یہ میرا گاوں نہیں ، نا ہی میرے گاوں سے ریل کی پٹری گزرتی ہے نا ہی وہاں اسٹیشن ہے۔ پھر بھی مجھے ریل، ریل کی پٹری اور چھوٹے چھوٹے اسٹیشن بہت اچھے لگے ہیں۔
ایک ٹرین اس کی پٹڑی اور اس کا اسٹیشن کیسی قدامت بستی ہے ان میں، کیسا سُر تال ہے کیسا میل جول ہے ان کا۔
یہ ایک گاوں کا چھوٹا سا سٹیشن ہے، گاوں کی طرف سے آنیوالا کچا راستہ جو کھیتوں سے گھرا ہوا ہے اور جس کے ایک طرف میں ایک چھوٹی سی نہر ہے جس نہر پر ساتھ ساتھ ٹاہلی اور کیکر کے پیڑ ہیں، بیچ بیچ میں کہیں کہیں ایک آدھ پیپل کا پیڑ کسی ٹیوب ویل کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جو اپنی قدیم وضع قطع سے بہت ہیں بزرگ دکھائی دیتا ہے، اس کے نیچے بان کی چارپائیوں پر بیٹھے بزرگ جو حقہ کے گڑ گڑ میں نا جانے بچھلی آدھ صدی کے کونسے قصے کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔
اس کچے راستے کے ساتھ ساتھ بہتی یہ چھوٹی سی نہر جو گرمی سردی گاوں کے باسیوں کو زندگی کا احساس دلائے رواں دواں ہے آگے جا کر سیدھی طرف مڑ جاتی ہے اور کچی سڑک کو خیر آباد کہہ دیتی ہے۔ پھر یہ پنجاب کی دھرتی میں ایسے گم ہو جاتی ہے جیسے ایک چھوٹا بچا ٹھنڈے پانی سے نہا کر کانپتا ہوا اپنی ماں کی آغوش میں چھپ جاتا ہو۔
اب یہ تنہا راستہ اپنی اداس تنہائی کے ساتھ ریلوئے اسٹیشن پر جا کر دو شاخہ ہو جاتا ہے جس کا ایک سرا تو ختم ہو جاتا ہے جہاں پر کچھ ٹھیلے، ایک دو پرانی خستہ حال دکانیں اور ایک چائے کا صدا بہار ہوٹل ہے۔ جبکہ دوسرا سِرا اسٹیشن کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اکلوتےریلوئے پھاٹک کو پھاندتا ہوا ریلوئے ٹریک کی دوسری طرف کھیتوں کے سلسلوں کو چیرتا ہوا ایسے چلا جاتا ہے جیسے کسی سرحد کو عبور کر رہا ہو۔
ٹھیلے والے صبح سویرے اپنی اپنی بنائی ہوئی چیزیں لیکر آدھر آ جاتے ہیں پھیری بھی لگا لیتے ہیں اور باقی سارا دن ادھر ریلوے اسٹیشن کی رونق میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ جس میں پتیسا، ریوڑیاں، دال موٹھ، کھٹے چپس اور بہت ساری چیزیں ملتی ہیں۔ پھر باری آتی ہے گنے کے جوس والے کی، جس کا کام کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں لہٰذا وہ گرمی کے موسم میں گنے کا جوس بیچتا ہے اور سردی کے موسم میں چھلیاں بھون بھون کر بیچتا ہے۔ اس سے زرا پرے کچی دکانوں میں پہلی دکان ایک عدد نائی یعنی حجام کی ہے جو گاوں کا واحد حجام بھی ہے اور شادی بیاہ پر دیگ پکانے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ دوسری دکان حلوائی کی ہے جو کہ دھول مٹی اور مکھیوں کے جھمگٹوں کے ساتھ سال ہا سال سے اپنی مٹھایاں بنانے اور بیچنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے آگے گاوں کا واحد ، اکلوتا لاج دلارا چھپر ہوٹل ہے جس پر صبح تڑکے سے لیکر رات دیر تک چائے سمیت ہر قسم کا کھانا ملتا ہے۔
