Monday, 30 April 2012

حامد میر ... اسامہ بن لادن تاریخ کا حصہ



حامد میر ... اسامہ بن لادن تاریخ کا حصہ  
 
 اسامہ بن لادن تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن القاعدہ اب بھی ایک نئی تاریخ بنانے کیلئے پر عزم ہے ۔ امریکی حکام نے اسامہ کی شہادت کے بعد بجا طور پر یہ دعویٰ کیا کہ اب القاعدہ ایک کمزور تنظیم ہے لیکن وہ یہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اب بھی اسامہ کی سوچ اور نظریہ افغانستان سے لیکر یمن تک اور عراق سے فلسطین تک لڑنے والے جنگجوؤں کو ابھی بھی متاثر کئے ہوئے ہے۔شہید اسامہ بن لادن بالکل ویسے ہی خطرناک ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں تھا۔اوباما انتظامیہ نے 2مئی2011ء کو ہونے والی اسامہ کی شہادت کے بعد سے امریکا میں کم از کم دہشت گردی کے 8 منصوبے ناکام بناچکا ہے ۔صدر اوباما اسامہ کی شہادت کا سہرا تو اپنے سر باندھ سکتے ہیں لیکن شاید وہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اسامہ نے اپنی مرضی کی موت منتخب کی ۔ یہ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ دشمن کی گرفت میں نہ آئے لیکن دشمن اسے قتل کرے اور انہیں کسی قبر میں دفن نہ کیا جائے ۔اسامہ بن لادن نے ہمیشہ اپنے ایک پرانے وقتوں کے دوست شفیق المدنی کی طرح شہادت کے حصول کی دعا کی۔

شفیق کا نام میں نے پہلی بار اسامہ کی زبان سے 1997میں سنا۔ میں پہلا پاکستانی صحافی تھا جس نے 1997میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کی اور میں آخری صحافی ہوں جس نے 9/11کے 7ہفتوں کے بعد اسامہ کا انٹرویو کیا تھا ۔میں نے 1998میں اسامہ کی سوانح عمری تحریر کرنا شروع کی اور ایک بار میں اس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جنہوں نے اسے متاثر کیا اور اس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔اسامہ بن لادن کا کہنا تھا کہ وہ اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت رہا کہ اسے شفیق المدنی جیسا بہادر دوست ملا جس کو شہادت سے عشق تھا۔

شفیق کا تعلق مدینہ سے تھا اور وہ فٹبال کا بہترین کھلاڑی تھا لیکن اس نے سویت فوج کے خلاف جہاد میں اسامہ کے ساتھ افغانستان میں حصہ لیا ۔ وہ 1989کے جلال آباد والے معرکے میں اولین صفوں میں تھا۔شفیق المدنی کی خواہش تھی کہ اس کی شہادت منفرد و مختلف ہو۔ایک بار اس نے اسامہ سے کہا تھاکہ ’اے میرے شیخ اسامہ میرے لئے دعا کیا کرو جب میں شہید ہو جاؤں تو جانورں اور پرندوں کا معدہ میری قبر بنے ، میں مٹی میں دفن ہونا نہیں چاہتا ،میری خواہش ہے کہ بروز قیامت پرندے اور جانور اللہ کے سامنے عرض کریں کہ اے خدا شفیق المدنی کا جسم اسلام کے دشمنوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا کیونکہ وہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا۔‘اسامہ نے بتایا کہ شفیق المدنی کو روسی ٹینک تباہ کرنے میں خصوصی مہارت حاصل تھی ۔ ایک روز شفیق اور اسکے دو اور ساتھی عرب جنگجو جلال آباد جنگ میں روسیوں کے گھیرے میں آگئے۔تینوں نے بھاگ نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ہر سمت سے گھر چکے تھے۔شفیق دونوں سے سینئر تھا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ساتھیوں کو بھاگ نکلنے کا موقع فراہم کرے گااور اس نے ساتھیوں کو ایسا ہی کہا ۔ اس نے سامنے سے اپنی جانب بڑھتے ٹینک کو تباہ کیالیکن بائیں جانب سے آنے والے ایک اور ٹینک کا نشانہ بن گیا۔اس کا جسم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا اور اس کا خواب پورا ہو گیا۔وہ دشمن کی سرزمین پر مارا گیا اور اس کی لاش بھی نہیں ملی۔اس کی تدفین بھی نہیں ہوئی۔جانوروں اور پرندوں کا معدہ ہی اس کی قبر بن گیا۔

اسامہ بن لادن نے کہاکہ ’اللہ تعالی نے شفیق المدنی کا خواب پورا کردیا ، وہ شہید ہوا اور میری اللہ سے دعا ہے کہ مجھے بھی شفیق المدنی کی طرح شہادت نصیب ہو جو کہ قبر میں دفن ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔‘اسامہ شفیق المدنی سے حد درجے متاثر تھا کہ اس نے ایک اسپیڈ بوٹ خریدی اور اسے جدہ کی بندرگاہ ہر بن لادن مرینہ میں کھڑا کردیا۔ اسامہ بن لادن نے اس بوٹ کو شفیق المدنی کا نام دیا۔ بوٹ کا انجن تبدیل کرکے اس میں زیادہ پاورفل انجن لگایا گیا۔ یہ ’شفیق المدنی بوٹ ‘ القاعدہ کے بحری آپریشنز کی تربیت کیلئے پہلا قدم تھا۔اسامہ بن لادن کو سمندر سے بڑی محبت تھی ۔اسامہ نے بحیرہ قلزم میں مچھلی کے شکار کے دوران سید قطب کی کئی کتابیں پڑھیں ۔اسامہ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا امریکی میرینز اسے مارنے کے بعد سمندر برد کر دیں گے ، اسکی لاش غائب ہو جائے گی اور اسے اپنے دوسف شفیق المدنی کی طرح کسی قبر میں دفن بھی نہیں کیا جائے گا۔اوباما انتظامیہ نے القاعدہ کو قبر تو نہیں دی لیکن اسے ایک شہید ضرور دیدیا ہے ۔ پاکستانی حکام نے ایبٹ آباد میں وہ مکان جہاں 2مئی کو اسامہ ہلاک کیا گیا تھا ڈھا دیا ہے لیکن القاعدہ کو تباہ نہیں کیا جا سکا۔اوباما انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ ایمن الظواہری اب بھی پاکستانی سرزمین پر موجود ہو سکتے ہیں ، لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد سے امریکا اور پاکستان کے مابین القاعدہ کے خلاف تعاون کا فقدان ہے۔پاکستان نے سی آئی اے کو اسامہ کے اہلخانہ سے تفتیش کے لئے مکمل رسائی نہیں دی ۔یہ پورا خاندان چند روز قبل سعودی حکام کے حوالے کیا جا چکا ہے ۔پاکستانی اس معاملے میں انتہائی محتاط ہیں کیونکہ انہیں القاعدہ کی جانب سے انتہائی ردعمل کا خطرہ تھا۔ان کو بخوبی علم ہے کہ القاعدہ کے کئی رہنماء بڑے شہروں جیسے کراچی وغیر میں خاموشی سے روپوش ہیں اور وہ کسی بھی وقت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔پاکستان القاعدہ کو ہلکالینے کیلئے کیوں تیار نہیں ہے؟ ان کو پتہ ہے القاعدہ کے آپریٹر گذشتہ برس کراچی میں مہران بیس پر ہونے والے حملے کے بعد کراچی سے افغانستان منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے ۔القاعدہ کے ان آپریٹرز نے افغان طالبان کو نیٹو فورسز پر زیادہ منظم حملے کرنے میں مدد کی ۔ انہوں نے طالبان کو یہ نصیحت بھی کی کہ وہ پاکستان کی امریکا سے مذاکرات شروع کرنے کی بات پر کان نہ دھریں ۔القاعدہ کے بیشتر آپریٹرز لڑنے والے جنگجو نہیں ہیں لیکن وہ دہشت گردی میں بھرپو ر معاونت فراہم کرتے ہیں۔یہ خود دہشت نہیں پھیلاتے بلکہ یہ دہشت گردی کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔افغانستان میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور امریکی قید میں پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی جیسے واقعات القاعدہ دہشت مشاورت کاروں کیلئے مسلمان نوجوانوں کے مذہبی جذبات ابھارنے کیلئے کافی ہیں ۔اوباماانتظامیہ کو دنیا کویہ لازمی بتانا چاہیے کہ امریکی مسلمان جیسے سمیع اوسماکاک اور امین الخلیفی کو امریکا میں دہشت گردی کے حملے کی ترغیب کس نے دی۔یہ دونوں رواں برس جنوری اور فروری میں گرفتار ہوئے تھے۔ یہ دونوں کبھی بھی پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی افغانستان گئے ، وہ اپنی پوری زندگی میں کسی القاعدہ رہنماء سے نہیں ملے لیکن پھر بھی ان کے دلوں میں امریکا کے خلاف نفرت کیسے پیدا ہو گئی ۔

