Monday 26 March 2012

پاکستان کے ایک گوشۂِ سرسبز کا دل موہ لینے والا احوال

 
تحریر       سیّد ظفر

پاکستان کے ایک گوشۂِ سرسبز کا دل موہ لینے والا احوال
آوارہ پن کا مظاہرہ کرتی‘ گلابی رنگ کے جنگلی گلاب کی خوشبو‘ قریب قریب سرپر ٹکے گھیرائو کرتے با دلوں کی حد سے زیادہ گھن گرج‘ گھڑ سواری کے دوران نیچے کی کھائیوں کا سفر‘وادی لالہ زار کے ہوٹل میں تیارکردہ لذیذ دیسی انڈوں کا ناشتا‘ دیسی گھی میں بنی دیسی مرغ کڑاہی‘ ڈھلوانوں کے نواح میں پھیلے ’’بھوج پتر‘‘ کے جنگلات‘ ہوٹل کی کھڑکیوں میں سے باہر مصوری کے نمونے جیسے مناظر سے خوشگوار الجھائو‘ رنگا رنگ پھولوں کے قدموں تلے آتے رہنے والے ان گنت گچھے‘ مدہوشی بھری لطف آمیز دماغ کوتروتازہ کرتی یہاں کے پانچ رنگے جنگلی گلابوں کی خوشبو‘ پورے چاند کی خنک راتوں میں تمام اطراف ہوکاعالم‘ مقامی لوگوں کے کچے عارضی مکانات جن میں وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ رہتے ہیں‘ سرسبز گلزاروں میں گھومنے کے بعد طاری ہوتا کیف‘ سر مستی کی انوکھی کیفیت اور ٹھٹھری ٹھٹھری کائنات میں عالم غنودگی‘ غم جہاں اور غم جان سے دور ٹھہرا ٹھہرا بے ساختگی بھرا سہانی گھڑیوں سے بھر پور عالم‘ سیاحوں کو زندگی بھر اس جنت نگری کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور ہماری فطرت پسند آنکھیں اُس لمحے سے دوبارہ شناسائی چاہتی ہیں جب لالہ زار کی درخشاں خوبصورتی نگاہوں کے فطری حسن کی پیاس بجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

کاغان کو حسین کیوں کہا جاتا ہے ؟اس بات کا احساس ہمیںبالا کوٹ سے ۱۰۴ کلو میٹر دوراور ناران سے ۱۸کلو میٹر دور لالہ زار کی زمردیںدھلی دھلائی چوٹی کی جادو بھری نگری اور برف زاروں میں آکر جلد ہو جاتا ہے۔ یہاں سے ملکۂ پربت ﴿جھیل سیف الملوک پر متمکن ۱۷۳۰۰ فٹ بلند چوٹی ﴾ عقبی جانب سے دکھائی دیتی ہے۔اس کے پیش منظر میں کہیںبلند کہیں کم بلند گھاس کے قطعات‘ ان میں مٹیالی لہراتی افق کے دھندلکوں میں ڈوبتی اوپر ہی اوپر رواں دواں پگڈنڈیاں اور یہاںپر چرتی آزاد بھیڑ بکریاں اور خچر قیامت خیز‘فسوں انگیز نظارہ پیش کرتے ہیں۔ لالہ زار میں پیدل سفر کرتے‘ اپنے سنگ یادوں کے میلے کی بارات لیے‘ ناقابل اعتبار بارش میں بھیگ کر سیاح پگڈنڈیوں کے بدلے بدلے مناظر سے روشناس ہوتے ہیں۔ایسے میں سرد‘ تند ہوا ئوں سے بچائو‘ ارد گردکے مناظر کو دیکھنے کی خواہش پر غالب آجاتا ہے اور گرم چادر اوڑھے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔

اسلام آباد سے پشاور روڈپر آتے ہوئے حسن ابدال پہنچ کر ہری پور جانے والے راستے پر مڑجائیں۔ یوں آپ شہر سبزہ گل ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے مانسہرہ ﴿۲۵کلومیٹر کا فاصلہ﴾پہنچ جائیں گے جہاں سے کاغان روڈ جبہ بائی پاس شاہراہ ریشم سے الگ ہو کر آپ کو تاریخی لیکن تباہ حال بالا کوٹ‘ گھنول‘ کیوائی‘ پارس‘ فرید آباد‘ مہانڈری‘ کھنیاں‘ کاغان سے گزارتی کاغا ن کی سیاحت کے مرکز ی بیس کیمپ ناران پہنچا دے گی۔ ہم پنڈی سے اپنی گاڑی نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی ڈی سی کی روزانہ صبح ۹بجے روانہ ہونے والی لگژری کوچ میں بھی ناران پہنچ سکتے ہیں۔ یہ سفر تقریباً ۱۰ گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور اس کا کرایہ ۵۰۰ روپے فی کس ہے۔ اس کے علاوہ پنڈی سے مانسہر ہ اور وہاں سے بالاکوٹ اور پھر ناران تک کا سفر گاڑی بدل بدل کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ ناران سے روانہ ہوتے ہی نالہ سیف الملوک پر بنے آہنی پل کو پار کرکے پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل کے قریب سے گزر کر ہم ناران کی وسیع وادی میں گزرتے ہوئے تحےّر میں ڈوب جاتے ہیں۔بٹہ کنڈی میں لالہ زار کی چڑھائی سے کچھ قبل سڑک کے دائیں طرف ایک کئی سو فٹ ’سوہنی‘ نامی آبشارکا نظارہ اپنے ہمراہ خوشبوبھری خوشگوار سردلمس سے بھری ہوائیں لیے ہوتا ہے۔ناران سے لالہ زار آتے ہوئے دتمتمہ‘ ڈاک بنگلہ‘ شٹر سونچ‘ سوچااور سوہنی کے سرسبز آلو اور موٹھ کے کھیتوں والے مقامات سے گزر ہوتا ہے۔

وادی لالہ زار تک ناران سے بٹہ کنڈی پہنچ کر کئی پیدل راستے بھی آتے ہیں جو مہم جو اور پیدل سفر کرنے کے شوقین افراد کیلئے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں۔ان راستوں میں اولین بٹہ کنڈی سٹاپ سے عین اوپر کی طر ف ’’چھریال‘‘ کے راستے آرام گھر تک بالکل عمودی چڑھائی والا تھکاوٹ آمیز راستہ ہے۔ دوسرا راستہ بٹہ کنڈی سے ڈوگی اور لاواں سے ’شارٹ کٹ‘ ہے۔ تیسرا راستہ ہنس گلی‘ ڈنہ دوریاں اور تمبووالا ڈھیر سے ہوتاہوا وادی میں اترتا ہے۔ یہ راستے گھوڑے یا خچر پر بھی طے کیے جاسکتے ہیں۔ خچر والے تقریباً ۲۰۰ تا ۳۰۰ روپے فی کس لیتے ہیں۔ چیلاس کاغان شاہراہ پر واقع بٹہ کنڈی سے جیپ کا راستہ آدھ گھنٹے کا ہے۔ مسلسل چڑھائی‘ نیچے دریائے کنہار اور گہری کھائیوں کی بدولت سرد اور خنک موسم کے باوجود سیاحوں کے ماتھوں پر پسینے کے قطرے دیکھے جاسکتے ہیں۔بارش اور طغیانی کے بعد ڈرائیور حضرات بھی ان راستوں سے گھبراتے ہیں۔ اور اگر انہیں آنا پڑے تو کیچڑ بھرے راستوں پر چلتے ہوئے ان کے چہروں پر پریشانی بھری لکیریں دیکھنے میں عام ملتی ہیں۔ کئی بار تو مسافر حادثات سے بھی دوچار ہوچکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں تک پختہ سڑک فوری تعمیر کرائی جائے تاکہ سیاح بے خوف و خطر یہاں کے نظاروں سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا ئیں۔ جب سورج کی روپہلی کرنیں دور بلند چوٹیوں پر پڑتی ہیں تولالہ زار کا آنکھوں کو خیرہ کردینے والا حسن پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ اصل دیدہ زیبی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب سرسبز ڈھلوانوں پرطلوع ہوتے سورج کی کرنیں بادلوں میں جھانکتی ہوئی پٹیوں کی صورت میں مشرق سے نمودار ہوتی ہیں۔ سیاہ بادلوں میں سورج منہ چھپا ئے لالہ زار پر یہاں وہا ں سایہ فگن رہتا ہے اور ہمارے دل کی دھڑکن ہمارے اختیار سے باہر ہو جاتی ہے۔ کوئی قتل نہیں ہوا۔ غربت کے باوجود چوری چکاری کے واقعات بھی شازونادر ہیں۔ لو گ زیادہ تر ترکاری اور پنیر سے بنے کھانوں پرا کتفا کرتے ہیں۔ اہم مقامی کھانوں میں بت فا ﴿باتھو﴾ لانگڑ‘ بل پیخیچا‘ تروتڑا‘ سونچل ﴿شلغم ﴾ کیری‘ شیلی‘ کٹ کلاڑی‘ شیری‘ کڑھم شامل ہیں۔ میٹھے میں نشاستہ ﴿حلوا﴾ شیرہ ﴿مکئی کے آٹے اور لسی‘ دیسی گھی کا تیارشدہ آمیزہ﴾ کیری زیادہ مقبول ہیں۔مشروبات میں لسی ﴿بگوڑا ﴾ بہت پسند کی جاتی ہے۔ ٹراوٹ مچھلی اور بکرے کا گوشت خاص ڈشز کے طور پر تیا ر کیے جاتے ہیں۔

