Tuesday, 29 March 2011

مثبت قوت کا منفی استعمال!!! جاگو پاکستان

جھیل سی گہری آنکھیں

پاکستان بمقابلہ ہندوستان

کرکٹ ورلڈ کپ 2011

پاکستان بمقابلہ ہندوستان

یہ بازی جیت کی بازی ہے
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے طوطا نکلے گا
تم کتنے طوطے مارو گے

لوگ بکنے لگے کردار سمیت

خاک اڑتی ہوئی صدیوں سے ادھر

قافلے گم ہوئے سالار سمیت

ہوس درہم و دینار کی خیر

لوگ بکنے لگے کردار سمیت

Monday, 28 March 2011

کیا خُوب میرے شہر میں انصاف ہُوا ہے


کیا خُوب میرے شہر میں انصاف ہُوا ہے
اِک خُون بہا بھی ہے تو پھر معاف ہُوا ہے
اے قوم! تیری قسمت میں عزت ہے نہ غیرت
یہ راز بڑی دیر سے اب صاف ہُوا ہے

جگر کا خون



نا ڈرو ! کے ضرورت پڑی تو ہم دیں گے
جگر کا خون چراغوں میں جلانے کے لیئے




ایک رات اور بادشاہت

ایک دفعہ ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا، جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا،

سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نا تھا، اسی دوران ایک کمہار جس کے پاس ساری زندگی کی کچھ نا تھا سوائے ایک گدھے کے اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کرلے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس! سو اس نے اعلان کر دیاکہ وہ ایک رات بادشاہ کی جگہ قبر میں گزارے گا۔

بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی اور وعدے کے مطابق کمہار خوشی خوشی اس میں جا کر لیٹ گیا، اور لوگوں نے قبر کو بند کر دیا، کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور اسکو کہا کہ اٹھو اور اپنا حساب دو۔ اس نے کہا بھائی حساب کس چیز کا میرے پاس تو ساری زندگی تھا ہی کچھ نہیں سوائے ایک گدھے کے!!!
فرشتے اس کا جواب سن کر جانے لگے لیکن پھر ایک دم رکے اور بولے ذرا اس کا نامہ اعمال کھول کر دیکھیں اس میں کیا ہے، بس پھر کیا تھا،،،،،،،،،

سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ہاں بھئی فلاں فلاں دن تم نے گدھے کو ایک وقت بھوکا رکھا تھا، اس نے جواب دیا ہاں، فوری طور پر حکم ہوا کہ اسکو سو سو د’رے مارے جائیں،اسکی خوب دھنائی شروع ہو گئی۔
اسکے بعد پھر فرشتوں نے سوال کیا اچھا یہ بتاو فلاں فلاں دن تم نے زیادہ وزن لاد کر اسکو مارا تھا، اس نے کہا کہ ہاں،،،،،،،، پھر حکم ہوا کہ اسکو دودوسو د’رے مارے جائیں، پھر مار پڑنا شروع ہوگئی۔ غرض صبح تک اسکو مار پڑتی رہی۔

صبح سب لوگ اکھٹے ہوئے اور قبر کشائی کی تا کہ اپنے نئے بادشاہ کا استقبال کر سکیں۔

جیسے ہی انہوں نے قبر کھولی تو اس کمہار نے باہر نکل کر دوڑ لگا دی، لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں، تو اس نے جواب دیا، او بھائیوں پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو پوری رعایا اور مملکت کا حساب کون دیتا پھرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, 26 March 2011

آج کی بات مورخہ 26، مارچ 2011

اس گلاب سے سبق سیکھو، جو ان ہاتھوں کو بھی خوشبو دیتا ہے جو اسے مسل دیتے ہیں۔

Wednesday, 23 March 2011

♥♥♥♥کبھی ایسا تو ہو♥♥♥♥

کبھی ایسا تو ہو
اے میرے ہمدم
کسی سود و زیاں کا مول نا ہو
کچھ تول ناہو کچھ جھول نا ہو
اک سیدھی سادھی
اور دلاری سی محبت
پر جس میں کچھ انمول نا ہو

میں ایک عام سا چرواہا
تم ایک الہڑ سی لڑکی ہو

یہ دنیا داری کے جھنجٹ
یہ تیز طراری کی باتیں
یہ صرف مکاری کی باتیں

کہیں لہجے کاٹ کے جگ بولے
کہیں رشتے پیسوں میں تولے
کہیں پیارنا وقت گزاری ہو
کہیں سانس نا ہم پر بھاری ہو

بس میں اور تم اس جگ میں
ساتھ ہمیشہ، ساتھ رہیں
ہم سچ بولیں ہم سچ تولیں
ہم اپنے پیار کو دل جیسا
کھل کر چاہیں کھل کر بولیں

اے کاش کے ایسا ہو جائے
اے کاش کے ایسا ہو جائے

(by:wajdan)


صرف اس کے نام جو شاید مجھے مجھ سے زیادہ جانتا ہے! ...پر
سمجھتا نہیں ہے.........


