tag:blogger.com,1999:blog-17690308043123018112024-03-18T13:47:37.279+04:00انقلاب زندہ بادصرف انقلاب ہی معاشرے سے برائیوں کو ختم کر سکتا ہے، آئیں ہم سب ملکر اپنے اندر خود احتسابی کا انقلاب برپا کریں۔
جو بات کہتا ہوں بڑی بے حجاب کہتا ہوں
اسی لیئے تو زندگی کو انقلاب کہتا ہوںمیں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.comBlogger767125tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-68241427276239422432024-02-19T21:23:00.000+04:002024-02-19T21:23:10.067+04:00پرانی یاد 1995<p></p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhw44umlyXGtH28gegi0VFyrKrcQJm0OQsVN7hyGB1qWmxi_sUDbvMqUo-_SvuNlctKbfmkdonEH0J2oJw2XGdF70QBqj8q8nXhSArTIadE3Z14MKM6zgV0l7LeWx5SWWlpQFZl8fIIK793Z6ni44iHj8u_CvBIsFIV3M6ow_RPpR_q45u67B6d7n94V8s/s1368/IMG_7714.jpeg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1368" data-original-width="1170" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhw44umlyXGtH28gegi0VFyrKrcQJm0OQsVN7hyGB1qWmxi_sUDbvMqUo-_SvuNlctKbfmkdonEH0J2oJw2XGdF70QBqj8q8nXhSArTIadE3Z14MKM6zgV0l7LeWx5SWWlpQFZl8fIIK793Z6ni44iHj8u_CvBIsFIV3M6ow_RPpR_q45u67B6d7n94V8s/s320/IMG_7714.jpeg" width="274" /></a></div><br /> 1995 پرانی یاد<p></p><p><br /></p><p>افغانستان واپسی پہ ایک چیک پوسٹ پہ کمانڈر صاب نے بہت اسرار کر کے رات ٹھہرنے کو کہا، دوران قیام کھانے کے بعد خوش گپیوں کے دوران کمانڈر صاب سے پوچھ لیا جناب، کیا وجہ ہے کہ ہر جگہ ہی چیک پوسٹ اور اطراف میں پتھروں اور درختوں کو سفید چونا لگایا جاتا ہے ۔</p><p>کمانڈر صاب زور سے ہنسے اور بولے دراصل دوران تربیت یہ خاص سبق ہے جو ہم یاد کرتے ہیں۔۔۔۔</p><p><br /></p><p>ہر چلتی چیز کو سلوٹ ٹھوکنا ہے </p><p>اور ہر گھڑی چیز کو چونا لگانا ہے </p><p>“</p><p>“</p><p>“</p><p>“آج یاد آیا کہ پاکستان بھی تو ستر سال میں وہیں کا وہیں کھڑا ہے”</p><p><br /></p><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-73654696261112410102023-12-23T03:36:00.003+04:002023-12-23T03:36:26.422+04:00آپ ہمارا فخر تھے:<p> آپ ہمارا فخر تھے:</p><p>آپ نے بغض عمران خان میں، </p><p><br /></p><p>نصاب میں قرآن و سنت کی تعلیم پہ حملہ کیا، </p><p>غریبوں سے انکا کھانا چھینا، </p><p>پناگاہیں چھینیں، </p><p>صحت کارڈ پروگرام کو خراب کیا ، </p><p><br /></p><p>آپ نے سیاسی و غیر سیاسی عام عوام کو جھوٹے مقدمات بنا بنا کر ذلیل و خوار کیا ،</p><p> آپ کے ظلم کی وجہ سے لوگوں کے معصوم بے گناہ بچے موت کی آغوش میں چلے گئے ،</p><p>آپ نے ذاتی زندگیوں پہ کیچڑ اچھالا ،</p><p> گندی غلیظ ویڈیوز سے لیکر گندی غلیظ کتابیں چھپوا دیں،</p><p><br /></p><p>جہاں دوسرے ممالک اپنی افرادی قوت کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کرتے ہیں آپ اپنے ملک کے نوجوانوں کو ذلیل ہونے کے لئے باہر بھیج کر فخر محسوس کر رہے ہیں </p><p><br /></p><p>آپ نے آن لائن جلسہ کو ثبوتاژکرنے کے لئے انٹرنیٹ سروس تک بند کر کے دیکھ لیا </p><p>آپ الیکشن کے اہل لوگوں سے کاغذات نامزدگی چھیننا شروع ہو گئے </p><p>دنیا آپ پر ہنس رہی ہے ،</p><p>آپ اپنے بلوچیوں کو مار رہے ہیں کہ جن کی داد رسی کی ذمہ داری ریاست کی ہے، آپ نے خود کو مقدس گائے کا درجہ دے دیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا۔۔۔۔۔</p><p>لیکن آپ جناب !!! </p><p>آپ ہمیں فخر دلاتے تھے کہ ہم ایٹمی سوپر پاور ہیں، جناب آپ کی پالیسی اور پوزیشن بلکل واضح ہو گئی جس وقت مظلوم فلسطینیوں پہ ظالم اوربربریت کے پہاڑے توڑے جارہے تھے آپ امریکہ میں دورے فرما رہے تھے آپ سے تو ایک بیان بھی نا دیا گیا </p><p>یہاں تک کہ فلسطینی قیادت نے درخواست تک کی تھی کہ پاکستان صرف ان کے حق کے لئے عالمی سطح پہ آواز اٹھائے۔ لیکن آپ نے فراموش کیا سب کچھ!!!!</p><p>جناب آپ طاقتور نہیں آپ بزدل اور ڈرے ہوئے ہیں،</p><p> اپنے ہی لوگوں سے اپنی ہے عوام سے جس کے اندھے پیار کا ناجائز فائدہ آپ پچھلے ستر سالوں سے اٹھا رہے تھے۔</p><p>آپ نے ہمیں پچھلے بیس سالوں سے کہتے رہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو ففتھ جنریشن وار کے لئے دشمن سے مقابلہ کے لئے تیار رہنا ہے ، اور جب وہی نوجوان آپ سے سوال کرنے لگے تو آپ نے انکو کئی بورڈ </p><p>وارئیر اور غداری کے تمغات سے نوازنا شروع کر دیا۔</p><p>بہت کچھ اور بھی ہے کہے کو لیکن !!!!!! آپ کی انا کا مسئلہ جو ہے !!!! </p><p><br /></p><p>ازخود راشد: قلم ناتواں 22 Dec 2023</p><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-13450679723352503382023-10-28T13:36:00.003+04:002023-10-28T13:36:43.494+04:00پاکستانی دولے شاہ دے چوہے<p> پاکستانی دولے شاہ دے چوہے</p><p><br /></p><p>دولے شاہ کے چوہوں بارے کہا جاتا ہے کہ یہ بچے پیدائشی چھوٹے دماغ اور چھوٹے سر کی وجہ سے سائیں ہوتے ہیں اللہ والے ہوتے ہیں اور لوگوں کو اُنکی دعایں لگتی ہیں</p><p>حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، </p><p><br /></p><p>دولے شاہ کا ایک پورا منظم نیٹ ورک ہے جو باقاعدہ ان بچوں کے سر پہ لوہے کی ٹوپیاں پہنا کر رکھتے ہیں تاکہ جسمانی افزائش کے ساتھ ان کے سر اور دماغ چھوٹے رہیں اور ان کے زریعے سے کاروبار چلتا رہے چاہے مانگنے کا کام ہو یا دم درود کے زریعے لوگوں کو بیوقوف بنا کر پیسے بٹورنے ہوں۔</p><p><br /></p><p>تو کل ملا کر بات یہئ ہے کہ ہم پاکستانی کسی حد تک دولے شاہ کے وہ چوہے ہیں جن سے دعاووں اور مانگنے کا کام پچھلے لگ بھگ چوہتر سال سے لیا جاتا ہے ، لوہے کی ٹوپیاں نسل در نسل ہمارے سروں پہ پہنا کر ہمارے دماغوں کو محدود کیا گیا ہے : </p><p><br /></p><p>جیسے کہ دولے شاہ سرکار موتیاں والے کرامتاں والے!!!!</p><p><br /></p><p>٭جب چاہیں ہمیں سیلاب میں ڈبو کر ہماری ابتر حالت اقوام عالم کو دکھا کر پیسا وصول کر سکیں </p><p>٭ یا پھر ، ہمیں ڈالرز کے عوض گوانتاموبے بیچ دیں </p><p><br /></p><p>٭ یا پھر ہمیں گناہ گار بدکار غدار دھشت گرد ، کچھ بھی ثابت کر کے ہمیں گولیاں مار دیں </p><p><br /></p><p>جب کہ اقوام عالم میں ہم بڑے پہنچے ہوئے ہیں کہ جن سے</p><p>کشمیر تا فلسطین شجاعت جرآت اور پتا نہیں کس کس ان دیکھی نمبر ون طاقتوں کے معجزوں کی توقع کیے مظلوم لوگ ہیں۔ </p><p><br /></p><p>لیکن کیا بتائیں کہ ہم تو</p><p>دولے شاہ کے وہ چوہے ہیں جو اپنے لئے کچھ سوچ نہیں سکتے جن کے اپنے دماغ چھوٹے رہ چکے ہیں، کسی کے لئے کیا کریں گے ، ہم خود دولے شاہ سرکار کے مکمل قبضے اور تسلط میں نسلوں سے محکوم ہیں۔</p><p><br /></p><p>28 October 2023</p><p>ازخود : راشد </p><p>قلم ناتواں </p><p>#پاکستان #followers</p><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-25146721065073150242022-12-15T02:04:00.001+04:002023-10-28T13:35:48.037+04:00Long live Pakistan 🇵🇰 ❤ 🇲🇦 Morocco brotherhood !<div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Long live Pakistan 🇵🇰 ❤ 🇲🇦 Morocco brotherhood !</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="text-align: center; caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><img src="https://drive.google.com/uc?export=view&id=1iFNEpysYq4bgxVQAtO-YHqV-GngXwPud" alt="https://drive.google.com/uc?export=view&id=1iFNEpysYq4bgxVQAtO-YHqV-GngXwPud" style="max-height: 80%; max-width: 80%; height: auto; width: auto;"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">When Morocco was under the French authority and striving for independence, Sultan Muhammad (V) sent Ahmed Balafrej to the United States to address the UN Security Council. However, French delegates refused to let him speak, claiming that Morocco is a French colony.</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Pakistan's Foreign Minister Sir Zafaullah Khan immediately opened the Pakistani embassy in the United States at night and offered Bulferg Pakistani nationality. </span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">He issued him a Pakistani passport, allowing him to address the UN Security Council as a Pakistani citizen in favor of Morocco the following day. </span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">This encouraged the Moroccan independence movement both globally and at home.</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Finally, after Morocco won independence in 1956, he served as Prime Minister of Morocco between May 12, 1958, and December 2, 1958, and he proudly displayed his framed Pakistani passport in his office, telling all guests about the importance the passport played in Morocco's liberation.</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Report by Muneeb bin Majeed</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Image Source : https://lnkd.in/dQDKWkFK</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Information Sources : </span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Tweet by Pakistan Embassy Morocco : https://lnkd.in/dr3KPr7s</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Copy of Ahmed Balafrej Passport : https://lnkd.in/d-zZXRrU</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">Journal Article on Sir Zafarullah and his contributions to Morocco and other countries :</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">https://lnkd.in/d-rN2q3W</span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);"><br></span></font></div><div><font color="#000000" face="sans-serif" size="3"><span style="caret-color: rgb(0, 0, 0); -webkit-tap-highlight-color: rgba(26, 26, 26, 0.3); -webkit-text-size-adjust: 100%; background-color: rgba(255, 255, 255, 0);">And Ahmed Balfarej wikipedia article : https://lnkd.in/diwgfCap</span></font></div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-26586846329778385732022-01-10T23:25:00.001+04:002022-01-10T23:25:03.479+04:00انڈسٹری 4.0 <div>Copy from Respectable</div><div><b><a href="https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10226739278336913&id=1498204024">Muhammad Ishfaq</a></b></div><div>انڈسٹری 4.0 کا تصور چند برس قبل جرمنی سے نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری صنعتی دنیا پہ چھا گیا۔ </div><div><br></div><div>اس مضمون میں انڈسٹری 4.0 منزل نہیں پڑاؤ ہے۔ تو بس اتنا سمجھ لیں کہ اس کی جان یا روح آٹومیشن ہے۔ </div><div><br></div><div>خام مال کی پروکیورمنٹ سے لے کر اینڈ یوزر تک اپنی پیداوار پہنچانے تک کے تمام مراحل کو چھوٹے چھوٹے انڈیپنڈنٹ پراسیسز میں کنورٹ کرنا اور ان تمام پراسیسز کو ممکنہ حد تک آٹومیٹ کر دینا۔ </div><div><br></div><div>انڈسٹری 4.0 کی سب سے ایکسائٹنگ بات یہ ہے کہ اس میں آپ کو تمام کی تمام ایمرجنگ ٹیکنالوجیز جن کا آپ ادھر ادھر تذکرہ سنتے پڑھتے رہتے، ایک ساتھ بروئے کار دکھائی دیتی ہیں۔ </div><div><br></div><div>آٹومیشن کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، مشین لرننگ، روبوٹکس، میکاٹرانکس مل کر کام کرتی ہیں، ڈیزائننگ اور ویژولائزیشن کیلئے آگمنٹڈ رئیلٹی اور مکسڈ رئیلٹی استعمال ہوتی ہے۔ ایک ایک مرحلے کے درجنوں یا سینکڑوں پراسیسز کی آٹومیشن کے نتیجے میں جو ماسیو ڈیٹا جنریٹ ہوتا ہے اس کیلئے کلاؤڈ سرورز، اس ڈیٹا کی انٹرپریٹیشن کیلئے ڈیٹا سائنس اور اینالٹکس، سرورز کو زیادہ بوجھ سے بچانے کیلئے ایج کمپیوٹنگ اور ڈیوائسز کو ہر وقت سرور سے پیغام رسانی میں لگے رہنے سے بچانے اور سمارٹ بنانے کیلئے ٹائنی مشین لرننگ۔ </div><div><br></div><div>ان سب کاموں کیلئے آپ کو درکار ہے تیز ترین کنیکٹیویٹی تو اس کیلئے 5G انٹرنیٹ، اور ان سارے پراسیسز سے ملنے والی معلومات کا مستقبل کی پالیسی سازی میں فائدہ اٹھانے کیلئے بزنس انٹیلیجنس، ڈیزائن انٹیلیجنس۔ اب یہ سب کچھ انٹرنیٹ پہ چل رہا تو اسے محفوظ بنانے کیلئے سائبر سکیورٹی۔ اور اس سارے عمل کو پر لگانے کیلئے دو تین سال میں اس مسکچر میں کوانٹم کمپیوٹنگ بھی پوری طرح شامل ہو جائے گی۔ </div><div><br></div><div>غرضیکہ انڈسٹری 4.0 آپ یوں کہہ لیں کہ تمام ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا باہمی اشتراک ہے۔ سوائے ویب تھری یا بلاک چین کے۔ اسی لئے میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ </div><div><br></div><div>یہاں ایک اور پوائنٹ ذہن میں رکھیں کہ انڈسٹری 4.0 میں زراعت بھی شامل ہے۔ ہم لوگ عموماً صنعت اور زراعت کو مختلف بلکہ متضاد سمجھتے ہیں۔ دنیا نے عرصہ ہوا ایسا سمجھنا چھوڑ دیا۔ </div><div><br></div><div>تو اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انڈسٹری 4.0 کے نالائق طالب علموں کو روزانہ کیا کچھ پڑھنے، سننے اور سمجھنے کو ملتا ہوگا۔ دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے اور بندہ باؤلا سا ہو جاتا ہے، یہ سوچ کر کہ اگلے آٹھ دس برسوں میں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ </div><div><br></div><div>خیر، اب دنیا سے واپس مملکت خداداد میں آتے ہیں۔</div><div><br></div><div> ہماری زراعت میں آٹومیشن بمشکل دس فیصد کے قریب ہو گی، زیادہ سے زیادہ۔ </div><div><br></div><div>جو ہماری لیڈنگ انڈسٹریز ہیں۔ ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، آٹو اسمبلنگ، لیدر، سرجیکل اینڈ سپورٹس، شوگر اینڈ فلور انڈسٹری۔ ان میں آٹومیشن تیس سے چالیس فیصد ہے۔ انڈسٹری 4.0 کے نقطہ نظر سے یہ بہت سادہ سی انڈسٹریز ہیں اور ان میں نوے پچانوے فیصد پراسیسز کی آٹومیشن ممکن ہے۔ </div><div><br></div><div>ہم سو فیصد آٹومیشن کی طرف کیوں نہیں جا رہے؟ </div><div><br></div><div>بہت سی وجوہات میں سے یہ دو بڑی وجہ ہیں۔ </div><div><br></div><div>1- ہمیں لیبر بہت سستی پڑتی ہے۔</div><div>2- ہمیں ٹیکنالوجی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ </div><div><br></div><div>لیبر سستی اور ٹیکنالوجی مہنگی ہونے کی وجوہات کو چھوڑتے ہوئے، آپ یوں سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی زراعت اور صنعت میں سٹیٹس کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ </div><div><br></div><div>اس سٹیٹس کو کا فائدہ یہ ہے کہ ہماری ورک فورس کا بڑا حصہ ان سکلڈ یا سیمی سکلڈ ہے۔ اسے ہم نے کسی نہ کسی طرح کام پہ لگایا ہوا ہے۔ </div><div><br></div><div>اس کا نقصان یہ ہے کہ ہم بڑی تیزی سے دنیا سے مقابلہ کرنے کی استعداد کھو رہے ہیں۔ </div><div><br></div><div>آٹومیشن ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ ہمارے انڈسٹریلسٹس زیادہ دیر اس سے دور نہیں رہ پائیں گے۔ مسابقت برقرار رکھنے کے علاوہ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ </div><div><br></div><div>1- لیبر روز بروز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ </div><div>2- ٹیکنالوجی دن بدن سستی ہوتی جا رہی ہے۔ </div><div><br></div><div>لیبر مہنگی اور ٹیکنالوجی سستی ہوتے چلے جانے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ فیسبک کے مضمون میں بندہ کیا کچھ گھسیڑے، انہیں بھی جانے دیجئے۔ </div><div><br></div><div>اب آ جائیں آٹو میشن کے ممکنہ نتائج کی جانب۔ </div><div><br></div><div>اگر ہم اپنی زراعت اور صنعت کو کم از کم اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہی بنائے رکھنا ہچاہتے ہیں تو اس کیلئے آٹو میشن ناگزیر ہے۔ </div><div><br></div><div>دوسری طرف آٹومیشن ہماری ورک فورس سے اس کا روزگار چھین لے گی۔ کسی نہ کسی سطح پر یہ پراسیس شروع ہو چکا۔ آنے والے برسوں میں یہ عروج پر پہنچ جائے گا۔ </div><div><br></div><div>سان ٹیاگو اے آئی کے ان ایکسپرٹس میں سے ہیں جنہیں میں فالو کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2025 تک اے آئی دنیا سے 85 ملین یا ساڑھے آٹھ کروڑ نوکریوں کا خاتمہ کر دے گی۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ 2025 تک ہی اے آئی سے ریلیٹڈ 97 ملین یعنی نوکروڑ ستر لاکھ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ </div><div><br></div><div>کہنے کا مقصد یہ کہ ٹیکنالوجی جہاں بہت سی فرسودہ اور سادہ نوکریوں کو ختم کرتی جا رہی ہے وہیں نت نئی فیلڈز، نت نئے جہاں، اور نت نئے امکانات کے دروازے بھی کھولتی چلی جا رہی ہے۔ </div><div><br></div><div>گلوبل ویلج میں یہ نئے جہاں، امکان اور مواقع ہر ملک کی یکساں رسائی میں ہیں۔ جو زیادہ فائدہ اٹھا لے۔ </div><div><br></div><div>پاکستان کے پاس بھی بے شمار مواقع ہیں۔ اپنی نئی نسل کو ہم ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ انہیں دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ان کیلئے روزگار کے لامتناہی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ </div><div><br></div><div>لیکن مواقع جتنے بڑے ہیں، ان سے فائدہ اٹھانے کا وقت اتنی ہی تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس صرف سات آٹھ برس کی ٹائم ونڈو بچی ہے۔ ان سات آٹھ برسوں میں ہمیں انسان کا بچہ بننے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے کچھ لانگ ٹرم پالیسیاں بنانے اور نوجوانوں کو بہت بڑے پیمانے پر تربیت مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ </div><div><br></div><div>اور یہ ایک آدھ انسٹیٹیوٹ یا ڈیجی سکلز جیسے ایک آدھ آن لائن پلیٹ فارم کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہمیں اپنے پورے تعلیمی ڈھانچے کو استعمال کرنا ہوگا۔ </div><div><br></div><div>ہم عربوں کو لعنت ملامت کرتے تھے کہ یہ اپنے وسائل سائنس اور ٹیکنالوجی پہ صرف نہیں کرتے۔ پچھلے دس بارہ برس میں انہوں نے یہ گلہ کافی حد تک دور کر دیا ہے۔ خصوصاً قطر، یو اے ای اور سعودی عرب میں جدید ٹیکنالوجیز کے فروغ اور نئی نسل کو ان سے ہم آہنگ کرنے کے ضمن میں بہت کام ہو رہا ہے۔ </div><div><br></div><div>ترکی، ملائشیا اور بنگلہ دیش غیرعرب مسلم ممالک میں ٹیکنالوجی کو ایڈاپٹ کرنے والے نمایاں ملک ہیں۔ </div><div><br></div><div>بھارت میں سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کروڑوں بچوں کی تعلیم کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے سال ڈیڑھ سال کی محنت اور مائکروسافٹ کے تعاون سے بچوں کیلئے مشین لرننگ کا سلیبس تیار کیا ہے۔ </div><div><br></div><div>یہ چھٹی سے بارہویں جماعت کے طالب علموں کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اور یہ بتدریج آسان سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو بچہ پانچ سال اسے پڑھ کر نکلے وہ مشین لرننگ کے میدان میں انٹری لیول کی جاب حاصل کرنے کے قابل ہو۔</div><div><br></div><div>اسے بچوں پر جبری مسلط کرنے کی بجائے اس کی ویب سائٹ بنا دی گئی ہے۔ جس پر بھارت کے کسی بھی سکول کا طالب علم نام، رول نمبر، کلاس اور سکول کے نام سے خود کو رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔ پچھلے سال جب اسے لانچ کیا گیا تو میں نے پڑھا تھا کہ پندرہ لاکھ بچوں نے داخلہ لے لیا۔ </div><div><br></div><div>آپ تصور کر لیں کہ پانچ سال بعد انڈیا کا سکول سسٹم ہر سال پندرہ بیس لاکھ بچے ایسے نکال رہا ہوگا جو اس وقت کے سب سے ان ڈیمانڈ پروفیشن میں فوری جاب حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ </div><div><br></div><div>کیا ہم اس وقت بھی بچے کو بارہ پڑھا کر سر جوڑ کر سوچ رہے ہوں گے کہ اب اسے کہاں داخل کروایا جائے؟ </div><div><br></div><div>مطلب اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں کہ ہمارا سب سے بڑا صوبہ ستر ہزار عربی اساتذہ بھرتی کرنے کے چکر میں ہے تاکہ پیدائشی مسلمانوں کو مزید مسلمان بنایا جا سکے۔ اس سے کیا ہوگا؟ </div><div><br></div><div>اور اگر یہی کرنا ہے تو ستر ہزار بندے بھرتی کرنے کی بجائے ستر لاکھ لگا کر ایک اچھی سی ویب سائٹ بنا دیں جس پر پاکستان کے بہترین عربی دان قرآن فہمی اور عربی کی تعلیم دیں۔ سکول کے بچوں کیلئے یہ لازمی اور مفت کر دیں۔ باقی جو چاہے ایک مناسب فیس دے کر اس سے استفادہ کر سکے۔ ہم بڈھے طوطے بھی ہو سکتا ہے عربی سیکھ لیں۔ حکومت ہر ماہ کروڑوں تنخواہ پر خرچ کرنے کی بجائے لاکھوں کمانے لگ جائے۔</div><div><br></div><div>مطلب ایک بیکار کام ہی کرنا ہے تو وہ بھی ڈھنگ سے کیا جا سکتا ہے۔ </div><div><br></div><div>لیکن یہ ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی پہ توجہ دیں تو ہم پہ احسان ہوگا۔ </div><div><br></div><div>ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ اگلے پانچ برس میں ہم نے پچاس لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو ان ایمرجنگ ٹیکنالوجیز میں ہنرمند بنانا ہے۔ اس میں ترجیح دیہی اور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو دینی ہے۔ </div><div><br></div><div>حکومت نیت کرے، وسائل اور راہیں خود کھلتی چلی جائیں گی۔</div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-20762067052062104622021-11-15T13:12:00.001+04:002021-11-15T13:12:54.666+04:00جنات اور سائنسی ایک گروپ سے کاپی شدہ۔<div>#copiedpost </div><div>(جنات کا سائنسی تجزیہ ایک سائنسدان کے قلم سے۔۔۔۔ بہت دلچسپ۔۔۔ضرور پڑھیں )</div><div>جنات اللہ کی مخلوق ہیں یہ ہمارا یقین ہے ، وہ آگ سے پیدا کیے گئے ، ان میں شیاطین و نیک صفت بھی موجود ہیں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہ تھریڈ اس بارے میں نہیں ہے ۔ یہ تھریڈ جنات کی سائینٹیفیک تشریح کے بارے میں ہے ۔ کیا وہ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں ؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ ہم انہیں دیکھ کیوں نہیں سکتے ؟ </div><div>لفظ جن کا ماخذ ہے ‘‘نظر نہ آنے والی چیز’’ اور اسی سے جنت یا جنین جیسے الفاظ بھی وجود میں آئے ۔ جنات آخر نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کی دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ کہ انسان کا ویژن بہت محدود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائینات میں</div><div>جو (electromagnetic spectrum) بنایا ہے اس کے تحت روشنی 19 اقسام کی ہے ۔ جس میں سے ہم صرف ایک قسم کی روشنی دیکھ سکتے ہیں جو سات رنگوں پر مشتمل ہے ۔ میں آپ کو چند مشہور اقسام کی روشنیوں کے بارے میں مختصراً بتاتا ہوں ۔ </div><div>اگر آپ gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو آپ کو دنیا میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔ اگر آپ مشہور روشنی x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہوں تو آپ کے لیے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی ۔ اگر آپ infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو آپ کو مختلف اجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آئے گی ۔</div><div>روشنی کی ایک اور قسم کو دیکھنے کی صلاحیت ultraviolet-vision کی ہو گی جو آپ کو اینرجی دیکھنے کے قابل بنا دے گا ۔ اس کے علاوہ microwave-vision اور radio wave-vision جیسی کل ملا کر 19 قسم کی روشنیوں میں دیکھنے کی صلاحیت سوپر پاور محسوس ہونے لگتی ہے ۔</div><div>کائینات میں پائی جانی والی تمام چیزوں کو اگر ایک میٹر کے اندر سمو دیا جائے تو انسانی آنکھ صرف 300 نینو میٹر کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ پائے گی ۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ ہم کل کائینات کا صرف 0.0000003 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ انسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے اور یہ الٹرا وائیلٹ اور انفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے ۔ </div><div>ہماری ہی دنیا میں ایسی مخلوقات ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے ۔ جانور ، سانپ وہ جانور ہے جو انفراریڈ میں دیکھ سکتا ہے ایسے ہی شہد کی مکھی الٹراوائیلٹ میں دیکھ سکتی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ رنگ مینٹس شرمپ کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، الو کو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی ویسے رنگ نظر آتے ہیں جیسے انسان کو دن میں ۔ امیرکن کُک نامی پرندہ ایک ہی وقت میں 180 ڈگری کا منظر دیکھ سکتا ہے ۔ جبکہ گھریلو بکری 320 ڈگری تک کا ویو دیکھ سکتی ہے ۔ درختوں میں پایا جانے والا گرگٹ ایک ہی وقت میں دو مختلف سمتوں میں دیکھ سکتا ہے جبکہ افریقہ میں پایا جانے والا prongs نامی ہرن ایک صاف رات میں سیارے saturn کے دائیرے تک دیکھ سکتا ہے ۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان کی دیکھنے کی حِس کس قدر محدود ہے اور وہ اکثر ان چیزوں کو نہیں دیکھ پاتا جو جانور دیکھتے ہیں ۔</div><div>ترمذی شریف کی حدیث نمبر 3459 کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مرغ کی آواز سنو تو اس سے اللہ کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب گدھے کی رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیوں کہ اس وقت وہ شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔</div><div>جب میں نے مرغ کی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مرغ کی آنکھ انسانی آنکھ سے دو باتوں میں بہت بہتر ہے ۔ پہلی بات کہ جہاں انسانی آنکھ میں دو قسم کے light-receptors ہوتے ہیں وہاں مرغ کی آنکھ میں پانچ قسم کے لائیٹ ریسیپٹرز ہیں ۔ اور دوسری چیز fovea جوانتہائی تیزی سے گزر جانے والی کسی چیز کو پہچاننے میں آنکھ کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے مرغ ان چیزوں کو دیکھ سکتا ہے جو روشنی دیں اور انتہائی تیزی سے حرکت کریں اور اگر آپ گدھے کی آنکھ پر تحقیق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگرچہ رنگوں کو پہچاننے میں گدھے کی آنکھ ہم سے بہتر نہیں ہے لیکن گدھے کی آنکھ میں rods کی ریشو کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گدھا اندھیرے میں درختوں اور سائے کو پہچان لیتا ہے یعنی آسان الفاظ میں گدھے کی آنکھ میں اندھیرے میں اندھیرے کو پہچاننے کی صلاحیت ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ </div><div>البتہ انسان کی سننے کی حِس اس کی دیکھنے کی حس سے بہتر ہے اگرچہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پھر بھی کم ہے مثال کے طور پہ نیولے نما جانور بجو کے سننے کی صلاحیت سب سے زیادہ یعنی 16 ہرٹز سے لے کر 45000 ہرٹز تک ہے اور انسان کی اس سے تقریباً آدھی یعنی 20 ہرٹز سے لے کر 20000 ہرٹز تک ۔ اور شاید اسی لیے جو لوگ جنات کے ساتھ ہوئے واقعات رپورٹ کرتے ہیں وہ دیکھنے کے بجائے سرگوشیوں کا زیادہ ذکر کرتے ہیں ۔ ایک سرگوشی کی فریکوئینسی تقریباً 150 ہرٹز ہوتی ہے اور یہی وہ فریکوئینسی ہے جس میں انسان کا اپنے ذہن👇👇👇👇</div><div> پر کنٹرول ختم ہونا شروع ہوتا ہے ۔ اس کی واضح مثال ASMR تھیراپی ہے جس میں 100 ہرٹز کی سرگوشیوں سے آپ کے ذہن کو ریلیکس کیا جاتا ہے ۔اس تھریڈ کے شروع میں ، میں نے جنات کو نہ دیکھ پانے کی دو ممکنہ وجوہات کا ذکر کیا تھا جن میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی لیکن دوسری بیان کرنے سے پہلے میں ایک چھوٹی سی تھیوری سمجھانا چاہتا ہوں ۔ </div><div>سنہ 1803 میں ڈالٹن نامی سائینسدان نے ایک تھیوری پیش کی تھی کہ کسی مادے کی سب سے چھوٹی اور نہ نظر آنے والی کوئی اکائی ہو گی اور ڈالٹن نے اس اکائی کو ایٹم کا نام دیا ۔ اس بات کے بعد 100 سال گزرے جب تھامسن نامی سائینسدان نے ایٹم کے گرد مزید چھوٹے ذرات کی نشاندہی کی جنہیں الیکٹرانز کا نام دیا گیا ۔ پھر 7 سال بعد ردرفورڈ نے ایٹم کے نیوکلیئس کا اندازہ لگایا ، صرف 2 سالبعد بوہر نامی سائینسدان نے بتایا کہ الیکٹرانز ایٹم کے گرد گھومتے ہیں اور دس سال بعد 1926 میں شورڈنگر نامی سائینسدان نے ایٹم کے اندر بھی مختلف اقسام کی اینرجی کے بادلوں کو دریافت کیا ۔</div><div>جو چیز 200 سال پہلے ایک تھیوری تھی ، آج وہ ایک حقیقت ہے ، اور آج ہم سب ایٹم کی ساخت سے واقف ہیں حالانکہ اسے دیکھ پانا آنکھ کے لیے آج بھی ممکن نہیں ۔ ایسی ہی ایک تھیوری 1960 میں پیش کی گئی جسے string theory کہتے ہیں ۔ اس کی ڈیٹیلز بتانے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ </div><div>انسان کی حرکت آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، اوپر اور نیچے ہونا ممکن ہے جسےجسے تین ڈائیمینشنز یا 3D کہتے ہیں ۔ ہماری دنیا یا ہمارا عالم انہی تین ڈائیمینشز کے اندر قید ہے ہم اس سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ لیکن string theory کے مطابق مزید 11 ڈائیمینشنز موجود ہیں ۔ میں ان گیارہ کی گیارہ ڈائیمینشنز میں ممکن ہو سکنے والی باتیں بتاؤں گا ۔ </div><div>اگر آپ پہلی ڈائیمینشمیں ہیں تو آپ آگے اور پیچھے ہی حرکت کر سکیں گے ۔ </div><div>اگر آپ دوسری ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکیں گے ۔</div><div>تیسری ڈائیمینشن میں آپ آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے ہر طرف حرکت کر سکیں گے اور یہی ہماری دنیا یا جسے ہم اپنا عالم کہتے ہیں ، ہے ۔اگر آپ کسی طرح سے چوتھی ڈائیمینشن میں داخل ہو جائیں تو آپ وقت میں بھی حرکت کر سکیں گے ۔ </div><div>پانچویں ڈائیمینشن میں داخل ہونے پر آپ اس عالم سے نکل کر کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کے قابل ہو جائیں گے جیسا کہ عالم ارواح ۔</div><div>چھٹی ڈائیمینشن میں آپ دو یا دو سے زیادہ عالموں میں حرکت کرنے کےقابل ہو جائیں گے اور میرے ذہن میں عالم اسباب کے ساتھ عالم ارواح اور عالم برزخ کا نام آتا ہے ۔</div><div>ساتویں ڈائیمینشن آپ کو اس قابل بنا دے گی کہ اس عالم میں بھی جا سکیں گے جو کائینات کی تخلیق سے پہلے یعنی بِگ بینگ سے پہلے کا تھا</div><div>آٹھویں ڈائیمینشن آپ کو تخلیق سے پہلے کے بھی مختلف عالموں میں لیجانے کے قابل ہو گی ۔</div><div>نویں ڈائیمینشن ایسے عالموں کا سیٹ ہو گا جن میں سے ہر عالم میں فزیکس کے قوانین ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ وہاں کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سال کے برابر ہو ۔</div><div>اور آخری اور دسویں ڈائیمینشن ۔۔۔ اس میں آپ جو بھی تصور کر سکتے ہیں ، جو بھی سوچ سکتے ہیں اور جو بھی آپ کے خیال میں گزر سکتا ہے ، اس ڈائیمینشن میں وہ سب کچھ ممکن ہو گا ۔</div><div>اور میری ذاتی رائے کے مطابق جنت ۔۔۔ شاید اس ڈائیمینشن سے بھی ایک درجہ آگے کی جگہ ہے کیوں کہ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ جنت میں میرے بندے کو وہ کچھ میسر ہو گا جس کے بارے میں نہ کبھی کسی آنکھ نےدیکھا ، نہ کبھی کان نے اس کے بارے میں سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گزرا ۔ اور دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ میرا بندہ وہاں جس چیز کی بھی خواہش کرے گا وہ اس کے سامنے آ موجود ہو گی ۔</div><div>بالیقین جنات ، ہم سے اوپر کی ڈائیمینشن کے beings ہیں اور یہ وہ دوسری سائینٹیفیک وجہ ہے جس کی بناء پر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے ۔ ان دس ڈائیمینشنز کے بارے میں جاننے کے بعد آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنات کے بارے میں قرآن ہمیں ایسا کیوں کہتا ہے کہ وہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ، یا پھر عفریت اتنی تیزی سے سفر کیسے کر سکتے ہیں جیسے سورۃ سباء میں ذکر ہےکہ ایک عفریت نے حضرت سلیمانؑ کے سامنے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ یا پھر کشش ثقل کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اڑتے پھرتے ہیں ۔ یا پھر کئی دوسرے سوالات جیسے عالم برزخ ، جہاں روحیں جاتی ہیں ، یا عالم ارواح جہاں تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے عہد لیاتھا کہ تم کسی اور کی عبادت نہیں کرو گے اور سب نے ہوش میں اقرار کیا تھا ، یا قیامت کے روز دن کیسے مختلف ہو گا ، یا شہداء کی زندگی کس عالم میں ممکن ہے ۔