Sunday 31 December 2017

ابھی وقت لگے گا۔

فروٹ والی دکان پہ وہ نوجوان جلدی جلدی فروٹ تول کر گاہکوں کو دے رہا تھا۔ناجانےکیوں دل میں اک خیال آیا کہ یہ بھی تو اس ملک کی قیادت سنبھال سکتا ہے، یہ بلاول،مریم، حمزہ اور ان جیسے مورثی چوروں سے بہتر ہےجوعوام کااربوں کھربوں ھڑپ رہے ہیں۔پھر اچانک چونک گیا جب لڑکے نے کمال مہارت سے سیب تولتے ہوئے ایک گلا سڑا سیب بھی آرام سے ڈال دیا،اور میری طرف مڑا توچونک گیااورتھوڑی خجل سی مسکراہٹ سے پوچھا جی کیا چاہئے۔
میں نے بے بسی سے اسکی طرف دیکھا اور کہا
چاہتا توزندگیوں کوبدلنا تھا
لیکن ابھی تک سوچ نہیں بدلی اس قوم کی ابھی اور وقت لگے گا۔
قلم ناتواں:ر۔ا۔رانا
31 دسمبر 2017

Saturday 11 November 2017

اخلاقی سزائیں

کچھ عرصہ سے پاکستان میں خصوصی طور پہ کراچی میں ایک عدالت میں مجرموں کو کچھ سزائیں دی جا رہی ہیں جو جیل میں بند کرنے کی بجائے کچھ یوں ہیں:

ایک مجرم کو سزا ملی کہ وہ 2 سال تک ایک جگہ پلے کارڈ لے کر کھڑا ہو گا جس پہ ٹریفک قانون کی پاسداری کا لکھا ہوا ہو گا.

*اسکا جرم تھا کہ اس نے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی.

اسی طرح تازہ ترین ایک بندے کو 3 سال تک با جماعت نماز پنجگانہ ادا کرنے کا کہا گیا جس کی رپورٹ امام مسجد سے لی جائے گی.

*اسکا جرم کرپشن اور دھوکہ دہی تھا*

ایسے ہی ملتی جلتی کچھ اور سزائیں بھی دی گئی ہیں. حال ہی میں وکلا نے اسکے خلاف آواز اٹھائی کہ یہ سزائیں غیر قانونی ہیں وغیرہ وغیرہ.

اب سوال یہ ہے کہ جو ہمارا نظام قانون اور سزائیں ہیں

₪ کیا ان سزاؤں کے بعد لوگ سدھر جاتے ہیں؟
₪ کیا ہونے والے نقصان کا ازالۂ ہو جاتا ہے؟
₪ کیا ان سزاؤں کے بعد لوگ اخلاقی طور پہ سدھر جاتے ہیں یا مزید بگڑ جاتے ہیں؟
₪ کیا ان سزاوں سے ہم سب کو معاشرے میں کوئی سبق یا عبرت ملتی ہے؟

جواب اگر واقعی ہی ایک تحقیقی سروے کیا جائے تو جواب ملے گا "نہیں".
ہمارا سزاوں کا نظام ایسا ہے کے جس میں عبرت اور سبق کم اور ترغیبِ جرم زیادہ ملتا ہے. ہمارے نظام میں زور اس بات پہ ہے کہ بندہ جرم کے بعد جیل میں آ کے جیل کی آبادی میں اضافہ نا کرئے بس، باقی باہر وہ مزید کیا کرئے اس سے قانونی لوگوں کا کچھ لینا دینا نہیں. جیل سے نکلنے والے 90 سے 97 فیصد لوگ پکے مجرم یا تربیت شدہ مجرم بن چکے ہوتے ہیں.