Monday, 21 March 2011

♥♥♥♥♥♥♥ہنر سے ُہوا♥♥♥♥♥♥♥

نہ آسماں سے نہ دُشمن کے زور و زَر سے ُہوا
یہ معجزہ تو مِرے دَستِ بے ہنر سے ُہوا

قدم اُٹھا ہے تو پاﺅں تلے زمیں ہی نہیں
سفر کا رنج ہمیں خواہشِ سفر سے ہوا

میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں
وہ عکس عکس میں تقسیم چشمِ تر سے ہوا

سیاہی شب کی نہ چہروں پہ آ گئی ہو کہیں
سحر کا خوف ہمیں آئنوں کے ڈر سے ہوا

کوئی چلے تو زمیں ساتھ ساتھ چلتی ہے
یہ راز ہم پہ عیاں گردِ رہگزر سے ہوا

ترے بدن کی مہک ہی نہ تھی تو کیا رُکتے
گزر ہمارا کئی بار یوں تو گھر سے ہوا

کہاں پہ سُوئے تھے امجد کہاں کھُلیں آنکھیں
گماں قفس کا ہمیں اپنے بام و دَر سے ہوا

۝۝۝۝دیکھو تو۝۝۝۝

مقتل میں بھی اہل جنوں ہیں کیسے غزل خواں‘ دیکھو تو!
ہم پہ پتھر پھینکنے والو‘ اپنے گریباں‘ دیکھو تو!

ہم بھی اُڑائیں خاکِ بیاباں‘ دَشت سے تم گزرو تو سہی

ہم بھی دکھائیں چاکِ گریباں‘ لیکن جاناں‘ دیکھو تو

اے تعبیریں کرنے والو‘ ہستی مانا خواب سہی

اس کی رات میں جاگو تو‘ یہ خوابِ پریشاں دیکھو تو!

آج ستارے گم صُم ہیں کیوں‘ چاند ہے کیوں سَودائی سا

آئینے سے بات کرو‘ اِس بھید کا عنواں دیکھو تو!

کِس کے حُسن کی بستی ہے یہ! کس کے رُوپ کا میلہ ہے!

آنکھ اُٹھا اے حُسنِ زلیخا‘ یوسفِ کنعاں‘ دیکھو تو!

جو بھی علاجِ درد کرو‘ میں حاضر ہوں‘ منظور مجھے

لیکن اِک شب امجد جی‘ وہ چہرۂ تاباں‘ دیکھو تو

۞۞۞۞۞ خواب دے ۞۞۞۞۞

کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے!
ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے!

جو بچھا سکوں ترے واسطے‘ جو سجا سکیں ترے راستے

مری دسترس میں ستارے رکھ‘ مری مُٹھیوں کو گلاب دے

یہ جو خواہشوں کا پرند ہے‘ اسے موسموں سے غرض نہیں

یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں‘ اِسے آب دے کہ سراب دے!

تجھے ُچھو لیا تو بھڑک اُٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے

اِسی آگ میں مجھے راکھ کر‘ اسی شعلگی کو شباب دے

کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو‘ میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں

”مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے!“

تری اِک نگاہ کے فیض سے مری کشتِ حرف چمک اُٹھے

مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں مجھے ایک ایسی کتاب دے

→→→رہتا ہے←←←

اک نام کی اُڑتی خوشبو میں اک خواب سفر میں رہتا ہے
اک بستی آنکھیں ملتی ہے اک شہر نظر میں رہتا ہے

کیا اہلِ ہنر، کیا اہلِ شرف سب ٹکڑے ردی کاغذکے
اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے

پانی میں روز بہاتا ہے اک شخص دئیے اُمیدوں کے
اور اگلے دن تک پھر ان کے ہمراہ بھنور میں رہتا ہے

اک خوابِ ہُنر کی آہٹ سے کیا آگ لہو میں جلتی ہے
کیا لہر سی دل میں چلتی ہے! کیا نشہ سر میں رہتا ہے

جو پیڑ پہ لکھی جاتی ہے جو گیلی ریت سے بنتا ہے
کون اُس تحریر کا وارث ہے !کون ایسے گھر میں رہتا ہے!

ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے
ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتا ہے

یہ شہر کتھا بھی ہے امجد اک قصہ سوتے جاگتے کا
ہم دیکھیں جس کردار کو بھی جادو کے اثر میں رہتا ہے

▒▒▒▒▒ دیکھنے تو دے ▒▒▒▒▒

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے

اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط !کبھی ناچنے تو دے

سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے

اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے

شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام
اے دوست اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے

یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں
یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے

کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں
امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے

▓▓▓▓▓ ہم کو ▓▓▓▓▓

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو

روشنی کا یہ مسافر ہےرہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو

آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشہ مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو

اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو

کون سی رُت ہے زمانے ، ہمیں کیا معلوم
اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو

زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو

داغِ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجد
ڈھانپ لیتی نہ اگر چادرِ رحمت ہم کو

♥♥♥♥♥سمندر میں♥♥♥♥♥

تارا تارا اُتر رہی ہے رات سمندر میں
جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں

ساحل پر تو سب کے ہونگے اپنے اپنے لوگ
رہ جائے گی کشتی کی ہر بات سمندر میں

ایک نظر دیکھا تھا اُس نے آگے یاد نہیں
کُھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں

میں ساحل سے لوٹ آیا تھا کشتی چلنے پر
پگھل چکی تھی لیکن میری ذات سمندر میں

کاٹ رہا ہوں ایسے امجد یہ ہستی کی رہ
بے پتواری ناؤ پہ جیسے رات سمندر میں

اس کے نام جسے کا نام لوں تو صباء ہو جائے

اُس نے آہستہ سے جب پُکارا مجھے
جُھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

تیرا غم، اس فشارِ شب و روز میں
ہونے دیتا نہیں بے سہارا مجھے

ہر ستارے کی بجھتی ہوئی روشنی
میرے ہونے کا ہے استعارا مجھے

اے خدا کوئی ایسا بھی ہے معجزہ
جو کہ مجھ پر کرے آشکارا مجھے

کوئی سورج نہیں کوئی تارا نہیں
تو نے کس جھٹپٹے میں اُتارا مجھے

عکسِ امروز میں نقشِ دیروز میں
اک اشارا تجھے اک اشارا مجھے

ہیں ازل تا ابد ٹوٹتے آئینے
آگہی نے کہاں لا کے مارا مجھے

ہے کہ نہیں ہے

ہر شخص کی خُوں رنگ قبا ہے کہ نہیں ہے
یہ قتل گہہِ اہلِ وفا ہے کہ نہیں ہے

محرومِ جواب آتی ہے فریاد فلک سے
ان ظلم نصیبوں کا خُدا ہے کہ نہیں ہے

اے قریۂبے خواب ِ تمنا کے مکینو
اس راہ کا اُس کو بھی پتا ہے کہ نہیں ہے

اک ریت کا دریا سا ادھر بھی ہے اُدھر بھی
صحرائے محبت کا سرا ہے کہ نہیں ہے

آنکھوں کے لئے خواب ہیں شبنم کے لئے پھول
ہر چیز یہاں رشتہ بپا ہے کہ نہیں ہے

اک نسل کی تعزیر سہیں دوسری نسلیں
اے منصفِ بر حق یہ ہوا ہے کہ نہیں ہے

بے رنگ ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے جزیرے
طوفان کی یہ آب و ہوا ہے کہ نہیں ہے

امجد جو رکا اس کی صدا پر نہ چلا پھر
انسان کا دل کوہِ ندا ہے کہ نہیں ہے

وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی

وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا ، بہت وفا کی تھی

سنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دعا کی تھی

نہیں تھا قرب میں بھی کچھ مگر یہ دل ، مرا دل
مجھے نہ چھوڑ ، بہت التجا کی تھی

سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نجانے کس نے مجھے زندگی عطا کی تھی

سمجھ سکا نہ کوئی بھی مری ضرورت کو
یہ اور بات کہ اک خلق اشتراکی تھی

یہ ابتدا تھی کہ میں نے اسے پکارا تھا
وہ آ گیا تھا ظفر، اس نے انتہا کی تھی

خدا ھم کو ایسی خدائی نہ دے

خدا ھم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ خود کے سوا کچھ دکھائی نہ دے

ھنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے

خطا وار سمجھے گی دنیا تمہیں
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے

مجھے اپنی چادر میں یوں ڈھانپ لو
زمیں آسماں کچھ دکھائی نہ دے

خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنی ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ھوئے وہ مجمعء اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغ ِوارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

Sunday, 20 March 2011

آسرا!!!

آج کی بات مورخہ 20 مارچ 2011

جب بھی اپنے رب کے حضور پیش ہو، اپنے گرد ایک دائرہ ایسا لگا لو، کہ دنیاداری اس کے اندر نا آسکے۔

Saturday, 19 March 2011

 تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے 

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالم ِموجود استعارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

♥♥♥♥ھم نے سوچ رکھا ہے♥♥♥♥

ھم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ھر خواھش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
بہہ جائے
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
اوربے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں

تم سے کچھ نہیں کہنا


کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں

تم سے کچھ نہیں کہنا

گِھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سےبچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں
ہم نے سوچ رکھا ہے

تم سے کچھ نہیں کہنا

!!!!!!بھلے دنوں کی بات ہے!!!!!!