</div><div> ان تمام عالموں یعنی عالم برزخ ، عالم ارواح یا عالم جنات کے بارے میں تحقیقی طور پر سوچنا ایک بات ہے ، لیکن جس چیز نے ذاتی طور پرپر میرے دل کو چھوا وہ سورۃ فاتحۃ کی ابتدائی آیت ہے ۔</div><div>الحمد للہ رب العالمین ۔</div><div> تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ، جو تمام عالموں کا رب ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ‘‘تمام عالم’’ کے الفاظ کا جو اثر اب میں اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں ، وہ پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔</div><div>تحریر : فرقان قریشی</div><div>https://www.facebook.com/profile.php?id=100072240336342</div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-27460459329388901432021-03-02T08:18:00.002+04:002021-03-02T08:18:25.184+04:00استاد کی قدرومنزلت<p> سلطنت عمان کا سلطان "قابوس بن سعید رحمۃ اللہ علیہ" کا پروٹوکولز کے بارے میں اپنا خاص نظریہ تھا۔ وہ زندگی بھر کسی شخصیت کے استقبال کیلیئے ہوائی اڈے نہ گئے۔ مگر ان کی یہ عادت اُس وقت ٹوٹ گئی جب انہوں نے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما کا ہوائی اڈے پر جا کر استقبال کیا۔ </p><p><br /></p><p>حکومتی اراکین اور عہدیداران اس بات پر حیران و پریشان تو تھے ہی صحافیوں کیلیئے بھی یہ سب کچھ انوکھا اور حیرت و تعجب کا سبب بن گیا تھا۔ </p><p><br /></p><p>سلطان قابوس انڈین صدر سے اس کے جہاز میں کرسی پر سے اٹھنے سے پہلے ہی جا کر گلے ملے، اس کے ساتھ ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جہاز سے نیچے اترے، جب کار کے نزدیک پہنچے تو ڈرائیور کو اتر جانے کا کہا، خود جا کر کار کا دروازہ کھولا، مہمان کو بٹھایا اور خود ہی کار چلا کر مہمان کو اپنے محل میں لائے۔ </p><p><br /></p><p>بعد میں جب صحافیوں نے اس بارے میں سلطان سے سبب پوچھا تو انہوں نے جواباً بتایا: میں ایئرپورٹ پر انڈیا کے صدر کے استقبال کیلیئے ہرگز نہیں گیا۔ میں ایئرپورٹ پر اس وجہ سے گیا ہوں کہ میں نے بچپن میں انڈیا کے شہر پونا کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔ جناب شنکر دیال شرما اس وقت میرے استاد ہوا کرتے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ زندگی کیسے گزارنی ہے اور زندگی میں آنے والے مشاکل اور مصائب کا کیسے سامنا کرنا ہے۔ اور میں آج تک حتی المقدور کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ اُن سے پڑھا اور سیکھا ہے اسے عملی زندگی میں نافذ کروں۔ </p><p><br /></p><p>تو یہ تھی ایک استاد کی قدر و منزلت جو سلطان کے اپنے پروٹوکول نظریات سے انحراف کا سبب بنی تھی۔ </p><p><br /></p><p>آج بھی ایسے عجائب نظر آ جاتے ہیں اگر کوئی دیکھنے والا بنے تو: </p><p><br /></p><p>کل کی ہی تو بات جب روسی صدر پوٹین کو اپنے استقبال میں کھڑے لوگوں کے ہجوم میں اپنی ایک استانی نظر آ گئی۔ پوٹین نے سارے گارڈز، حفاظتی عملے اور حفاظتی حصار بالائے طاق رکھ کر سیدھا استانی کو جا کر گلے لگایا اور وہ رو رہی تھی۔ خلقت کے ہجوم میں استانی کو ساتھ لیکر باتیں کرتے اور چلتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ پوٹین اپنی استانی کے ساتھ نہیں کسی ملکہ کے پہلو میں چل رہا ہے۔ </p><p><br /></p><p>اُستاد کی عزت و منزلت اور قدر و قیمت کی ایک تاریخ ہے۔ تاریخ سے ایک ورق ملاحظہ کیجیئے: مامون الرشید چھوٹا سا تھا تو اس کے استاد نے آتے ہی مامون کو بلا وجہ ایک ڈنڈا جڑ دیا۔ مامون نے درد سے بلبلاتے ہوئے اُستاد سے پوچھا: کیوں مارا ہے مجھے یونہی بلا وجہ؟ استاد نے کہا: چُپ، خاموش ہوجا۔ مامون اس بلاوجہ چھڑی مارنے کے بارے میں جب بھی استاد سے پوچھتا تو استاد کہتا: خاموش۔ </p><p><br /></p><p>بیس سال کے بعد یہی مامون جب خلیفہ وقت بن بیٹھا تو اسے اپنے ذہن پر نقش وہ بلاوجہ کی مار یاد آ گئی اور اس نے اپنے استاد کو بلوا بھیجا۔ استاد کے آنے پر مامون نے پوچھا: جب میں چھوٹا تھا آپ نے مجھے ایک بار کیوں بلا وجہ مارا تھا؟ استاد نے پوچھا: تو ابھی تک وہ مار نہیں بھولا کیا؟ مامون نے کہا: اللہ کی قسم میں تو کبھی بھی نہ بھولوں گا۔ </p><p><br /></p><p>استاد نے مسکراتے ہوئے مامون کو دیکھا اور میں جانتا تھا کہ تو ایک نہ ایک دن مسلمانوں کا خلیفہ بنے گا۔ اور میں نے تجھے جان بوجھ کر بلا سبب پیٹا تھا تاکہ تو یاد رکھ لے کہ "مظلوم کبھی بھی نہیں بھولا کرتے"۔ </p><p><br /></p><p>استاد نے مامون کو دوبارہ نصیحت کرتے ہوئے کہا: کبھی کسی پر ظلم نہ کرنا۔ ظلم ایک آگ ہوتی ہے جو مظلوم کے دل میں کبھی بھی نہیں بُجھتی چاہے جتنے بھی سال کیوں نہ گزر جائیں۔ </p><p><br /></p><p>*****</p><p><br /></p><p>** آداب و تسلیمات ہر اُس قابل قدر شخصیت کیلیئے جو تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہے۔ </p><p><b>محمد سلیم بھائی کی وال سے کاپی/پیسٹ</b> </p><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-51153913258312441452021-01-18T00:21:00.001+04:002021-01-18T00:21:37.996+04:00فوجی محمد صدیق کی یادیںنانا جان فوجی محمد صدیق مرحوم: <div>والدہ کے چچا تھے لیکن ہمیں ہمیشہ نانا جان سے بڑھ کر پیار ملا بلکہ جو اور جتنا پیار ان سے ملا کسی سے نا ملا ہو گا:</div><div><br></div><div>وہ اپنے بچپن کے بارے بتاتے کہ:</div><div><br></div><div>ایک بار بہت بیمار تھا بیماری سے تھوڑا ہوش آیا تو بے بے (ماں جی) سے کھانے کی فرمائش کی کہ بے بے روٹی کھانی ہے لیکن مکھن کے ساتھ۔ بے بے نے خالی سی نظروں سے صحن میں پھیلی غربت کو دیکھا اور ڈبڈبائی آنکھوں سے پیار کیا اور کہا اچھا میرا پت میں لائی۔</div><div><br></div><div>بے بے نے سفید کپاہ (روئی) کا پھمبا لیا اور اسکو دھو کے صاف کرکے روٹی کے ساتھ رکھ کے مجھے دیا اور کہا لے پت مکھن کے ساتھ روٹی کھا لے میرا شیر چنگا ہو جا بس۔ </div><div>میں نیم تندرست سا مزے سے روٹی کھانے لگا۔</div><div><br></div><div>چند دن گزرے تو کچھ چلنے پھرنے لگا، تایا جان کے گھر چلا گیا، شام ہوئی تو تائی نے پاس بلایا ماتھا چوما اور پوچھا میرا پت (بیٹا) کیا کھائے گا، میں نے کہا تائی روٹی کھاوں گا پر مکھن کے ساتھ، سالن کھاتا ہوں تو پیٹ میں پیڑ (درد) ہونے لگتی ہے۔ تائی نے پیار سے بٹھایا اور روٹی کے ساتھ کولی (رکابی) میں مکھن کا پیڑہ رکھ کر دیا کہ کھا میرا پت۔ میں نے حیرانگی سے مکھن کو دیکھا اور جب کھانے لگا تو اس کا سواد (ذائقہ) ہی اور تھا۔ ڈٹ کے روٹی کھائی تائی کا پیار لیا اور گھر آ گیا۔</div><div><br></div><div>آتے ہی بے بے سے بولا بے بے جوں مکھن تم نے مجھے دیا تھا اور تھوڑا بھی تھا اور اسکا تو کوئی سواد بھی نہیں تھا۔</div><div>بے بے کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو امڈ آئے مجھے سینے سے لگا کر بولی پتر وہ مکھن نہیں تھا وہ تو رووں (روئی) تھی۔ اپنے گھر مکھن کہاں سے آیا، تو میرا پت ناراض نا ہو جب اللہ سوہنا ہمیں مجھ (بھینس) دے گا تو ہمارے گھر بھی مکھن ہو گا فئر تو میرا پت رج رج کھائی۔</div><div><br></div><div>(نانا صدیق مرحوم کی یاد میں) </div><div>*اللہ پاک غریق رحمت کرئے، الھم آمین یا رب العالامین*</div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-63957914856317534042020-09-28T16:23:00.001+04:002020-09-28T16:23:01.646+04:00اسلام آباد کے نیچے دبے دیہات<div><span style="letter-spacing: 0.2px;">شکرپڑیاں بھی ان 85 دیہات میں شامل تھا جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ جن میں تقریباً 50 ہزار افراد آباد تھے۔ یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔ 85 دیہات کی 45 ہزار ایکٹر زمین جب سی ڈی اے نے حاصل کی تو متاثرین میں اس وقت 16 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے جبکہ انہیں ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور سندھ کے گدو بیراج میں کاشت کے لیے 90 ہزار ایکڑ زمین بھی الاٹ کی گئی جس کے لیے 36 ہزار پرمٹ جاری کیے گئے۔</span><br></div><div><br></div><div>ان میں جو بڑے گاؤں تھے ان میں *کٹاریاں* بھی شامل تھا جو موجودہ شاہراہ ِ دستور اور وزارت خارجہ کی جگہ آباد تھا۔</div><div><br></div><div> شکر پڑیاں لوک ورثہ کی جگہ،</div><div> بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کے عقب میں *سنبل کورک*</div><div><br></div><div>مری روڈ پر سی ڈی اے فارم ہاؤسز کی جگہ *گھج ریوٹ*،</div><div><br></div><div> جی سکس میں *بیچو* </div><div><br></div><div>ای سیون میں *ڈھوک جیون* </div><div><br></div><div> ایف سکس میں *بانیاں* </div><div><br></div><div> جناح سپر میں *روپڑاں* </div><div><br></div><div>جی 10 میں *ٹھٹھہ گوجراں* </div><div><br></div><div>، آئی ایٹ میں *سنبل جاوہ نڑالہ اور نڑالہ کلاں*</div><div><br></div><div> ایچ ایٹ میں *جابو* </div><div><br></div><div>، زیرو پوائنٹ میں *پتن* </div><div><br></div><div>میریٹ ہوٹل کی جگہ *پہالاں* </div><div><br></div><div> ایچ ٹین میں *بھیگا سیداں* </div><div><br></div><div> کنونشن سینٹر کی جگہ *بھانگڑی*</div><div><br></div><div> آبپارہ کی جگہ *باغ کلاں* </div><div><br></div><div>آباد تھے۔</div><div><br></div><div>اسی طرح راول ڈیم کی جگہ *راول، پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑ پن اور مچھریالاں* نامی گاؤں بستے تھے۔ </div><div><br></div><div>فیصل مسجد کی جگہ *ٹیمبا* اور اس کے پیچھے پہاڑی پر *کلنجر* نام کی بستی تھی۔</div><div><br></div><div>شکر پڑیاں میں گکھڑوں کی *بگیال* شاخ کے لوگ آباد تھے جنہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔ راولپنڈی کے گزٹیئر 1884 کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالک گوجر اور 62 گکھڑوں کی ملکیت تھے۔</div><div><br></div><div>~سجاد اظہر کے آرٹیکل سے اقتباس~</div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-15972052357321624542020-05-06T23:55:00.001+04:002020-05-06T23:55:30.521+04:00مثبت سوچ<div>انتہائی مثبت سوچ اور تحریر<br></div><div><br></div><div>کہتے ہیں ہر وہ جاندار جو آج دنیا میں موجود ہے حضرت نوح کی کشتی میں موجود تھا جس میں گھونگا بھی شامل ہے۔ اگر خُدا ایک گھونگے کا نوحؑ کی کشتی تک پہنچنے کا انتظار کر سکتا ہے تو وہ خُدا آپ مجھ پر بھی اپنے فضل کا دروازہ اُس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک کہ آپ زندگی میں اپنے متوقع مقام تک نہیں پہنچ جاتے۔</div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-38044585697694893912020-04-13T01:04:00.001+04:002020-04-13T01:04:39.105+04:00قاتل کورونا کوویڈ 19 کی وبا<div>●<b>●●● کرونا کوویڈ 19 ●●●●</b></div>صرف چند مہینوں میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی، وہ میرا رب میرا مالک میرا آقا میرا رحمان میرا رحیم اس نے دکھا دیا دنیا کو اپنی سب سے عقلمند تخلیق کو اپنے نائب کو اپنی اشرف المخلوقات کو کہ صرف وہی ہے واحد ایک لا شریک ہستی۔<div>دنیا کا علم ، عقل، فہم، ترقی، ستاروں پہ کمند، سوپر پاور، نا ڈرنے والے نا گھبرانے والے، سب کچھ اگا لیتے تھے، کیا کچھ بنا لیتے تھے، ایٹمی طاقت، کیمیائی طاقت، جو کہتے تھے بندر سے انسان ارتقاء پزیر ہوا، اپنے دماغوں پہ فخر اور غرور کرنے والے، جنھوں نے ترقی کی ان بلندیوں کو چھوا کہ قارون، نمرود، فرعون اور شداد تک کہیں پیچھے رہ گئے۔</div><div><br></div><div>لیکن میرے مالک میرے خالق نے اتنے بڑے بڑے دعوئے کرنیوالوں کو مچھر کے قابل بھی نا سمجھا کہ مچھر ہی انکو کچھ کہتا، نا سمندر غرق کیا، نا پہاڑ الٹائے، نا آگ برسائی، نا قحط ہی اتارا، بس فقط ایک نظر نا آنیوالا کہ جس کو آنکھ بھی نہیں دیکھ پاتی، اتنا چھوٹا سا جرثومہ !!!!!!! بس حکم ربی نے دنیا کی کایا پلٹ دی۔۔۔۔</div><div><br></div><div>○○○○○ سب صفر ہو گیا ○○○○○</div><div>ترقی صفر</div><div>سائینس صفر</div><div>دعویداریاں صفر</div><div>علم کے دریا صفر</div><div>ایٹم بمب صفر</div><div>فوجیں صفر</div><div>طب صفر</div><div>انجنیئرنگ صفر</div><div><br></div><div>میرے رب کی قدرت نے ماحول کو صاف کر دیا، آسمان صاف، زمین صاف، فضائیں صاف، درخت، پیڑ پودے چرند پرند سب صاف شفاف صحت مند اجلے دھلے ہوئے دن با دن چمکتے جا رہے ہیں۔</div><div>اور انسان فقط اپنی ناک سانس سنبھالنے کے لئے مقید ہے گھروں میں خود آپ اپنے آپ سے اچھوت بنا پڑا ہے ، حالت بے گورو کفن موت کی تاریکی سروں پہ منڈلاتی ہوئی۔ </div><div><br></div><div>لیکن پھر بات وہی جہاں سے شروع ہوئی کہ!!!!!</div><div><br></div><div><b>میرا مالک ہے، جس کا یہ سارا نظام ہے</b></div><div><b>وہ ہے موجود ہے ہر جا ہر سو</b></div><div><b>خدا زمیں سے گیا نہیں ہے</b></div><div><b>جلد اس کا ازن اسکا کن پھر سے زندگی کو جلا بخشے گا۔ </b></div><div><b>بے شک مایوسی کفر ہے</b></div><div><b>اور توکل ہمارا ایمان</b></div><div><b>شاید اک موقع ہے ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹ جانے کا، جب سب کچھ الٹ پلٹ رہا ہوتا ہے تو کچھ نیا ترتیب ہو رہا ہوتا ہے کچھ اچھا ہونیوالا ہوتا ہے کچھ ٹھیک ہو رہا ہوتا ہے۔</b></div><div><b>اللہ واحد لاشریک ہے</b></div><div><b>نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرالزماں ہیں</b></div><div><b>رب ہی سوپر پاور ہے رب ہی سب ہے، بے شک</b></div><div><b>یہی ہمارا ایمان ہے</b></div><div><b>الھم آمین یا رب</b></div><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-6492537829848701222019-06-14T06:07:00.001+04:002019-06-14T06:07:27.440+04:00رب کا شکر ادا کر بھائی <p dir="rtl">کاپی شدہ: فیس بک پیج "<b>سچی کہانیاں</b>"</p>
<p dir="rtl">ماچس کی ڈبیاں اس وقت ایک روپے کی چار آتی تھیں لیکن چولہا جلانے کے لیے دادی گتے کی چھپٹیوں کا استعمال کرتی تھیں۔ چھپٹی کہہ لیجیے کہ جیسے چائے کا ڈبا ہے ، اس کے باریک اور لمبے بہت سے ٹکڑے کاٹ لیں، آئس کریم سٹک کی طرح سے ، تو وہ ایک ٹکڑا ایک چھپٹی کہلاتا ہے۔ اب سین یہ ہوتا تھا کہ صبح جو پہلا چولہا جلتا وہ ماچس سے جلایا جاتا، اس کے بعد دوسرا اور تیسرا چولہا جلانے کے لیے وہی چھپٹی پہلے چولہے سے جلا کر باقی دونوں کو دکھا دیتیں اور یوں ماچس کی دو تیلیوں کی بچت ہو جاتی۔ وہ سب گتے کے باریک ٹکڑے یا چھپٹیاں چولہے کے برابر کسی بھی ڈبے میں رکھی ہوتی تھیں۔ دادی جب تک زندہ تھیں ان کا استعمال ہوتا رہا۔ جب تک نظر ٹھیک تھی تو فارغ وقت میں وہ سوئیٹر وغیرہ بن لیتی تھیں، نظر کمزور ہو گئی تو اسی طرح کے چھوٹے موٹے بہت سے کام انہوں نے خود اپنے ذمے لے لیے ۔ ماچس کی بچت آج کون سوچ سکتا ہے ؟ یعنی ایک تیلی جس کی وقعت آج بھی شاید دو پیسے ہو گی دادی اس کے استعمال میں کفایت کرتی تھیں، فضول خرچی نام کی چڑیا کبھی اڑتی ہی نہیں دیکھی۔</p>
<p dir="rtl">قلفی والا آتا، دور سے ہی گھنٹی بجنے کی آواز آنا شروع ہو جاتی، ابھی لکھتے لکھتے بھی منہ میں پانی آ گیا، کیا ہی قلفی ہوتی تھی! وہ گھنٹی جب بجتی اور بچے دادی سے پیسے مانگتے تو جتنے چاہیے ہوتے اتنے ہی وہ دیتیں لیکن کہتیں، چندا منہ ہی میٹھا کرنا ہے نا، تین روپے والی کھاؤ یا ایک روپے والی، پیٹ کبھی نہیں بھر سکو گے، ایک والی کھاؤ گے تو باقی دو روپوں سے شام میں کچھ کھا لینا۔ لیکن شام کون دیکھے ، اور شام میں کچھ بجوگ پڑ بھی گیا تو دادی کا بنک پھر دوبارہ کام آ جاتا تھا۔ یہ بات بھی اب سمجھ میں آتی ہے ۔ جو بھی کھا لیجیے ، جتنا بھی کھا لیجیے ، بھوک ہر حال میں دوبارہ لگنی ہی لگنی ہے ، تو کیوں نہ حساب سے کھایا جائے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔</p>
<p dir="rtl">ایک نعمت خانہ ہوتا تھا۔ نعمت خانہ اس زمانے کا فریج تھا۔ چار فٹ لمبائی، تین فٹ چوڑائی اور تین فٹ ہی گہرائی کی ایک الماری جس میں چاروں طرف لکڑی کے فریم کے اندر جالی لگی ہوتی تھی۔ یعنی بس ایک ہوادار سی الماری تھی جو باورچی خانے میں ایک کونا سنبھالے ہوتی تھی۔ دودھ ابالا، اسی میں رکھ دیا، سالن بنایا اس میں رکھ دیا، نچلے خانوں میں مصالحے وغیرہ بھی پڑے رہتے ، چائے کے لوازمات بھی وہیں دھرے ہیں، ماں کے لیے جو ڈرائے فروٹ نانا بھیجتے تھے وہ بھی وہیں سے چرا کر کتنی دفعہ کھایا، تو نعمت خانہ بڑی مزے کی چیز تھا۔ اسے ہرگز یہ دعویٰ نہیں تھا کہ میں پانچویں دن بھی آپ کو تازہ سالن کھلا سکتا ہوں، وہ سکھلاتا تھا کہ بھئی اتنا پکاؤ جتنا رات تک ختم ہو جائے ، کل کی فکر کل ہی کرنا!</p>