تو ایسی ابتر صورتحال میں میرے عزیز ہم وطنوں! کیا یہ *اخلاقی سزائیں* قدرے بہتر نہیں کہ جن میں کم از کم دیکھنے والوں کے لئے ایک عبرتناک سبق  ہے

بھائی یہ سزائیں بھی سزا ہی ہیں. جس کی ساتھ شرط ہے کہ اگر مجرم ان کی پابندی نہیں کرئے گا تو اس کو جیل بھی جانا ہی پڑے گا.
خداراَ اگر کچھ اچھا کام ہو رہا تو اسکے خلاف اپنی گہری عقل کا استعمال کم کر دیا کریں. یہ اخلاقی سزائیں ہیں جن کا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہے.

از خود راشد ادریس رانا
قلم نا تواں
11 نومبر 2017

Monday 21 August 2017

"دو لمحے" تحریر محترم ارشد محمود

بشکریہ
محترم نادر خان سرگروہ
محترمہ شمسہ نجم صاحبہ
انتظامیہ: حرفِ ادب
محترم توصیف صدیقی
"اے زندگی" ریڈیو شگاگو

دو لمحے
تحریر: ارشد محمود
وہ باتھ روم کے آئینے میں اپنی ہی آنکھوں میں رات دیکھے خواب کی پرچھائیاں تلاش کررہاتھا۔ ڈھلتی عمرکے ساتھ آنکھوں میں خواب کی جگہ آسیب اتر آتے ہیں۔ اچھے برے اعمال کا بوجھ ۔ کندھوں پر رکھی بینگھی کے دونوں پلڑوں کی جنبش اور پل صراط پر توازن برقرار رکھنے کی کوشش۔ خوف سے لرزاں تھکن سے چور اور ندامت کے پسینہ میں شرابور بدن۔۔۔۔۔ ہاتھ پر پانی کی دھار نے خیال کی رو کو حقیقی دنیا سے جوڑ دیا۔ نظر واش بیسن پر گئی۔ اور سامنے کے منظر سے ایک چھناکا ہوا۔ کبھی کبھی اچانک لمحے وارد ہوتے ہیں ، ہاتھ تھام کر ساتھ بہا لے جاتے ہیں ، اُس گھڑی اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی دھار کے ساتھ کسی بچھڑے لمحہ کا لمس بھی آن ٹکا۔۔۔۔۔۔۔۔ بجلی کی سی تیزی سے اسکا بایاں ہاتھ پانی کے بہاوکو روکنے کے لیۓ ٹونٹی کے ہینڈل پر گھوما اور اس سے کئی گنا تیزی سے دائیں ہاتھ سے اس نے چیونٹی کو شہادت کی انگلی پر اٹھا لیا، چیونٹی بے سدھ اسکی انگلی پر ساکت پڑی تھی۔۔۔۔
وہ بھی تو اس دن یونہی ساکت تھا۔۔۔۔۔ چڑیا کا وہ ننھا سا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اوربھولے بسرے لمحے نے اس کا ہاتھ تھام لیا، 7 سال کی بالی عمر کے وہ دن تھے جب دیکھ کر سیکھنے اور کر گزرنے کا جنوں جا بجا بھٹکائے رکھتا ہے ،جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں ہر ذی روح اپنی اپنی پناہ گاہ میں دبکا ہوا تھا، وہ ایر کنڈیشن کی نرم خنکی میں گھلتی سانسیں اور بند پپوٹوں کو نظر انداز کرتا پیاس سے بلبلاتے چڑیا کے بچے کی دھیمی پڑتی آواز کے تعاقب میں اس گھنے پیڑ تک جا پہنچا جہاں چڑیا نے بچے دے رکھے تھے۔ پیلی پڑتی گھاس پر گرا چڑیا کا وہ بے بال و پر بچہ گرمی اور پیاس سے نڈھال تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی پسینے سےبھیگی ہتھیلی پر رکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرم گوشت کے اس پار ننھے سے دل کی دھڑکن صاف محسوس کی جا سکتی تھی
کچھ دیر اس کو ہاتھوں میں لیۓ گھومنے کے بعد اچانک اسکے ذہن میں ایک خیل آیا۔ جو دو روز قبل اسکے چچا کے مرغی ذبحہ کرنے کے تجربہ سے منسلک تھا۔ اگلے ہی لمحہ وہ سبزی کاٹنے والی چھری سے چڑیا کے بچے کا گلا کاٹ چکا تھا۔ ننھا سا بدن لمحے بھر کو تڑپ کر ہمیشہ کے لیئے ساکت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ہولناک تجربہ کے اختتام سے قبل ہی اسے وہ سکوت اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس یوا۔۔۔۔۔۔ وہ بوجھ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اذیت۔۔۔۔۔۔۔۔ جوناحق جان لینے والے ہر شخص کا مقدر ہوتی ہوگی۔
احساسِ گناہ نے اسے اوّلین انسانی قتل کے بعد نعش کو زمین گھود کر ٹھکانے لگانے کی ترغیب دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوّے کی ان سنی ان دیکھی واردات کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید بھلے زمانے تھے۔۔۔۔۔۔انسان تو کیا انسانی نعشوں کی بے حرمتی بھی ممنوع تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اُسے گھر کے ایک غیر آباد کونے میں مٹی تلے دبا تو دیا۔ لیکن وہ کونا ہمیشہ اسکے دل میں قدیم قبرستان کی طرح آباد رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظر دھندلانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ شہادت کی انگلی پر دھری چیونٹی کو اس نے انتہائی آہستگی سےواش بیسن کے خشک حصہ پر اتارا ۔۔۔۔۔
نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں یاس و بیم میں۔ پھر چیونٹی نے ڈھلوان کی جانب سفر شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دھندلائے ہوئے آئینے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے نم گوشوں کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانس میں سکینت بھری ہوئی تھی.

