Monday 21 March 2011

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ میرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنی ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ھوئے وہ مجمعء اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغ ِوارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

No comments:

Post a Comment