<p dir="rtl">ایک کام اور بھی دادی کا بڑا زبردست تھا۔ کبھی کوئی چیز ضائع نہیں کرتی تھیں۔ اپنے کپڑوں کی سلائی میں سے بچی کترنیں، دھاگوں کے چھوٹے بڑے گچھے ، مختلف رنگوں کے بٹن، سر میں لگانے والی سیاہ پن (بوبی پن)، سوئٹروں کی سلائی سے بچی اون، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے ، پانچ پیسے کا وہ چوکور سکہ، دس پیسے والے کنگری دار سکے یا چونی اٹھنی جو بھی بچتا وہ سب کا سب پاندان میں ان کے پاس سنبھلا رہتا تھا۔ ضرورت کے وقت نکل بھی آتا تھا۔ ایک فٹ کا پاندان گھر داری کی ضرورتیں بھی پوری کرتا تھا۔</p>
<p dir="rtl">اس وقت ایک انسان کے پاس جیب میں پانچ دس نوٹ ہوتے تھے اور اگر وہ سگریٹ پینے والا ہوتا تو ساتھ ایک ڈبی اور ماچس بھی ہوتی، زندگی یہیں تک تھی اور پھر بھی حسین تھی۔ آج آپ نے گھڑی بھی لازمی باندھنی ہے ، سالم بٹوہ جیب میں ہونا لازم ہے ، موبائل تو امت پر فرض ہو چکا ہے ، اس کی بیٹری کمزور ہے تو پاور بینک بھی ہاتھ میں رکھنا ہے ، سواری کی چابیاں بھی ساتھ ہیں، سگریٹ پیتے ہیں تو وہ، اس کا لائٹر، بندہ دو جیبوں میں کتنا کچھ رکھ سکتا ہے ؟ جیبوں میں ضرورت سے زیادہ سامان بھر لینا اور پھر اس کے پیچھے جیبیں خالی کرتے جانا دورِ جدید کی عطا ہے ۔</p>
<p dir="rtl">اے سی، فریج، ٹیلی فون، رنگین ٹی وی، وی سی آر، شاور، مسلم شاور، ٹائلوں والے باتھ روم، ماربل اور چپس والے فرش، ایلومینیم کی کھڑکیاں، ہر بندے کی اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی، یہ سب ابھی بیس پچیس برس پہلے تک نوے فی صد لوگوں کے لیے ایک خواب ہوتا تھا، کون مان سکتا ہے ؟ ماموں گیارہویں سال گرہ پر آئے تو لال رنگ کی ایک سائیکل لائے تھے ، اس سے آج تک نیچے نہیں اترا، خوشی بس یہ ہوتی تھی!</p>
<p dir="rtl">خواب پورے کرنے کے لیے قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ بجلی کے بلوں پر چیخنے سے پہلے گھر کے اندر اے سی گن لیجیے ۔ گیس کے بل پر بلبلانے سے پہلے گیزر چیک کیجیے ، کتنے ماہ سے بند نہیں ہوا؟ پیٹرول کے بڑھتے ریٹ پر احتجاج کرنے سے پہلے یاد کیجیے کہ سائیکل سے اترتے ہوئے کندھے ٹانگیں اور کمر کیا احتجاج کرتے تھے ۔ ذرا وہ لال اینٹوں کے صحن اور سیمنٹ والے باتھ روم یاد کیجیے جن میں بالٹی سے ڈونگے بھر بھر کے نہانا ہوتا تھا اور اب شاور کے مزے دیکھ لیجیے کہ جس کے نیچے سے ہٹنے کا دل نہیں چاہتا۔ موبائل کمپنیوں کی دھاندلی کا رونا روتے ہوئے تصور کیجیے کہ ماں بہنوں کو فون سننے چھ گھر پار جانا پڑے تو کیسا لگتا ہو گا۔ انٹرنیٹ ری چارج کرواتے ہوئے سوچیے کہ یہ جو مفت میں گھنٹوں پردیسیوں سے بات ہوتی ہے ، یہ کیا دو منٹ کو بھی ممکن تھی؟ جو بہت زیادہ افورڈ کر سکتے تھے وہ مکمل ویڈیو کیسٹ ریکارڈ کروا کے گھر بھیجتے تھے ، پورا گھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتا تھا اور ماں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ باپ کا دل کمزور نہ پڑ جائے ، باپ تو ویسے ہی “مرد” بننے پر مجبور ہوتا تھا۔ ہما شما آڈیو کیسٹ پر آواز سن کر دوپٹے کے کونے بھگو لیتے تھے اور غریب غربوں کا آسرا وہی خط ہوتا تھا جو آج بھی نصف ملاقات سمجھا جاتا ہے لیکن ایس ایم ایس اور ای میل جسے دفن کر چکے ہیں۔</p>
<p dir="rtl">تو یہ قیمت چکاتے چکاتے راستہ وہاں لے جاتا ہے جہاں نئے خواب منتظر ہوتے ہیں۔ سستے موبائل والا مہنگا موبائل لے گا۔ سائیکل والا موٹر سائیکل لے گا، موٹر سائیکل والا چھوٹی گاڑی لے گا، چھوٹی گاڑی کے بعد بڑی کا خواب دیکھا جائے گا، بڑی سے اور بڑی اور پھر اور بڑی۔ یہی معاملہ کچے گھروں سے نکلنے والوں کو دو کنال کے بنگلے میں بھی چین نہیں لینے دیتا اور اسی طرح کا حال ٹیکنالوجی کے مارے ہوؤں کا ہوتا ہے ۔ لیپ ٹاپ، موبائل، ٹیبلٹ، ہر چار سے چھ ماہ بعد ان کے نئے ماڈل دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں ساتھ رکھنا سٹیٹس کی نشانی، انسان کتنا اپ ٹو ڈیٹ رہ سکتا ہے ؟ یارو، ایک لاکھ کے موبائل پر چڑھ کے گھر سے بندہ صدر تک تو جا نہیں سکتا، فائدہ کیا ایسی اندھی ریس میں پڑنے کا، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان!</p>
<p dir="rtl">ابا کہتے ہیں عرب شہزادے بھی اے سی کی وہی ٹھنڈک لیتے ہیں جو آپ کے پاس ہے ، معدے ان کے بھی آپ جتنے ہیں، گھڑی پر وقت وہ بھی ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے آپ دیکھتے ہیں، سبزہ انہیں بھی ویسی ہی فرحت دیتا ہو گا جیسے آپ کسی باغ میں جا کر محسوس کرتے ہیں، آئی فون سے مہنگا کوئی فون ان کے پاس بھی نہیں ہو سکتا، گاڑیاں ان کی واقعی بہت آرام دہ ہوتی ہیں لیکن بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں اگر آپ کے پاس ہیں تو آپ میں اور عرب شہزادوں میں کوئی فرق نہیں۔ بس چادر کا حساب رکھیے تو آپ خود ایک جیتے جاگتے شہزادے ہیں۔ <br>
رب کا شکر ادا کر بھائی</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-27918817390549477072019-05-09T13:49:00.001+04:002019-05-09T13:49:28.914+04:00♡ماں کی محبت♡<p dir="rtl">ماں کی محبت سے متعلق <b>ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ ملک خداداد خان صاحب</b> کی ایک نہایت ہی عمدہ اور دل کو چھوُ لینے والی تحریر ۔</p>
<p dir="rtl">ہمیں <b>اماں جی</b> اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں- <br>
لکس ، کیپری ، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرع چبھتا ... اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!<br>
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں... اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتے تھے ... لیکن مارا کبھی نہیں- کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا ... کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے ...<br>
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا - ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹؤر ہوا کرتاتھا ... اور اس ٹؤر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی !!<br>
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں .... ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے .... ان کا دوپٹا کھینچتے ... پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے- <br>
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے ..... شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں ...." جب تو بڑا ہوگا ... نوکری کرے گا ... بہت سے پیسے آئیں گے ... تیری شادی ہوگی ... وغیرہ وغیرہ ... یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے ...<br>
مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا- وہاں جلنے بجھنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹاختے بھی پھوٹ رہے تھے- میں نے ماں کی بہت منّت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانی- جب میں ماں جی کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا.....<br>
شام کا وقت تھا .... ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھری - اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہی - <br>
رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرع مجھ پر حملہ آور ہوئیں- اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتی-<br>
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے- میں اس وقت چھ سات سال کا تھا- مجھے شدید بخار ہو گیا- اماں جی نے مجھے لوئ میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں- واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں ... لیکن مجھے بچا لیا ... انہیں شاید گھٹنے پر چوٹ آئ ... ان کے مونہہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا ... اور اپنے سسرال کےلئے کچھ ناروا الفاظ ... یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہے .... <br>
یقیناً وہ بڑی ہمت والی خاتون تھیں-اور آخری سانس تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں ...<br>
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...<br>
سال بھر بعد جب گھر آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ھنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا- <br>
ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کے سامنے آن پھینکتی- کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکہ چلاتی - جب میں گھر ہوتا تو مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹاتا- جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں ... " بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ....؟؟ " <br>
وہ جانتی تھی کہ میں پیداٰئشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے-<br>
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ... اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی- <br>
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی-<br>
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں .... میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائ...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....<br>
ماں بیمار ہوئ تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئ دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے ... جلد افاقہ ہو جائے گا ... پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ھسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے ......<br>
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئ تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا .... ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "<br>
میں بمشکل اتنا کہ سکا .... " اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا ... جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئیں تھیں ... اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئ تھیں .... "<br>
وہ کھلکھلا کر ہنسیں تو میں نے کہا "امّاں مجھے معاف کر دینا ... میں تیری خدمت نہ کر سکا "<br>
میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی ... وقت ہی نہیں ملا ... لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں .... بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا ... کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے !!! "<br>
ماں نے میرے سامنے دم توڑا .... لیکن میں رویا نہیں ... دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-<br>
مائے نی میں کنوں آکھاں <br>
درد وچھوڑے دا حال نی <br>
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئ...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!<br>
آج بیت اللّہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...<br>
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں .... وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ... وہی اپنائیت ... وہی محبت ... جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا .... اس بار منہ پھاڑ کر نہیں .... دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!<br>
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ ..... اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-65767126947068931852019-05-07T12:43:00.001+04:002019-05-07T12:43:49.723+04:00پانچ سو ڈالر $<p dir="rtl">🗞 *پانچ سو ڈالر*</p>
<p dir="rtl">✍*جاوید چوہدری*<br></p>
<p dir="rtl">وہ محمد منور کو تلاش کر رہا تھا‘ اس نے محمد منور کی تلاش میں بے شمار اشتہار دیئے ‘ وہ اسے نیویارک‘ واشنگٹن‘ شکاگو اور ہیوسٹن میں بھی تلاش کرتا رہا ‘ اس نے اسے فرینکفرٹ‘ میلان‘ ایمسٹرڈیم‘ پیرس‘ لندن اور برسلز میں بھی تلاش کیا اور وہ اس کی تلاش میں ٹوکیو‘ بیجنگ اور منیلا بھی گیا تھا لیکن محمد منور نہیں ملالیکن وہ اس کے باوجود زندگی میں ایک بار اپنے محسن سے ضرور ملنا چاہتا تھا‘ وہ سمجھتا تھا اگر محمد منور نہ ہوتا تو وہ آج اربوں روپے کا مالک نہ ہوتا۔</p>
<p dir="rtl">اس کی کمپنی چھ براعظموں میں کام نہ کر رہی ہوتی اور وہ پانچ چھ ہزار لوگوں کا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتا۔ اس کا کہنا تھا اگر محمد منور زندہ نہیں تو اسے اس کے خاندان کا کوئی فرد چاہیے‘ اس کا کوئی بھائی ہو‘ اس کا والد ہو‘ اس کی بیوی‘ اس کا کوئی بچہ یا پھر اس کی کوئی بچی ہو‘ منور کے لواحقین میں سے کوئی نہ کوئی شخص تو دنیا میں موجود ہو گا‘ وہ بس اس شخص سے ملنا چاہتا تھا‘ اس کو اس کا حصہ دینا چاہتا تھا‘ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا تا کہ اس کی روح کو قرار آ سکے۔</p>
<p dir="rtl">یہ کہانی میرے ایک دوست نے سنائی تھی اور یہ میرے دماغ میں چبائی ہوئی چیونگم کی طرح چپک کر رہ گئی تھی‘ کہانی کے مرکزی کردار کا نام شفیق الحق تھا‘ وہ آج سے 35 سال پہلے امریکا گیا‘ وہ برگر کی دکان پر کام کرتا تھا اور شام کے وقت ایم بی اے کی کلاسز لیتا تھا‘ اس کی زندگی گھڑی کی سوئیوں کی طرح چل رہی تھی‘ کلاک وائز‘ ٹک ٹک ٹک‘ صبح ایک مخصوص وقت پر جاگنا‘ آنکھیں ملتے ملتے کپڑے تبدیل کرنا‘ کافی کا مگ اٹھانا اور زیر زمین ٹرین میں سوار ہو جانا‘ راستے میں مشین کے ذریعے شیو کرنا ‘ برگر شاپ پر پہنچ جانا‘ شام تک سیاحوں سے ٹپ وصول کرتے رہنا ‘کچن صاف کرنا‘ کچرے کے ڈبے سے کاغذی پیکنگ‘ پلیٹیں اور ٹرے نکالنا اور جس دن سویپر کی چھٹی ہوتی‘ اس دن باتھ روم بھی صاف کرنا‘ پانچ بجے دو برگر اٹھا کر کالج پہنچ جانا‘ لیکچر سننا‘ نوٹس لینا‘ لائبریری سے کتابیں اٹھانا‘ اسائنمنٹ کی پلاننگ کرنا اور رات دس بجے کمرے کی طرف چل پڑنا۔<br>
وہ اپنے دوست کے ساتھ کمرہ شیئر کرتا تھا‘ اس کا دوست رات کی ڈیوٹی کرتا تھا اور صبح کمرے میں پہنچتا تھا جب کہ یہ رات کے وقت آتا تھا چنانچہ ایک بستر سے دونوں کا گزارہ ہو جاتا تھا‘ یہ زندگی خوفناک بھی تھی‘ پھیکی بھی‘ بے آرام بھی اور تلخ بھی کیونکہ اس زندگی میں وہ خود کو بھی پال رہا تھا‘ اپنی تعلیم کا خرچ بھی اٹھا رہا تھا اوروہ پاکستان میں بھی اپنی فیملی کو ’’ ہیلپ آئوٹ‘‘ کر رہا تھا‘ اس ساری روٹین میں اس کی واحد تفریح ویک اینڈ پر نائٹ کلب کے دو گھنٹے تھی‘ وہ دو گھنٹے ناچ کود کر اپنی ساری فرسٹریشن دور کر لیتا تھا‘یہ روٹین چل رہی تھی لیکن پھر اس کی زندگی بحران کا شکار ہو گئی‘ وہ یوں ہی چلتے چلتے ایک مسئلے کا شکار ہوا اور ایک ایسی بند گلی میں آ گیا جس کے آخر میں سزائے موت اس کا انتظار کر رہی تھی‘ وہ بری طرح پھنس گیاتھا‘ ہوا کیا؟</p>
<p dir="rtl">ہوا یہ کہ وہ ایک رات کلب سے نکلا‘ کلب کے باہر دو گروپوں میں لڑائی ہوگئی اور ایک لڑکی اس لڑائی کے درمیان پھنس گئی‘ اس نے لڑکی کو بچانے کی کوشش کی‘ اس دوران گولی چل گئی‘ لڑکی کوگولی لگی اور لڑکی نے اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا‘ وہ گھبرا گیا‘ اس نے لڑکی کی نعش فٹ پاتھ پر رکھی اور وہاں سے بھاگ گیا‘ پولیس آئی‘ پولیس نے تفتیش شروع کی تو ایک ہفتے میں اس کے فلیٹ تک پہنچ گئی‘ وہ گرفتار ہو گیا‘یہ قتل بعد ازاں اس کے ذمے لگ گیا‘ وہ بے گناہ تھا لیکن سارے شہر میں کوئی شخص اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ تمام شواہد بھی اس کے خلاف جا رہے تھے‘ اس دوران اس کے کاغذات بھی غلط نکل آئے‘ اس نے تعلیم مکمل کرنے کے لیے کالج میں جعلی دستاویزات جمع کرا رکھی تھیں چنانچہ وہ بری طرح پھنس گیا لیکن پھر ایک دن دلچسپ واقعہ پیش آیا۔</p>
<p dir="rtl">اس کا کیس فائنل ہیرنگ کے لیے عدالت میں پیش ہوا‘ کیس کا اصل جج ’’ میڈیکل لیو‘‘ پر چلا گیا اور اس کی جگہ ایک خاتون جج کیس سننے کے لیے آ گئی‘ سماعت کے دوران جج نے اس سے اس کی قومیت پوچھی‘ اس نے روتی ہوئی آواز میں بتایا ’’ پاکستان‘‘ جج نے اومائی گاڈ کہا اور اس سے پوچھا ’’ تم منور کو جانتے ہو‘‘ اس نے انکار میں سر ہلا دیا‘ جج نے کندھے اچکائے اور سماعت شروع کرا دی لیکن اس بار عدالت کا رویہ بالکل مختلف تھا‘ جج نے وکلاء سے چند ایسے سوال پوچھے جس کا اس کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا تھا‘ قصہ مختصر اسی سماعت کے دوران جج نے نہ صرف اسے باعزت بری کر دیا بلکہ پولیس کو اسے لاکھ ڈالر ہرجانہ دینے کا حکم بھی دے دیا‘ وہ رہا ہو گیا۔</p>