بھلے دنوں کی بات ہے
بھلی سی اک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن طام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی

نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر
بھلا بھلا سا سفر لگے

کوئی بھی رت ہو، اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں* کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی

نہ مدتوں جدا رہے
نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشہء وفا پہ ضد
نہ یہ کہ ازن عام ہو

نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی
کہ آئینہ حیا کرے

نہ اختلاط میں وہ رنگ
کہ بدمزہ ہوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں

نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ہو

کبھی تو بات بھی کافی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زعفران
کبھی اداسیوں کا بن

سنا ہے ایک عمر ہے
معاملات دل کی بھی
وصال جاں فزا تو کیا
فراق جاں گسل کی بھی

سو اک روز کیا ہوا
وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی

میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ تمام عمر کے ساتھ کو
بد تر از ہوس کہے

ہجر شجر نہیں ہے کہ
ہمیشہ پاء بہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رہیں

محبتوں کی وسعتیں
ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں
ساجن بے وفا میں ہیں

میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہے
اسی کے پریم میں رہوں

تمہاری سوچ جو بھی ہو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے
یہ بات آج کی نہیں

نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم تھا
جو عہد ہی کوئی نہ ہو
تو کیا غم شکستگی

سو، اپنا اپنا راستہ
ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا

بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن
نہیں ۔ ۔ ۔ مگر کبھی کبھی

Friday, 18 March 2011

ویسا ہی تم پاؤ گے

میری سوچ کے ساحل پر
تیری یاد کے سیپ پڑے ہیں
دُور پرے دو لمبے سائے
ان پر آنکھ جمائے کھڑے ہیں

میری سوچ کے ساحل پر
پچھلی رُت کا ساتھ تمہارا
ہر سُو تجھ کو ڈھونڈ رہا ہے
آن ملو اک بار خدا را

میری سوچ کے ساحل پر
جب بھی واپس آؤ گے
پچھلی رُت میں جانِ صفی
جیسا مجھ کو چھوڑا تھا
ویسا ہی تم پاؤ گے

