علی پور کا ایلی
انکر ا اینڈی ماباؤں
پھر اسے مدرسے میں داخل کرا دیا گیا۔ مگر اس کا اسکول محلے کےباقی اسکولوں سے بہت دورتھا۔محلے کے قریبی اسکول والوں نے ایلی کو داخل کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ ایک تو وہ پڑھائی میں کمزور تھا۔ دوسرے اس مدرسے میں جگہ نہ تھی۔ لیکن داخل ہونے کے بعد اسے اطمینان سا ہو گیا۔ کیونکہ جلد ہی اسے معلوم ہو ا کہ اس اسکول میں بھی محلے کے چند ایک لڑکے تعلیم پارہے تھے۔ ان لڑکوں میں ارجمند سب سے زیادہ تیز تھا۔ ارجمند ڈاکٹر کا بیٹا تھا۔ وہ سب مل کر پانچ بھائی تھے، سب اونچے لمبے دبلے ۔ بچپن کا زیادہ تر زمانہ پانی پت میں بسر کر کے وہ پہلی مرتبہ علی پور آئے تھے۔ ان کے والد اب بھی پانی پت میں ڈاکٹر تھے۔ جہاں ڈسپنسری میں انہوں نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ بسر کیا تھا۔ |
ارجمند بے حد لمبا تھا، وہ ایلی کے ساتھ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے قد و قامت اور برتاؤ سے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے عرصہ دراز سے فارغ التحصیل ہو چکا ہو۔ پانی پت میں رہنے کی وجہ سے ارجمند سے معلوم ہوتا تھا۔ پانی پت میں رہنے کی وجہ سے ارجمند فر فراردو بولتا تھا۔ جہاں کوئی اجنبی آیا۔ اس نے چار ایک خوبصورت فقر ے چلا دیے۔"آئیے تشریف لائیے۔ فرمائیے ، خاکسار کیا خدمت کر سکتا ہے۔"اور ادھر وہ گیا ادھر اناپ شناپ بولنا شروع کر دیا۔ ویسے تو ارجمند کو سنکڑوں چیزیں یاد تھیں۔ اینکر اینڈی ماباؤں ۔ کیلے ریو، ریو پیتے ریور پریم سندیس، پریم ٹونا اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن ایلی کو اسکی انکر اینڈی ماباؤں بہت پسند تھی۔ " دیکھوایلی"ارجمند چلاتا "انکر اینڈی ماباؤں کیلئے ریوریو پیٹے ریوریو، کیا سمجھے "اور ایلی حیران ہو کر اس کی طرف دیکھتا۔ |
ہم سمجھاتے ہیں۔ ہم سمجھاتے ہیں، مطلب ہے لڑکی پھنسانا کیا مشکل ہے۔ کچھ مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے۔ کہ یہاں محلے داری ہے، اگر ڈسپینسری ہو تو یوں پھنستی ہے یوں جیسے چٹکی بجتی ہے۔ اور پھر ڈسپینسری پانی پت میں ہو تو ۔۔۔ تو کیا با ت ہے۔ آئی پھنسی ۔ خیر کچھ پروا نہیں ۔ یہ دیکھو ، یہ ریشمیں رومال کا ہونا ہے حد ضروری ہے۔ اسے کہتے ہیں کیلے ریو ریو ۔ سمجھے کیا سمجھے ۔ صرف ہونا ہی نہیں طریقہ استعمال بھی جاننا چاہیے۔ "ہاں"اور وہ رومال ہلا کر کہا"لہٰذا ہم بتائیں گے۔ یہ دیکھو۔ اسے تھامنے کی مشق کرو۔ پہلے یوں نہیں بلکہ یوں ہاتھ میں مرے ہوئے چوہے کی طرح نہ پڑا رہے بلکہ ہر چند منٹ کے بعد جنبش میں آئے۔ اب منہ پونچھو ، گرد جھاڑو۔ ذرا احتیاط سے جنبش کی خوبصورتی ہی میں سارا جادو ہے۔ |
کیا سمجھے لیکن ٹھہرو یہ ریو ریو ہی کافی نہیں ۔ اس پر سینٹ یعنی خوشبو کا چھڑکنا لازمی ہے۔ یہ دیکھو شیشی چار آنے کی۔ یہ شیشی ، بیسیوں لڑکیوں کو پھنسانے کیلئے کافی ہے۔ ہاں تو اس رومال سے گالوں کو سہلاؤ ، بالوں کو جھاڑو، گردن پر لٹکا لو، ہاتھ میں رکھو، لڑکی دور کھڑی ہو تو منہ پر جھٹکا دے کر یعنی سلام عرض کرتا ہوں ۔ اور یوں ہلایا تو مطلب ہے اب آؤ بھی نا جان من اور فی الحال چھاتی پرپھینک لیا تو مطلب ہے ظالم سینے سے لگ جا۔ اس کے استعمال کے کئی انداز ہیں، لیکن فی الحال یہی کافی ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھو، اس نے جیب سے ایک بانسری نکالی اور نچلا ہونٹ لٹکا کر اس میں پھونکیں مارنے لگا۔ |
"یہ ہے پریم ٹونا۔ دیکھا۔ "اس نے ایک چھوٹی سی کتاب جیب سے نکالی "اس میں سب کچھ لکھا ہے۔ محبت کے خطوط ، غزلیں ، گیت ، ہر موقع کیلئے ، مثلاً یہ دیکھو"اور ہنسی تو سمجھو پھنسی اور یہ سب کچھ کیا ہے انکر اینڈی ماباؤں۔"ایلی اس کی باتیں غور سے رہا تھا۔ اور بے حد کمتر محسوس کر رہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہ لڑکی پھنسانے کا کا مقصد کیا ہے۔ آخر بڑے انکر اینڈی ماباؤں کا کچھ تو مقصد ہو گا۔ لڑکیاں نہیں ،اسے تو مٹیار عورتیں اچھی لگتی تھیں۔ لڑکیاں خاصی لگتی تھیں۔ لیکن کوئی خاص اچھی نہ لگتی تھیں۔ اور اچھی لگتی بھی تو بھی انہیں پھنسانے کا مطلب ۔اچھی لگتیں تھیں۔ تو نہیں اچھی لگتی تھیں۔ لیکن وہ ریشمی رومال اور بانسری اور پریم ٹونا، پریم سندیس ، وہ سب کس لیے تھے؟ خانم کی بات تو اور تھی نا۔ وہ تو بہت ہی اچھی تھی۔ |
اور اس کا ہاتھ سے ایلی کو تھپکنا ، منہ سہلانا کتنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ۔ وہ توشرم سے آنکھیں جھکا لیتی تھیں۔ دور سے دیکھ دیکھ کر مسکراتی تھیں۔ خواہ مخواہ ہنسے جاتی تھیں۔ بے کار مصرف ۔ اگر ارجمند کو لڑکیاں اچھی لگتی تھیں۔ تو ٹھیک تھا، لیکن وہ سب گور رکھ دھندا۔ انکر اینڈی ماباؤں کیا تھا؟ فضول ہو نہ ہو، ارجمند جانتا ہی کیا تھا ۔ نہ تو اس نے خانم کو دیکھا تھا۔ اور نہ کسی اور کو ، پانی پت کے ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ رہنے سے کیا ہوتا ہے۔ |
No comments:
Post a Comment