<p dir="rtl">شفیق الحق رہائی کے چند دن بعد شکریہ ادا کرنے کے لیے جج کے گھر چلا گیا لیکن جج کا کہنا تھا ’’تمہیں میری بجائے محمد منور کا شکریہ ادا کرنا چاہیے‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا ’’ محمد منور کون ہے‘‘ جج نے مسکرا کر جواب دیا ’’ محمد منور پاکستانی تھا‘ نیویارک شہر میں ٹیکسی چلاتا تھا اور میں نے اس فیصلے کے ذریعے محمد منور کا قرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘ جج نے بتایا‘ اس کے والد میکسیکو کے رہنے والے تھے‘ وہ کینسر کے مریض تھے‘ اس نے والد کے علاج کے لیے اپنا فلیٹ بیچا‘70 ہزار ڈالر لیے‘ وہ یہ رقم ایک بینک سے دوسرے بینک لے جا رہی تھی لیکن سفر کے دوران رقم کا تھیلا ٹیکسی میں بھول گئی‘ ٹیکسی نے اسے اتارا اور آگے نکل گئی‘ وہ بے بس ہو کر رہ گئی کیونکہ اس کا والد موت کے بستر پر پڑا تھا۔</p>
<p dir="rtl">وہ واحد اثاثہ بیچ چکی تھی اور رقم گم ہو گئی تھی‘ اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ ملا‘ وہ مایوس ہو گئی لیکن ایک شام اس کے دروازے کی گھنٹی بجی‘ اس نے دروازہ کھولا تو ٹیکسی ڈرائیور دروازے پر کھڑا تھا‘ ڈرائیور نے بتایا وہ مسلسل پانچ دن سے اسے تلاش کر رہا ہے اور وہ بڑی مشکل سے اس تک پہنچا ہے‘ ڈرائیور نے رقم کا تھیلا اسے پکڑا یا‘ اسے سلام کیا اور واپس مڑ گیا‘ جج نے اسے انعام دینے کی کوشش کی لیکن اس نے ’’یہ میرا فرض تھا‘‘ کہہ کر معذرت کر لی‘ جج نے جاتے جاتے اس کا نام پوچھا‘ اس نے بتایا اس کا نام محمد منور ہے اور وہ پاکستانی ہے۔</p>
<p dir="rtl">اس کے بعد نئی کہانی شروع ہو جاتی ہے‘ جج اپنے والد کو رقم بھجوانے کے لیے بینک گئی تو اس کے والد کا انتقال ہو گیا‘ والد کے انتقال کے بعد اس نے اس رقم سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ جوڈیشری کا امتحان دیا‘ پاس کیا اور جج بن گئی اور آج وہ پاکستان کے تمام لوگوں کو محمد منور سمجھتی ہے اور اس کی عدالت میں جس پاکستانی کا کیس آتا ہے وہ محمد منور کا قرض اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ جج نے بتایا اس نے محمد منور کو تلاش کرنے کی بے تحاشا کوشش کی لیکن وہ نہ ملا۔ جج کا کہنا تھا ’’محمد منور کو اب تم تلاش کرو اور اپنی اور میری طرف سے اس کا شکریہ ادا کرو‘‘ شفیق الحق کی زندگی تبدیل ہو گئی‘ اس نے پولیس سے لاکھ ڈالر وصول کیے۔</p>
<p dir="rtl">ایک چھوٹی سی ٹریڈنگ کمپنی بنائی‘ یہ کمپنی چل نکلی اور وہ آہستہ آہستہ کروڑ پتی ہو گیا‘ اس کی کمپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے جاپان‘ چین اور منیلا سے خام مال خریدتی تھی اور بعد ازاں تیار مصنوعات مڈل ایسٹ اور یورپ بھجواتی تھی‘ وہ اس سارے عرصے کے دوران محمد منور کو تلاش کرتا رہا‘ اس نے نیویارک‘ واشنگٹن‘ شکاگو اور لاس اینجلس کے ہر ٹیکسی ڈرائیور سے منور کا پتہ پوچھالیکن وہ اسے نہ ملا‘ وہ محمد منور کو تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتا رہا ’’ پوچھو کیوں؟‘‘ میرے دوست نے کہانی کے آخر میں مجھ سے پوچھا‘ میں نے گھبرا کر انکار میں سر ہلا دیا‘ وہ بولا ’’ اس لیے کہ شفیق الحق نے اپنے ہر کاروبار میں محمد منور کا دس فیصد شیئر رکھا ہوا تھا اور وہ جلد سے جلد اس کو اس کا حق پہنچانا چاہتا تھا چنانچہ وہ اسے تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتا رہا‘‘۔</p>
<p dir="rtl">میرے لیے یہ ایک حیران کن کہانی تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں کوئی فلم دیکھ رہا ہوں اور فلم کے سین اور سچویشن تیزی سے بدل رہی ہے‘ میں نے بے چینی سے پوچھا ’’لیکن کیا اسے پھر محمد منور ملا‘‘ کہانی سنانے والے نے ہاں میں سر ہلایا‘ ایک لمبی سانس لی اور دکھی آواز میں بولا ’’ ہاں لیکن نیویارک کے ایک اسپتال میں آخری سانسیں لیتا ہوا‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولا ’’ شفیق کو ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے محمد منور کا ایڈریس تلاش کر دیا‘ وہ منور کی تلاش میں نکلا تو پتہ چلا وہ نیویارک کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں شدید زخمی حالت میں پڑا ہے‘ شفیق اسپتال پہنچا‘ محمد منور سے ملا‘ اس سے جج کی کہانی کی تصدیق کروائی۔</p>
<p dir="rtl">محمد منور ابھی اس کے سوال کا جواب دے رہا تھا کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی‘‘ مجھے جھٹکا لگا اور میں نے اس سے پوچھا ’’ محمد منور کو کیا ہوا تھا‘‘ میرے دوست نے لمبی آہ بھری ’’ محمد منور نے اپنی ٹیکسی میں سوار ایک شخص سے پانچ سو ڈالر لوٹنے کی کوشش کی تھی‘ مسافر کے پاس ریوالور تھا‘ اس نے محمد منور کو گولی مار دی‘ پولیس آئی‘ اسے زخمی حالت میں اسپتال شفٹ کر دیا‘ محمد منور نے اپنا جرم تسلیم کر لیا اور وہ تین دن کی کشمکش کے بعد انتقال کر گیا‘‘۔</p>
<p dir="rtl">میرا دوست رکا اور پھر بولا ’’<b>وہ جب مرا تو شفیق الحق کے اکائونٹس میں محمد منور کے حصے کے آٹھ ملین ڈالر پڑے ہوئے تھے‘ وہ اگر مسافر سے پانچ سو ڈالر چھیننے کی کوشش نہ کرتا تو وہ کروڑ پتی بن جاتا لیکن انسان اللہ تعالیٰ کی دلچسپ ترین مخلوق ہے‘ یہ اگر ایماندار ہونا چاہے تو ستر ہزار ڈالر بھی اس کے ایمان میں لرزش پیدا نہیں کر سکتے اور یہ اگر بے ایمان ہو جائے تو یہ پانچ سو ڈالر کے لیے جان دے دیتا ہے‘‘۔</b></p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-52355484458659553422018-09-14T16:33:00.001+04:002018-09-14T16:33:43.934+04:00Noble Horse Breed.<iframe allowfullscreen="" frameborder="0" height="270" src="https://www.youtube.com/embed/DtH1A_Dk_QY" width="480"></iframe><div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-30880532560699566952018-09-09T12:11:00.001+04:002018-09-09T12:11:05.960+04:00مامتا وکھری نہیں ہوندی<p dir="ltr"><b><i>As Received</i></b><br>
<b><i>Copied Content!!!!! Writer unknown</i></b><br>
کل پھیکے کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔۔! سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔۔! جانے کون ملنے آیا تھا۔۔۔! میں جانتا تھا پھیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔۔۔! وہی ہوا شام کو بیٹھک میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پھیکا چلا آیا۔۔۔! حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔! صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ہے آپ کو یاد ہے ماسی نوراں ہوتی تھی جو پٹھی پر دانے بھونا کرتی تھی۔۔۔! جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔۔! میں نے کہا ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔!</p>
<p dir="ltr"> اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔! سکول میں اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ رہتی تھی۔۔۔! صاحب جی اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔۔۔! ماسٹر جی ڈانٹ کر کار بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔۔۔! اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔! میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچارکھولا۔۔۔! صاحب جی آج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ہے نا۔۔۔! تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ہی یاد آتا ہے۔۔۔! اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو بھر جاتی ہے۔۔۔! پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔۔۔!</p>
<p dir="ltr"> صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لی۔۔۔! اُس ایک نظر نے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔۔۔! میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آندروں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔۔۔! صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں۔۔۔! آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ہوں۔۔۔! اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔! وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے میں نے اُس کی منتیں کر کے اُسے کھانے میں شریک کر لیا۔۔۔! پہلی بُرکی ٹِڈھ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آندروں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔۔! میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگاۓ رکھا۔۔۔!اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔۔! اور پھراکثر ایسا ہونے لگا۔۔۔! میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں شریک کرنے لگا۔۔۔! وقار کی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔۔! اور میری وقار کے ساتھ۔۔۔! خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔۔؟ میں سکول سے کار آتے ہی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا۔۔۔! ایک دن اماں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔! پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کر دیتی ہوں کھاتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔! اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ہے۔۔۔؟ میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں۔۔۔! آتے ساتھ بُھوک بُھوک کی کھپ مچا دیتا ہے۔۔۔! جیسے صدیوں کا بھوکا ہو۔۔۔!</p>
<p dir="ltr"> میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔۔! پر اماں نے اُگلوا کر ہی دم لیا۔۔۔! ساری بات بتائی اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔۔۔! کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔۔۔! میں نے کہا اماں پراٹھے دو ہوۓ تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔!میں تو کار آکر کھا ہی لیتا ہوں۔۔۔! صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔۔۔! کہنے لگی وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ہے۔۔۔! مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔! مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔؟ </p>
<p dir="ltr"> میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔! پانچویں جماعت میں پڑھنے والے پھیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔۔۔! بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔۔۔! اگرایک بار بھرم ٹوٹ جاۓ تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔! ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔۔! اور بندہ پھرکبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔! پھیکے کو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔۔! اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔! اور میں پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔! مجھے کسی سکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔۔!</p>
<p dir="ltr"> صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے کار جانے لگی۔۔۔! “دیکھ نوراں ساگ بنایا ہے چکھ کر بتا کیسا بنا ہے” وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔۔۔! صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے کار کام پر لگوا دیا۔۔۔! تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔۔۔! اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔! اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔۔۔! اُس کے بعد رابطہ ہی کُٹ گیا۔۔۔! </p>
<p dir="ltr"> کل وقار آیا تھا۔۔۔! ولایت میں رہتا ہے جی واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔! پڑھ لکھ کر بہت بڑا افسر بن گیاہے۔۔۔! اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ہے۔۔۔! صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔۔۔! یار لوگ اسکول بنواتے ہیں ہسپتال بنواتے ہیں تو لنگر ہی کیوں کھولنا چاہتا ہے اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔۔۔؟</p>
<p dir="ltr"> کہنے لگا۔۔۔! پھیکے بھوک بہت ظالم چیز ہے چور ڈاکو بنا دیا کرتی ہے۔۔۔! خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔۔۔! ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ہے۔۔۔! تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے پھیکے۔۔۔! سارے آنکھیں پڑھنے والے نہیں ہوتے۔۔۔! اور نہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔۔۔! پھر کہنے لگا۔۔۔! یار پھیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔! جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔! چند دنوں کے بعد جب پراٹھے کے بل بڑھ گئے تھے۔۔۔! اور مکھن بھی۔۔۔! آدھا پراٹھا کھا کر ہی میرا پیٹ بھرجایا کرتا۔۔۔! اماں کو ہم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا پھیکے۔۔۔! وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔! اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔! </p>
<p dir="ltr"> اور میں بھی اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا پھیکے اور وقار کی۔۔۔! بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔! </p>
<p dir="ltr"> <b>پھیکا کہہ رہا تھا مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ہے صاحب جی۔۔۔! اُس نے کہا تھا۔۔۔! مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔! مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔! اُس کے ہاتھ تیزی سے پراٹھے کو ول دے رہے تھے۔۔۔! دو روٹیوں جتنا ایک پیڑا لیا تھا امّاں نے صاحب جی۔۔۔! میں پاس ہی تو چونکی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔! روٹی بیلتے بیلتے نماز کا سبق پڑھاتی میرے ساتھ نکیاں نکیاں گلاں کرتی۔۔۔! آج بھی ویہڑے میں پھرتی نظر آتی ہے۔۔۔! پھیکا ماں کو یاد کر کے رو رہا تھا۔۔۔! </b><br>
<b> سورج کی پہلی کرن جیسا روشن چہرہ تھا اماں کا صاحب جی۔۔۔! باتیں کرتے کرتے پھیکا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُس پل میں لے گیا اور ایک دم میرے سامنے کسی پُرانْی فلم کی طرح سارا منظر بلیک اینڈ وائٹ ہو گیا۔۔۔! زندگی کے کینوس پر صرف ایک ہی رنگ بکھرا تھا مامتا کا رنگ۔۔۔!</b><br>
<br>
سچ ہے ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے۔۔۔! آج ملک کے حالات کرپشن اور مسائل کو دیکھتے ہوۓ میں سوچ رہا تھا۔۔۔! کاش سب مائیں پھیکے کی اماں جیسی ہو جائیں۔۔۔! میں ہر بار پھیکے سے ملنے کے بعد وطن کی بند کھڑکیوں سے چھن چھن کر آتی سنہری روشنی کو دیکھتا ہوں۔۔۔! روشنی جو راستہ تلاش کر ہی لیتی ہے۔۔۔!</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-22874962823044058292018-07-05T13:41:00.001+04:002018-07-05T13:41:49.916+04:00ہمارا المیہ<p dir="rtl">تو بات ہوتی ہے کسی معاشرتی برائی یا واقعہ کی:</p>
<p dir="rtl">ہمارا المیہ ہے عدم برداشت اور بے ضمیری، یا ہم آگ لگا سکتے ہیں یا پھر بلکل چپ کر کے بیٹھے رہتے ہیں۔ ورنہ سول سوسائٹی ایک عفریت ایک بلا سے کم نہیں ہر معاشرتی برائی اور برے عمل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے اس کی روک تھام اور سد باب ممکن ہے۔<br>
سوشل میڈیا ایک آسان طریقہ ہے لیکن ہمیشہ موثر نہیں یقین کریں یہ تیر ہمیشہ حدف پہ نہیں بیٹھتا۔ کئی ایسے کیس ہیں اور واقعات ہیں جن کا ٹرینڈ سوشل میڈیا سے شروع ہوا اور ختم ہو گیا اور نتیجہ کچھ بھی نہیں۔</p>
<p dir="rtl">میں کسی فرد واحد کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا لیکن اجتماعی ہم لوگ سب اس میں شامل ہیں۔ لوگوں کو عملی طور پہ میدان میں آنا ہو گا لیکن برداشت، بردباری اور سمجھداری کے ساتھ، ہمارے ہاں لوگ نکلتے ہی غریبوں کی ریڑھیاں، گاڑیاں کھوکھے توڑنے لگ جاتے ہیں۔ یا پھر گھروں میں میری طرح پڑے رہتے ہیں اور فیس بک پوسٹ ٹویٹ کر کر کے اپنی بے بس بھڑاس نکال کر مطمئین ہو جاتے ہیں۔<br>
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br>