پھر ریلوئے اسٹیشن کی پرانی مگر خوبصورت لمبی سیڑھیاں ہیں جہاں سے اسٹیشن کی مرکزی عمارت میں داخل ہوا جاتا ہے۔ داخلی برآمدئے میں الٹی طرف ایک بنچ ہے اورسیدھی طرف قدیم ترین نلکا جس کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی پنجاب کی دھرتی کی مٹھاس اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
سیدھی طرف ٹکٹ والا کمرہ اور اس کی چھوٹی سی کھڑکی ہے۔ دوسری طرف اکلوتا ڈاک خانہ ہے جو پرانے فرنیچر کے ساتھ ساتھ پرانے ڈبوں نما طاقوں سے بھرا پڑا ہے جو کسی زمانے میں ڈاک کے باقاعدہ نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔
آگے بڑھیں تو ایک عدد پھاٹک نما دروازہ ہے جس پر کبھی کبھار مسافروں کے رش ہونے کی صورت میں ریلوئے کا ایک ملازم ٹکٹ چیک کر نے کی غرض سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس سے گزر کر آگے دیکھیں تو سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی طرف آپ کو پلیٹ فارم ملے گا، جو اپنی صفائی اور خوبصورتی میں کمال رکھتا ہے۔
زیادہ بڑا اسٹین نہیں لیکن پھر بھی اس پر چار بنچ لگائے گئے ہیں جو مسافروں کے انتظار گاہ بھی ہے ، دونوں اطراف میں جہاں سے پلیٹ فارم شروع ہوتاہے وہاں پر بھی خوبصورت لال گلاب کے جھاڑی نما پودے ہیں اور جہاں ختم ہوتا ہے وہاں پر بھی، سیدھے طرف لگے ہوئے جامن کے پیڑ بہت ہی خوبصورت ہیں اور اپنی بلندی کی وجہ سے اسٹیشن پر اکثر سایا کئے رہتے ہیں۔ اسٹیشن کی دوسری طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برگد کے دو بڑئے درخت ہیں جنھہوں نے اپنی قدیم عمر اور بزرگی سے اس اسٹیشن کو رونق بھی بخشی ہوئی ہے اور خوبصورتی بھی، ان سے پرئے لہلاتے کھیتوں کا نا ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے۔
ریلوئے اسٹیشن کے ساتھ قابل زکر و قدر وہ چند چھوٹے چھوٹے خوبصورت کوارٹر تھے جو اس ریلوئے اسٹیشن اور ڈاک خانے کے ملازمین لئیے سرکار کی طرف سے دئیے گئے تھے۔ جن کے آگے چھوٹے چھوٹے باغیچہ نما لان تھے جن میں باڑیں بھی تھیں اور اہل مکین ان میں سبزیاں بھی اگاتے تھے، اسٹیشن ماسٹر نے اپنے کوارٹر کے اگے بہت صاف لان بنایا ہواتھا جس میں اکثر وہ بیٹھ کر چائے کے ساتھ ساتھ پچھلے ہفتے کے اخبارات کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
سامنے ہی کچھ فاصلے پر کھیت تھے جن میں لگے ٹیوب ویل جب چلتے تو دل کو لبھا دینے والے نغمے جنم لیتے تھے۔ انہی نغموں میں جب آنیوالی ٹرین کی چھک چھک کوں کوں شامل ہو جاتی تو ایک عجب سا راگ پیدا ہوتا جو چند منٹوں کے بعد ختم ہو کر پھر نغمہ بن جاتا۔
شاید یہ سارا خوبصورت منظر اپنے ان نظاروں اور نغموں کے ساتھ صدیوں سے صدیوں تک چلتا رہے۔
یہ ایک بہت ہی خوبصورت اور سہانا منظر ہے جو میرے دل میں ثبت ہو چکا ہے۔
ریلوئے سٹیشن ، ایک عہد ایک یادگار ایک داستان اور ایک تاریخ۔
از راشد ادریس رانا: 01آگست 2014۔
No comments:
Post a Comment