Saturday 12 August 2017

نا سمجھوں کا ٹولہ

₪ حکومتوں کا گرانا، کسی جماعت پہ کرپشن ثابت کرنا اقتدار ختم کرا دینا اور لولی لنگڑی. سسکتی اور آہیں بھرتی نام نہاد ہی سہی، سیاہ ست کو ناکارہ کر دینا یہ ہے وہ کامیابی جس پہ عمران خان سمیت سبھی اپوزیشن جماعتوں کا زور رہتا ہے. لیکن بعد از نتائج اور بد تر صورتحال بارے کوئی نہیں سوچتا.

سمجھتے نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے کبھی مری روڈ پہ چلنے والی اومنی بس میں سفر نہیں کیا. جس میں موجود ڈرائیور کنڈیکٹر دونوں نشئی ہوتے ہیں بد تمیز جاہل ہوتے ہیں دنیا کر قریب قریب سب برائیاں ان میں موجود ہوتی ہیں لیکن!!!!!!!
ہم پیسے دیکر انکے ساتھ سفر کرتے ہیں زندگی.داو پہ لگا کر سب کچھ برداشت کرتے ہیں کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

"کیونکہ مقصد ہوتا ہے منزل تک پہنچنا."
جب تک ہمارے پاس بہتر سے بہترین متبادل نہیں آتا یا وہ جس پہ بھرپور یقین ہو کہ وہ ہمارے معیارکے مطابق ہے ہم کیوں ھاھاکار مچا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف ہم ہی مسیحا ہیں اور کوئی نہیں........

ہمارے ہاں زور برائی پہ رہتا ہے اسباب پہ نہیں.
ذاتیات پہ اتریں تو دودھ کا دھلا کوئی نہیں. کاروبار روپے پیسے کی بات کریں تو شک سبھئ پہ جاتا ہے..... پھر بھی ہم میٹھئ گولی لے کر آسمان سے فرشتوں کے اتر آنے کا خواب دیکھتے ہیں . کوئی قوم پرستی کا شکار کوئی فرقہ پرستی کا کوئی برادری ازم کا...... غرض 90 فیصدغرض ہے اور خلوص کہیں ایک تنہا چراغ کی مانند ہوا کے تھپیڑے کھاتا ہوا.

