تو بات ہوتی ہے کسی معاشرتی برائی یا واقعہ کی:
ہمارا المیہ ہے عدم برداشت اور بے ضمیری، یا ہم آگ لگا سکتے ہیں یا پھر بلکل چپ کر کے بیٹھے رہتے ہیں۔ ورنہ سول سوسائٹی ایک عفریت ایک بلا سے کم نہیں ہر معاشرتی برائی اور برے عمل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے اس کی روک تھام اور سد باب ممکن ہے۔
سوشل میڈیا ایک آسان طریقہ ہے لیکن ہمیشہ موثر نہیں یقین کریں یہ تیر ہمیشہ حدف پہ نہیں بیٹھتا۔ کئی ایسے کیس ہیں اور واقعات ہیں جن کا ٹرینڈ سوشل میڈیا سے شروع ہوا اور ختم ہو گیا اور نتیجہ کچھ بھی نہیں۔
میں کسی فرد واحد کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا لیکن اجتماعی ہم لوگ سب اس میں شامل ہیں۔ لوگوں کو عملی طور پہ میدان میں آنا ہو گا لیکن برداشت، بردباری اور سمجھداری کے ساتھ، ہمارے ہاں لوگ نکلتے ہی غریبوں کی ریڑھیاں، گاڑیاں کھوکھے توڑنے لگ جاتے ہیں۔ یا پھر گھروں میں میری طرح پڑے رہتے ہیں اور فیس بک پوسٹ ٹویٹ کر کر کے اپنی بے بس بھڑاس نکال کر مطمئین ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیف جسٹس یا چیف آف آرمی تک تو بات بعد میں پہنچنئ چاہئے پہلے جس جگہ یا علاقے میں کوئی برائی کوئی ایسا عمل ہو وہاں لوگ بلا کسی تفریق ذمہ داران کو بحوالہ قانون کریں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کی پیرووی مل کر کریں تاکہ اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، مزید اسکے سدباب اور دوبارہ نا ہونے پہ بھی متفق ہوں اور ضروری اقدامات کئے جائیں۔
جزاک اللہ الخیر
از: قلم نا تواں
راشد ادریس رانا
05 جولائی 2018
No comments:
Post a Comment