ماں کا قرض

===========================
فرانس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں سات آٹھ سال کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی ضعیف ماں بھی رہتی تھی۔ اس کی ماں جنگل سے لکڑیاں توڑ توڑ کر لاتی اور شہر میں جا کر بیچ دیتی۔ اس طرح دن بھر میں جتنی مزدوری وہ کما لاتی تھی اس سے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالا کرتی تھی۔ بدقسمتی سے ایک دن اچانک وہ بیمار پڑ گئی اور دوسرے دن ہی اس کا انتقال ہوگیا۔

لڑکا اس کی ماں کے موت سے بے حد غمگین ہوگیا کیونکہ اس کا کوئی سہارا نہیں رہ گیا۔ ایک دن یہ معصوم لڑکا بیٹھا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ پی
سہ بھی کیا عجیب چیز ہے ، پیسے کی بدولت ہی سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اب مجھے بھی کسی طرح پیسہ کمانا ہوگا، یہی سوچ کر اس نے نوکری کی تلاش کرنے شروع کی۔ اور ایک ہوٹل میں اس کو نوکری مل گئی۔ بڑی محنت اور لگن سے وہ گاہکوں کی خدمت کرنے لگا۔ جو کچھ بھی وہ کماتا تھا اُسے وہ اپنی پڑھائی پر خرچ کرتا تھا۔ اس نے آدھی زندگی مفلسی میں گزاری تھی ، پڑھ لکھ کر وہ ایک دن فوج میں بھرتی ہوگیا۔ وہ بڑا محنتی اور بہادر تھا۔ دھیرے دھیرے اُسے فوج میں ترقی ملتی گئی، اور ایک دن وہ فوج کا آفیسر بن گیا۔

ایک دن
وہ تفریح کی غرض سے اپنی درسگاہ کی طرف نکل گیا، درسگاہ دیکھ کر اُسے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیا۔ آہستہ آہستہ بچپن کے دنوں کے واقعات اس کے ذہن سے اُتر کر اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے درسگاہ کے قریب بیٹھے لوگوں سے اس نے سوال کیا۔ ’’مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے اس درسگاہ کے پاس ایک پھل بیچنے والی عورت رہا کرتی تھی ، کیا آپ لوگ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ آج کل کہاں ہے؟‘‘
لوگوں نے اس عورت کا پتہ دے دیا، وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اُس چھونپڑی کے پاس پہنچ گیا، جہاں وہ پھل بیچنے والی
عورت رہا کرتی تھی۔


عورت کے پاس پہنچ کر اُس نے پوچھا ’’ماں جی! کیا آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘

عورت نے اُس کو غور سے دیکھنے کے بعد بھی پہچان نہ سکی، کون ہو تم؟ اور میرے پاس کیوں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا ’’میں اچھی طرح آپ کو پہچانتا ہوں۔ برسوں پہلے آپ اس درسگاہ کے پاس پھل بیچا کرتی تھیں ہے نا۔‘‘
عورت نے کہا ’’ہاں !یہ ٹھیک ہے، لیکن تمہیں اس سے کیا سروکار ہے؟‘‘
اس نے کہا ’’شاید آپ کو یاد ہوگا کہ ایک لڑکا آپ سے پھل لیا کرتا تھا، وہ لڑکابے حد غریب تھا، کبھی کبھی اُدھار لیا کرتا تھا، اور کبھی پیسے ادا کرتا تھا۔

عورت نے کہا ’’درسگاہ کے بہت سارے لڑکے مجھ سے پھل خریدا کرتے تھے ۔ لیکن مجھے اب تو اتنا یاد نہیں کہ کون غریب تھا اور کس نے پیسے نہیں چکائے۔‘‘

اُس شخص (روہانسی آواز میں) نے کہا: ’’وہ غریب لڑکا آپ کے سامنے کھڑا ہے۔‘‘
میں آپ کا قرض ادا کرنے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اگر آپ مجھے بتادیں گی کہ کتنا باقی رہ گیا تھا میں فوری آپ کا قرض ادا کر دوں گا اور آپ کا قرض ادا کرنے سے مجھے بے حد خوشی ہوگی۔

عورت نے کہا، بیٹا مجھے اس بڑھاپے میں اب کچھ یاد نہیں آتا ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ میں تمہاری آواز کو پہچان گئی ہوں، بچپن میں تم بہت شریر تھے۔ اکثر میری ٹوکری سے ایک دو پھل اُڑا لے جاتے تھے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ اتنے دنوں کی بات تم اب کیوں یاد کررہے ہو۔ اور ایک معمولی سی بات کے لیے تم کتنی دور سے چل کر میرے پاس آئے ہو۔ خیر میں تمہیں بتا رہی ہوں کہ میرا کوئی قرض تمہارے پاس باقی نہیں ہے۔ تم اس بات کو بھول جاؤ اور ہمیشہ خوش رہا کرو اور دوسروں کی خدمت کیا کرو۔ یہی میری نصیحت ہے ، اب تم جاؤ اور میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔


جانتے
ہیں وہ شخص کون تھا

 وہ شخص فرانس کا بادشاہ نپولین بونا پاٹ تھا، عورت کی باتیں سُن کر بادشاہ کو بڑی خوشی ہوئی۔ اُس نے کوٹ کی جیب سے ایک تھیلی نکالی اور اُس عورت کے قدموں میں رکھ دی۔ تھیلی میں کافی مقدار میں سونے کی مہریں تھیں، بادشاہ خاموشی سے لوٹ گیا اور عورت اس کو تعجب سے دیکھتی رہی۔

اُس کے جانے کے بعد آس پاس کے لوگ عورت کے پاس آئے اور اُس ے پوچھا ’’ماں جی! کیا آپ جانت
ی ہیں وہ کون تھا؟
عورت نے کہا ’’نہیں میں نہیں جانتی۔ لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ وہ مجھ سے پھل خریدا کرتا تھا۔
لوگوں نے عورت کو بتایا ’’ماں جی ابھی جو آپ کے گھر آئے تھے وہ فرانس کے بہت بڑے بادشاہ ہیں، بڑی خوش قسمت ہیں آپ۔
اتنا سُن کر عورت نے کہا ’’کیسا ایماندار تھا وہ ، سچ ہے انسان کی ایمانداری اور اچھا اخلاق ہی ترقی کی منزلوں پر لے جاتا ہے۔

جب عورت مر گئی تو بادشاہ نے اُس کی ایک سونے کی قدم آدمی مورتی بنوائی اور اپنے محل کے سامنے ہی اس کو نصب کروایا، مورتی کے اوپر سونے کے حرفوں میں کتبہ درج تھا
ماں کا قرض

اگر کبھی میری یاد آۓ

اگر کبھی میری یاد آۓ
تو چاند راتوں کی دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو یہ جان لینا
وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آۓ؟ ۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جاۓ!!
اگر کبھی میری یاد آۓ
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خشبووں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطرہ کے آئینے میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں، اوس خشبووں میں
نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی سلگ چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندر میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوۓ جزیرے پہ رک کے تمہیں صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ کبھی اترنا!!