ازخود
راشد ادریس رانا
قلم بے لگام
12 اگست 2017

Monday 20 March 2017

کتوں کی دعا از حفیظ جالندھری

کُتّوں کی دُعا
پاک سر زمین شاد باد پاکستانی قومی ترانے
اور ’’شاہنامہ اسلام‘‘ جیسی مشہور و معروف کتاب کے خالق
ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں
کہ میری عمر بارہ سال تھی ۔میرا لحن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کے مرض نے بھی مجھے آلیا تھا۔ اس لئے اسکول سے بھاگنے اورگھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی عادت بھی پڑ چکی تھی ۔
میری منگنی لاہور میں میرے رشتے کی ایک خالہ کی دُختر سے ہو چکی تھی۔ میرے خالو نے جب میری آوارگی کی داستان سُنی تو سیر و تفریح کے بہانے محترم نے جالندھر سے مجھے ساتھ لیا اور محض سیر و تفریح کا سبز باغ دکھلانے شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں میں پہنچ گئے ۔ اصل سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہونے والے خُسر اورفی الحال خالُو میرے متعلق اپنے دینی مرشد سے تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ وہ بزرگ ان کی بیٹی کی شادی مجھ ایسے آوارہ سے کردینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔
یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کہنہ سال بزرگ تھے۔ اُن کے اِردگرد مؤدب بیٹھے ہوئے دوسرے شُرفا سے پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ سبحان اللہ کے تحسین آمیز کلمات سُنے ۔
ہر روز نمازِ عشائ کے بعد میلاد کی بزم اورنعت خوانی کا اہتمام ہوتا۔ دو مہینے اسی جگہ گزرے۔
اس سال ساون سُوکھا تھا۔ بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ بارش کے لئے میدانوں میں جاکر نمازِ استسقائ ادا کرتے تھے ۔ بچّے ، بوڑھے ، جوان مرد و زن دعا کرتے لیکن گھنگھورگھٹا تو کیا کوئی معمولی بدلی بھی نمودار نہ ہوتی تھی ۔یہ ہے پس منظر اس واقعہ کا جسے میں عجوبہ کہتا ہوں۔ جسے بیان کردینے کے لئے نہ جانے کیوں مجبور ہو گیا ہوں۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ محترم بزرگ کون تھے؟ مجھے یقین ہے ان کا خاندان آج بھی جلال پور جٹاں میں موجود ہے ۔ ان بزرگ کا نام نامی حضرت قاضی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھا اَسی پچاسی برس کی عمر تھی دُور دُور سے لوگ ان سے دینی اور دُنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے۔ یہ استفادہ دینی کم دنیوی زیادہ تھا۔ آنے والے اوردو تین دن بعد چلے جانے والے گویا ایک تسلسلِ امواج تھا۔ کثرت سوداگروں اورتجارت پیشہ لوگوں کی تھی ۔
میری نعت خوانی کے سبب حضرت مجھے بسا اوقات اپنے مصلّے کے بہت قریب بٹھائے رکھتے تھے۔ ایک دن میری طرف دیکھ کر حضرت نے کہا’’برخوردار تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی سے مجھے خوش کرتے ہو ، تمہارے لئے میرے پاس بس دعائیں ہی ہیں۔ انشائ اللہ تم دیکھو گے کہ آج تو تم دوسروں کی لکھی ہوئی نعتیں سناتے ہو، لیکن ایک دن تمہاری لکھی ہوئی نعتیں لوگ دوسروں کو سنایا کریں گے ۔‘‘
اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ محّب صادق میری زندگی کا مقصود بیان کررہے ہیں۔ بہر صورت یہ تواُن کی کرامتوں میں سے ایک عام بات ہے جس عجوبے کے اظہار نے مجھ سے آج قلم اٹھوایا وہ کرامتوں کی تاریخ میں شاید بے نظیر ہی نظر آئے ۔
ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اوران کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان میں میرے خالو بھی تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اورحضرت مصلّے پر بیٹھے تھے ۔ السّلام علیکم کہتے ہوئے کندھوں پر رومال ڈالے سات آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہوکر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے ۔ قاضی صاحب نے وعلیکم السلام اوربسم اللہ کہہ کر بیٹھ جانے کاایما فرمایا۔ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئے اورمولوی صاحبان تشریف فرما ہوگئے۔
ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت !ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے ۔ یہ چار صاحبان گجرات سے اور یہ وزیر آباد سے آئے ہیں۔ میں ، آپ جانتے ہیں ڈاکٹر ٹیلر کے ساتھ والی مسجد کا امام ہوں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ باہر خلق خدا مررہی ہے ، نمازی اور بے نماز سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کرتے کرتے ہار گئے ہیں ۔ ہر جگہ نمازِ استسقائ ادا کی جارہی ہے ۔ کیا آپ اورآپ کے ان مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں اورآپ بھی اپنی پیری کی مسند پر سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے ،کہ لوگوں کی چیخ و پکار دیکھیں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے۔
