دلوں کو برف کرتی رائیگانی سے نکل آئے
دلوں کو برف کرتی رائیگانی سے نکل آئے
کوئی کیسے محبت کی کہانی سے نِکل آئے
اُسے بس ایک پل کو دیکھنا بات کرنی تھی
مگر وہ ایک اشک ِ سادہ جو روانی سے نکل آئے
گماں تھا عُمر لگ جائے گی اس حیرانی ء غم میں
مگر ہم شام ِ وحشت کی گِرانی سے نِکل آئے
بہت مجبور رہتے تھے،بہت مغرور رہتے تھے
کہ جب سے شہرِ غم کی کج بیانی سے نِکل آئے
کہیں تو سلسلہ ٹھہرے بدن کی اِس مُسافت کا
کبھی تو بے گھر کی مہربانی سے نِکل آئے
کبھی تاریک شب میں یاد کے جُگنو چمکتے ہیں
کہ جیسے سیپ کوئی گہرے پانی سے نِکل آئے
No comments:
Post a Comment