چیف جسٹس یا چیف آف آرمی تک تو بات بعد میں پہنچنئ چاہئے پہلے جس جگہ یا علاقے میں کوئی برائی کوئی ایسا عمل ہو وہاں لوگ بلا کسی تفریق ذمہ داران کو بحوالہ قانون کریں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کی پیرووی مل کر کریں تاکہ اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، مزید اسکے سدباب اور دوبارہ نا ہونے پہ بھی متفق ہوں اور ضروری اقدامات کئے جائیں۔</p>
<p dir="rtl">جزاک اللہ الخیر </p>
<p dir="rtl">از: قلم نا تواں <br>
راشد ادریس رانا<br>
05 جولائی 2018</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-9020146257057019072017-12-31T11:52:00.001+04:002017-12-31T11:52:03.449+04:00ابھی وقت لگے گا۔<p dir="rtl">فروٹ والی دکان پہ وہ نوجوان جلدی جلدی فروٹ تول کر گاہکوں کو دے رہا تھا۔ناجانےکیوں دل میں اک خیال آیا کہ یہ بھی تو اس ملک کی قیادت سنبھال سکتا ہے، یہ بلاول،مریم، حمزہ اور ان جیسے مورثی چوروں سے بہتر ہےجوعوام کااربوں کھربوں ھڑپ رہے ہیں۔پھر اچانک چونک گیا جب لڑکے نے کمال مہارت سے سیب تولتے ہوئے ایک گلا سڑا سیب بھی آرام سے ڈال دیا،اور میری طرف مڑا توچونک گیااورتھوڑی خجل سی مسکراہٹ سے پوچھا جی کیا چاہئے۔<br>
میں نے بے بسی سے اسکی طرف دیکھا اور کہا<br>
چاہتا توزندگیوں کوبدلنا تھا<br>
لیکن ابھی تک سوچ نہیں بدلی اس قوم کی ابھی اور وقت لگے گا۔<br>
قلم ناتواں:ر۔ا۔رانا<br>
31 دسمبر 2017</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-66326564838087311292017-11-11T15:30:00.001+04:002017-11-11T15:30:44.930+04:00اخلاقی سزائیں<p dir="rtl">کچھ عرصہ سے پاکستان میں خصوصی طور پہ کراچی میں ایک عدالت میں مجرموں کو کچھ سزائیں دی جا رہی ہیں جو جیل میں بند کرنے کی بجائے کچھ یوں ہیں:</p>
<p dir="rtl"><b>ایک مجرم کو سزا ملی کہ وہ 2 سال تک ایک جگہ پلے کارڈ لے کر کھڑا ہو گا جس پہ ٹریفک قانون کی پاسداری کا لکھا ہوا ہو گا.</b></p>
<p dir="rtl">*اسکا جرم تھا کہ اس نے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی.</p>
<p dir="rtl"><b>اسی طرح تازہ ترین ایک بندے کو 3 سال تک با جماعت نماز پنجگانہ ادا کرنے کا کہا گیا جس کی رپورٹ امام مسجد سے لی جائے گی</b>.</p>
<p dir="rtl">*اسکا جرم کرپشن اور دھوکہ دہی تھا*</p>
<p dir="rtl">ایسے ہی ملتی جلتی کچھ اور سزائیں بھی دی گئی ہیں. حال ہی میں وکلا نے اسکے خلاف آواز اٹھائی کہ یہ سزائیں غیر قانونی ہیں وغیرہ وغیرہ.</p>
<p dir="rtl">اب سوال یہ ہے کہ جو ہمارا نظام قانون اور سزائیں ہیں </p>
<p dir="rtl"><b>₪ کیا ان سزاؤں کے بعد لوگ سدھر جاتے ہیں؟</b><br>
<b>₪ کیا ہونے والے نقصان کا ازالۂ ہو جاتا ہے؟</b><br>
<b>₪ کیا ان سزاؤں کے بعد لوگ اخلاقی طور پہ سدھر جاتے ہیں یا مزید بگڑ جاتے ہیں؟</b><br>
<b>₪ کیا ان سزاوں سے ہم سب کو معاشرے میں کوئی سبق یا عبرت ملتی ہے؟</b></p>
<p dir="rtl">جواب اگر واقعی ہی ایک تحقیقی سروے کیا جائے تو جواب ملے گا "نہیں".<br>
ہمارا سزاوں کا نظام ایسا ہے کے جس میں عبرت اور سبق کم اور ترغیبِ جرم زیادہ ملتا ہے. ہمارے نظام میں زور اس بات پہ ہے کہ بندہ جرم کے بعد جیل میں آ کے جیل کی آبادی میں اضافہ نا کرئے بس، باقی باہر وہ مزید کیا کرئے اس سے قانونی لوگوں کا کچھ لینا دینا نہیں. جیل سے نکلنے والے 90 سے 97 فیصد لوگ پکے مجرم یا تربیت شدہ مجرم بن چکے ہوتے ہیں.</p>
<p dir="rtl">تو ایسی ابتر صورتحال میں میرے عزیز ہم وطنوں! کیا یہ *<b>اخلاقی سزائیں</b>* قدرے بہتر نہیں کہ جن میں کم از کم دیکھنے والوں کے لئے ایک عبرتناک سبق ہے </p>
<p dir="rtl">بھائی یہ سزائیں بھی سزا ہی ہیں. جس کی ساتھ شرط ہے کہ اگر مجرم ان کی پابندی نہیں کرئے گا تو اس کو جیل بھی جانا ہی پڑے گا.<br>
خداراَ اگر کچھ اچھا کام ہو رہا تو اسکے خلاف اپنی گہری عقل کا استعمال کم کر دیا کریں. یہ اخلاقی سزائیں ہیں جن کا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہے.</p>
<p dir="rtl">از خود راشد ادریس رانا<br>
قلم نا تواں<br>
11 نومبر 2017</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-786913253075920872017-08-21T12:38:00.001+04:002017-08-21T12:38:14.179+04:00"دو لمحے" تحریر محترم ارشد محمود<p dir="rtl">بشکریہ <br>
محترم نادر خان سرگروہ<br>
محترمہ شمسہ نجم صاحبہ<br>
انتظامیہ: حرفِ ادب<br>
محترم توصیف صدیقی<br>
"اے زندگی" ریڈیو شگاگو</p>
<p dir="rtl">دو لمحے<br>
تحریر: ارشد محمود<br>
وہ باتھ روم کے آئینے میں اپنی ہی آنکھوں میں رات دیکھے خواب کی پرچھائیاں تلاش کررہاتھا۔ ڈھلتی عمرکے ساتھ آنکھوں میں خواب کی جگہ آسیب اتر آتے ہیں۔ اچھے برے اعمال کا بوجھ ۔ کندھوں پر رکھی بینگھی کے دونوں پلڑوں کی جنبش اور پل صراط پر توازن برقرار رکھنے کی کوشش۔ خوف سے لرزاں تھکن سے چور اور ندامت کے پسینہ میں شرابور بدن۔۔۔۔۔ ہاتھ پر پانی کی دھار نے خیال کی رو کو حقیقی دنیا سے جوڑ دیا۔ نظر واش بیسن پر گئی۔ اور سامنے کے منظر سے ایک چھناکا ہوا۔ کبھی کبھی اچانک لمحے وارد ہوتے ہیں ، ہاتھ تھام کر ساتھ بہا لے جاتے ہیں ، اُس گھڑی اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی دھار کے ساتھ کسی بچھڑے لمحہ کا لمس بھی آن ٹکا۔۔۔۔۔۔۔۔ بجلی کی سی تیزی سے اسکا بایاں ہاتھ پانی کے بہاوکو روکنے کے لیۓ ٹونٹی کے ہینڈل پر گھوما اور اس سے کئی گنا تیزی سے دائیں ہاتھ سے اس نے چیونٹی کو شہادت کی انگلی پر اٹھا لیا، چیونٹی بے سدھ اسکی انگلی پر ساکت پڑی تھی۔۔۔۔ <br>
وہ بھی تو اس دن یونہی ساکت تھا۔۔۔۔۔ چڑیا کا وہ ننھا سا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اوربھولے بسرے لمحے نے اس کا ہاتھ تھام لیا، 7 سال کی بالی عمر کے وہ دن تھے جب دیکھ کر سیکھنے اور کر گزرنے کا جنوں جا بجا بھٹکائے رکھتا ہے ،جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں ہر ذی روح اپنی اپنی پناہ گاہ میں دبکا ہوا تھا، وہ ایر کنڈیشن کی نرم خنکی میں گھلتی سانسیں اور بند پپوٹوں کو نظر انداز کرتا پیاس سے بلبلاتے چڑیا کے بچے کی دھیمی پڑتی آواز کے تعاقب میں اس گھنے پیڑ تک جا پہنچا جہاں چڑیا نے بچے دے رکھے تھے۔ پیلی پڑتی گھاس پر گرا چڑیا کا وہ بے بال و پر بچہ گرمی اور پیاس سے نڈھال تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی پسینے سےبھیگی ہتھیلی پر رکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرم گوشت کے اس پار ننھے سے دل کی دھڑکن صاف محسوس کی جا سکتی تھی<br>
کچھ دیر اس کو ہاتھوں میں لیۓ گھومنے کے بعد اچانک اسکے ذہن میں ایک خیل آیا۔ جو دو روز قبل اسکے چچا کے مرغی ذبحہ کرنے کے تجربہ سے منسلک تھا۔ اگلے ہی لمحہ وہ سبزی کاٹنے والی چھری سے چڑیا کے بچے کا گلا کاٹ چکا تھا۔ ننھا سا بدن لمحے بھر کو تڑپ کر ہمیشہ کے لیئے ساکت ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ہولناک تجربہ کے اختتام سے قبل ہی اسے وہ سکوت اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس یوا۔۔۔۔۔۔ وہ بوجھ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اذیت۔۔۔۔۔۔۔۔ جوناحق جان لینے والے ہر شخص کا مقدر ہوتی ہوگی۔ <br>
احساسِ گناہ نے اسے اوّلین انسانی قتل کے بعد نعش کو زمین گھود کر ٹھکانے لگانے کی ترغیب دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوّے کی ان سنی ان دیکھی واردات کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید بھلے زمانے تھے۔۔۔۔۔۔انسان تو کیا انسانی نعشوں کی بے حرمتی بھی ممنوع تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اُسے گھر کے ایک غیر آباد کونے میں مٹی تلے دبا تو دیا۔ لیکن وہ کونا ہمیشہ اسکے دل میں قدیم قبرستان کی طرح آباد رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظر دھندلانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ شہادت کی انگلی پر دھری چیونٹی کو اس نے انتہائی آہستگی سےواش بیسن کے خشک حصہ پر اتارا ۔۔۔۔۔<br>
نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں یاس و بیم میں۔ پھر چیونٹی نے ڈھلوان کی جانب سفر شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دھندلائے ہوئے آئینے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے نم گوشوں کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانس میں سکینت بھری ہوئی تھی.</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-86479611231716030482017-08-12T23:06:00.001+04:002017-08-12T23:06:18.877+04:00نا سمجھوں کا ٹولہ<p dir="rtl">₪ حکومتوں کا گرانا، کسی جماعت پہ کرپشن ثابت کرنا اقتدار ختم کرا دینا اور لولی لنگڑی. سسکتی اور آہیں بھرتی نام نہاد ہی سہی، سیاہ ست کو ناکارہ کر دینا یہ ہے وہ کامیابی جس پہ عمران خان سمیت سبھی اپوزیشن جماعتوں کا زور رہتا ہے. لیکن بعد از نتائج اور بد تر صورتحال بارے کوئی نہیں سوچتا.</p>
<p dir="rtl">سمجھتے نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے کبھی مری روڈ پہ چلنے والی اومنی بس میں سفر نہیں کیا. جس میں موجود ڈرائیور کنڈیکٹر دونوں نشئی ہوتے ہیں بد تمیز جاہل ہوتے ہیں دنیا کر قریب قریب سب برائیاں ان میں موجود ہوتی ہیں لیکن!!!!!!!<br>
ہم پیسے دیکر انکے ساتھ سفر کرتے ہیں زندگی.داو پہ لگا کر سب کچھ برداشت کرتے ہیں کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ </p>
<p dir="rtl">"کیونکہ مقصد ہوتا ہے منزل تک پہنچنا."<br>
جب تک ہمارے پاس بہتر سے بہترین متبادل نہیں آتا یا وہ جس پہ بھرپور یقین ہو کہ وہ ہمارے معیارکے مطابق ہے ہم کیوں ھاھاکار مچا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف ہم ہی مسیحا ہیں اور کوئی نہیں........</p>
<p dir="rtl">ہمارے ہاں زور برائی پہ رہتا ہے اسباب پہ نہیں.<br>
ذاتیات پہ اتریں تو دودھ کا دھلا کوئی نہیں. کاروبار روپے پیسے کی بات کریں تو شک سبھئ پہ جاتا ہے..... پھر بھی ہم میٹھئ گولی لے کر آسمان سے فرشتوں کے اتر آنے کا خواب دیکھتے ہیں . کوئی قوم پرستی کا شکار کوئی فرقہ پرستی کا کوئی برادری ازم کا...... غرض 90 فیصدغرض ہے اور خلوص کہیں ایک تنہا چراغ کی مانند ہوا کے تھپیڑے کھاتا ہوا.</p>
<p dir="rtl">ازخود<br>
راشد ادریس رانا<br>
قلم بے لگام<br>
12 اگست 2017 </p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-11150259335430833092017-03-20T18:59:00.001+04:002017-03-20T18:59:24.551+04:00کتوں کی دعا از حفیظ جالندھری<p dir="rtl">کُتّوں کی دُعا<br>
پاک سر زمین شاد باد پاکستانی قومی ترانے <br>
اور ’’شاہنامہ اسلام‘‘ جیسی مشہور و معروف کتاب کے خالق <br>
ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں <br>
کہ میری عمر بارہ سال تھی ۔میرا لحن داؤدی بتایا جاتا اور نعت خوانی کی محفلوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کے مرض نے بھی مجھے آلیا تھا۔ اس لئے اسکول سے بھاگنے اورگھر سے اکثر غیر حاضر رہنے کی عادت بھی پڑ چکی تھی ۔ <br>
میری منگنی لاہور میں میرے رشتے کی ایک خالہ کی دُختر سے ہو چکی تھی۔ میرے خالو نے جب میری آوارگی کی داستان سُنی تو سیر و تفریح کے بہانے محترم نے جالندھر سے مجھے ساتھ لیا اور محض سیر و تفریح کا سبز باغ دکھلانے شہر گجرات کے قریب قصبہ جلال پور جٹاں میں پہنچ گئے ۔ اصل سبب مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ہونے والے خُسر اورفی الحال خالُو میرے متعلق اپنے دینی مرشد سے تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ وہ بزرگ ان کی بیٹی کی شادی مجھ ایسے آوارہ سے کردینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔<br>
یہ پُر انوار پیر و مرشد ایک کہنہ سال بزرگ تھے۔ اُن کے اِردگرد مؤدب بیٹھے ہوئے دوسرے شُرفا سے پہلے ہی دن میں نے نعت سنا کر واہ واہ سبحان اللہ کے تحسین آمیز کلمات سُنے ۔ <br>
ہر روز نمازِ عشائ کے بعد میلاد کی بزم اورنعت خوانی کا اہتمام ہوتا۔ دو مہینے اسی جگہ گزرے۔<br>
اس سال ساون سُوکھا تھا۔ بارش نہیں ہو رہی تھی لوگ بارش کے لئے میدانوں میں جاکر نمازِ استسقائ ادا کرتے تھے ۔ بچّے ، بوڑھے ، جوان مرد و زن دعا کرتے لیکن گھنگھورگھٹا تو کیا کوئی معمولی بدلی بھی نمودار نہ ہوتی تھی ۔یہ ہے پس منظر اس واقعہ کا جسے میں عجوبہ کہتا ہوں۔ جسے بیان کردینے کے لئے نہ جانے کیوں مجبور ہو گیا ہوں۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ محترم بزرگ کون تھے؟ مجھے یقین ہے ان کا خاندان آج بھی جلال پور جٹاں میں موجود ہے ۔ ان بزرگ کا نام نامی حضرت قاضی عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ تھا اَسی پچاسی برس کی عمر تھی دُور دُور سے لوگ ان سے دینی اور دُنیوی استفادہ کی غرض سے آتے تھے۔ یہ استفادہ دینی کم دنیوی زیادہ تھا۔ آنے والے اوردو تین دن بعد چلے جانے والے گویا ایک تسلسلِ امواج تھا۔ کثرت سوداگروں اورتجارت پیشہ لوگوں کی تھی ۔<br>
میری نعت خوانی کے سبب حضرت مجھے بسا اوقات اپنے مصلّے کے بہت قریب بٹھائے رکھتے تھے۔ ایک دن میری طرف دیکھ کر حضرت نے کہا’’برخوردار تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی سے مجھے خوش کرتے ہو ، تمہارے لئے میرے پاس بس دعائیں ہی ہیں۔ انشائ اللہ تم دیکھو گے کہ آج تو تم دوسروں کی لکھی ہوئی نعتیں سناتے ہو، لیکن ایک دن تمہاری لکھی ہوئی نعتیں لوگ دوسروں کو سنایا کریں گے ۔‘‘<br>
اس وقت بھلا مجھے کیا معلوم تھا کہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ محّب صادق میری زندگی کا مقصود بیان کررہے ہیں۔ بہر صورت یہ تواُن کی کرامتوں میں سے ایک عام بات ہے جس عجوبے کے اظہار نے مجھ سے آج قلم اٹھوایا وہ کرامتوں کی تاریخ میں شاید بے نظیر ہی نظر آئے ۔ <br>
ایک دن حضرت قاضی صاحب کے پاس میں اوران کے بہت سے نیاز مند بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان میں میرے خالو بھی تھے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اورحضرت مصلّے پر بیٹھے تھے ۔ السّلام علیکم کہتے ہوئے کندھوں پر رومال ڈالے سات آٹھ مولوی طرز کے معتبر آدمی کمرے میں داخل ہوکر قاضی صاحب سے مخاطب ہوئے ۔ قاضی صاحب نے وعلیکم السلام اوربسم اللہ کہہ کر بیٹھ جانے کاایما فرمایا۔ہم سب ذرا پیچھے ہٹ گئے اورمولوی صاحبان تشریف فرما ہوگئے۔<br>
ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت !ہمیں ہزاروں مسلمانوں نے بھیجا ہے ۔ یہ چار صاحبان گجرات سے اور یہ وزیر آباد سے آئے ہیں۔ میں ، آپ جانتے ہیں ڈاکٹر ٹیلر کے ساتھ والی مسجد کا امام ہوں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اس ٹھنڈے ٹھار گوشے میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ باہر خلق خدا مررہی ہے ، نمازی اور بے نماز سب بارانِ رحمت کے لئے دعائیں کرتے کرتے ہار گئے ہیں ۔ ہر جگہ نمازِ استسقائ ادا کی جارہی ہے ۔ کیا آپ اورآپ کے ان مریدوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے کہ یہ لوگ بھی اُٹھ کر نماز میں شرکت کریں اورآپ بھی اپنی پیری کی مسند پر سے اُٹھ کر باہر نہیں نکلتے ،کہ لوگوں کی چیخ و پکار دیکھیں، اللہ تعالٰی سے دعا کریں تاکہ وہ پریشان حال انسانوں پر رحم کرے اور بارش برسائے۔<br>
میرے قریب سے ایک شخص نے چپکے سے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا ’’یہ وہابی ہے ‘‘۔<br>
میں اُن دنوں وہابی کا مفہوم نہیں سمجھتا تھا ۔ صرف اتنا سنا تھا کہ یہ صوفیوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور نعت خوانی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب سلام پیش کیا جاتا ہے تو یہ لوگ تعظیم کے لئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ کھڑے ہونے والوں کو بدعتی کہتے ہیں۔<br>
مسکراتے ہوئے قاضی صاحب نے پوچھا’’حضرات! آپ فقیر سے کیا چاہتے ہیں‘‘۔ توان میں سے ایک زیادہ مضبوط جُثے کے مولوی صاحب نے کڑک کر فرمایا ’’اگر تعویذ گنڈا نہیں تو کچھ دُعا یہ کرو۔ سُنا ہے پیروں فقیروں کی دُعا جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘<br>
یہ الفاظ مجھ نادان نوجوان کو بھی طنزیہ محسوس ہوئے تاہم قاضی صاحب پھر مسکرائے اورجواب جو آپ نے دیا وہ اس طنز کے مقابلے میں عجیب و غریب تھا۔<br>
قاضی صاحب نے فرمایا ’’آپ کُتّوں سے کیوں نہیں کہتے کہ دُعا کریں‘‘۔ یہ فرمانا تھا کہ مولوی غضب میں آگئے اور مجھے بھی اُن کا غضب میں آنا قدرتی معلوم ہوا۔ چنانچہ وہ جلد جلد بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کوٹھڑی سے باہر نکل گئے۔<br>
