Friday 14 June 2019

رب کا شکر ادا کر بھائی

کاپی شدہ: فیس بک پیج "سچی کہانیاں"

ماچس کی ڈبیاں اس وقت ایک روپے کی چار آتی تھیں لیکن چولہا جلانے کے لیے دادی گتے کی چھپٹیوں کا استعمال کرتی تھیں۔ چھپٹی کہہ لیجیے کہ جیسے چائے کا ڈبا ہے ، اس کے باریک اور لمبے بہت سے ٹکڑے کاٹ لیں، آئس کریم سٹک کی طرح سے ، تو وہ ایک ٹکڑا ایک چھپٹی کہلاتا ہے۔ اب سین یہ ہوتا تھا کہ صبح جو پہلا چولہا جلتا وہ ماچس سے جلایا جاتا، اس کے بعد دوسرا اور تیسرا چولہا جلانے کے لیے وہی چھپٹی پہلے چولہے سے جلا کر باقی دونوں کو دکھا دیتیں اور یوں ماچس کی دو تیلیوں کی بچت ہو جاتی۔ وہ سب گتے کے باریک ٹکڑے یا چھپٹیاں چولہے کے برابر کسی بھی ڈبے میں رکھی ہوتی تھیں۔ دادی جب تک زندہ تھیں ان کا استعمال ہوتا رہا۔ جب تک نظر ٹھیک تھی تو فارغ وقت میں وہ سوئیٹر وغیرہ بن لیتی تھیں، نظر کمزور ہو گئی تو اسی طرح کے چھوٹے موٹے بہت سے کام انہوں نے خود اپنے ذمے لے لیے ۔ ماچس کی بچت آج کون سوچ سکتا ہے ؟ یعنی ایک تیلی جس کی وقعت آج بھی شاید دو پیسے ہو گی دادی اس کے استعمال میں کفایت کرتی تھیں، فضول خرچی نام کی چڑیا کبھی اڑتی ہی نہیں دیکھی۔

قلفی والا آتا، دور سے ہی گھنٹی بجنے کی آواز آنا شروع ہو جاتی، ابھی لکھتے لکھتے بھی منہ میں پانی آ گیا، کیا ہی قلفی ہوتی تھی! وہ گھنٹی جب بجتی اور بچے دادی سے پیسے مانگتے تو جتنے چاہیے ہوتے اتنے ہی وہ دیتیں لیکن کہتیں، چندا منہ ہی میٹھا کرنا ہے نا، تین روپے والی کھاؤ یا ایک روپے والی، پیٹ کبھی نہیں بھر سکو گے، ایک والی کھاؤ گے تو باقی دو روپوں سے شام میں کچھ کھا لینا۔ لیکن شام کون دیکھے ، اور شام میں کچھ بجوگ پڑ بھی گیا تو دادی کا بنک پھر دوبارہ کام آ جاتا تھا۔ یہ بات بھی اب سمجھ میں آتی ہے ۔ جو بھی کھا لیجیے ، جتنا بھی کھا لیجیے ، بھوک ہر حال میں دوبارہ لگنی ہی لگنی ہے ، تو کیوں نہ حساب سے کھایا جائے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔

ایک نعمت خانہ ہوتا تھا۔ نعمت خانہ اس زمانے کا فریج تھا۔ چار فٹ لمبائی، تین فٹ چوڑائی اور تین فٹ ہی گہرائی کی ایک الماری جس میں چاروں طرف لکڑی کے فریم کے اندر جالی لگی ہوتی تھی۔ یعنی بس ایک ہوادار سی الماری تھی جو باورچی خانے میں ایک کونا سنبھالے ہوتی تھی۔ دودھ ابالا، اسی میں رکھ دیا، سالن بنایا اس میں رکھ دیا، نچلے خانوں میں مصالحے وغیرہ بھی پڑے رہتے ، چائے کے لوازمات بھی وہیں دھرے ہیں، ماں کے لیے جو ڈرائے فروٹ نانا بھیجتے تھے وہ بھی وہیں سے چرا کر کتنی دفعہ کھایا، تو نعمت خانہ بڑی مزے کی چیز تھا۔ اسے ہرگز یہ دعویٰ نہیں تھا کہ میں پانچویں دن بھی آپ کو تازہ سالن کھلا سکتا ہوں، وہ سکھلاتا تھا کہ بھئی اتنا پکاؤ جتنا رات تک ختم ہو جائے ، کل کی فکر کل ہی کرنا!