لالہ زار کے تقریبا ۸۵تا۱۰۰پتھراور لکڑی کے بنے ۴ تا ۵ کمروں پر مشتمل گھر وں میں موسم گرما میں ہی باشندے آباد ہوتے ہیں۔ یہ افراد اپنے مویشیوں کے ہمراہ سرسبز چراگاہوں اورآلو کی فصل کا شت کرنے کی غرض سے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ سرما کے اوائل میں ہی یہ افراد گڑھی حبیب اللہ کے سیری ٹائون میں جاکر آباد ہوجاتے ہیں اور واپسی پر یہاں سے نادر جڑی بوٹیاں بھی اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں جو قدردان سنیاسیوں کے دواخانوں کی رونق بڑھاتی نظر آتی ہے۔

لالہ زار کے علاقے میں جابجا جانور چراتے سواتی‘ افغانی قبائل سے تعلق رکھنے والے حضرات باربردار خچروں کو اپنے ہمراہ لیے محو سفر نظر آتے ہیں۔ان کے خچروں کی کمروں سے چپکے ہوئے لاتعداد بچے‘ بھڑکتے رنگوں کی کشیدہ کاری کے اعلیٰ نمونوں کے حامل کپڑے زیب تن کیے‘ چاندی کے بھاری بھرکم زیورات پہنے خوبصورت خواتین میدانی اور ساحلی علاقے کے سیاحوں کو نئی تہذیب سے روشناس کراتے ہیں۔ وادی لالہ زار میں اقامتی سہولتوں میں اولین محکمہ جنگلات کا آرام گھر ہے جو ۱۹۵۶-۵۸ کے دوران سرکار ی افسر غلام فاروق کی زیر نگرانی تعمیر ہوا۔ اسے بھی زلزلے سے نقصان پہنچا لیکن کسی حد تک یہ قابل استعمال ہے۔ اس کی مرمت کا منصوبہ ہنوز طاق نسیاں کی زینت لگتا ہے۔اس کو لالہ زار کے دلفریب مناظر سے ذرا دور کچھ اس طرح تعمیر کیا گیا تھا کہ سیاحوں کا لالہ زار کے ٹیلے پر چڑھتے ہی اس کی خوبصورتی سے پالا پڑتا۔کہاجاتا ہے اس آرام گھر میں صدر ایوب بھی ٹھہرے‘ لیکن آجکل دو تین نئے ہوٹلوں کی تعمیر سے لالہ زار کے مناظر پر گویا مخمل پر ٹاٹ کے پیوند لگادئیے ہیں۔ اس آرام گھر کا چوکیدار "کاکا"سیاحوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا اور اپنی مدد آپ کے تحت آرام گھر کی مرمت کر رہا ہے۔