آرزو نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔

اجنبی سی راہوں کا
اجنبی مسافر ایک
مجھ سے پوچھ بیٹھا ہے
راستہ بتادو گے
اجنبی سی راہوں کے
اجنبی مسافر سن
راستہ کوئی بھی ہو
واسطہ کوئی بھی ہو
منزلیں نہیں ملتیں
منزلیں تو دھوکا ہیں
منزلیں جو مل جائیں
جستجو نہیں رہتی
زندگی کو جینے کی
آرزو نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔

~~~~وہیں پھر پیار کر لیں گے~~~~

سنا ہے اس جہاں میں زندگی کی قحط سالی ہے
یہاں دو چار دن جینے کا اکثر ذکر ہوتا ہے

یہاں ہر چیز فانی ہے،

سبھی کو موت آنی ہے،

یہاں اظہار کیا کرنا،

یہاں پر پیار کیا کرنا،

مگر کچھ یوں بھی سنتا ہوں،

کہ ایسا اک جہاں ہو گا،
کہ جس میں موت آنے کاکوئی دھڑکا نہیں ہو گا

حیات جاویداں کے سب وہاں اسباب رکھے ہیں،

یہ میرا تم سے وعدہ ہے

اگر دونوں وہاں مل گئے

وہیں اقرار کر لیں گے،
وہیں اظہار کر لیں گے،

وہیں پھر پیار کر لیں گے۔

””دعا””



اے میرے رب کریم،

آج میں تجھ سے دعا کرتا ہوں اور تجھ سے مانگتا ہوں اور تجھ سے التجا کرتا ہوں!!!

کہ تو مجھے میرے والدین، بہن بھائیوں، عزیز رشتے داروں، میرے ہمسائے، میرے ملک کے لوگوں کو، میرے مسلمان مومن ب
ہن بھائیوں کو چاہے وہ کشمیر میں ہیں، افغانستان میں، فلسطین میں ہیں، چاہے وہ جاپان میں ہیں یا امریکہ میں ہیں ان سب کو بخش دے، میرے مالک ہم اتنے گمراہ ہو گئے ہیں کہ مومن ، مسلمان ہونا تو دور کی بات ہم انسانیت کے درجے سے بھی پست ہو گئے ہیں۔ اے میرے رب! تو ہمیں ہدایت دے، سمجھ عطاء فرمادے، عقل شعور جو تو نے ہمیں عطا کیا، یا اللہ ہم اس کے مثبت استعمال سے محروم ہو گئے ہیں، اے اللہ ہم نے ہوس اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہو کر اپنے اصل رستے کو فراموش کر دیا ہے، ہم نے آذادی کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرے کو تحریک دی ہے ،ہم نے آزادی کے نام پر الزامات اور بہتان تراشی کو تحریک دی، اے میرے پروردیگار ہم نے فحاشی اور گندگی کو اپنی عادات میں اس طرح شامل کرلیا ہے کہ ہمیں اس کی غلاظت کا احساس ہی نہیں رہا، ہم اپنے بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کے حصول میں ڈال دیا اور ان کو علم حقیقی سے محروم کر دیا، ہم نے ان کے اوڑھنے بچھونے، پہننے اور رہنے کی آسائیشوں پر اتنا زور دیا کہ انکی اخلاقی تربیت کرنا ہی بھول گئے، ہم نے اپنی نسل کو قرآن و حدیث سے دور کر کے خود یہود اور صہونیت کے راستوں پر ڈال دیا۔ اے اللہ ہم نے وہ اندھے گڑھے کھودے جن میں ہماری اپنی نسلیں جوق درجوق گر رہی ہیں۔ اے اللہ دین تو مومن کی میراث ہے ہم نےاس دین حق کو صرف مولویوں اور مدرسوں تک محدود کر دیا، اے اللہ وہ دین جو ہمیں اخوت بھائی چارے کا سبق دیتا ہے ہم نے اس دین کو فرقہ واریت میں بانٹ دیاہم نے اسکو اپنے زاتی عناد، تعاصب اور نفرتوں کے لیئے استعمال کیا ہم نے اس دین کو صرف تب اپنایا جب ہمیں اپنا دفاع مقصود ہوا، ہم نےاس دین کو ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیئے استعمال کیا، ہم نے دین کو سیاست میں استعمال کیا، ہم نے قرآن اور حدیث کو اپنی سہولتوں کے لیئے استعمال کیا۔ اے اللہ ہم نے مسلمانوں کی تاریخ میں شرمندگی کے باب در باب لکھ دیئے۔ اے اللہ ہم سب حقوق بھول گئے، نا ہمیں تیرے حقوق یاد رہے نا تیرے بندوں کے حقوق۔ اے اللہ ، اے میرے پاک پروردیگار پھر بھی تو نے ہمیں غرق نہیں فرمایا، نا تو نے ہماری شکلیں بدلی، نا ہم پر وبائیں پھوٹی،،،،ا ے اللہ تو ہم سے اتنا ناراض ہو گیا ہے تو نے ہمیں اور ڈھیل دے دی۔
اے رب کریم ، رب رحیم ، رب کل کائنات، اس دنیا میں حساب دینا بہت آسان ہے پر آخرت کا حساب بہت مشکل۔ اے اللہ تو ہمیں ہدایت دے سمجھ بوجھ دے عمل کی توفیق دے دین کو پڑھنے،سمجھنے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق دے، اے اللہ کریم ہمیں خود احتسابی عطاء فرمادے،غیرت، حرمت اور عزت نفس عطاء فرما دے ، اے اللہ بس تو ہمیں معاف فرما دے،،،،،،،،،،،،،

آمین ثم آمین

دعا گو ایک مسلمان بچہ!!!!!!!!!!!!!!!

Thursday, 17 March 2011

آج کی بات مورخہ 17،مارچ 2011

انسان کو ہمیشہ اپنے سے نیچے دیکھنا چاہیے
اوپر دیکھنے سے احساسِ کمتری کا احساس ہوتا ہے
جبکہ نیچے دیکھنے سے انسان اپنے رب کا شکر گزار ہوتا ہے

ریمنڈ ڈیوس کیس، حقیقت کیا ہے ؟



سرخ تحریر!!!!!!!!!!!!!!!

آج مورخہ 16 مارچ 2011، تاریخ میں لکھا جائے گا
اس امریکی وکیل کے وہ الفاظ کے پاکستانی چند ڈالرز کے عوض اپنی ماں تک کو بیچ سکتے ہیں، اس کی کہی بات کو آج خود ہمارے سسٹم نے ہماری حکومت نے ہماری معاشرے نے ثابت کر دیا۔

ڈاکٹر عافیہ کو وہ سزا ملی جو دنیامیں آج تک کسی کو نہیں ملی، لیکن غیرت کا تقاضہ دیکھیں کے سب خاموش ہیں۔ کیوں???

کیوں کہ!! ماووں نے مائیکل جیکسن، اکشے کمار، پربھو دیول پیدا کرنے شروع کردئے ہیں نا کوئی ماں محمد بن قاسم کو جنم دے گی نا کوئی محمد بن قاسم بنت اسلام کے لئے جہاد کرئے گا۔

اندھا قانون، سفاک قانون، جرائم سے بھرا ہوا قانون، کتنے شرم کی بات ہے کہ جس عدلیہ کی آزادی کے لیئے پوری قوم پاگلوں کی طرح سڑکوں پر گھوم رہی تھی، وہ قوم جو آٹا ، دال، سبزی اوربنیادی ضروریات کی چیزیں سونے چاندی کے بھاو لیکر کھا رہی ہے مگر بول نہیں رہی، وہ قوم جو 70 سال سے پستی اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے، وہ قوم اس عدلیہ کے لیئے لڑی اور اسی عدلیہ نے آج وہ کیا ہے جو صرف ایک عدالت کا فیصلہ نہیں بلکہ ضمیر کے مردہ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

"کسی ملک کا سربراہ اپنے محل میں آرام کر رہا تھا کہ اسے دست راست نے آ کر اطلاع دی جناب! ہمارے ملک پر دشمن نے حملہ کر دیا ہے، آپ بتائیں کیا کریں تو اس نے مسکرا کر پوچھا کیا میرے ملک کی تمام عدالتیں متحرک ہیں? جواب ملا جی بلکل، پھر پوچھا کیا لوگوں کو انصاف مل رہا ہے? جواب ملا جی بلکل۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور بولا، تو پھر بے فکر ہو جاو، ہمارے ملک کو کچھ نہیں ہوگا، کیوں کہ یہاں لوگوں کو انصاف مل رہا ہے"

جہاں عدل ہو گا وہاں خدا ئے بزرگو برتر کی رحمت ہو گی۔

لیکن ابھی میں سوچتا ہوں کہ خدا تو بہت پہلے ہم سے ناراض ہو گیا ہے، ہم نے اپنے رب کو منانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اگر جاپان زلزلے سے تباہ ہوگیا ہے اور اسکے اپنے ایٹمی ری ایکٹر اس کے لیئے وبال جان بن گئے ہیں!!

تو مرنے والوں کی روحیں تمہیں یاد دلاتی ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اس ملک کے حکمرانوں، اے غدار میر جعفر اور میر صادق کے نقش قدم پے چلنے والو! وہ وقت دور نہیں جب تمہاری کئی ہوئی تدابیر تمہارے ہی اوپر پلٹ جائیں گی۔ تمہاری آنکھوں پر ہوس کے پڑے ہوئے پردے تمہیں گہرے اندھے گڑہوں میں دھکیل دیں گے۔ بہت جلد تم بھی ایک عبرت ناک انجام کو پہنچ جاو گے۔
آج جن کے تلوے چاٹ چاٹ کر تم لوگ اپنے مرے ہوئے ضمیروں کو مطمعین کر رہے ہو، جلد وہ تمہیں ہی تمہارے انجام تک پہنچائیں گے۔

کل تک تم جس شرعیت کے قانون کو جھٹلاتے تھے جس کو بدلنا چاہتے تھے آج اسی شرعیت کو تم نے اپنے مفاد میں استعمال کیا اور بے گناہوں کے خون کو بیچا ہے، وہ وقت دور نہیں جب تم لوگوں کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

دور حاضر کے فرعون ، نمرود اس بات سے مطمعین ہیں کہ جو کچھ وہ کریں گے کوئی ان کو نہیں پوچھے گا، لیکن وہ وقت دور نہیں جب سب کو حساب دینا پڑے گا۔


"بے شک اللہ کریم ہے اور رحمان و رحیم ہے"

Tuesday, 15 March 2011

منفرد رہنے کے شوق نے

آخری پتا

گرجتے برستے بادل فلک سے نالاں بہت غصے میں دکھائی دے رہے تھے. چودھویں کاچاند جو کسی نئی نویلی دلہن کی طرح آغاز شب میں جلوہ افروز ہوا تھا، اب ڈرا، سہما، چھپا بیٹھا تھا. کھڑکی کے اس پارعشق پیچاں کی بیل کے سارے پتے اس طوفان بادوباراں سے لرز رہے تھے،
اور اس سے بھی کہیں زیادہ کھڑکی کے اس پار"کانتا" کا دل خوف سے کانپ رہا تھا جو ان پتوں سے اپنی زندگی، اپنی عمر کا اندازہ لگا رہی تھی . جوں جوں پتے گرتے اس کی بیماری بڑھتی جاتی اور اب تو پتے بھی چند ہی رہ گۓ تھے. شاید دو یا تین اور آخری پتا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،آخری پتا اس کا آخر، اسکی موت کی نوید لے کر آئے گا اور زندگی کا خوشنما پھول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مرجھا جاۓ گا. اس سے پہلے کہ یہ آخری پتا گر جاتا، اس سے پہلے کے سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاتی، جاڑے کی بے رحم ہوا اس چراغ کی ٹمٹماتی لو کو بجھا دیتی،

وہ اچانک نا جانے کہاں سے نمودار ہوا، وہ "وجدان" جس کے ہاتھوں میں مصوری ایک انمول انداز میں رچی بسی تھی، جس کی بنائی گئی تصاویر دیکھنے والوں کہ محو کر دیتی تھیں۔

دونوں کا تعلق صرف اتنا تھا جتنا ایک جگہ پر رہنے والے دو لوگوں کا ہوتا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی، "وجدان" اور "کانتا" ایک ان دیکھے رشتے میں جانے کب سے بندھے ہوئے تھے، جو جنموں جنموں کے ساتھی تھے۔

"کانتا" جس نے "وجدان" کے اچانک چلے جانے کے بعد خود کو زندگی سے لا تعلق کر لیا تھا، اور اسی غم نے اسے زندگی سے اتنا مایوس کر دیا تھا کہ اس کو یقین تھا، اس کی کھڑکی کے سامنے لگی عشق پیچاں کی بیل کے پتے جوں جوں گرتے جایئں گے توں توں اس کی زندگی کے دن کم ہوتے جائیں گے۔ اور آج جب ایک آخری پتہ تنے تنہا جاڑے کی سردی اور بے رحم ہواوں سے لڑ رہا تھا اور جس کے گرنے کے ساتھ ہی "کانتا" نے اپنی زندگی کے خاتمے کا یقین کر لیاتھا،

آج یہ آخری رات تھی اور اس رات میں سرد ہواوں کا طوفان اتنا شدید تھا پتا تو کیا پیڑ تک اکھڑ گئے، "کانتا" یقین تھا کہ صبح کی کرنیں اسکی موت کا پیغام لائیں گئیں، لیکن جب صبح ہوئی تو ایک حیرت انگیز خوشیوں بھرا لمحہ اس کا منتظر تھا، پتہ وہاں پر ویسا ہی موجود تھا، اسکی خوشی کی انتہا نا تھی، بہت دنوں کے بعد وہ بے انتہا خوش تھی، اسکو جینے کا ایک اور موقع مل گیا تھا، وہ جلدی جلدی سے اٹھی اور باہر آ گئی باہر بہت سارے لوگ اس دیوار کے نیچے موجود تھے جس پر عشق پیچاں کی ٹنڈ منڈ بیل صرف ایک پتے کے ساتھ موجود تھی۔ اس کے عین نیچے کچھ قوس قزاح کے رنگ زمین پر بکھرے ہوئے تھے جن کے پاس ہی "وجدان" ادھ کھلی مسکراتی آنکھوں کے ساتھ بے حس و حرکت زمین پر پڑا ہوا تھا۔

اس کا جاڑے سرد اور بے رحم ہوا سے ٹھٹھرا ہوا جسم بے حس و حر کت تھا مگر ادھ کھلی آنکھوں میں ایک اطمینان تھا، جیسے اپنے آخری شاہکار اور اس سے جڑی زندگی ہی اس کا سب سے بڑا مقصد ہو۔

اس نے زندگی کے آخری پتے کو بچانے کے لیئے زندگی کو قربان کردیا۔
یہ آخری پتا ہمیشہ ہمیشہ اس کی خاموش محبت کو زندہ جاوید کر گیا۔

تھا شاخِ گل پہ آخری پتا جو جھڑ گیا

بال ایک میرے شیشۂ دل میں جو پڑ گیا

جو نقشِ جاں بنا تھا، وہ پل میں بگڑ گیا

خنجر سا دل میں اس کے تغافل سے گڑ گیا

تھی بات تو ذرا سی مگر داغ پڑ گیا

جی بھر کے اس کو ہم نے تو دیکھا نہ تھا ابھی

ملنے سے پیشتر ہی وہ ہم سے بچھڑ گیا

تھی دھوپ تیز اس قدر صبحِ ملال کی

خوابوں کا شہر چشمِ زدن میں اجڑ گیا

اک زلزلہ تھا اور مرے پیار کا جہاں

جھٹکا لگا تو پاؤں بھی اُس کا اکھڑ گیا

دل آخری چراغ تھا میری امید کا

تنہا تھا پھر بھی سیلِ حوادث سے لڑ گیا

یاد آئی اور جاگ اٹھیں بے قراریاں

اک شور ذہن و روح میں کچھ اور بڑھ گیا

ترکِ تعلقات کی ٹھانے ہوئے تھا وہ

بے وجہ بات بات پہ کل ہم سے اَڑ گیا

دل نے بھی جیسے تھک کے نیا راستہ لیا

اپنے شعورِ ذات کی سیڑھی پہ چڑھ گیا

آندھی ہی اب کے ایسی چلی ہے صدف یہاں

تھا شاخِ گل پہ آخری پتا جو جھڑ گیا

Wednesday, 9 March 2011

بچپن کے دن

بچپن کے دن کتنے اچھے ہوتے تھے
جب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے

وہ خوشیاں بھی کیسی خوشیاں تھی
تتلیوں کے پر نوچ کے، اچھلا کرتے تھے

اپنے جل جانے کا احساس تک نا تھا
آگ کے جلتے شعلے پکڑا کرتے تھے

پاووں مار کے خود بارش کے پانی میں
اپنی ناوو آپ ڈبویا کرتے تھے

اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کے رویا کرتے تھے

معصوم بچپن

چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں،
اسی معصوم بچپن کو
انہی معصوم خوشیوں کو
انہی رنگین لمحوں کو
جہاں غم کا پتہ نا تھا
جہاں دکھ کی سمجھ نا تھی
جہاں صرف مسکراہٹ تھی
بہاریں ہی بہاریں تھیں
کہ! جب ساون برستا تھا
تو اس کاغذ کی کشتی کو
بنانا اور ڈبو دینا
بہت اچھا سا لگتا تھا
اور اس دنیا کا ہر چہرہ
بہت سچا سا لگتا تھا
چلو پھر ڈھونڈ لیتے ہیں
اسی معصوم بچپن کو۔

Cheers to those 1980's!!!!.بچپن کی یادیں


In the memories of our childhood.........بچپن کی یادیں............Dedicated to Those who are 1980's!!!!!
When The______
____ - Most popular Games were "CHUPPAN CHUPAYEE", "BARAFF PANNI", and "CHOOR SAPAHI".

When The__________ - Best Delights were "POLKA" , "POPCORN'S" , "JUBILEE" and "MITCHEL'S TOFFEE".



When The__________
- Pepsi was worth Rs.6, - Watching 7:30am Cartoons before going to school on "PTV" and 7:00pm "Ninja Turtles", "Captain Planet" and "Thunder Cats" on "NTM".



When The__________
- People go homes earlier than usual to watch "INDIA vs PAKISTAN" matches.


***When we were not allowed to watch the movies but we managed it anyway!!!! ***When our best Asset was Bubble Gummer Glow Shoes!!!!
***When Getting Rs.50 Eidi meant you were Rich!!! ***When Decision were made by "Eeny Meeny miney moo"!!!!

***When the worst nightmares were Injections, Darkroom, Qari Saab's!!! ***When while playing cricket rules were pronounce as, Ghar main janay ka "Out" and Jou mary gaa wohi lay kar ayee gaa etc.

Childish but Awesome Memories.............................. Remembrance, Memorial and Enjoy it Alot.......... Cheers to those who are 1980's...............

بچپن کی یادیں
Regards,

چل راشد چلیئے وطناں نوں: (My first Punjabi Poetry)

کجھ دکھڑا یار فقیری دا،
کجھ لوکاں شہر دیاں تول دتا،
کجھ سانوں حرص سی "مایا"دی،
کجھ پردیس نے زخم ہر روز دتا،

کجھ قسمت ساتھ وی دتا سی،
کجھ وقت وی رب انمول دتا،

کجھ اپنے، اپنے نا ہوئے،
کجھ غیراں پھٹ ہر روز دتا،
چل راشد چلیئے وطناں نوں،
اے پردیساں سانوں تے رول دتا۔

Ansoo Lake Pakistan.










Tuesday, 8 March 2011

Urdu Poetry In my Voice-01

بے عیب تصویر

کہنے کو تو بادشاہ انصاف پسند اور عوام کے دکھ سکھ کو سمجھنے والا تھا مگر جسمانی طور پر ایک ٹانگ سے لنگڑا اور ایک آنکھ سے کانا تھا۔

ایک دن بادشاہ نے اپنی مملکت کے ماہر مصوروں کو اپنی تصویر بنوانے کیلئے بلوا لیا۔

اور وہ بھی اس شرط پر، کہ تصویر میں اُسکے یہ عیوب نہ دکھائی دیں۔

سارے کے سارے مصوروں نے یہ تصویر بنانے سے انکار کر دیا۔

اور وہ بھلا بادشاہ کی دو آنکھوں والی تصویر بناتے بھی کیسے جب بادشاہ تھا ہی ایک آنکھ سے کانا،

اور وہ کیسے اُسے دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا دکھاتے جبکہ وہ ایک ٹانگ سےبھی لنگڑا تھا۔

لیکن

اس اجتماعی انکار میں ایک مصور نے کہا: بادشاہ سلامت میں بناؤں گا آپکی تصویر۔

اور جب تصویر تیار ہوئی تو اپنی خوبصورتی میں ایک مثال اور شاہکار تھی۔

وہ کیسے؟؟

تصویر میں بادشاہ شکاری بندوق تھامے نشانہ باندھے ، جس کیلئے لا محالہ اُسکی ایک (کانی) آنکھ کو بند ،

اور اُسکے (لنگڑی ٹانگ والے) ایک گھٹنے کو زمیں پر ٹیک لگائے دکھایا گیا تھا۔

اور اس طرح بڑی آسانی سے ہی بادشاہ کی بے عیب تصویر تیار ہو گئی تھی۔

کیوں ناں ہم بھی اِسی طرح دوسروں کی بے عیب تصویر بنا لیا کریں

خواہ انکے عیب کتنے ہی واضح ہی نظر آ رہے ہوا کریں!!

اور کیوں ناں جب لوگوں کی تصویر دوسروں کے سامنے پیش کیا کریں.... اُنکے عیبوں کی پردہ پوشی کر لیا کریں!!

آخر کوئی شخص بھی تو عیبوں سے خالی نہیں ہوتا!!

کیوں نہ ہم اپنی اور دوسروں کی مثبت اطراف کو اُجاگر کریں اور منفی اطراف کو چھوڑ دیں...... اپنی اور دوسروں کی خوشیوں کیلئے!!

ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث پاک کا ملخص اور مفہوم ہے کہ
(جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا)







My Art-01