میرے قریب سے ایک شخص نے چپکے سے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ’’یہ وہابی ہے ‘‘۔
میں اُن دنوں وہابی کا مفہوم نہیں سمجھتا تھا ۔ صرف اتنا سنا تھا کہ یہ صوفیوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور نعت خوانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب سلام پیش کیا جاتا ہے تو یہ لوگ تعظیم کے لئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ کھڑے ہونے والوں کو بدعتی کہتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نے پوچھا’’حضرات! آپ فقیر سے کیا چاہتے ہیں‘‘۔ توان میں سے ایک زیادہ مضبوط جُثے کے مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا ’’اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دُعا یہ کرو۔ سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘
یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اورجواب جو آپ نے دیا وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔
قاضی صاحب نے فرمایا ’’آپ کُتّوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دُعا کریں‘‘۔ یہ فرمانا تھا کہ مولوی غضب میں آگئے اور مجھے بھی اُن کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا۔ چنانچہ وہ جلد جلد بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کوٹھڑی سے باہر نکل گئے۔
قاضی صاحب کے اِردگرد بیٹھے ہوئے نیاز مند لوگ ابھی گم صم ہی تھے کہ مولوی صاحبان میں سے جو بہت جَیّد نظر آتے تھے ، دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے ، اُن میں سے ایک نے کہا’’حضرت! ہم تو کُتّے کی بولی نہیں بول سکتے ۔ آپ ہی کُتّوں سے دُعا کرنے کے لئے فرمائیے۔‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے۔
حضرت ! پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا ، کل صبح تشریف لائیے کُتّوں کی دُعا ملاحظہ فرمائیے’’!‘‘مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چل دئیے اور میں نے اُن کے الفاظ اپنے کانوں سے سُنے کہ ’’یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں۔‘‘
جب مولوی صاحبان چلے گئے تو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ’’ذرا چھوٹے میاں کو بلائیے۔ ‘‘ چھوٹے قاضی صاحب کانام اب میں بھولتا ہوں۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اورقیام و طعام کا سارا انتظام انہی کے سِپرد تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے اور دیگیں قاضی صاحب کی حویلی کی ڈیوڑھی اورصحن میں پکتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ جس میں عشائ کی نماز کے بعد نعت خوانی ہوا کرتی تھی اورمیں ذوق و شوق سے یہاں نعت خوانی کیا کرتا تھا۔
میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا’’ میاں کل صبح دو تین سو کُتّے ہمارے مہمان ہوں گے آپ کو تکلیف تو ہوگی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کرا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کے ڈیڑھ دو سو دَونے شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گا۔ ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نماز فجر کے بعد ہم خود مہمانداری میں شامل ہوں گے۔‘‘
چھوٹے قاضی صاحب نے سر جھکایا اگر چہ ان کے چہرے پر تحیر کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لئے تویہ باتیں تھی ہی پُراسرار ، لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کر قاضی صاحب کے دوسرے مستقل نیاز مندوں اورحاضر باشوں سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔
میں نے تین چار کڑاہے حویلی کے صحن میں لائے جاتے دیکھے، یہ بھی دیکھا کہ کشمش، بادام اور حلوے کے دوسرے لوازمات کے پُڑے کھل رہے ہیں۔ سُوجی کی سینیاں بھری رکھی ہیں گھی کے دو کنستر کھولے گئے۔ واقعی یہ تو حلوے کی تیاری کے سامان ہیں۔ ناریل کی تُریاں کاٹی جارہی ہیں اورسب آدمی تعجب کر رہے ہیں کہ کُتّوں کی مہمانداری وہ بھی حلوے سے ؟
صبح ہوئی نماز فجر کے بعد میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب قبلہ دو تین آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اپنی ڈیوڑھی سے نکل کر گلی میں اِدھر اُدھر گھومنے لگے چند ایک مقامات پر مزید صفائی کے لئے فرمایا۔میری ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کُتّوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اورجلال پور جٹاں میں سے مختلف عمر کے لوگ اس گلی میں داخل ہورہے تھے۔ وہ قاضی صاحب کو سلام کرکے گلی میں دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے اورجانے کیا بات تھی کہ یہ سب اونچی آواز سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں اور بچے تھے۔
ہم دونوں قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اورمیں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و غریب تماشا دیکھنے لگے ۔
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھری ہوئی سینیاں لاتے جارہے تھے ۔ اور قاضی صاحب چمچے سے ان دَونوں کو پُر کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے دَونا اٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مین گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوے بھرے دَونے رکھے جا چکے تو اُنہوں نے بلند آواز سے دَونوں کو گِنا۔ مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پشت کئے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ سُنا ہوگا:’’کُل ایک سو بائیس(۱۲۲)ہیں۔‘‘
یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں جن کو میں انسانی ہجوم کی چیخیں سمجھا ۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی، میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں اور بچے اورمرد گلی میں اور کوٹھوں سے چیخ رہے تھے۔
کیوں چیخ رہے تھے اس لئے کہ ایک کُتّا جس کو، جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے اِردگرد چلتے پھرتے اورمہمانوں کا بچا کچھا پھینکا ہوا کھانا کھاتے اکثر دیکھا تھا، بہت سے کُتّوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔ جو بے شمار کتّے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھا بھونکنا توکیا اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتّا خوفزدہ نہ تھا۔ اورنہ کوئی غرّا رہا تھا۔ کتّے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہورہے تھے۔
کتّوں کی یہ پُراسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی ، پھر ایسی دہشت آج تک مجھے بھی محسوس نہیں ہوئی۔
قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشتِ شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔
اس گلی والا وہ کُتّا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں قاضی صاحب کے قدموں میں آکر دُم ہلانے لگا۔ قاضی صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا’’بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالٰی رحمت کی بارش نہیں برسا رہا، اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے ۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں پھر اللہ سے دعا کریں کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بادلوں کو اجازت دے تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں۔‘‘
یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہوگئے اورمیں کیا سبھی نے ایک عجوبہ دیکھا۔
خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھرے دَونے کے گِرد تین تین کُتّے جُھک گئے اور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کر دیا۔ ایک بھی کُتّا کسی دوسرے دَونے یا کتّے پر نہیں جھپٹا، اورنہ کوئی چیخا چلایااورجس وقت یہ سب کُتّے حلوہ کھار رہے تھے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جو اس گلی کا پرانا باسی اوران تمام کتّوں کو یہاں لایا تھا خود نہیں کھا رہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتّوں کی نگرانی کررہا ہو یا میزبانی ۔
میں نے اسکول میں اپنے ڈرل ماسٹر صاحب کو طالب علموں کو اِسی طرح نگرانی کرتے وقت گھومتے دیکھا تھا۔ کالو کا انداز معائنہ بڑا پُر شکوہ تھا جس پر مجھے اپنا ڈرل ماسٹر یاد آگیا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی لڑکا ماسٹر صاحب کے سامنے ہلتا تک نہیں تھا۔
تھوڑی دیر میں سب کُتّے حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے بے شمار لوگوں نے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی۔ وہ فرمارہے تھے،’’لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے‘‘۔
یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئے جیسے یہ لوگ زندہ نہیں یا سکتے کے عالم میں ہیں۔
اب صبح ، کے نو دس بجے کا وقت تھا، ہر طرف دھوپ پھیل چکی تھی ، تپش میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ جب قاضی صاحب نے ’’کالو’’ کو اشارہ کیا۔ حیرت انگیز محشر بپا ہوا۔ تمام کتّوں نے اپنا اپنا مُنہ آسمان کی طرف اُٹھالیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غُرانا شروع کیا جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا۔ جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں،’’کُتّا رو رہا ہے خدا خیر کرے‘‘۔
آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتّے جو مشرقی سمت سے اس کوچے میں داخل ہوئے تھے۔ اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔
میں اور قاضی اکرام ہی نہیں جلال پور جٹاں کے سبھی مردوزن کتّوں کو گلی سے رخصت ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اورخالی دَونے آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔ (یہ دستِ دُعا تھے)۔
جونہی کُتّے گلی سے نکلے قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دُعا کے لئے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے یقیناً یہ آنسو تھے۔
پَس منظر بیان ہو چکا اب منظر ملاظہ فرمائیے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج ستّر برس اور گیارہ میہنے کابوڑھا بیمار ہوں خدا عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی ، مرد ،عورتیں ، بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی ۔ ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے۔ پہلے مسجد میں گئے اورپھر حلوہ کھانے کا شوق لئے ہوئے حویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں اورحضرت قاضی صاحب حلوے کی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے جارہے ہیں ۔ وہ حلوہ کھاتے بھی جارہے ہیں اورآپس میں ہنس کر باتیں بھی کررہے ہیں۔ ایک کی زبان سے میں نے یہ بھی سُنا کہ حضرت یہ نظر بندی کا معاملہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔ جادو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعوذ باللہ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قاضی صاحب قبلہ ان کی اس بات پر دیر تک مسکرائے اوران بن بلائے مہمانوں کے لئے مزید حلوہ طلب فرماتے رہے ۔ باہر بارش ہو رہی تھی اوراندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اڑارہے تھے ۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں میں یہاں ثبت کئے دیتا ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہی مقصود تھا۔
قاضی صاحب نے کہا تھا’’کُتّے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے لیکن یہ آج بھلائی کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لئے دُعا کرنے کے لئے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی۔ ان کا ایک ہی امام تھا۔ اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لئے حلوہ حاضر کروں گا۔‘‘
ایک مولوی صاحب نے کہا’’حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے۔‘‘ قاضی صاحب بولے ’’مولوی صاحب ! ہم تو آپ ہی کے فَتوؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا ہے کہ کُتّے بھی کسی نیک مقصد کے لئے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔‘‘ یہ سُن کر مولوی صاحبان جھیپتے نظر آئے۔
مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحبان کو بھیگتے ہوئے ہی اس ڈیوڑھی سے نکل کر جاتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔ بخدا یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان کرنے پر کبھی یقین نہ کرتا۔ یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھا کہ حفیظ؎ تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سنایا کریں گے ۔
الحمدللہ ، نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ساری دنیا کے اُردوجاننے والے مسلمان خود پڑھتے اوردوسروں کو بھی سُناتے ہیں۔
ارادت ہو تو دیکھ ان خرقہ پوشوں کو..
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں...
~~~منقول~~~