Sunday, 29 April 2012

دنیا نہیں جینے دیتی

جاڑے کا موسم تھا اور صبح صبح کا وقت وہ دونوں باپ بیٹا جلدی جلدی گھر سے باہر نکلے تاکہ جیسے تیسے کر کے  قریبی شہر میں اپنا سامان لیکر پہنچ جائیں اور رنگ برنگے لکڑی کے آرائشی سامان سے جو پیسے ان کو ملیں اس سے گھر کا نظام چل سکے۔

لیکن آج کچھ اور ہی ہونے والا تھا،

دونوں نے اپنا سامان اپنے اکلوتے گدھے پر رکھا اور ساتھ میں خود بھی سوار ہو گئے ، گھر سے نکلتے ہی ابھی کچھ دور چلے ہوں گے کہ ایک بڑھیا سویرے سویرے کسی کام سے گھر سے نکلی اور ان کو آتا دیکھ کر بولی کرمو!!! کچھ خدا کا خوف کھاو، کیوں بے زبان پر ظلم کر رہے ہو، کیا منہ دکھاو گے خدا کو!!!!

کرمو بہت پریشان ہوا، پوچھنے لگا !! بوا کیوں صبح صبح کوس رہی ہو کیا ہوا ایسا کیا کر دیا میں نے۔

بڑھیا نے غصے سے کہا، شرم کرو خود بھی گدھے پر بیٹھے ہو سامان بھی لادا ہوا ہے، کیا ہوا اگر یہ موا بے زبان ہے لیکن اس میں بھی تو جان ہے۔

اب کرمو کو وجہ سمجھ میں آئی تو بہت شرمندہ ہوا،

فوری طور پر گدھے سے اترا اور رسی پکڑ کر آگے آگے چلنے لگا۔

تھوڑی دور گئیے ہوں گے کہ دو دیہاتی ان کے پاس سے گزرے ،،،،،، تو گھور کر کرمو کے بیٹے کو دیکھا اور بولے کچھ حیا کرو بد بخت ماں باپ کی عزت کرنا سیکھو!!! اتنے ڈھیٹ بن کر خود گدھے پر سوار ہو اور بوڑھا باپ پیدل چل رہا ہے۔

وہ بہت گھبرایا اور گدھے سے اترا اور اپنے باپ کو کہا ابا آپ بیٹھ جائیں، کرمو! چاروناچار بیٹھ گیا، اگلے گاوں میں سے گزرتے ہوئے کچھ لوگ چوپال میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ایک نے ہانک لگائی دیکھو بھائی پھر کہتے ہیں کہ اولاد ماں باپ کی عزت نہیں کرتی جب انہیں غلاموں کی طرح گھوڑے گدھے ہانکنے پہ لگاو گے تو کیا خاک بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔

یہ سننا تھا کہ کرمو کو پسینہ آ گیا، اس نے گدھے سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ شہر میں داخل ہوئے تو کچھ منچلے نوجوان کھڑے تھے کہنے لگے یار دیکھو لوگوں کو خیال ہی نہیں ہے بے چارہ بے زبان سامان اٹھا کر چل رہا ہے اور یہ مزے سے آگے آگے چل رہے ہیں۔

اب دونوں باپ بیٹا بہت پریشان ہوئے، دونوں نے جلدی جلدی سے سامان کو آدھا آدھا تقسیم کیا اور اٹھا کر گدھے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے،

تھوڑا ہی سفر طے کرکے جیسے ہی بازار میں داخل ہوئے لوگوں نے انہیں دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا اب تو بہت سٹپٹائے،

پوچھا بھائو! کیوں ہنس رہے ہوتو ایک بندے نے ہنسی سے بے حال ہوتے ہوئے کہا، اوئے تم سے زیادہ بھی کوئی بیواقوف کوئی ہو گا، سواری ہے لیکن پاگلوں کی طرح سامان اٹھا کر چلے آ رہےہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب دونوں نے سامان نیچے رکھا اور بیٹھ گئے۔

سہی کسی نے کہا کہ دنیا کسی حال میں جینے نہیں دیتی۔


تحریرو انتخاب: راشد ادریس رانا
ایک سنی ہوئی کہاوت

Thursday, 26 April 2012

خبر کا موازنہ :مورخہ 26۔04۔2012

 آج کی تاریخ میں شہ سرخی بننے والی دو خبریں جو کہ جیو/جنگ نیوز نیٹ ورک سے لی گئی ہیں، ان دونوں خبروں کو پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم لوگ ترقی کرتے ہوئے کہاں جا رہے ہیں

بھارت نے جاسوس طیارہ خلا میں بھیج دیا

بھارت نے جاسوس سیارہ آر آئی سیٹ خلا میں بھیج دیا بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت نے بھارت نے جاسوس سیارہ آر آئی سیٹ خلا میں بھیج دیا ہے اس جاسوس سیارے کو سری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا۔ یہ جاسوس سیارہ خراب موسم میں ٹھیک کام کرسکے گا۔ سیارہ بنیادی طور پر قدرتی آفات کی پیشگوئی اور زرعی تحقیق کیلئے استعمال کیاجائے گا۔سیارے سے حاصل کی جانیوالی تصاویر دفاعی مقاصد کیلئے بھی استعمال کی جاسکیں گی ، یہ جاسوس سیارہ اب تک بھارت کی جانب سے بھیجے جانے والے سیاروں میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔  

وزیراعظم گیلانی توہین عدالت کے مجرم قرار

سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عدالت برخاست ہونے تک چند سیکنڈز کی انتہائی مختصر ترین سزا سنادی ہے۔مقدمہ کی سماعت کرنے والے سات رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا اور صرف اتنی سزا سنائی کہ جب تک یہ سات رکنی بنچ اس مقدمہ میں موجود ہے ، تب تک یہ سزا ہوگی، فیصلہ سناتے ہی عدالت برخاست ہوئی تو وزیراعظم کو سنائی گئی سزا مکمل ہوگئی۔ عدالتی فیصلہ میں قرار دیا گیا کہ وزیراعظم جان بوجھ کر عدالتی حکم کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے، عدالت کا مذاق اڑایا گیا، ان کو سزا کے سنجیدہ اثرات ہوسکتے ہیں، آرڈر میں لکھاگیاکہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی، وزیراعظم کا اقدام قانون کی پیروی میں واضح خلاف ورزی ہے۔ سزا سنانے کے بعد ججز تو اٹھ کر چلے گئے لیکن وزیراعظم کچھ دیر تک وہاں موجود رہے۔ سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس ، این آر او کو کالعدم قرار دے کر حکومت کو صدر آصف علی زرداری سے تعلق رکھنے والے سوئس کیسز کو بحال کرانے کا حکم دیا تھا ، اس پر عمل نہ ہونے کیخلاف عدالت نے وزیراعظم گیلانی کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ بنایا ، وزیراعظم کا کہناتھاکہ صدرمملکت کو حاصل آئینی استثنیٰ کی وجہ سے خط نہیں لکھا ، عدالت نے توہین عدالت کیس کی سماعت دو روز قبل مکمل کرلی تھی ، آج فیصلہ سنانے کیلئے وزیراعظم کو بھی طلب کیا گیا تھا۔  

Monday, 23 April 2012

♥ کاغذ پہ ♥

وہ لکھ رہا ہے میرا انتظار
کاغذ پہ
میں جا رہا ہوں سمند کے پار
کاغذ پہ
محبتں جو لکھی تھیں
مٹا ہی دیں آخر
لکھا ہے اب کےدل کا غبار
کاغذ پہ
جدا ہوئے تو جدائی میں
اب یہ مقام آیا
نہیں رہا ہے اسے اعتبار
کاغذ پہ
جو مقام محبت میں ہم پہ
گزری ہے راشد
نہیں رہا ہے اب اختیار
کاغذ پہ

شاعر: رانا راشد وجدان
23۔01۔2012

Sunday, 22 April 2012

ایک مسلمان کی چھوٹی سی نیکی نے پورا خاندان مسلمان کردیا

Thanks: AHWAL
٢٩ نومبر ٢٠٠٣ کی خوش گوار صبح تھی موسم کہر آلود تھا۔ ذرا سی خنکی بھی تھی۔ تقریباً ٩ بجے صبح میں اپنی بچی سمتا کو گود میں لیے کان پور سے لکھنو جانے والی بس میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی اور مسافروں نے اپنا اپنا ٹکٹ بنوانا شروع کیا۔ میں نے بھی ٹکٹ بنوانے کے لیے اپنا پرس کھولا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ جو روپے میں نے رکھے تھے، وہ اس میں نہ تھے۔ ہا تھ پاؤں پھولنے لگے، سانسیں تیز تیز چلنے لگیں، بار بار پرس الٹتی پلٹتی رہی، بمشکل تمام کل بتیس روپے نکلے، جبکہ کرایہ اڑتیس روپے تھا۔ اب کنڈیکٹر شور مچانے لگا کہ کس نے ٹکٹ نہیں بنوایا ہے۔ میں ڈری سہمی اٹھی اور کنڈیکٹر کو ٣٢ روپے تھما کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی کنڈیکٹر تیز تیز چیخنے لگا کہ پورے پیسے لاؤ۔ میں بالکل خاموش تھی، کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ طرح طرح کے خیالات دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ بس گنگا ندی پر سے گزر رہی تھی کہ کنڈیکٹر نے پھر کہا کہ پورے پیسے لاؤ، ورنہ بس سے اتر جاؤ اور اس نے بس رکوا دی۔ مجھے اترنے کے لیے بار بار کہہ رہا تھا۔ پوری بس میں سناٹا چھایا ہو ا تھا۔ سارے پسینجر مڑ مڑ کر میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں مارے شرم کے سردی میں بھی پسینے پسینے ہو رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب جو کالی شیروانی زیب تن کیے ہوئے ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، نے کنڈیکٹر سے پو چھا :کیا بات ہے ؟ اس نے جواب دیا : ارے یہ میڈیم پورے پیسے نہیں دے رہی ہیں، اور اتر بھی نہیں رہی ہیں۔ انہوں نے اچٹتی نظر سے میری طرف دیکھا اور پھر کنڈیکٹر سے پوچھا : کتنے روپے کم ہیں ؟اس نے بتایا، چھ روپے کم ہیں۔ ان صاحب نے دس روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے لے لو اور پھر بس چل پڑی۔ بس تیز رفتاری سے درختوں، مکانوں اور دکانوں کو پیچھے چھوڑتی بھاگی جا رہی تھی اور میں قدرے اطمینان سے مختلف احساسات و خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔ لکھنو آگیا اور میں جھٹ سے بس سے اتر کر کنارے کھڑی ہو گئی، سوچا کہ ان بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر لوں۔ جب وہ صاحب اترے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ صاحب بولے:'' ارے ! کوئی بات نہیں ہے۔ اور جانے لگے، پھر اچانک مڑ کر پوچھا کیا بات ہوئی تھی؟ ان کا یہ سوال غالباً اس لیے تھا کہ میں دیکھنے میں خوشحال لگ رہی تھی۔ بہترین لباس اور زیورات پہن رکھے تھے۔ میں نے بتایا کہ بھائی صاحب! گھر سے نکلی تو خیال تھا کہ پرس میں روپے ہیں، مگر معلوم نہیں کیا ہوا۔ انہوں کہا کہ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کو جانا کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حسین گنج میں رہتی ہوں، پیدل چلی جاؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ بچی گود میں ہے، بیگ بھی وزنی معلوم ہوتا ہے (جو واقعی وزنی تھا) آپ یہ روپے لے لیجیے اور رکشا سے چلی جایے اور بیس روپے کا نوٹ میری طرف بڑھایا۔ میں نے پہلے معذرت کی، مگر انہوں نے زبردستی وہ نوٹ مجھے دیا اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے رکشا لیا اور اپنے گھر پہنچ گئی، لیکن دل میں ایک ایسا نقش بیٹھ چکا تھا کہ اب کبھی مٹ نہیں سکتا تھا۔ شام کو اپنے شوہر امیت کمار کو پوری داستان سنائی۔ وہ بھی بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کا نام، پتا اور فون نمبر وغیرہ لے لیا ہوتا۔ مجھے بھی بڑا افسوس ہوا کہ یقیناً نام، پتا معلوم کر لینا چاہیے تھا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت میری عقل گم تھی۔ اب دن رات بار بار یہی بات سوچتی اور دل چاہتا کہ کاش ایسے بھلے انسان سے پھر ملاقات ہو۔ کئی دن گزر گئے، میں اور میرے شوہر اکثر تذکرہ کرتے، ان کو یاد کرتے، راہ چلتے نظریں انہیں تلاش کرتیں۔ بہت سے ایسے افراد جب شیروانی، ٹوپی اور داڑھی میں دکھائی دیتے تو امیت کہتے: ان میں سے پہچانو، مگر اب وہ کہاں ملتے؟
تقریباً تین ماہ بعد ایک روز ہم دونوں مارکیٹنگ کرتے ہوئے کچہری روڈ امین آباد سے گزر رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک صاحب پر پڑی، جو کرتا پاجامے میں تھے، دیکھتے ہی دل نے کہا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں۔ جب تک میں فیصلہ کرتی اور امیت کو بتاتی، وہ ہم لوگوں کے قریب سے گزر کر آگے نکل گئے۔ میں نے امیت سے کہا کہ شاید وہی صاحب ہیں، ذرا پوچھو۔ امیت لپکے اور ان کو روکا۔ میں بھی قریب پہنچی تو یقین ہو گیا کہ یہ وہی صاحب ہیں، جن کو ہم تلاش کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کو نمستے کہا۔ وہ حیرت سے ہم لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے پہچانا؟ انہوں نے کہا: معاف کیجیے گا، میں تو نہیں پہچان سکا۔ مجھے اندر سے تکلیف سی محسوس ہوئی کہ جس شخص کی شکل و صورت گزشتہ تین چار ماہ سے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی، وہ مجھے پہچان نہیں رہا۔ امیت نے کہا: سوچیے اور پہچانیے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بالکل یاد نہیں ہے۔ براہ کرم کچھ بتائیے۔ میں نے کہا کہ تین چار ماہ پہلے کان پور سے آتے ہوئے بس میں ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے میری مدد کی تھی۔ اب وہ ہنسنے لگے اور بولے: آئیے، چائے پیتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر قریب کے ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ ہم لوگ ان سے ملنے کے لیے بے قرار تھے، اس لیے فوراً ان کی پیشکش قبول کر لی۔ اب سب سے پہلے تو ہم لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اپنی مجبوری بیان کی اور اپنی کیفیت بیان کرتے رہے۔ وہ بار بار یہی کہتے کہ بھئی ! چھوڑیے، ان سب باتوں کو۔ کوئی ایسی بات تو تھی نہیں کہ آپ لوگ اس قدر یاد کرتے رہے۔ امیت نے ڈائری نکالی اور کہا: جناب اپنا اسم گرامی اور فون نمبر وغیرہ لکھا دیجیے۔ انہوں نے نام، فون اور پتا لکھایا اور امیت کا پتا و نمبر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ جناب سرائے میر اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ امیت نے میرے کہنے پر گزارش کی کہ چائے کے پیسے ہمیں دینے دیجیے۔ وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! مجھے بڑی خوشی ہو گی کہ چائے کہ پیسے میں دوں، وہ خاموش ہو گئے۔ اور امیت نے پیسے دے دیے۔ اب میں نے آہستہ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! ایک بات کہوں، آپ کچھ محسوس نہ کیجیے گا، یہ چھبیس روپے براہ کرم رکھ لیجیے۔ وہ قدرے بلند آواز میں بولے: بھئی! یہ کیا بات کر رہے ہیں! اگر یہ پہلی اور آخری ملاقات ہے تو کوئی بات نہیں ہے، ورنہ ایسی باتیں نہ کیجیے، مگر امیت نے زبردستی چھبیس روپے ان کی جیب میں ان کے منع کرنے کے باوجود رکھ دیے۔
اب میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! کبھی میرے گھر تشریف لائیے۔ انہوں نے کہا: ہر گز نہیں، میں کبھی نہیں آؤں گا۔ دو باتیں آپ لوگوں نے زبردستی منوا لیں۔ میری شرط ہے کہ پہلے آپ لوگ میرے گھر آئیے۔ تھوڑی تکرار کے بعد ہم لوگوں نے وعدہ کر لیا کہ جلد ہی ہم ضرور آئیں گے اور پھر ہم رخصت ہو گئے۔
