ڈھوک جیون*
ایف سکس میں *بانیاں*
جناح سپر میں *روپڑاں*
جی 10 میں *ٹھٹھہ گوجراں*
، آئی ایٹ میں *سنبل جاوہ نڑالہ اور نڑالہ کلاں*
ایچ ایٹ میں *جابو*
، زیرو پوائنٹ میں *پتن*
میریٹ ہوٹل کی جگہ *پہالاں*
ایچ ٹین میں *بھیگا سیداں*
کنونشن سینٹر کی جگہ *بھانگڑی*
آبپارہ کی جگہ *باغ کلاں*
آباد تھے۔
اسی طرح راول ڈیم کی جگہ *راول، پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑ پن اور مچھریالاں* نامی گاؤں بستے تھے۔
فیصل مسجد کی جگہ *ٹیمبا* اور اس کے پیچھے پہاڑی پر *کلنجر* نام کی بستی تھی۔
شکر پڑیاں میں گکھڑوں کی *بگیال* شاخ کے لوگ آباد تھے جنہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔ راولپنڈی کے گزٹیئر 1884 کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالک گوجر اور 62 گکھڑوں کی ملکیت تھے۔
~سجاد اظہر کے آرٹیکل سے اقتباس~