ہر شخص کی خُوں رنگ قبا ہے کہ نہیں ہے
یہ قتل گہہِ اہلِ وفا ہے کہ نہیں ہے
محرومِ جواب آتی ہے فریاد فلک سے
ان ظلم نصیبوں کا خُدا ہے کہ نہیں ہے
اے قریۂبے خواب ِ تمنا کے مکینو
اس راہ کا اُس کو بھی پتا ہے کہ نہیں ہے
اک ریت کا دریا سا ادھر بھی ہے اُدھر بھی
صحرائے محبت کا سرا ہے کہ نہیں ہے
آنکھوں کے لئے خواب ہیں شبنم کے لئے پھول
ہر چیز یہاں رشتہ بپا ہے کہ نہیں ہے
اک نسل کی تعزیر سہیں دوسری نسلیں
اے منصفِ بر حق یہ ہوا ہے کہ نہیں ہے
بے رنگ ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے جزیرے
طوفان کی یہ آب و ہوا ہے کہ نہیں ہے
امجد جو رکا اس کی صدا پر نہ چلا پھر
انسان کا دل کوہِ ندا ہے کہ نہیں ہے
انسان کا دل کوہِ ندا ہے کہ نہیں ہے
No comments:
Post a Comment