اگلے ہی اتوار کو امیت نے کہا: چلو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلیں، فون کیا، انہوں نے کہا: تشریف لائیے، میں انتظار کروں گا۔ حسب وعدہ شام کو ہم چلے۔ یقین کیجیے، زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا کوئی بھائی ہے اور میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ میرا کوئی حقیقی بھائی یا بہن نہیں ہے، ماں باپ کا بھی کافی پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ اب جو عزیز بھی ہیں، وہ سسرالی رشتے دار ہیں۔ ہم پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اپنے آفس کے باہر انتظار کر رہے تھے۔ بڑی محبت سے ملے اور فوراً گھر میں لے گئے۔ بٹھایا اور کچن میں اپنی اہلیہ ام سلمیٰ اعظمی سے ملاقات کرائی، جو میری ہی عمر کی ہیں یا سال دو سال چھوٹی ہوں گی۔ ان سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ بڑی ہنس مکھ، ملن سار اور سلیقہ مند ہیں۔ ضیافت کا اچھا خاصا اہتمام کیا تھا۔ چائے کے دوران میں ہی میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! اگر آپ اجازت دیں اور کوئی حرج نہ ہو تو روٹی میں پکا دوں، اس لیے کہ بچہ رو رہا ہے اور بھابھی پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا: بھابھی سے پوچھ لو۔ آپ اپنے ہی گھر میں ہیں، ان کی اس بات مجھے حد درجہ خوشی ہوئی۔ میں نے بہت کہا کہ کھانا پکانے میں مدد کروں، مگر بھابھی نے کہا: اب نہیں، جب دوبارہ آئیے گا تو کھانا پکائیے گا۔ اس دوران میں، میں تو بھابھی سے باتیں کرتی رہی اور ڈاکٹر صاحب امیت کو بہت سی کتابیں دکھاتے رہے۔ امیت کتابوں کے دیوانے ہیں۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے تو امیت نے دسیوں کتابیں لے لی تھیں۔ چلتے ہوئے بھابھی نے ایک پیکٹ دیا اور کہا: اسے گھر جا کر کھولیے گا۔ ہم لوگ گھر پہنچے، دس بج چکے تھے، پیکٹ کھولا تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، ایک ساڑھی، بلاؤز اور میری بیٹی سمتا کے لیے ایک فراک اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ تھا۔
اب کیا تھا۔ امیت آئے دن ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہے۔ کتابیں لاتے رہے، رات رات بھر پڑھتے اور واپس پہنچاتے رہے۔ میں بھی کتابیں پڑھتی تھی، ''شانتی مارگ'' ''مکتی مارگ'' ''جیون مرتیو کے پشچات''''اسلام دھرم'' ''اسلام جس سے مجھے پیار ہے''''چالیس حدیثیں''''قرآن کے پریچے'' اور قرآن کا ترجمہ، سب کچھ پڑھ ڈالا۔ چار پانچ بار میں ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی۔ جب بھی جاتی اور واپس آتی تو بھابھی کچھ نہ کچھ کپڑے، کھلونے، کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز ضرور دیتیں۔ دو، تین بار وہ بھی ہمارے پاس ہمارے گھر آئیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے کافی قریب ہو چکے تھے۔ امیت اکثر ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہتے اور وہ بھی فون کر کے ان کو بلا لیتے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، بار بار کہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر نہیں آئے۔ ہر بار کوئی مجبوری یا عذر بیان کرتے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے۔ ایک بار ہم لوگ ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔ بدن سنسنا رہا ہے اور بھابھی اپنی ناراضی ظاہر کر رہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ آج ہی کسی اجنبی مریض کو خون دے کر آئے ہیں، جب کہ دو ماہ پہلے کسی مریضہ کو خون دیا تھا۔ بھابھی ناراض ہو رہی تھیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ اگر خون دے کر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کیا حرج ہے؟ میں نے بھابھی کی حمایت کی۔
امیت جب بھی ان سے مل کر آتے، اکثر کوئی نہ کوئی واقعہ بتاتے اور حیرت و خوشی سے بارہا تذکرہ کرتے، مثلاً آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک لسٹ لیے بیٹھے تھے کہ دیکھو: آٹا، دال، چاول اور یہ سامان لانا ہے۔ میں پہنچ گیا تو بیٹھے رہے، باتیں ہوتی رہیں، اس دوران ندوہ کا ایک طالب علم آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی ضرورت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے چار سو روپے اس کو دے دیے اور سامان لانا رہ گیا۔
ایک بار کہنے لگے: آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، ساتھ میں امین آباد گئے تھے۔ ایک کمبل 350 روپے میں خریدا اور واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک نقاب پوش خاتون ملی اور کہا کہ مولوی صاحب! بچے سردی کھار ہے ہیں، ایک کمبل یا لحاف دلا دیجیے۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ کمبل اس کو تھما دیا اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے۔
اس عرصہ میں امیت میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی۔ پوجا کرنا اور مندر جانا بالکل چھوڑ دیا تھا، جب کہ پہلے اس کی پابندی کرتے تھے۔ گھر سے تمام تصویریں اور مورتیوں کو ہٹا دیا اور ہم لوگ عجیب سی تبدیلیاں محسوس کرنے لگے۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب سے بار بار گھر آنے کو کہتے، مگر وہ ٹال جاتے۔ ایک رات تقریباً گیارہ بجے امیت نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں چاول، دال اور کچھ دوسرا سامان لٹکائے ہماری گلی کے قریب والی دوسری گلی کی طرف مڑے ہیں۔ امت پیچھے لپکے اور قریب جا کر پوچھا: آپ اس وقت یہاں؟ یہ کیا ہے؟ پہلے تو انہوں نے ٹالنا چاہا، مگر پھر بتایا کہ یہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی ہیں، ان کا کوئی سہارا نہیں ہے، میں کبھی کبھار یہ سامان پہنچا دیتا ہوں۔ پھر امیت کو ساتھ لے کر گئے۔ سامان دیا، کچھ روپے دیے اور واپس لوٹے۔ اب امیت نے اصرار کیا کہ گھر چلیے، انہوں نے کہا کافی رات ہو گئی ہے، پھر آئیں گے، مگر امیت زبردستی گھر لے آئے۔ اپنے گھر میں انہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں جلدی سے کھانے پینے کا انتظام کرنے لگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو کھانا کھا چکے ہیں، چائے بنا لو بس، کھانا پھر کبھی کھائیں گے، بہر حال جو کچھ تھا پیش کیا۔ باتیں ہونے لگیں اور بالآخر امیت بولے: اب بہت دن ہو گئے، ہم لوگ کب تک اسی طرح رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: جلدی کیا ہے؟ ہم نے کہا: اگر اسی درمیان موت آ گئی تو؟ اب ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش تھے۔ تقریباً ایک بجے امیت ان کو ان کے گھر پہنچانے گئے۔ جب واپس آئے تو ہم لوگ رات بھر سو نہ سکے اور ایمان، اسلام، جنت، دوزخ اور ڈاکٹر صاحب اور اس بوڑھی خاتون کی باتیں کرتے رہے۔
اسی طرح تین چار ماہ گزر گئے، نماز کی کتاب سے اور بھابھی سے نماز پڑھنا سیکھ لی اور ہم لوگ پابندی سے نماز پڑھنے لگے۔ اسی دوران میں امیت کا ٹرانسفر ہو گیا اور ہم لوگ لکھنؤ سے غازی آباد آ گئے۔
یہاں سے ہم لوگوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ میں ارچنا سے مومنہ تبسم، امیت عبدالکریم اور سمتا عظمیٰ ہو چکی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب دو سال سے عید کے موقع پر سب لوگوں کے لیے کپڑے اور عیدی بھیج رہے ہیں۔ ان کے ہم زلف محمد یونس بھائی تحفے تحائف لے کر آتے ہیں۔ دو بار میں بھی لکھنؤ جا چکی ہوں۔ ان کا گھر مجھے اپنا میکہ لگتا ہے، اور اسی انداز سے ہم جاتے اور آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ آخرت میں کامیاب ہوں۔

