شاعر: راشد ادریس رانا
"اداسیاں" سے اقتباس
"اداسیاں" سے اقتباس
03.03.2013
جب بھی روٹھا
ہے وہ مجھ سے
اپنی ہاتھوں کی
لکیروں میں
ہے وہ مجھ سے
اپنی ہاتھوں کی
لکیروں میں
بہت کریدہ
بہت تلاشا
بہت تلاشا
بہت کھنگالا،
کچھ نا پایا،
کچھ نا سمجھا،
کچھ نا جانا،
کچھ نا سوجھا،
کچھ نا سمجھا،
کچھ نا جانا،
کچھ نا سوجھا،
پھر اپنے دل کو
خود ہی سمجھایا
اپنے بند کمرے
میں لوٹ کےآیا
خود ہی سمجھایا
اپنے بند کمرے
میں لوٹ کےآیا
کھولی کھڑکی
اور خالی نظر کو
اوپر نیلے افق پر
دور دوڑایا
اور خالی نظر کو
اوپر نیلے افق پر
دور دوڑایا
دور کہیں پر ایک پرندہ،
تیز ہوا سے
جانے کتنی دیرسے پاگل
لڑتا لڑتا
تھک سا گیا تھا
تیز ہوا سے
جانے کتنی دیرسے پاگل
لڑتا لڑتا
تھک سا گیا تھا
میں نے سوچا،
مجھ میں اس میں
کیا فرق ہے باقی
میں بھی لڑتے لڑتے
اک دن تھک جاوں گا،اور نا پھر واپس آوں گا......
مجھ میں اس میں
کیا فرق ہے باقی
میں بھی لڑتے لڑتے
اک دن تھک جاوں گا،اور نا پھر واپس آوں گا......
پھر بھی مجھ سے روٹھ ہے جاتا
کاش کوئی اس کو سمجھاتا....
کاش کوئی اس کو سمجھاتا....
بہت عمدہ۔۔۔
ReplyDeleteThanks to like Mr. Imran Iqbal.
Delete