ایک کام اور بھی دادی کا بڑا زبردست تھا۔ کبھی کوئی چیز ضائع نہیں کرتی تھیں۔ اپنے کپڑوں کی سلائی میں سے بچی کترنیں، دھاگوں کے چھوٹے بڑے گچھے ، مختلف رنگوں کے بٹن، سر میں لگانے والی سیاہ پن (بوبی پن)، سوئٹروں کی سلائی سے بچی اون، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے ، پانچ پیسے کا وہ چوکور سکہ، دس پیسے والے کنگری دار سکے یا چونی اٹھنی جو بھی بچتا وہ سب کا سب پاندان میں ان کے پاس سنبھلا رہتا تھا۔ ضرورت کے وقت نکل بھی آتا تھا۔ ایک فٹ کا پاندان گھر داری کی ضرورتیں بھی پوری کرتا تھا۔

اس وقت ایک انسان کے پاس جیب میں پانچ دس نوٹ ہوتے تھے اور اگر وہ سگریٹ پینے والا ہوتا تو ساتھ ایک ڈبی اور ماچس بھی ہوتی، زندگی یہیں تک تھی اور پھر بھی حسین تھی۔ آج آپ نے گھڑی بھی لازمی باندھنی ہے ، سالم بٹوہ جیب میں ہونا لازم ہے ، موبائل تو امت پر فرض ہو چکا ہے ، اس کی بیٹری کمزور ہے تو پاور بینک بھی ہاتھ میں رکھنا ہے ، سواری کی چابیاں بھی ساتھ ہیں، سگریٹ پیتے ہیں تو وہ، اس کا لائٹر، بندہ دو جیبوں میں کتنا کچھ رکھ سکتا ہے ؟ جیبوں میں ضرورت سے زیادہ سامان بھر لینا اور پھر اس کے پیچھے جیبیں خالی کرتے جانا دورِ جدید کی عطا ہے ۔

اے سی، فریج، ٹیلی فون، رنگین ٹی وی، وی سی آر، شاور، مسلم شاور، ٹائلوں والے باتھ روم، ماربل اور چپس والے فرش، ایلومینیم کی کھڑکیاں، ہر بندے کی اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی، یہ سب ابھی بیس پچیس برس پہلے تک نوے فی صد لوگوں کے لیے ایک خواب ہوتا تھا، کون مان سکتا ہے ؟ ماموں گیارہویں سال گرہ پر آئے تو لال رنگ کی ایک سائیکل لائے تھے ، اس سے آج تک نیچے نہیں اترا، خوشی بس یہ ہوتی تھی!

خواب پورے کرنے کے لیے قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ بجلی کے بلوں پر چیخنے سے پہلے گھر کے اندر اے سی گن لیجیے ۔ گیس کے بل پر بلبلانے سے پہلے گیزر چیک کیجیے ، کتنے ماہ سے بند نہیں ہوا؟ پیٹرول کے بڑھتے ریٹ پر احتجاج کرنے سے پہلے یاد کیجیے کہ سائیکل سے اترتے ہوئے کندھے ٹانگیں اور کمر کیا احتجاج کرتے تھے ۔ ذرا وہ لال اینٹوں کے صحن اور سیمنٹ والے باتھ روم یاد کیجیے جن میں بالٹی سے ڈونگے بھر بھر کے نہانا ہوتا تھا اور اب شاور کے مزے دیکھ لیجیے کہ جس کے نیچے سے ہٹنے کا دل نہیں چاہتا۔ موبائل کمپنیوں کی دھاندلی کا رونا روتے ہوئے تصور کیجیے کہ ماں بہنوں کو فون سننے چھ گھر پار جانا پڑے تو کیسا لگتا ہو گا۔ انٹرنیٹ ری چارج کرواتے ہوئے سوچیے کہ یہ جو مفت میں گھنٹوں پردیسیوں سے بات ہوتی ہے ، یہ کیا دو منٹ کو بھی ممکن تھی؟ جو بہت زیادہ افورڈ کر سکتے تھے وہ مکمل ویڈیو کیسٹ ریکارڈ کروا کے گھر بھیجتے تھے ، پورا گھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتا تھا اور ماں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ باپ کا دل کمزور نہ پڑ جائے ، باپ تو ویسے ہی “مرد” بننے پر مجبور ہوتا تھا۔ ہما شما آڈیو کیسٹ پر آواز سن کر دوپٹے کے کونے بھگو لیتے تھے اور غریب غربوں کا آسرا وہی خط ہوتا تھا جو آج بھی نصف ملاقات سمجھا جاتا ہے لیکن ایس ایم ایس اور ای میل جسے دفن کر چکے ہیں۔

تو یہ قیمت چکاتے چکاتے راستہ وہاں لے جاتا ہے جہاں نئے خواب منتظر ہوتے ہیں۔ سستے موبائل والا مہنگا موبائل لے گا۔ سائیکل والا موٹر سائیکل لے گا، موٹر سائیکل والا چھوٹی گاڑی لے گا، چھوٹی گاڑی کے بعد بڑی کا خواب دیکھا جائے گا، بڑی سے اور بڑی اور پھر اور بڑی۔ یہی معاملہ کچے گھروں سے نکلنے والوں کو دو کنال کے بنگلے میں بھی چین نہیں لینے دیتا اور اسی طرح کا حال ٹیکنالوجی کے مارے ہوؤں کا ہوتا ہے ۔ لیپ ٹاپ، موبائل، ٹیبلٹ، ہر چار سے چھ ماہ بعد ان کے نئے ماڈل دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں ساتھ رکھنا سٹیٹس کی نشانی، انسان کتنا اپ ٹو ڈیٹ رہ سکتا ہے ؟ یارو، ایک لاکھ کے موبائل پر چڑھ کے گھر سے بندہ صدر تک تو جا نہیں سکتا، فائدہ کیا ایسی اندھی ریس میں پڑنے کا، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان!

ابا کہتے ہیں عرب شہزادے بھی اے سی کی وہی ٹھنڈک لیتے ہیں جو آپ کے پاس ہے ، معدے ان کے بھی آپ جتنے ہیں، گھڑی پر وقت وہ بھی ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے آپ دیکھتے ہیں، سبزہ انہیں بھی ویسی ہی فرحت دیتا ہو گا جیسے آپ کسی باغ میں جا کر محسوس کرتے ہیں، آئی فون سے مہنگا کوئی فون ان کے پاس بھی نہیں ہو سکتا، گاڑیاں ان کی واقعی بہت آرام دہ ہوتی ہیں لیکن بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں اگر آپ کے پاس ہیں تو آپ میں اور عرب شہزادوں میں کوئی فرق نہیں۔ بس چادر کا حساب رکھیے تو آپ خود ایک جیتے جاگتے شہزادے ہیں۔
رب کا شکر ادا کر بھائی

Thursday 9 May 2019

♡ماں کی محبت♡

ماں کی محبت سے متعلق ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ ملک خداداد خان صاحب کی ایک نہایت ہی عمدہ اور دل کو چھوُ لینے والی تحریر ۔

ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں-
لکس ، کیپری ، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرع چبھتا ... اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں... اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتے تھے ... لیکن مارا کبھی نہیں- کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا ... کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے ...
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا - ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹؤر ہوا کرتاتھا ... اور اس ٹؤر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی !!
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں .... ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے .... ان کا دوپٹا کھینچتے ... پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے-
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے ..... شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں ...." جب تو بڑا ہوگا ... نوکری کرے گا ... بہت سے پیسے آئیں گے ... تیری شادی ہوگی ... وغیرہ وغیرہ ... یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے ...
مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا- وہاں جلنے بجھنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹاختے بھی پھوٹ رہے تھے- میں نے ماں کی بہت منّت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانی- جب میں ماں جی کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا.....
شام کا وقت تھا .... ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھری - اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہی -
رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرع مجھ پر حملہ آور ہوئیں- اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتی-
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے- میں اس وقت چھ سات سال کا تھا- مجھے شدید بخار ہو گیا- اماں جی نے مجھے لوئ میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں- واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں ... لیکن مجھے بچا لیا ... انہیں شاید گھٹنے پر چوٹ آئ ... ان کے مونہہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا ... اور اپنے سسرال کےلئے کچھ ناروا الفاظ ... یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہے ....
یقیناً وہ بڑی ہمت والی خاتون تھیں-اور آخری سانس تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں ...
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب گھر آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ھنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کے سامنے آن پھینکتی- کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکہ چلاتی - جب میں گھر ہوتا تو مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹاتا- جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں ... " بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ....؟؟ "
وہ جانتی تھی کہ میں پیداٰئشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے-
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ... اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی-
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں .... میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائ...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
ماں بیمار ہوئ تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئ دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے ... جلد افاقہ ہو جائے گا ... پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ھسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے ......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئ تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا .... ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں بمشکل اتنا کہ سکا .... " اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا ... جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئیں تھیں ... اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئ تھیں .... "
وہ کھلکھلا کر ہنسیں تو میں نے کہا "امّاں مجھے معاف کر دینا ... میں تیری خدمت نہ کر سکا "
میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی ... وقت ہی نہیں ملا ... لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں .... بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا ... کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے !!! "
ماں نے میرے سامنے دم توڑا .... لیکن میں رویا نہیں ... دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئ...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
آج بیت اللّہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں .... وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ... وہی اپنائیت ... وہی محبت ... جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا .... اس بار منہ پھاڑ کر نہیں .... دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ ..... اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!

Tuesday 7 May 2019

پانچ سو ڈالر $

🗞 *پانچ سو ڈالر*

✍*جاوید چوہدری*

وہ محمد منور کو تلاش کر رہا تھا‘ اس نے محمد منور کی تلاش میں بے شمار اشتہار دیئے ‘ وہ اسے نیویارک‘ واشنگٹن‘ شکاگو اور ہیوسٹن میں بھی تلاش کرتا رہا ‘ اس نے اسے فرینکفرٹ‘ میلان‘ ایمسٹرڈیم‘ پیرس‘ لندن اور برسلز میں بھی تلاش کیا اور وہ اس کی تلاش میں ٹوکیو‘ بیجنگ اور منیلا بھی گیا تھا لیکن محمد منور نہیں ملالیکن وہ اس کے باوجود زندگی میں ایک بار اپنے محسن سے ضرور ملنا چاہتا تھا‘ وہ سمجھتا تھا اگر محمد منور نہ ہوتا تو وہ آج اربوں روپے کا مالک نہ ہوتا۔

اس کی کمپنی چھ براعظموں میں کام نہ کر رہی ہوتی اور وہ پانچ چھ ہزار لوگوں کا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتا۔ اس کا کہنا تھا اگر محمد منور زندہ نہیں تو اسے اس کے خاندان کا کوئی فرد چاہیے‘ اس کا کوئی بھائی ہو‘ اس کا والد ہو‘ اس کی بیوی‘ اس کا کوئی بچہ یا پھر اس کی کوئی بچی ہو‘ منور کے لواحقین میں سے کوئی نہ کوئی شخص تو دنیا میں موجود ہو گا‘ وہ بس اس شخص سے ملنا چاہتا تھا‘ اس کو اس کا حصہ دینا چاہتا تھا‘ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا تا کہ اس کی روح کو قرار آ سکے۔