بھارت کا ایک مرتد گائوں جسے ایک معجزے نے دوبارہ مسلمان کردیا

Thanks : AHWAL

میرا نام محمد عثمان ہے، پلول ضلع فرید آباد (ہریانہ) کے قریب ایک گاؤں میں ایک غیرمسلم راج پوت گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرا پہلا نام سنیل کمار تھا۔ میرے والد اپنے گاؤں کے ایک معمولی کسان ہیں۔ فروری ١٩٩٢ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ میری عمر اب تقریباً ٢٥ سال ہے۔ میں نے دینی تعلیم کا آغاز ١٩٩٢ء میں مدرسہ ہرسولی میں کیا۔ ناظرہ قرآن پاک کے بعد حفظ شروع کیا۔ بعد میں دارالعلوم دیوبند میں حفظ اور عالمیت کی تکمیل کی۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذٰلک

میری زندگی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کرم کی ایک نشانی ہے۔ میرے اللہ نے مجھ ناچیز کو ہدایت سے نوازنے کے لیے عجیب و غریب حالات اور نشانیاں دکھائیں۔ گھریلو حالات کی وجہ سے آٹھویں کلاس کے بعد میں نے تعلیم بند کر دی اور روزگار وغیرہ تلاش کرنا شروع کیا۔ میری کلاس کا ایک میواتی لڑکا عبدالحمید میرا دوست تھا، جو قصبہ ہتھین کے پاس کا رہنے والا تھا۔ ہم دونوں میں بے انتہا محبت اور دوستی تھی۔ عبدالحمید بھی گھریلو حالات کی وجہ سے پلول میں کار مکینک کا کام سیکھنے لگا۔ کچھ دن کے بعد میں بھی اس کے ساتھ ورکشاپ جانے لگا۔ عبدالحمید کے والد میاں جی تھے اور ہتھین کے قریب ایک گاؤں میں جمعیت شاہ ولی اللہ کی طرف سے امام تھے۔

اس گاؤں کے پسماندہ مسلمان ١٩٤٧ء میں اور اس سے پہلے مرتد ہو گئے تھے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خدام کو دعوت کے کام کے لیے لگایا تھا اور یہاں کام کرنے والوں کے لیے بڑی دعائیں مانگیں اور بشارتیں سنائی تھیں۔ اس گاؤں میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ ایک مزار کے ایک حصے میں وہ میاں جی صاحب رہتے تھے۔ بستی کے لوگ ان کو کھانا بھی نہیں دیتے تھے۔ وہ اکیلے اذان دیتے اور نماز پڑھتے۔ کچھ بچے کبھی کبھی ان کے پاس آ جاتے تھے۔ وہ ان کو کلمہ یاد کراتے۔ وہاں کے مسلمان مرتد ہو چکے تھے۔وہ سب بھاڑے کا کام کرتے تھے۔ یہاں ایک مٹی کا بڑا اُونچا ٹیلہ تھا۔ یہ سب لوگ وہاں سے مٹی اٹھاتے اور لوگوں کے یہاں ڈالتے۔ ایک روز وہ لوگ یہاں سے مٹی کاٹ رہے تھے کہ اچانک وہاں انھیں ایک خالی کنویں میں سفید کپڑا دکھائی دیا۔ انہوں نے آگے سے مٹی ہٹائی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک لاش ہے۔ یہ لوگ ڈرے اور میاں جی کو بلایا اور کہنے لگے کہ کوئی جِنّ یا پریت ہے۔ میاں جی آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ سفید ریش کی میت ہے۔ وہ اس طرح رکھی ہوئی تھی جیسے کہ آج ہی انتقال ہوا ہو۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ کسی اللہ والے مومن کی میت ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد ان کو دلہن کی طرح سلا دیا جاتا ہے اور مٹی بھی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ اس واقعہ سے گاؤں والوں پر بڑا اثر ہوا اور ان میں سے خاصے لوگ ارتداد سے توبہ کر کے مسلمان ہو گئے۔ اپنے بچوں کو بھی میاں جی کے پاس پڑھنے بھیج دیا اور مسجد کے لیے جگہ دے دی، جو اللہ نے بنوا بھی دی۔

ایک روز عبدالحمید صاحب اپنے والد میاں جی کے پاس گاؤں گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ میاں جی نے کھانے کا انتظام کیا۔ اتفاق سے پلیٹ ایک ہی تھی۔ کھانے سے پہلے میاں جی نے کہا: ذرا ٹھہرو، میں گاؤں سے دوسری پلیٹ لے آؤں۔ ہم دونوں نے کہا کہ الگ پلیٹ لانے کی ضرورت نہیں، ہم دونوں ایک ہی پلیٹ میں کھا لیتے ہیں۔ یہ کہہ کر ہم دونوں کھانا کھانے لگے۔ میاں جی نے عبدالحمید سے کہا کہ بیٹا! جب تم دونوں میں اتنی محبت اور دوستی ہے تو اپنے دوست کو مسلمان کیوں نہیں بنا لیتا ۔ ان کے والد نے مجھ سے کلمہ پڑھنے اور مسلمان ہونے کے لیے بہت خوشامد کی اور اصرار کیا۔ کئی بار وہ رونے بھی لگے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اسلام کا کوئی منتر (کلمہ) مجھے بتایئے۔ میں اس منتر کو پڑھوں گا۔ اگر میں نے کوئی چمتکار (کرشمہ) دیکھا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ میاں جی کو جماعت والوں نے ایک دعا یاد کرائی تھی، وہ انہوں نے مجھے یاد کرائی:

اللھم اجرنی من النار

اور کہا کہ چلتے پھرتے پڑھا کرو۔

میں نے ان سے کہا کہ اس کا مطبل (مطلب) مجھے بتاؤ۔ انہوں نے کہا: مطلب تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ کل مفتی رشید صاحب کے پاس ہتھین جاؤں گا ان سے معلوم کر کے بتاؤں گا۔ اگلے روز ہتھین گئے۔ میں بھی دوسرے دن شام کو اس گاؤں میں ان سے مطلب معلوم کرنے پہنچا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! مجھے دوزخ (نرک) کی آگ سے بچا۔ میں نے سوال کیا کہ نرک (جہنم) کی آگ سے بچانے کا کیا مطلب ہے؟

انہوں نے بتایا کہ جو آدمی ایمان لائے بغیر مر جائے، وہ ہمیشہ نرک (جہنم) کی آگ میں جلے گا اور جو ایمان پر مرے گا، وہ جنت میں جائے گا۔