لالہ زار میں لنڈی مال‘ موہری‘ ڈھیر‘ ہانس ناڑ‘ کیلئے بہک‘ دڑویاں والی بہک‘ لچھیاں والی مالی‘ کھڑے والی مالی‘ ہچا‘ کھڑا مالی‘ جبروالی مالی‘ اپر والا ڈنہ‘ ہلدا جبہ‘ ڈونگی والی مالہ‘ نامی بلند چراگائیں اپنی سبز گھاس اور جانوروں کا پیٹ بھرنے کی صلاحیت کے باعث خاصی مشہور ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لالہ زار میں گھنے جنگلات سے ڈھکی ڈھلوانیں اور میدان بھی بکثرت ہیں۔ زیادہ اہم علاقے مرہری‘ نالئی نالہ‘ سوہنی‘ خلای بن‘ سونچ‘ تمتمہ‘ شیلی والا بیلا‘ ڈبلو کاں‘ بانسہ‘ بڑوی‘ درنڈہ‘ بنگلیاں اور گٹاں مشہور میدان ہیں۔ لالہ زار کے قریبی دکھائی دینے والے پہاڑوں کے نام مقامی زبان میں رکھے گئے ہیں۔ ﴿مقامی ﴾ نانگا پربت‘ کوہ نور‘ جنوں والی پہاڑی‘ دیووالی پہاڑ﴿دیو مالائی خصوصیات کی وجہ سے یہ نام پڑا﴾ شانک والا پہاڑ‘ گلیشیر والی باڑ‘ دھند والی باڑ ﴿اس پہاڑ پر عموماً دھندلاموسم رہتا ہے﴾ کھل ہٹ والی پہاڑی‘ لیدہ والی‘ نسری‘ لنڈی والی‘ بٹ والی‘ دیوانے فراکی پہاڑی ﴿ایک محبت کی داستان کی بدولت یہ نام ﴾ چٹان والی اور نیلم زیادہ اہم اور وادی کی ہر جگہ سے نظر آنے والی نوکیلی پہاڑی چوٹیاں ہیں۔

وادی لالہ زار میں پتریس کٹھ‘ چورا‘ کوڑھ‘ گگل دھوپ‘ برجمونی‘ ڈنگ سونچل‘ گولڑی‘ بٹ میوہ‘ چاؤ‘ جوگی بادشاہ‘ چوٹیال‘ ہنیرہ‘ کن چھاری‘ دھرتی کنڈہ نامی جڑی بوٹیاں مختلف امراض کیلئے بہت مؤثر ہیں۔ تل‘ دیار‘ بہاڑ‘ کچھل سلئی‘ کیلو‘ پرج کے درخت لالہ زار کے پہاڑوں کی دیدہ زیبی بڑھانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