قاضی صاحب کے اِردگرد بیٹھے ہوئے نیاز مند لوگ ابھی گم صم ہی تھے کہ مولوی صاحبان میں سے جو بہت جَیّد نظر آتے تھے ، دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے ، اُن میں سے ایک نے کہا’’حضرت! ہم تو کُتّے کی بولی نہیں بول سکتے ۔ آپ ہی کُتّوں سے دُعا کرنے کے لئے فرمائیے۔‘‘<br>
مجھے اچھی طرح یاد ہے اورآج تک میرے سینے پر قاضی صاحب کا یہ ارشاد نقش ہے۔<br>
حضرت ! پہلے ہی کیوں نہ کہہ دیا ، کل صبح تشریف لائیے کُتّوں کی دُعا ملاحظہ فرمائیے’’!‘‘مولوی صاحبان طنزاً مسکراتے ہوئے چل دئیے اور میں نے اُن کے الفاظ اپنے کانوں سے سُنے کہ ’’یہ صوفی لوگ اچھے خاصے مسخرے ہوتے ہیں۔‘‘<br>
جب مولوی صاحبان چلے گئے تو میرے خالو سے قاضی صاحب نے فرمایا کہ ’’ذرا چھوٹے میاں کو بلائیے۔ ‘‘ چھوٹے قاضی صاحب کانام اب میں بھولتا ہوں۔ مہمانوں کی آؤ بھگت اورقیام و طعام کا سارا انتظام انہی کے سِپرد تھا ۔ انواع و اقسام کے کھانے اور دیگیں قاضی صاحب کی حویلی کی ڈیوڑھی اورصحن میں پکتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ جس میں عشائ کی نماز کے بعد نعت خوانی ہوا کرتی تھی اورمیں ذوق و شوق سے یہاں نعت خوانی کیا کرتا تھا۔<br>
میرے خالو ان کے چھوٹے بھائی کو لائے تو قاضی صاحب نے ان سے کہا’’ میاں کل صبح دو تین سو کُتّے ہمارے مہمان ہوں گے آپ کو تکلیف تو ہوگی بہت سا حلوہ راتوں رات تیار کرا لیجئے۔ ڈھاک کے پتوں کے ڈیڑھ دو سو دَونے شام ہی کو منگوا کر رکھ لیجئے گا۔ ڈیوڑھی کے باہر ساری گلی میں صفائی بھی کی جائے۔ کل نماز فجر کے بعد ہم خود مہمانداری میں شامل ہوں گے۔‘‘<br>
چھوٹے قاضی صاحب نے سر جھکایا اگر چہ ان کے چہرے پر تحیر کے آثار نمایاں تھے۔ میرے لئے تویہ باتیں تھی ہی پُراسرار ، لیکن میرے خالو مسجد میں بیٹھ کر قاضی صاحب کے دوسرے مستقل نیاز مندوں اورحاضر باشوں سے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کل صبح واقعی کچھ ہونے والا ہے۔<br>
میں نے تین چار کڑاہے حویلی کے صحن میں لائے جاتے دیکھے، یہ بھی دیکھا کہ کشمش، بادام اور حلوے کے دوسرے لوازمات کے پُڑے کھل رہے ہیں۔ سُوجی کی سینیاں بھری رکھی ہیں گھی کے دو کنستر کھولے گئے۔ واقعی یہ تو حلوے کی تیاری کے سامان ہیں۔ ناریل کی تُریاں کاٹی جارہی ہیں اورسب آدمی تعجب کر رہے ہیں کہ کُتّوں کی مہمانداری وہ بھی حلوے سے ؟<br>
صبح ہوئی نماز فجر کے بعد میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب قبلہ دو تین آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اپنی ڈیوڑھی سے نکل کر گلی میں اِدھر اُدھر گھومنے لگے چند ایک مقامات پر مزید صفائی کے لئے فرمایا۔میری ان گناہ گار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس گلی میں دونوں طرف یک منزلہ مکانوں کی چھتوں پر حیرت زدہ لوگ کُتّوں کی ضیافت کا کرشمہ دیکھنے کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اورجلال پور جٹاں میں سے مختلف عمر کے لوگ اس گلی میں داخل ہورہے تھے۔ وہ قاضی صاحب کو سلام کرکے گلی میں دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے اورجانے کیا بات تھی کہ یہ سب اونچی آواز سے باتیں نہیں کرتے تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں اور بچے تھے۔<br>
ہم دونوں قاضی صاحب کا بھتیجا محمد اکرام اورمیں مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور یہاں سے گلی میں ہونے والا عجیب و غریب تماشا دیکھنے لگے ۔<br>
درویش طرز کے چند آدمی حلوے سے بھری ہوئی سینیاں لاتے جارہے تھے ۔ اور قاضی صاحب چمچے سے ان دَونوں کو پُر کرتے پھر دونوں ہاتھوں سے دَونا اٹھاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مین گلی کے درمیان رکھتے جاتے۔ جب پوری گلی میں حلوے بھرے دَونے رکھے جا چکے تو اُنہوں نے بلند آواز سے دَونوں کو گِنا۔ مجھے یقین ہے کہ گلی میں دیواروں کی طرف پشت کئے کھڑے سینکڑوں لوگوں نے قاضی صاحب کا یہ فقرہ سُنا ہوگا:’’کُل ایک سو بائیس(۱۲۲)ہیں۔‘‘<br>
یہ کام مکمل ہوا ہی تھا کہ زور زور سے کچھ ایسی آوازیں آنے لگیں جن کو میں انسانی ہجوم کی چیخیں سمجھا ۔ مجھے اعتراف ہے کہ اُس وقت مجھے اپنے بدن میں کپکپی سی محسوس ہونے لگی، میں نے گلی میں ہر طرف دیکھا تو عورتیں اور بچے اورمرد گلی میں اور کوٹھوں سے چیخ رہے تھے۔<br>
کیوں چیخ رہے تھے اس لئے کہ ایک کُتّا جس کو، جب سے میں یہاں وارد ہوا تھا، حویلی کے اِردگرد چلتے پھرتے اورمہمانوں کا بچا کچھا پھینکا ہوا کھانا کھاتے اکثر دیکھا تھا، بہت سے کُتّوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گلی کی مشرقی سمت سے داخل ہوا۔ جو بے شمار کتّے اس کے پیچھے پیچھے گلی میں آئے تھے ان میں سے ایک بھی بھونک نہیں رہا تھا بھونکنا توکیا اس قدر خلقت کو گلی میں کھڑے دیکھ کر کوئی کتّا خوفزدہ نہ تھا۔ اورنہ کوئی غرّا رہا تھا۔ کتّے دو دو تین تین آگے پیچھے بڑے اطمینان کے ساتھ گلی کے اندر داخل ہورہے تھے۔<br>
کتّوں کی یہ پُراسرار کیفیت دیکھ کر ساری خلقت نہ صرف پریشان تھی بلکہ دہشت زدہ بھی ، پھر ایسی دہشت آج تک مجھے بھی محسوس نہیں ہوئی۔<br>
قاضی صاحب اگر اپنے ہونٹوں پر انگشتِ شہادت رکھ کر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین نہ کرتے تو میں سمجھتا ہوں کہ گلی میں موجود سارا ہجوم ڈر کر بھاگ جاتا۔<br>
اس گلی والا وہ کُتّا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں قاضی صاحب کے قدموں میں آکر دُم ہلانے لگا۔ قاضی صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی مجھے حرف بہ حرف یاد ہیں۔ فرمایا’’بھئی کالو! تم تو ہمارے قریب ہی رہتے ہو، دیکھو، انسانوں پر اللہ تعالٰی رحمت کی بارش نہیں برسا رہا، اللہ کی اور مخلوق بھی ہم انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہو رہی ہے ۔ اپنے ساتھیوں سے کہو، سب مل بیٹھ کر یہ حلوہ کھائیں پھر اللہ سے دعا کریں کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے بادلوں کو اجازت دے تاکہ وہ پیاسی زمین پر برس جائیں۔‘‘<br>
یہ فرما کر حضرت قاضی صاحب اپنی ڈیوڑھی کے دروازے میں کھڑے ہوگئے اورمیں کیا سبھی نے ایک عجوبہ دیکھا۔<br>
خدارا یقین کیجئے کہ ہر ایک حلوہ بھرے دَونے کے گِرد تین تین کُتّے جُھک گئے اور بڑے اطمینان سے حلوہ کھانا شروع کر دیا۔ ایک بھی کُتّا کسی دوسرے دَونے یا کتّے پر نہیں جھپٹا، اورنہ کوئی چیخا چلایااورجس وقت یہ سب کُتّے حلوہ کھار رہے تھے ایک اور عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا کہ وہ کتا جو اس گلی کا پرانا باسی اوران تمام کتّوں کو یہاں لایا تھا خود نہیں کھا رہا تھا بلکہ گلی میں مسلسل ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک گھومتا رہا، جیسے وہ ضیافت کھانے والے کتّوں کی نگرانی کررہا ہو یا میزبانی ۔<br>
میں نے اسکول میں اپنے ڈرل ماسٹر صاحب کو طالب علموں کو اِسی طرح نگرانی کرتے وقت گھومتے دیکھا تھا۔ کالو کا انداز معائنہ بڑا پُر شکوہ تھا جس پر مجھے اپنا ڈرل ماسٹر یاد آگیا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی لڑکا ماسٹر صاحب کے سامنے ہلتا تک نہیں تھا۔<br>
تھوڑی دیر میں سب کُتّے حلوہ کھا کر فارغ ہوگئے بے شمار لوگوں نے ہجوم میں سے صرف حضرت قاضی صاحب کی آواز ایک مرتبہ پھر سنائی دی۔ وہ فرمارہے تھے،’’لو بھئی کالو! ان سے کہو کہ اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تاکہ خدا جلد ہی انسانوں پر رحم کرے‘‘۔<br>
یہ سنتے ہی میں نے غیر ارادی طور پر ایک طرف دیکھا تو کل والے مولوی صاحبان ایک سمت کھڑے اس قدر حیرت زدہ نظر آئے جیسے یہ لوگ زندہ نہیں یا سکتے کے عالم میں ہیں۔<br>
اب صبح ، کے نو دس بجے کا وقت تھا، ہر طرف دھوپ پھیل چکی تھی ، تپش میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ جب قاضی صاحب نے ’’کالو’’ کو اشارہ کیا۔ حیرت انگیز محشر بپا ہوا۔ تمام کتّوں نے اپنا اپنا مُنہ آسمان کی طرف اُٹھالیا اور ایک ایسی متحد آواز میں غُرانا شروع کیا جو میں کبھی کبھی راتوں کو سُنتا تھا۔ جسے سُن کر میری دادی کہا کرتی تھیں،’’کُتّا رو رہا ہے خدا خیر کرے‘‘۔<br>
آسمان کی طرف تھوڑی دیر مُنہ کئے لمبی غراہٹوں کے بعد یہ کتّے جو مشرقی سمت سے اس کوچے میں داخل ہوئے تھے۔ اب مغرب کی طرف چلتے گئے۔<br>
میں اور قاضی اکرام ہی نہیں جلال پور جٹاں کے سبھی مردوزن کتّوں کو گلی سے رخصت ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اورخالی دَونے آسمان کی طرف منہ کھولے گلی میں بدستور پڑے تھے۔ (یہ دستِ دُعا تھے)۔<br>
جونہی کُتّے گلی سے نکلے قاضی صاحب کے ہاتھ بھی دُعا کے لئے اُٹھ گئے اور ان کی سفید براق داڑھی پر چند موتی سے چمکنے لگے یقیناً یہ آنسو تھے۔<br>
پَس منظر بیان ہو چکا اب منظر ملاظہ فرمائیے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں جو آج ستّر برس اور گیارہ میہنے کابوڑھا بیمار ہوں خدا عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بادل گرجا اور مغرب سے اس تیزی کے ساتھ گھٹا اُمڈی کہ گلی ابھی پوری طرح خالی بھی نہ ہوئی تھی ، مرد ،عورتیں ، بچے بالے ابھی کوٹھوں سے پوری طرح اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بارش ہونے لگی ۔ ہم بھی مسجد کی چھت سے نیچے اُترے۔ پہلے مسجد میں گئے اورپھر حلوہ کھانے کا شوق لئے ہوئے حویلی کی ڈیوڑھی میں چلے گئے۔ دیکھا کہ وہی معتبر مولوی صاحبان چٹائیوں پر بیٹھے ہیں اورحضرت قاضی صاحب حلوے کی طشتریاں ان لوگوں کے سامنے رکھتے جارہے ہیں ۔ وہ حلوہ کھاتے بھی جارہے ہیں اورآپس میں ہنس کر باتیں بھی کررہے ہیں۔ ایک کی زبان سے میں نے یہ بھی سُنا کہ حضرت یہ نظر بندی کا معاملہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔ جادو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعوذ باللہ۔<br>
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قاضی صاحب قبلہ ان کی اس بات پر دیر تک مسکرائے اوران بن بلائے مہمانوں کے لئے مزید حلوہ طلب فرماتے رہے ۔ باہر بارش ہو رہی تھی اوراندر مولوی صاحبان خوشی سے حلوہ اڑارہے تھے ۔ قاضی صاحب کے جو الفاظ آج تک میرے سینے پر منقوش ہیں میں یہاں ثبت کئے دیتا ہوں اورمیرا ایمان ہے کہ یہی مقصود تھا۔<br>
قاضی صاحب نے کہا تھا’’کُتّے مل جل کر کبھی نہیں کھاتے لیکن یہ آج بھلائی کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اللہ کے بندوں کے لئے دُعا کرنے کے لئے وہ اتنے متحد رہے کہ ایک نے بھی کسی دوسرے پر چھینا جھپٹی نہیں کی۔ ان کا ایک ہی امام تھا۔ اس نے کھایا بھی کچھ نہیں۔ اب وہ آئے گا تو میں اس کے لئے حلوہ حاضر کروں گا۔‘‘<br>
ایک مولوی صاحب نے کہا’’حضرت ہمیں تو یہ جادوگری نظر آتی ہے۔‘‘ قاضی صاحب بولے ’’مولوی صاحب ! ہم تو آپ ہی کے فَتوؤں پر زندگی گزارتے ہیں۔ خواہ اسے جادو فرمائیں یا نظر بندی آپ نے یہ تو ضرور دیکھ لیا ہے کہ کُتّے بھی کسی نیک مقصد کے لئے جمع ہوں تو آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔‘‘ یہ سُن کر مولوی صاحبان جھیپتے نظر آئے۔<br>
مجھے یاد ہے کہ مولوی صاحبان کو بھیگتے ہوئے ہی اس ڈیوڑھی سے نکل کر جاتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔ بخدا یہ عجوبہ اگر میں خود نہ دیکھتا تو کسی دوسرے کے بیان کرنے پر کبھی یقین نہ کرتا۔ یاد رہے کہ میں وہی حفیظ جالندھری ہوں جس کے بارے میں حضرت قاضی صاحب نے جلال پور جٹاں میں ساٹھ سال پہلے فرمایا تھا کہ حفیظ؎ تیری لکھی ہوئی نعتیں دوسرے سنایا کریں گے ۔<br>
الحمدللہ ، نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ساری دنیا کے اُردوجاننے والے مسلمان خود پڑھتے اوردوسروں کو بھی سُناتے ہیں۔<br>
ارادت ہو تو دیکھ ان خرقہ پوشوں کو.. <br>
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں...<br>
~~~منقول~~~</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-52192422943102622332016-12-16T14:56:00.001+04:002016-12-16T14:56:28.442+04:00بھَگتُو کا قرض<p dir="rtl">بھَگتُو کا قرض<br>
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br>
بھَگتُو ملاح جب بھی جیل سے آتا واپس دھندے میں جُت جاتا۔ وہ ایک مشہور پیشہ ور چور تھا ۔ چونکہ پرانے زمانے میں ہرشئے میں روایات اور اقدار کا خیال رکھا جاتا تھا اس لیے سب لوگ بھَگتُو کی ایک خاص انداز میں عزت کرتے تھے۔ اسی عزت کا نتیجہ تھا کہ وہ جب بوڑھا ہوگیا تو دس پندرہ سال تک اہل علاقہ نے اُسے پرانے چوک میں چوکیدار مقرر کردیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ چونکہ وہ چوری، نقب لگانے، دیواروں پر چڑھنے اور چھتیں پھلانگنے کا ماہر ہے اور چوروں کی ہرادا اور ہرطریقے سے واقف ہے اس لیے وہی چوکیدار بننے کا بھی سب سے زیادہ اہل ہے۔ </p>
<p dir="rtl">بلکہ بھَگتُو کو سب سے پہلے چوکیدار میرے اباجی نے ہی بنایا تھا۔ کئی سال تک وہ ہمارے گھر اور مال ڈنگر کا چوکیدارہ کرتا رہا۔ اور پھر کہیں اہل علاقہ نے اسے پرانے چوک میں بڑے عہدے پر منتقل کردیا۔ بھگتُو جب چوکیدار بن گیا اور پرانا ہوگیا تو اس کا ٹائم ٹیبل یہ ہوتا کہ عشأ کی نماز کے بعد وہ چوک میں آجاتا اور اپنے مخصوص بنچ پر براجمان ہوجاتا۔ ہم اس وقت لڑکے تھے۔ میں تب پان بہت چبایا کرتا تھا۔ میں پیلی پتی والا پان منہ میں رکھ، بھگتُو کے بنچ پر اس کے ساتھ جابیٹھتا تھا۔ بھگتو نے تقریباً ہر اُس چوری کی واردات مجھے سنائی جو اس نے اپنی زندگی میں کی تھی اور اسے یاد رہ گئی تھی۔ کئی مرتبہ وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر لے جاتا اور پھر اپنے سر پر آپ کا ہاتھ پھِرواتے ہوئے کہتا، </p>
<p dir="rtl">’’یہ دیکھو! پولیس کے ڈنڈے کھا کھا کر میرا سر کیسا ہوگیا ہے؟‘‘</p>
<p dir="rtl">بھگتُو کا سر واقعی بہت عجیب و غریب تھا۔ جیسے ساحل کی ریت پر کوئی بڑی لہر اپنے نشان چھوڑ جائے۔ بھَگتُو چوروں کے قواعد ، رسم و رواج اور اقداروروایات کے بہت واقعات سناتا تھا۔ اس کے نزدیک بڑا چور یعنی بڑی شان والا چور وہ تھا جو پولیس کے مارنے پر چوری نہ مانے۔ وہ سینہ تان کر اکثر اس طرح کے واقعات سناتا، </p>
<p dir="rtl">’’ایک مرتبہ تھانیدار نے مجھے کہا، بھگتُو سچ سچ بتاؤ! فُلاں چوری تم نے کی؟ تو میں نے تھانیدار سے کہا، صاحب جی! ایک گلاس پانی تو پلا دیں پہلے۔ تھانیدار نے اسی وقت ایک پولیس والے کو حکم دیا اور پولیس والا میرے لیے پانی لے آیا۔ میں نے پانی پیا۔ گلاس خالی کرکے پولیس والے کو تھمایا اور تھانیدار سے کہا، ’صاحب جی! ابھی یہ جو پانی میں نے پیا ہے۔ آپ پہلے مجھ سے یہ منوائیں کہ میں نے پیا ہے۔ تب میں چوری بھی مان لونگا۔ یہ بات سن کر تو تھانیدار کو اور زیادہ غصہ آگیا۔ اس نے میری خوب دھلائی کی لیکن پھر دوبارہ چوری کا سوال نہ کیا بلکہ آخر تک یہی پوچھتا رہا کہ ’بھگتُو! تم نے ابھی پانی پیا کہ نہیں؟‘‘</p>
<p dir="rtl">بھگتُو کے پاس کہانیاں ہی کہانیاں تھی۔ سب اسکی اپنی زندگی کے واقعات تھے۔ چوریوں کی وارداتیں، ڈنگر(جانور) کھولنا۔ رات کی تاریکی میں جسم پر تیل مل کر صرف ایک جانگیہ پہن، اونچی اونچی چھتوں پر پھدکتے چلے جانا۔ چھت سے چھلانگ لگانا تو زمین پر یوں آکر کھڑے ہوجانا جیسے بھگتُو گِر نہیں بلکہ اُڑ رہا تھا۔ ایک بار بھگتُو نے مجھے بتایا کہ،</p>
<p dir="rtl">’’کسی زمانے میں ہم پیشہ ور چوروں کے درمیان مقابلے ہوا کرتے تھے۔ ہم پھولوں کی ایک تھالی ہاتھوں میں تھام کر چھت سے چھلانگ لگاتے اور جس کی جتنی کم پتیاں اُڑ کر زمین پر گرتیں وہ اتنا زیادہ جیت جاتا‘‘</p>
<p dir="rtl">بھگتو کے بڑھاپے کے زمانے میں ہمارے شہر میں ایک اور پیشہ ور چور ’’اَچھُو کالیا‘‘ خاصا مشہور ہوچکا تھا ۔ لیکن وہ جوانی میں ہی چل بسا ۔ ایک روز کسی چھت سےایسا گرا کہ سیدھا نہ کھڑا ہوسکا اور اس کا منکا ٹوٹ گیا۔ </p>
<p dir="rtl">بھگتو کی شادی جوانی میں تو نہ ہوسکی لیکن جب اس نے چوریاں چھوڑ دیں اور اباجی کی مُریدی میں آگیا تو اباجی کے بعض دوستوں کی کوششوں سے ہم نے کسی گاؤں میں اس کی شادی کروادی۔ وہ بیوی سے اتنا پیار کرتا تھا۔ اتنا پیار کرتا تھا کہ جب اس کی بیوی کو بھگتُو کی بجائے چودھری خالد سے پیار ہوگیا تو بھگتُو نے بیوی سے ناراضی کا اظہار کرنے کی بجائے اسے چودھری خالد سے ملنے دیا۔ وہ کہتا تھا ’’میری رانی کو خوش رہنا چاہیے۔ وہ خوش ہے تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘</p>