یہ کہانی میرے ایک دوست نے سنائی تھی اور یہ میرے دماغ میں چبائی ہوئی چیونگم کی طرح چپک کر رہ گئی تھی‘ کہانی کے مرکزی کردار کا نام شفیق الحق تھا‘ وہ آج سے 35 سال پہلے امریکا گیا‘ وہ برگر کی دکان پر کام کرتا تھا اور شام کے وقت ایم بی اے کی کلاسز لیتا تھا‘ اس کی زندگی گھڑی کی سوئیوں کی طرح چل رہی تھی‘ کلاک وائز‘ ٹک ٹک ٹک‘ صبح ایک مخصوص وقت پر جاگنا‘ آنکھیں ملتے ملتے کپڑے تبدیل کرنا‘ کافی کا مگ اٹھانا اور زیر زمین ٹرین میں سوار ہو جانا‘ راستے میں مشین کے ذریعے شیو کرنا ‘ برگر شاپ پر پہنچ جانا‘ شام تک سیاحوں سے ٹپ وصول کرتے رہنا ‘کچن صاف کرنا‘ کچرے کے ڈبے سے کاغذی پیکنگ‘ پلیٹیں اور ٹرے نکالنا اور جس دن سویپر کی چھٹی ہوتی‘ اس دن باتھ روم بھی صاف کرنا‘ پانچ بجے دو برگر اٹھا کر کالج پہنچ جانا‘ لیکچر سننا‘ نوٹس لینا‘ لائبریری سے کتابیں اٹھانا‘ اسائنمنٹ کی پلاننگ کرنا اور رات دس بجے کمرے کی طرف چل پڑنا۔
وہ اپنے دوست کے ساتھ کمرہ شیئر کرتا تھا‘ اس کا دوست رات کی ڈیوٹی کرتا تھا اور صبح کمرے میں پہنچتا تھا جب کہ یہ رات کے وقت آتا تھا چنانچہ ایک بستر سے دونوں کا گزارہ ہو جاتا تھا‘ یہ زندگی خوفناک بھی تھی‘ پھیکی بھی‘ بے آرام بھی اور تلخ بھی کیونکہ اس زندگی میں وہ خود کو بھی پال رہا تھا‘ اپنی تعلیم کا خرچ بھی اٹھا رہا تھا اوروہ پاکستان میں بھی اپنی فیملی کو ’’ ہیلپ آئوٹ‘‘ کر رہا تھا‘ اس ساری روٹین میں اس کی واحد تفریح ویک اینڈ پر نائٹ کلب کے دو گھنٹے تھی‘ وہ دو گھنٹے ناچ کود کر اپنی ساری فرسٹریشن دور کر لیتا تھا‘یہ روٹین چل رہی تھی لیکن پھر اس کی زندگی بحران کا شکار ہو گئی‘ وہ یوں ہی چلتے چلتے ایک مسئلے کا شکار ہوا اور ایک ایسی بند گلی میں آ گیا جس کے آخر میں سزائے موت اس کا انتظار کر رہی تھی‘ وہ بری طرح پھنس گیاتھا‘ ہوا کیا؟

ہوا یہ کہ وہ ایک رات کلب سے نکلا‘ کلب کے باہر دو گروپوں میں لڑائی ہوگئی اور ایک لڑکی اس لڑائی کے درمیان پھنس گئی‘ اس نے لڑکی کو بچانے کی کوشش کی‘ اس دوران گولی چل گئی‘ لڑکی کوگولی لگی اور لڑکی نے اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا‘ وہ گھبرا گیا‘ اس نے لڑکی کی نعش فٹ پاتھ پر رکھی اور وہاں سے بھاگ گیا‘ پولیس آئی‘ پولیس نے تفتیش شروع کی تو ایک ہفتے میں اس کے فلیٹ تک پہنچ گئی‘ وہ گرفتار ہو گیا‘یہ قتل بعد ازاں اس کے ذمے لگ گیا‘ وہ بے گناہ تھا لیکن سارے شہر میں کوئی شخص اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ تمام شواہد بھی اس کے خلاف جا رہے تھے‘ اس دوران اس کے کاغذات بھی غلط نکل آئے‘ اس نے تعلیم مکمل کرنے کے لیے کالج میں جعلی دستاویزات جمع کرا رکھی تھیں چنانچہ وہ بری طرح پھنس گیا لیکن پھر ایک دن دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