میں نے کہا کہ کیا واقعی یہ بات سچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل سچی ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا اور میں نے عبدالحمید سے کہا کہ تو میرا کیسا دوست ہے، اگر میں اسی طرح مر جاتا تو میں تو ہلاک ہو جاتا! تو نے کبھی مجھ سے نہیں کہا۔

میاں جی نے کہا: واقعی بیٹے! تم صحیح کہتے ہو۔ عبدالحمید کو تمہارے ایمان کے لیے زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی۔ بیٹے! اب جلدی سے کلمہ پڑھ لو۔ میں تیار ہو گیا۔ وہ مجھے لے کر اگلے روز ہتھین مدرسہ گئے۔ مفتی صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عثمان رکھ دیا۔ الحمدللّٰہ علٰی ذلک۔

تیسرے روز مجھے مفتی صاحب نے قانونی کارروائی کے لیے ایک صاحب کے ساتھ فرید آباد بھیج دیا۔ میں نے فریدآباد ضلع کے جج کے سامنے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں بیان حلفی دیا۔ ضلع کا جج متعصب قسم کا آدمی تھا، اس نے نابالغ کہہ کر مجھے مقامی تھانہ انچارج کے حوالے کرنے اور تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔ ہتھین تھانے کے انچارج جناب اومیش شرما تھا۔ وہ کسی ضروری تفتیش کے لیے جا رہے تھے، انہوں نے انسپکٹر بلبیرسنگھ کو میرا کیس سونپا اور چلے گئے۔ بلبیرسنگھ بہت ظالم اور متعصب تھا۔ اس نے مجھے بہت دھمکایا اور بے دردی سے پہلے ہاتھوں سے مار لگائی اور جب میں نے ایمان سے پھرنے سے انکار کیا تو ڈنڈے سے بے تحاشا مارا۔ میرے بدن میں جگہ جگہ سے خون بہنے لگا۔ میں ہر وقت اللھم اجرنی من النار پڑھتا تھا۔ مار کھاتے وقت کبھی کبھی زور سے یہ دعا منہ سے نکل جاتی۔ اس نے کہا: یہ کیا پڑھتا ہے؟ اور ساتھ ہی مجھے گالیاں دیں۔ میں نے دعوت کی نیت سے اسے اس دعا کا مطلب بتایا۔ اس کو اور بھی غصہ آیا۔ اس نے دو سپاہیوں کو کہا کہ لوہار کی بھٹی پر جا کر لوہے کے سریے گرم اور لال کر کے لاؤ اور ننگا کر کے اس کو داغ دو۔ ہم دیکھیں کہ یہ آگ سے کیسے بچے گا اور جب تک یہ اپنے دھرم (مذہب) میں واپس آنے کو نہ کہے، اس وقت تک اس کو نہ چھوڑنا۔ وہ سپاہی قریب ہی موجود لوہار کی بھٹی پر گئے اور لوہے کے چار سریے بالکل آگ کی طرح لال کر کے تھانے میں لائے۔ میرے اللہ کا کرم کہ میں دعا پڑھتا رہا۔ انہوں نے میری شرٹ اُتاری اور میری کمر پر سریوں سے داغ دینا چاہا، مگر اللہ کا فضل کہ مجھے ذرا بھی اثر نہیں ہوا۔ وہ سپاہی حیرت زدہ ہو گئے۔ انہوں نے یہ بات انسپکٹر بلبیر کو بتائی۔ اس وقت تک سریوں کی لالی ختم ہو گئی تھی۔ جب انسپکٹر بلبیر نے دیکھا کہ میری کمر پر کوئی اثر نہیں ہوا تو اس نے غصے میں سپاہیوں کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ تم سریے گرم کر کے نہیں لائے ہو۔ یہ کہہ کر ایک سریہ اٹھایا تو اس کا ہاتھ بری طرح جل گیا، وہ تکلیف کے مارے بے تاب ہو گیا اور دو سپاہیوں سے کہا: اس کو سامنے بھگا کر گولی مارو، ورنہ یہ بہت سارے لوگوں کے دھرم بھرشٹ (مذہب برباد) کر دے گا۔ میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں۔ انسپکٹر چلا گیا۔ وہ دونوں سپاہی مجھے زور دیتے رہے کہ دوڑو۔ میں نے کہا: میں چور نہیں ہوں، مجھے گولی مارنی ہے تو سامنے سے مار دو۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تھانہ انچارج جناب اومیش شرما آ گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا، پولیس والوں کو دھمکایا کہ اس کا وشواس (یقین) ایسا پکا ہے کہ تم گولی بھی مار دو گے تو اس کو نہیں لگے گی۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور پھر ایک چارج شیٹ لگا کر رہتک جیل بھیج دیا اور مجھ سے کہا کہ بیٹا! تیرے لیے اس میں بھلائی ہے کہ میں تجھے جیل بھیج دوں، ورنہ تجھے کوئی مار دے گا۔ اللہ کا کرم میری اس مصیبت سے جان چھوٹی اور اللہ کی رحمت پر میرا یقین اور مضبوط ہو گیا۔

یہ تھانہ انچارج کوتوال اومیش شرما جی بہت ہی اچھے آدمی تھے۔ تیسرے روز رہتک جیل آئے اور مجھ سے میرے اسلام قبول کرنے اور آگ کا اثر نہ کرنے کا پورا ماجرا سنا اور پوچھا: کیا واقعی تجھ پر ان گرم سریوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں نے کہا: آپ میرے ساؤ (خیرخواہ) ہیں، آپ کو سچ نہ بتاؤں گا تو کس کو بتاؤں گا۔

جب ان کو یقین ہو گیا کہ اللہ نے مجھے آگ سے بچایا تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ میری ضمانت کرائی ، فائنل رپورٹ لگائی ، مجھے جیل سے چھڑایا اور مجھ سے کہا کہ مجھے بھی ان مولوی صاحب سے ملاؤ جنہوں نے تمہیں مسلمان کیا ہے۔ ہتھین آ کر مفتی رشید احمد صاحب سے ملے اور کچھ دیر اسلام کی باتیں معلوم کیں اور وہیں مسلمان ہو گئے۔ مفتی صاحب نے ان کو اسلام ظاہر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ کچھ عرصے کے بعد بابری مسجد منہدم کر دی گئی۔ پورے میوات میں فسادات ہوئے۔ ہتھین کا علاقہ ہمیشہ فسادات کا گڑھ رہتا تھا مگر کوتوال شرما جی جو اب عبداللہ ہو چکے ہیں، کی وجہ سے اس علاقے میں مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہوا اور انہوں نے مسلمانوں کی بڑی مدد کی۔

میں آج کل ضلع الور (راجستھان) میں جمعیت شاہ ولی اللہ کے تحت دعوتی کام کر رہا ہوں۔ وہاں پر ایک ادارے کی ذمے داری میرے سپرد ہے۔ مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کے واسطے ہی سے ہرسولی مدرسے میں میرا داخلہ ہو گیا تھا۔ میں نے ان کی ہی نگرانی میں زندگی گزارنے کا عزم کیا ہے۔(بشکریہ ماہنامہ بیداری

ایک ستارہ بہت چمکتا: by Rana Rashid

پچھلی شب کو میں نے دیکھا
ایک ستارہ بہت چمکتا
میں نے اس سے پوچھا تارے
کیوں لگتے ہو اتنے پیارے
ہنس کر بولا او دیوانے
تجھ کو تو کچھ خبر نہیں ہے
جس سے تجھ کو پیار ہوا ہے
اس کی آنکھوں میں چمک ہے
اس کی سندر آنکھیں کب سے
پیار میں تیرے دمک رہی ہیں
جانے کب سے یاد میں تیری
رم جھم رم جھم چمک رہی ہیں
میں جو اتنا چمک رہا ہوں
اس کی آنکھوں
کی تو تپش ہے
اس کی آنکھوں
کی تو چمک ہے
اس کی آنکھوں
کی تو دمک ہے

by Rana Rashid Idrees (22.04.2012)