<p dir="rtl">ایک مرتبہ بھگتو کی بیوی غائب ہوگئی۔ لیکن تین دن کے اندر اندر اس نے ڈھونڈ نکالی۔ اور جب میری بھگتو سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ بیوی کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے تیس چالیس مکانوں کی سیر کی ہے ۔ یعنی رات کو جب لوگ سورہے تھے تو وہ لوگوں کے گھروں میں اترا اور اس نے ایک ایک بستر پر لیٹے ، ایک ایک فرد کے چہرے سے کمبل ہٹا ہٹا کر دیکھا کہ کہیں اس کی بیوی تو نہیں سورہی؟ اور بالآخر اس نے اپنی محبوب بیوی کو ڈھونڈ ہی لیا۔ اس کے بعد بھگتُو خوشاب چھوڑ کر چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ مجھے آج تک معلوم نہیں کہ وہ کب فوت ہوا ہوگا۔ یا ابھی بھی زندہ ہو تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر وہ اب زندہ ہوا تو اس کی عمر ضرور نوّے سال سے اوپر ہوگی۔اا</p>
<p dir="rtl">بھگتُو، قوم کا ملاح تھا چنانچہ ایک اور فن جو اس کی گھُٹی میں تھا اور اُسے چوری سے بھی زیادہ آتا تھا ، وہ تھا دریا میں تیرنا۔ مچھلیاں پکڑنا۔ ڈوبنے والوں کی لاشیں ڈھونڈ کر دینے کا کام وہ ہمیشہ مفت کیا کرتا تھا۔ موسم جتنا بھی سرد ہوتا بھگتُو کا کہنا تھا کہ جسم پر تیل مل کر اور بہت سا گُڑ کھا کر دریا میں چھلانگ لگا دو۔ بالکل بھی ٹھنڈ نہیں لگے گی۔ ایک مرتبہ بھگتونے مجھے مچھلی پکانے کا ایک عجب طریقہ بتایا۔ میں نے آج تک اس طریقے پر مچھلی پکائی تو نہیں لیکن سوچتا ہوں کہ جب کبھی کوئی بھی اس طریقے پر مچھلی پکائے گا تو وہ مچھلی ہوگی بے حد لذیذ ۔ بھگتو نے بتایا کہ اگر کبھی دریا پر آپ اکیلے ہوں اور کچھ پکانے کے لیے آپ کے پاس کوئی سامان بھی نہ ہو تو آپ ایک مچھلی پکڑیں۔ مچھلی کا پیٹ صاف کرکے، اس پر چکنی دریائی مٹی کا موٹا موٹا لیپ کردیں۔ پھر عام گھاس پھونس اور چھوٹی موٹی لکڑیوں سے آگ کا چھوٹا سا الاؤ جلائیں اور مچھلی اس میں پھینک دیں۔ پھر دیکھیں کہ جب مچھلی پر لگی مٹی پک جائے جیسے کمہاروں کے گھڑے پک جاتے ہیں تو مچھلی آگ سے نکال لیں اور اسے درمیان سے اس طرح چیریں کہ مچھلی کسی سِیپ کے دو ٹکڑوں کی طرح دولخت ہوجائے۔ اور یوں آپ کے ہاتھ میں پکی ہوئی مٹی کی گویا دو پلیٹیں آجائیں گی جن میں پکی پکائی مچھلی دھری ہوگی۔</p>
<p dir="rtl">بھگتو کی کہانیوں میں چوریوں، مچھلیوں اور پولیس کے علاوہ جیلوں کی داستانیں بھی ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ جیل میں کاٹا تھا۔ وہ اتنی بار جیل گیا تھا کہ آخر جیل میں موجود تمام پرانے قیدیوں اور سٹاف کی اس کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی۔ بھگتو کو وہ جیل سے باہر کچھ خریدنے کے لیے بھی بھیج دیتے تھے ۔ وہ چپ چاپ جاتا۔ سبزی، دال، جیلر کے لیے سگریٹ خریدتا اور پھرواپس آجاتا۔ جب جب وہ جیل میں ہوتا تو ہمیشہ کُک بھگتُو ہی ہوا کرتاتھا۔ جیل نے اسے اتنا اچھا کُک بنا دیا تھا کہ جس زمانے میں اباجی نے اسے بطور چوکیدار رکھا ہوا تھا۔ بھگتو ہمارا کُک بھی رہا۔ بھگتو نے گھر کے باہر تَنُور (تندوری) لگا رکھی تھی۔ تندوری لگا رکھی سے مُراد مٹی کا تنور بنا رکھا تھا۔ اور وہ تندوری کے چبوترے پر چڑھ کر بیٹھ جاتا۔ ساتھ کے ساتھ مذاق کیے جاتا، کہاںیاں سنائے جاتا اور ساتھ کے ساتھ روٹیاں تھپتھپاتا جاتا۔</p>
<p dir="rtl">بھگتو گاتا بھی بہت اچھا تھا۔ اگرچہ اس کا گَلہ دیہاتی قسم کا بلند تھا لیکن پھر بھی اس کے سُر نہ ٹوٹتے تھے۔ ایک گانا جو بھگتو اکثر سنایا کرتا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے اور میں کبھی کبھی گنگناتا بھی ہوں۔ اگرچہ یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ گانا کسی پنجابی فلم کا ہے یا بھگتو اور اس کے دوستوں نے خود بنا رکھا تھا۔ ممکن ہے آج فیس بک کی اس پوسٹ کے بعد کوئی پنجابی فلموں کا شوقین دوست اس راز سے پردہ اُٹھا سکے،</p>
<p dir="rtl">بھگتو یہ گانا سنایا کرتا اور اکثر رو پڑتا،</p>
<p dir="rtl">اَسّی آں لفنگے تے تلنگے موچی وال دے<br>
جیلاں دے عادی اَسّی شوقیں آں دال دے<br>
اسی آں لفنگے تے تلنگے موچی وال دے</p>
<p dir="rtl">لُٹے سہاگ اَسّی ، لُٹی پھلجھڑیاں<br>
کئی واری جیل ویکھی پایاں ہتھ کڑیاں<br>
نئیں ہوندے چور جانی! اَجکل ساڈے نال دے<br>
اسی آں لفنگے تے تلنگے موچی وال دے</p>
<p dir="rtl">۔۔<br>
تحریر جناب محترم #ادریس_آزاد</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-89955722071925459482016-09-22T22:48:00.001+04:002016-09-22T22:48:29.617+04:00لال کاپی<p dir="rtl">گھر میں داخل ہوتے ہی میری پہلی نظر چاچا انور پہ پڑی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔</p>
<p dir="rtl">مجھے گلاسگو آئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ گھر سے دوری کا احساس شدید تھا اور سکاٹ لینڈ کی سردی اداسی کو مزید گہرا کر دیتی تھی۔ ایک نووارد طالبعلم کیلیے سستی رہائش ایک شدید مسلئہ ہوتی ہے اور میرا بھی یہ تیسرا گھر تھا۔ گھر میں چاچا عمر میں سب سے بڑا تھا اور میں سب سے چھوٹا۔ اسکے باوجود چاچے اور میری دوستی ہو گئی۔ چاچا کسی ہوٹل پر دن بھر برتن دھوتا تھا۔ اور پھر گھر آ کر یا تو پاکستان کچھ دیر فون کر لیتا تھا یا پھر گانے سنتا اور سگریٹ پھونکتا۔ بلاضرورت باہر جاتے اسے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔</p>
<p dir="rtl">چاچے کو جب پتہ چلا کہ میں یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہا ہوں تو چاچے نے خوامخواہ میرا احترام بھی شروع کر دیا۔ چاچا عام اجڈ لوگوں کے طرح مجھے “تو”کے بجائے “تسی” کہ کر مخاطب کرتا اور کبھی کبھی اپنے ساتھ میرے لیے بھی روٹی بنا دیتا کہ “پیٹہ بریڈ” کھا کھا کر میں سوکھتا جاتا تھا۔ میں جب یونیورسٹی یا جاب سے واپس آتا تو چاچا بڑے پیار سے دو کپ چائے بناتا اور میرے ساتھ باتیں کرتا۔ سگریٹ کے دھویں،انگلش ٹی کے بجائے چولہے کی چائے اور چاچے کی باتیں، مل کر کچھ دیر کو بھلا دیتیں کہ میں اپنے لاہور سے دور ہوں۔</p>
<p dir="rtl">گفتگو کے ان ہی ادوار میں کھلا کہ چاچا فوجی تھا۔ “فوجی” یو کے کے امیگرینٹس کی عام زبان میں اسے کہتے ہیں جو ابھی پکّا نہ ہوا ہو۔ یعنی غیر قانونی رہ رہا ہو۔ چاچے نے بتایا کہ سترہ سال سے وہ یہاں رہ رہا تھا اور کوئی کیس ڈال رکھا تھا جو اپیل میں چل رہا تھا۔ کہنے لگا پتر اب تو لال کاپی لے کر ہی جانا ہے۔ “لال کاپی” برٹش پاسپورٹ کا ایک معروف نام تھا امیگرینٹس میں۔ چاچا بتاتا کہ جب وہ آیا تو “شی جوان” تھا۔ شادی کو ابھی پانچ ہی سال ہوے تھے اور تین بچے تھے۔ باقی چاچے کی کہانی وہی تھی جو اکثر سنہری مستقبل کی تلاش میں نکلنے والوں کی ہوتی ہے۔ بڑا بیٹا، غربت اور گھر کی ذمہ داریاں وغیرہ وغیرہ۔ ایجنٹ کو پیسے دیئے اور ملکوں ملکوں پھرتا، چاچا گلاسگو آن پہنچا۔ چاچے نے بھی اتنی ہی مشکل زندگی گزاری جتنی ایسے حالات میں ہوتی ہے۔ مگر پھر وہ اطمینان بھرے چہرے سے کہتا، شکر ہے ذمہ داریاں ادا ہو گئیں۔ گھر والوں کی غربت دور ہو گئی۔</p>
<p dir="rtl">ایک بار میں نے پوچھا کبھی واپس جانے کا دل نہیں چاہا؟ بولا دو دفعہ۔ ایک تو تین سال پہلے بیٹی کی شادی کی تو بہت دل چاہتا تھا۔ پر پھر دل کو سمجھایا کہ میں چلا گیا تو چھوٹے بیٹے کی فیسیں کون دے گا، بچی کے کل کلاں کے خرچے کون پورے کرے گا۔ بس پتر یہ ملک مِٹھی جیل ہے، نہ رہنے دیتا ہے نہ جانے۔ اور دوسری دفعہ؟ چاچے نے سگریٹ سلگایا اور نتنوں سے دھواں نکالا۔ “ماں اپنے آخری دنوں میں بہت یاد کرتی تھی۔ کہتی تھی ہورے تو میرا منہ بھی دیکھے گا”۔ چاچے کی آواز کانپتی تھی۔ “ان دنوں دل چاہا کہ لوٹ جاؤں پر پھر اچانک اک دن وہ مر گئی۔ نہیں جا سکا” میں نے چاچے کی آنکھوں میں نمی تیرتی دیکھی تو فورا موضوع بدل دیا۔ میں خود ماں سے پہلی دفعہ بچھڑا تھا، مجھے ڈر تھا میں تو دھاڑیں مار مار کر رو دوں گا۔</p>
<p dir="rtl">ایک دن چاچے نے بتایا کہ اگلے ہفتے اسکی اپیل کی تاریخ ہے۔ بولا پتر دعا کر کاپی مل جائے۔ میں نے ماں کا منہ نہی دیکھا، بیٹی کو ودیا نہیں کیا، بچوں کی کوئی خوشی نہیں دیکھ سکا۔ تیری چاچی جوان چھوڑ کے آیا تھا، اب تو بڈھی لگتی ہے۔ اب کاپی کے بغیر جانا نہیں بنتا۔ اور پھر چاچا واقعی اپیل جیت گیا۔ اس دن وہ اس سِکھ کی طرح لگتا تھا جو وساکھی کے میلے میں شراب پی کر ناچتا ہو اور اسے کوئی پروا نہ ہو کہ لوگ ہنستے ہیں۔ اب چاچے کی باتیں مختلف تھیں۔ وہ پروگرام بناتا رہتا تھا کہ پاکستان جائے گا تو کیا کرے گا۔ کبھی مجھ سے پوچھتا تھا کہ پاکستان کون سے کپڑے پہن کر جاؤں کہ پتہ لگے انگلینڈ سے آیا ہے تو کبھی پوچھتا تھا کہ ایئرلائن کون سی مناسب رہے گی۔ ایک دن میں نے پوچھا باقی سب کے تو تحفے سوچتے رہتے ہو، چاچی کیلیے کیا لیجانا ہے۔ اس پر چاچے نے عجیب بات کی۔ بولا “پتر اس کیلیے لال کاپی لے کر جاؤں گا اور کہوں گا، یہ لے، یہ ہی تیری جوانی کھا گیا”</p>
<p dir="rtl">آخر ایک دن پاسپورٹ بھی مل ہی گیا۔ چاچا چپ بیٹھا لال کاپی پہ ہاتھ پھیرتا تھا اور اسکے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے۔ چاچے نے اگلا سانس لینے سے پہلے ٹکٹ بک کرائی اور واپسی کی تیاری زور شور سے شروع ہو گئی۔ اس میں شور پاکستان سے آئی فرمائشوں کا تھا اور زور چاچے کا۔ چاچے نے کچھ عرصے سے ہفتہ وار چھٹی بھی بند کر دی تھی تاکہ اور زیادہ پیسے جمع ہوں کہ لسٹ روز لمبی ہو جاتی تھی۔</p>
<p dir="rtl">چاچے کے جانے سے تین دن قبل چاچا کام پہ برتن دھوتے ہوے اچانک زمین پہ گرا اور پھر کبھی نہ اٹھا۔ دو دن بعد جب اسکی لاش ہمیں ملی تو ہم نے جنازے کا اہتمام کیا۔ کسی نے پاکستان اطلاع کر دی تھی اور چاچے کا خاندان سترہ اٹھارہ برس بعد اسکا آخری دیدار کرنے کا منتظر تھا۔ کچھ جاننے والوں نے چاچے کا جنازہ پڑھا اور اسکی محبتیں یاد کر کے آبدیدہ ہوتے رہے۔ لاش جب باکس میں رکھی گئی تو میں نے چاچے کو آخری بار خُداحافِظ کہا اور چپکے سے لال کاپی اسکے کفن میں رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔</p>
<p dir="rtl">راقم انعام رانا۔</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1769030804312301811.post-20966757489008388702016-09-21T00:26:00.001+04:002016-09-21T00:26:51.193+04:00پاکستانی روپیہ پیسے کا فراڈ<p dir="rtl">یہ نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشئر تھا‘ اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا‘ وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے ایک‘ ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا تھا۔ وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لئے۔ آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا‘ یہ یہودی تاجر کئی ماہ تک اپنی بینک سٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا‘ اسے اپنی سابق بینک سٹیٹمنٹس دکھائیں اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا۔ منیجر نے یہودی تاجر کو خبطی سمجھا ‘ اس نے قہقہہ لگایااور دراز سے ایک پاؤنڈ نکالا اور یہودی تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا’’ یہ لیجئے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا‘‘ یہودی تاجر ناراض ہو گیا‘ اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا ’’میرے پاس دولت کی کمی نہیں‘ میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا چاہتا تھا‘‘وہ اٹھا اور بینک سے نکل گیا۔ یہودی تاجر کے جانے کے بعد منیجر کو شکایت کی سنگینی کا اندازا ہوا ‘ اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست نکلی اور یوںیہ نوجوان پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔</p>
<p dir="rtl">یہ لندن کا فراڈ تھا لیکن ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے‘ اس فراڈ کا تعلق پیسے کے سکے سے جڑا ہے۔ پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948ء کو لانچ کی گئی تھی‘ اس کرنسی میں چھ سکے تھے‘ ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ‘ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی‘ اکنی‘ ادھنا اور ایک پیسے کا سکہ شامل تھے ‘ پیسے کے سکے کوپائی کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے اور 64پیسوں کے برابر ہوتا تھا۔<br>
یہ سکے یکم جنوری 1961ء تک چلتے رہے‘ 1961ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں اشاریہ نظام نافذ کر دیا جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جبکہ اٹھنی‘ چونی‘ دوانی اور پائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے‘ پچیس پیسے‘ دس پیسے‘ پانچ پیسے اور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے۔<br>
یہ سکے جنرل ضیاء الحق کے دور تک چلتے رہے لیکن بعدازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے اور ہم نے پچھلے تیس برسوں سے ایک پیسے‘ پانچ پیسے‘ دس پیسے اور پچیس پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا کیوں؟ کیونکہ سٹیٹ بینک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہالیکن آپ حکومت کا کمال دیکھئے حکومت جب بھی پٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو اس میں روپوں کے ساتھ ساتھ پیسے ضرور شامل ہوتے ہیں مثلاً آپ پٹرول کے تازہ ترین اضافے ہی کو لے لیجئے‘ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں5 روپے 92 پیسے اضافہ کیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 62روپے 13پیسے‘ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62روپے 65پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 54روپے 94پیسے ہو گئی۔ <br>
اب سوال یہ ہے ملک میں پیسے کا تو سکہ ہی موجود نہیں لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پٹرول ڈلوائے گا توکیا پمپ کا کیشئر اسے 87پیسے واپس کرے گا؟ نہیں وہ بالکل نہیں کرے گا چنانچہ اسے لازماً 62کی جگہ 63 روپے ادا کرنا پڑیں گے۔<br>
یہ زیادتی کیوں ہے؟ <br>
اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے‘ پاکستان میں روزانہ 3لاکھ 20ہزار بیرل پٹرول فروخت ہوتا ہے۔ آپ اگراسےلیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ 5کروڑ 8لاکھ 80ہزار لیٹرز بنتا ہے۔آپ اب اندازا کیجئے اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہر لیٹر پر 87پیسے اڑاتی ہیں تو یہ کتنی رقم بنے گی ؟ یہ 4کروڑ 42لاکھ 65ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں۔یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پٹرول نہیں ڈلواتے ‘صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پٹرول خریدتے ہیں اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیسوں کی ہیراپھیری موجود رہتی ہے۔ <br>
مجھے یقین ہے اگر کوئی معاشی ماہر اس ایشو پر تحقیق کرے ‘ وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں‘ مہینوں کو برسوں اور برسوں کو 30سال سے ضرب دے تو یہ اربوں روپے بن جائیں گے گویا ہماری سرکاری مشینری 30برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہے اور حکومت کو معلوم تک نہیں ۔ <br>
ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا سکینڈل ثابت ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کرپشن کا والیم ساڑھے چار کروڑ روپے نہ ہولیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جب سٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کر رہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے اور ہم ’’راؤنڈ فگر‘‘ میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں۔ <br>
ہم 62روپے 13پیسوں کو 62روپے کر دیں یا پھر پورے 63روپے کر دیں تا کہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائے۔حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کوئی ہیرا پھیری ضرور موجود ہے کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے ہماری بیوروکریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو۔</p>
<p dir="ltr">COPY PASTE..................</p>
<div class="blogger-post-footer">خود احتسابی معاشرے میں تبدیلی کی طرف ایک قدم ہوتی ہے، آئیں سب مل کر معاشرے کو سنوارنے کے لیئے خود احتسابی اپنائیں۔
http://paknatgeo.blogspot.com & http://punjabpk.blogspot.com</div>میں بھی پاکستان ہوںhttp://www.blogger.com/profile/05719044100393825541noreply@blogger.com0