اس کا کیس فائنل ہیرنگ کے لیے عدالت میں پیش ہوا‘ کیس کا اصل جج ’’ میڈیکل لیو‘‘ پر چلا گیا اور اس کی جگہ ایک خاتون جج کیس سننے کے لیے آ گئی‘ سماعت کے دوران جج نے اس سے اس کی قومیت پوچھی‘ اس نے روتی ہوئی آواز میں بتایا ’’ پاکستان‘‘ جج نے اومائی گاڈ کہا اور اس سے پوچھا ’’ تم منور کو جانتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلا دیا‘ جج نے کندھے اچکائے اور سماعت شروع کرا دی لیکن اس بار عدالت کا رویہ بالکل مختلف تھا‘ جج نے وکلاء سے چند ایسے سوال پوچھے جس کا اس کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا تھا‘ قصہ مختصر اسی سماعت کے دوران جج نے نہ صرف اسے باعزت بری کر دیا بلکہ پولیس کو اسے لاکھ ڈالر ہرجانہ دینے کا حکم بھی دے دیا‘ وہ رہا ہو گیا۔

شفیق الحق رہائی کے چند دن بعد شکریہ ادا کرنے کے لیے جج کے گھر چلا گیا لیکن جج کا کہنا تھا ’’تمہیں میری بجائے محمد منور کا شکریہ ادا کرنا چاہیے‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا ’’ محمد منور کون ہے‘‘ جج نے مسکرا کر جواب دیا ’’ محمد منور پاکستانی تھا‘ نیویارک شہر میں ٹیکسی چلاتا تھا اور میں نے اس فیصلے کے ذریعے محمد منور کا قرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘ جج نے بتایا‘ اس کے والد میکسیکو کے رہنے والے تھے‘ وہ کینسر کے مریض تھے‘ اس نے والد کے علاج کے لیے اپنا فلیٹ بیچا‘70 ہزار ڈالر لیے‘ وہ یہ رقم ایک بینک سے دوسرے بینک لے جا رہی تھی لیکن سفر کے دوران رقم کا تھیلا ٹیکسی میں بھول گئی‘ ٹیکسی نے اسے اتارا اور آگے نکل گئی‘ وہ بے بس ہو کر رہ گئی کیونکہ اس کا والد موت کے بستر پر پڑا تھا۔

وہ واحد اثاثہ بیچ چکی تھی اور رقم گم ہو گئی تھی‘ اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ ملا‘ وہ مایوس ہو گئی لیکن ایک شام اس کے دروازے کی گھنٹی بجی‘ اس نے دروازہ کھولا تو ٹیکسی ڈرائیور دروازے پر کھڑا تھا‘ ڈرائیور نے بتایا وہ مسلسل پانچ دن سے اسے تلاش کر رہا ہے اور وہ بڑی مشکل سے اس تک پہنچا ہے‘ ڈرائیور نے رقم کا تھیلا اسے پکڑا یا‘ اسے سلام کیا اور واپس مڑ گیا‘ جج نے اسے انعام دینے کی کوشش کی لیکن اس نے ’’یہ میرا فرض تھا‘‘ کہہ کر معذرت کر لی‘ جج نے جاتے جاتے اس کا نام پوچھا‘ اس نے بتایا اس کا نام محمد منور ہے اور وہ پاکستانی ہے۔

اس کے بعد نئی کہانی شروع ہو جاتی ہے‘ جج اپنے والد کو رقم بھجوانے کے لیے بینک گئی تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا‘ والد کے انتقال کے بعد اس نے اس رقم سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ جوڈیشری کا امتحان دیا‘ پاس کیا اور جج بن گئی اور آج وہ پاکستان کے تمام لوگوں کو محمد منور سمجھتی ہے اور اس کی عدالت میں جس پاکستانی کا کیس آتا ہے وہ محمد منور کا قرض اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ جج نے بتایا اس نے محمد منور کو تلاش کرنے کی بے تحاشا کوشش کی لیکن وہ نہ ملا۔ جج کا کہنا تھا ’’محمد منور کو اب تم تلاش کرو اور اپنی اور میری طرف سے اس کا شکریہ ادا کرو‘‘ شفیق الحق کی زندگی تبدیل ہو گئی‘ اس نے پولیس سے لاکھ ڈالر وصول کیے۔

ایک چھوٹی سی ٹریڈنگ کمپنی بنائی‘ یہ کمپنی چل نکلی اور وہ آہستہ آہستہ کروڑ پتی ہو گیا‘ اس کی کمپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے جاپان‘ چین اور منیلا سے خام مال خریدتی تھی اور بعد ازاں تیار مصنوعات مڈل ایسٹ اور یورپ بھجواتی تھی‘ وہ اس سارے عرصے کے دوران محمد منور کو تلاش کرتا رہا‘ اس نے نیویارک‘ واشنگٹن‘ شکاگو اور لاس اینجلس کے ہر ٹیکسی ڈرائیور سے منور کا پتہ پوچھالیکن وہ اسے نہ ملا‘ وہ محمد منور کو تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتا رہا ’’ پوچھو کیوں؟‘‘ میرے دوست نے کہانی کے آخر میں مجھ سے پوچھا‘ میں نے گھبرا کر انکار میں سر ہلا دیا‘ وہ بولا ’’ اس لیے کہ شفیق الحق نے اپنے ہر کاروبار میں محمد منور کا دس فیصد شیئر رکھا ہوا تھا اور وہ جلد سے جلد اس کو اس کا حق پہنچانا چاہتا تھا چنانچہ وہ اسے تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتا رہا‘‘۔

میرے لیے یہ ایک حیران کن کہانی تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں کوئی فلم دیکھ رہا ہوں اور فلم کے سین اور سچویشن تیزی سے بدل رہی ہے‘ میں نے بے چینی سے پوچھا ’’لیکن کیا اسے پھر محمد منور ملا‘‘ کہانی سنانے والے نے ہاں میں سر ہلایا‘ ایک لمبی سانس لی اور دکھی آواز میں بولا ’’ ہاں لیکن نیویارک کے ایک اسپتال میں آخری سانسیں لیتا ہوا‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولا ’’ شفیق کو ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے محمد منور کا ایڈریس تلاش کر دیا‘ وہ منور کی تلاش میں نکلا تو پتہ چلا وہ نیویارک کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں شدید زخمی حالت میں پڑا ہے‘ شفیق اسپتال پہنچا‘ محمد منور سے ملا‘ اس سے جج کی کہانی کی تصدیق کروائی۔

محمد منور ابھی اس کے سوال کا جواب دے رہا تھا کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی‘‘ مجھے جھٹکا لگا اور میں نے اس سے پوچھا ’’ محمد منور کو کیا ہوا تھا‘‘ میرے دوست نے لمبی آہ بھری ’’ محمد منور نے اپنی ٹیکسی میں سوار ایک شخص سے پانچ سو ڈالر لوٹنے کی کوشش کی تھی‘ مسافر کے پاس ریوالور تھا‘ اس نے محمد منور کو گولی مار دی‘ پولیس آئی‘ اسے زخمی حالت میں اسپتال شفٹ کر دیا‘ محمد منور نے اپنا جرم تسلیم کر لیا اور وہ تین دن کی کشمکش کے بعد انتقال کر گیا‘‘۔

میرا دوست رکا اور پھر بولا ’’وہ جب مرا تو شفیق الحق کے اکائونٹس میں محمد منور کے حصے کے آٹھ ملین ڈالر پڑے ہوئے تھے‘ وہ اگر مسافر سے پانچ سو ڈالر چھیننے کی کوشش نہ کرتا تو وہ کروڑ پتی بن جاتا لیکن انسان اللہ تعالیٰ کی دلچسپ ترین مخلوق ہے‘ یہ اگر ایماندار ہونا چاہے تو ستر ہزار ڈالر بھی اس کے ایمان میں لرزش پیدا نہیں کر سکتے اور یہ اگر بے ایمان ہو جائے تو یہ پانچ سو ڈالر کے لیے جان دے دیتا ہے‘‘۔