مقامی گلوکا ر لالہ زار میںسادگی سے تیار کرائے گئے موسیقی کے آلات ’’دشنکاہ‘‘ اور بانسری کی دھنوں پر گیت گاتے ہیں او ر دیگر حاضرین ذوق وشوق سے ان پر رقص کرتے ہیں۔ یہاں کے تمام نوجوان شعروشاعری اور گلوکاری میں حددرجہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اپنا زیادہ تر وقت داستانیں سنانے‘ واقعات پڑھنے‘ جدید شہر یوں کے طرز حیات کو زیر بحث لانے‘ ہنسی مذاق‘ اپنے معاشقوں کے قصے بیان کرنے‘ بانسری سننے سنانے‘ سیاحوں کیلئے ’اناڑی راہنما‘ کا کام کرنے یا کسی چھوٹے موٹے کاروبار ﴿مہنگے داموں اشیائے خورونوش کی فروخت ﴾ کرتے گزارتے ہیں۔ مقامی خواتین اپنے گھریلو استعمال کیلئے چھڑیاں‘ ٹوپی‘ مفلر‘ چادریں وغیرہ کڑھائی کرتی ہیں۔ وہ اپنے گھریلو استعمال کیلئے کڑھی ہوئی چادریں‘ بستری چادریں‘ میزپوش بناتی ہیں۔ انہیں جدید منڈی سے منسلک کرنے سے قبل مقامی خواتین کو بہتر دستکار بنانے کی بہت ضرورت ہے۔ سطح سمندر سے ۸تا۲۱ ہزار فٹ بلندی پر پایا جانے والا ’’بھوج پتر‘‘ ایک سست روی سے بڑھنے والا درخت نباتاتی وجنگلاتی علوم میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کے دلچسپ مطالعہ کا باعث ہے۔ ’دیوانے کے پہاڑ‘ کے قریب ایک گھوڑا نما بت بھی موجود ہے جس کے متعلق دیو مالائی کہا وتیں مشہور ہیں۔کئی دیگر معدنیات کے علاوہ لالہ زار کی پہاڑیوں میں سنگ مرمر اور یا قوت نکلنے کے روشن امکانات ہی لالہ زار میں مارخور کا شکار بڑے ذوق سے کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً برف کے تودوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ نواحی علاقے میں چکور‘ کالے اور سرخ ریچھ‘ شیر‘ چیتا‘ ہمالیاتی تیتر‘ جنگلی کبوتر‘ لنگاڑی‘ چیتا ﴿دھبوںوالا﴾‘ بھورا ریچھ‘ پلڑی ﴿مونث بن مانس﴾ ہربانو﴿بن مانس ﴾‘ بوجنا ﴿بندر ﴾ نول‘ کھن چوہا‘ رونس ﴿کستوری والا ہرن﴾ اور کِل بکری وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مقامی پرندوں میں زیادہ اہم کونک‘ بھڑرا‘ بن ککڑ‘ جنگلی کبوتر‘ فاختہ‘ ڈھبری‘ مرغابی‘ جگ باجھیا ﴿شاہین/عقاب﴾ کالا کوا‘ شنوڑی﴿چڑی﴾ جانوچڑی‘ لم دمہ‘ ﴿دم دار﴾پھتہ‘ پیلی چڑی‘ شارک‘ بلبل‘ ابابیل وغیرہ اہم ہیں۔ پیلے سینے والی چڑیا کی چہچہاہٹ ہو یا گلیشیر وں کے سرکنے کی آواز‘ خچروں کے ٹاپوں کی آواز ہو یا جیپوں کے بھونپو‘ لالہ زار اپنے سکوت کو برقرار رکھنے کی جنگ ہر دم جاری رکھتا ہے۔ سوہنی آبشار‘ ڈوگی‘ ڈک‘ کنڈورنا‘ چھمبری والا آبشارلالہ زار کی اہم اور نمایاں آبشاریں ہیں۔پچھی جھیل‘ سیرن جھیل‘ ہانس جھیل برساتی پانی سے بھری صاف پانی کی برفیلی جوہڑ نما جھیلیں بھی اپنے پانی میں برف پوش چوٹیوں کا عکس لیے سیاحوں کیلئے خوبصورتی کی مثالی تصویر بنے سیاحوں کی منتظر ہیں۔

اس وادی میں مرگ کے موقع پر وفات والے گھر میں ۳یوم تک کھانا نہیں پکتا بلکہ اسے ہمسایوں کی طرف سے کھانا فراہم کرکے اس کے غم میں برابر شرکت کی جاتی ہے۔ فوتگی پر پورے علاقے میں موسیقی سننا ممنوع قرار پاتا ہے۔ ہر ساتویں یوم ﴿ختم خیرات﴾ کیا جاتا ہے چالیسواں بھی عام ہے۔ کم عمری کی شادی اور یہاں اوسطاًفی خاتون ۱۰ تا ۱۲ بچے جننے کا راسخ رواج ہے۔ ایک دو معاملات توایسی خواتین کا بھی بتلایاگیا جنہوں نے ۸۱‘۸۱ بچے پید اکیے ہیں۔اس ضمن میں زچہ کی اچھی صحت کے تصور کا فقدان ہے۔ اس وادی میں زیادہ سے زیادہ حق مہر لکھوانے کا رواج ہے۔ لڑکے والے کافی زیورات لڑکی کی نذر کرتے ہیں۔ لڑکی کو ڈولی میںلے جانے کا رواج آج بھی موجود ہے۔ رخصتی کے ۳ یوم بعد تک بھی لڑکے لڑکی کو باہم دور رکھا جاتا ہے۔ لڑکا اپنے گھر میں اپنے والدین کے سامنے کئی سالوں تک اپنی بیوی کے قریب نہیں بیٹھ سکتا۔ لالہ زار کے سبزہ زار رومان کا مثالی موقع فراہم کرتے ہیں۔ہر نوجوان کے لبوں پر کسی نہ کسی محبوب کے وصال کے تذکرے وافر پائے جاتے ہیں۔یہاں کے مرد اگر چہ مردعورت کے آزادانہ میل جول کو نا پسند کرتے ہیں اور اس میل جول پر جوڑے کو دارفانی کی طرف روانہ کر دینے کے دعویدار بھی ہیں‘ لیکن رومانوی داستانوں کی کثرت کے مقابلے میںغیرت کے نام پر قتل کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لالہ زار جیسے دل جکڑنے والے پر فضا مقام پر بجلی‘ ٹیلی فون‘ بنیادی مرکز صحت‘ اچھے سکول کا نہ ہونا حیرت کے ساتھ ساتھ باعث افسوس بھی ہے۔ وادی میںجنگلات کی چوری چھپے کٹائی‘ نکاسی آب کا عدم انتظام‘ زچہ بچہ کے علاج کی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل آبا د کا روں کے دل میں غم و غصہ اور احساس کہتری کا باعث بن رہے ہیں۔لالہ زار تک پختہ سڑک یہاں کی سیاحت کو بہت ترقی دلا سکتی ہے۔ اگرچہ یہاں صرف ایک پرائمری سکول ہے لیکن لالہ زار میں میڑک افراد کی تعداد تقریباً ۰۵۱ ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں مقامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کو آج بھی بٹہ کنڈی میں پڑھنے کیلئے روزانہ ۷ کلومیٹر اترائی چڑھائی پر مشتمل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔

لالہ زار کے پہاڑوں پر سے اُترنے والے کئی نالے دریائے کنہارمیں مل جاتے ہیں۔ان میں ’زم زم‘ نالہ‘ کوہ نور‘ موری نالہ‘ چٹاکٹھا نالہ‘ چھریاںناڑ‘ قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر نالے پر مقامی ضروریا ت کو پور ا کرنے کیلئے بجلی پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

وادی لالہ زار کی چراگاہوں میں گھوڑے اور اُن کے مالک سیاحوں کو ہر دم گھڑسواری کے لیے دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ شام چار بجے کے بعد تمام سیاح واپس ناران لوٹ جاتے ہیں۔ یہ وقت ان گھوڑوں کے آزاد چرنے کا ہوتا ہے اور ان چراگاہوں پر انہی گھوڑوں کا راج اگلی صبح ۱۱۔۰۱ بجے تک جاری رہتا ہے۔ پٹھوگرم‘ کبڈی‘ ہنجو‘ بلور‘ چھی لونڈی جیسے کھیل بچوں کے مابین مقبول ہیں۔لالہ زار میں جگہ جگہ بچے اشکئی ﴿دائرہ میں پنجاب کے کھڑی وانجل نما﴾ برف پانی اور گلی ڈنڈا جیسے مقامی کھیلوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور والی بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ۴۱/ اگست کو لالہ زار میں مقامی طور پر میلے کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے‘ جس میں خوشی کے طور پر گانا بجانا اور کئی کھیلوں کے مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں۔ان میں مقامی گلوکار حنیف اور لطیف ﴿رہائشی پشاور‘ ایبٹ آباد﴾اپنی خوبصورت آواز کے جادو جگاتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ مظفر آباد سائیں سہیلی سرکار(رح) کے مزار پر حاضری کیلئے عرس کے دنوں میں کئی ٹولیاں لالہ زار سے روانہ ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں کے بچے تجسس بھری نگاہوںسے سیاحوں کو دیکھتے ہیں اور ایک دم سے ’ہوٹنگ‘ کالمبا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔

وادی لالہ زار کے نواح میں بھیڑوں‘ بکریوں اور گایوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں معروف سبزہ زار میدانوں میں دھبوکوولا‘ ڈھاکا مکھیاں‘ موای سیرن‘ ڈک‘ ڈوگی‘ ڈنہ ﴿اپنے کھلیانوں کیلئے معروف﴾ اور تمبو والا ڈھیر زیادہ اہم ہیں۔لالہ زار سے ۶۰۰ فٹ بلند تمبووالا ڈھیر سے برف پوش چوٹیاں بالکل برابری کی سطح سے دکھائی دیتی ہیں۔ یہیں سے نیچے لالہ زار فارسٹ ریسٹ ہائوس و دیگر عمارتیں بھی واضح دکھائی دیتی ہیں۔ لالہ زار کی نباتاتی اجزا سے لبریز زمین‘ پانی جذب کرنے کی بے انتہا صلاحیت رکھتی ہے۔اسی وجہ سے یہاں آلو‘ مٹر‘ گوبھی‘ شلغم‘ گاجر وغیرہ کی کاشت میں کامیابی کا یہ عالم ہے کہ سیاحوں کیلئے کشش کا باعث ڈھلوانوں پر بھی نت نئے کھیت وجو د میں آرہے ہیں‘ جیسے تجارت پرستی کے رستے ہوئے زخم پر مقامی آبادی کی مفلسی کے پیوند‘ معاشی مجبوریوں کی ستائی آبادی ہر دستیاب زرعی خطہ ارض پر چھوٹے چھوٹے کھیت بنا کر اپنی آمدن کے ذرائع بڑھاتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے جنرل ترمذی نے اپنے ملکیتی ڈھلوانی علاقہ جو یہاں کی خوبصورتی برقرار رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا‘ مقامی لوگوں کو چند لاکھ کے عوض ٹھیکے پر دے دیا تومقامی لوگوں نے ان گلاب کے پھولوں سے لدی ڈھلوانوں کاحلیہ بگاڑ دیا۔ ان ڈھلوانوں کی وٹ بندی کیلئے کئی قیمتی درخت بھی کاٹے جارہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ مٹی کے بڑے ڈھیلے اس مقصد کیلئے استعمال کیے جائیں۔

گلابوں کے نئے مہکتے شگوفے بہار رُت کا پیش خیمہ بنتے ہوئے لالہ زار کے چمن کا گہنا بنے اپنی سرخی سے لطیف جذبوں کی راگنی الاپ رہے ہوتے ہیں۔ یہ پھول ہماری برسوں کی ہمنوا اُداسی کو تمنا بھرے جذبات سے لبریز کر دیتے ہیں۔ صبح کے وقت لالہ زار کے شبنم سے لدے مرغزار پھولوں کی قبا میں لپٹے‘ پیلے سینے والی چڑیوں کی چہکار کے سریلے شور سے تمام ڈھلوانوں کو چٹکتی کلیوں کی طرح جگا دیتی ہے۔ ایسے میں ہمارے دل میں پھول کھلنا‘ جلترنگ بجنا‘ آنکھوں میں ایک خواب ناک بستی کے خواب کو سمجھنا‘ لازم ہو جاتا ہے۔ رات کے آخری پہر میں دودھیا چاندنی میں چلنا‘ گلابوں کی خوشبو میں نہانا‘ اوس سے بھیگی آنکھوں کے حسین سپنوں میں کھو جانا‘ ادھوری نگری کو تصورات میں بسانا‘ بے نشان راہوں میںانوکھے سفر طے کرنا‘ صبح کا ذب میں دھند لکے پہاڑوں کا نظارہ کرنا انسانی دھڑکنیں بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ ماورا بنفشی‘ اگن برساتی تمازت‘ نیلے آکاش تلے تمام کرنیں نور کی چادر پھیلائے ہماری راہوں کو سجاتی ہیں۔ یہ قوس قزح بھرا موسم‘ من میں مچلتی ہزاروں تمناوں کا ترجمان بن کررت کو انگڑایاں لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں کی ہر رات کا موسم ہمراہ بوندوں کی سر گم لے کر آتا ہے۔

جابجا چراگاہوں‘ پہاڑوں میں بنے دلکش مکانوں‘ مخمل نما سر سبز گھاس پر لہلہاتے سرخ‘ نیلے‘ پیلے دمکتے پھولوں‘ ابلتی ندیوں‘گنگناتے جھاگ اڑاتے چشموں‘ برف کی چاندنی میں ڈوبے چاندی کے نیلگوں آسمان میں دھنستے پہاڑوں‘ گھنے جنگلات‘ ہرگام موڑ کاٹتی پگڈنڈیوں‘ قطاروں میں لگے شاندار قد آورصنوبر اور ان کی اوڑھ سے جھانکتی پر اسرار اُداس تنہا‘ لیکن سر سبز پہاڑیاں سیاحوں کادل جیتنے والی‘ مشک بار مست کرنے والی ہوائیں لالہ زار کی سیاحت کو ایک یاد گارکا رتبہ دیتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment