دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے
اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط !کبھی ناچنے تو دے
سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے
شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام
اے دوست اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے
یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں
یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے
کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں
امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے
امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے
No comments:
Post a Comment