واپڈا کی نئی آفر ☺از نوید صاحب ترمیم راقم☺


گھر چھوڑنے لگے تو کوئی یاد آگیا : فاخرہ بتول

گھر چھوڑنے لگے تو کوئی یاد آگیا
آنسو نکل پڑے تو کوئی یاد آگیا
گھر کو بنانے والا تو کوئی مٹی میں سو گیا
حصّے جو بٹ گئے تو کوئی یاد آگیا
جن کیلئے ٹھکرا دیا وہی
ٹھکرا کر چل دئیے تو کوئی یاد آگیا
دن بھر تو اسکے یاد سے غافل رہے مگر
جلنے لگے دئیے تو کوئی یاد آگیا
اس نے بھی تو کئے تھے ،مگر نبھائے نہیں
وعدے کبھی کئے تو کوئی یاد آگیا

مانگے کے چراغوں سے اُجالا نہیں کرتے : فاخرہ بتول

 ♠♠♣♠♠
مانگے کے چراغوں سے اُجالا نہیں کرتے
پلکوں سے گِرے اشک سنبھالا نہیں کرتے
تاخیر ہوئی ہے تو کوئی وجہ بھی ہو گی
یوں دل میں کوئی واہمے پالا نہیں کرتے
پھر بعد میں رونا پڑے جس کے لیے، اُس کو
یوں خواب جھروکوں سے نکالا نہیں کرتے
جس شخص کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی تم نے
کیوں آکے تم اب اس کو ازالہ نہیں کرتے
پھر اس کے جنازے کو اٹھانا بھی پڑے گا
عزت سرِ بازار اچھالا نہیں کرتے

محبت ذات کے اندر کوئی گُم ذات ہوتی ہے : فاخرہ بتول

محبت ذات کے اندر کوئی گُم ذات ہوتی ہے
محبت کے تعاقب میں ہمیشہ گھات ہوتی ہے

محبت میں خوشی سے موت کو ہم اوڑھ لیتے ہیں
ذرا سوچو کہ اس میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے

محبت شہد میں لپٹا ہوا اک زہر ہے لیکن
محبت جیت ہوتی ہے، محبت مات ہوتی ہے

محبت خود زمانہ ہو کے بھی ہے موسموں جیسی
کبھی یہ صبح ہوتی ہے کبھی یہ رات ہوتی ہے

محبت ایسی خوشبو ہے، کبھی اک جا نہیں رہتی
کسی سے دور ہوتی ہے کسی کے سات ہوتی ہے

محبت ہے سرابوں سے، کہ جیسے ریت مُٹھی ہیں
کسی سے ہات کرتی ہے کسی کے ہات ہوتی ہے

محبت جس کو حاصل ہو، مقدر کا سکندر وہ
محبت رب کی جانب سے حسیں سوغات ہوتی ہے

ہواؤں سے سَدا لڑنے کی عادت : فاخرہ بتول

 ♦♦♣♦♦
ہواؤں سے سَدا لڑنے کی عادت
چراغو! چھوڑ دو جلنے کی عادت
ملے گی تم کو منزل سامنے ہی
اگر خاروں پہ ہو چلنے کی عادت
کہاں سُورج کو دیکھے گا زمانہ؟
بدل دے رات جو ڈھلنے کی عادت
اَزل سے تا اَبد کانٹے وہی ہیں
گُلوں میں اِن کو ہے پلنے کی عادت
یہ دل سمجھا تھا وہ پچھتا رہے ہیں
اور اُن کو ہاتھ ہے ملنے کی عادت

وصل کے روگ بُرے ہوتے ہیں : فاخرہ بتول

 ♥☺♥☺♥
وصل کے روگ بُرے ہوتے ہیں
ہجر کے سوگ برے ہوتے ہیں
ہار میں دل کا ہاتھ ہے کچھ کچھ
اور کچھ لوگ برے ہوتے ہیں
صحراؤں میں کھو جاؤ گے!
عشق کے جوگ بُرے ہوتے ہیں
بستی بس کر مِٹ جائے گی
دل کے روگ بُرے ہوتے ہیں
سُکھ کے بدلے دُکھ دیتے ہیں
کچھ سنجوگ بُرے ہوتے ہیں

وفا کے راہرو کو کیوں سدا برباد دیکھا ہے؟ : فاخرہ بتول


 وفا کے راہرو کو کیوں سدا برباد دیکھا ہے؟
کہا، طوفان میں گِھر کر کوئی آباد دیکھا ہے؟
نہیں ناتہ اگر کوئی تو کیوں آئے تھے سپنے میں ؟
جواب آیا نہیں تھا میں، مرا ہمزاد دیکھا ہے
سنو، کیسے محبت پر ہوا ایمان پھر قائم؟
بتایا، ایک پتھر کو بہت ناشاد دیکھا ہے
زمانے میں کوئی دیکھا ہے جس نے دل کی نا مانی؟
کہا، کچھ ٹھیک سے مجھ کو نہیں ہے یاد دیکھا ہے
سنو، کیوں دید کا دیدار سے رشتہ سدا ٹھرا؟
کہا، خوشبو سے پھولوں کو کبھی آزاد دیکھا ہے؟

وہ جس کا ڈر تھا آخر ہو گیا ناں : فاخرہ بتول


وہ جس کا ڈر تھا آخر ہو گیا ناں
ستارہ آسماں میں کھو گیا ناں
کہا بھی تھا اُسے مرنے نہ دینا
وہ سپنا خاک اوڑھے سوگیا ناں
اُسے دل سے نکلنے ہی دیا کیوں؟
وہ انجانی سی منزل کو گیا ناں
ہے چاہت کو چھُپانے کا نتیجہ!
یہ ڈھیروں بوجھ دل پر ہو گیا ناں
بتول ایسے اُسے دیکھا ہی کیوں تھا؟
وہ اِن آنکھوں میں سپنے بو گیا ناں

وہ دل میں مرے گھات لگا کر ہی رہے گا : فاخرہ بتول



وہ دل میں مرے گھات لگا کر ہی رہے گا
جذبات میں ہلچل سی مچا کر ہی رہے گا
ہر بات میں تکرار کی عادت کے سبب وہ
رشتے میں کوئی چھید بنا کر ہی رہے گا
کہتا ہے، مجھے چاند کو چھونے کی ہے خواہش
اک روز زمیں پر اسے لا کر ہی رہے گا
کچا ہے گھروندا مرا، بادل بھی ہے ضد میں
لگتا ہے کوئی کام دکھا کر ہی رہے گا
گرتی ہے تو سو بار گرے، اُس کی بلا سے
وہ ریت کی دیوار بنا کر ہی رہے گا
شک روگ ہے یہ دل کو اگر چھو لے تو سمجھو
بُنیاد وہ اس گھر کی ہلا کر ہی رہے گا

خشک افریقہ کے نیچے پانی ہی پانی


افریقہ کے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کا یہ سب سے تفصیلی جائزہ ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خشک سالی کے لیے معروف براعظم افریقہ کے نیچے زمینی پانی کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ زمین کے اندر موجود پانی کا کل حجم زمین کی سطح پر موجود پانی سے سو گنا ہے۔
محققین نے اس پوشیدہ ذخیرے کا ایک نہایت تفصیلی جائزہ شائع کیا ہے۔
’اینوائرنمینٹل ریسرچ لیٹرز‘ نامی جریدے میں شائع کیے گئے اس تجزیہ میں انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وسیع پیمانے پر کنویں کھودنا بھی ٹھیک نہ ہوگا۔
افریقہ کے مختلف علاقوں میں تیس کروڑ افراد کے پاس پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔
آئندہ برسوں میں آبادی کے بڑھنے اور کاشتکاری کے لیے آب پاشی کے پیشِ نظر پانی کی مانگ میں اضافے متوقع ہیں۔
موسمی سیلابوں اور خشک سالی کی وجہ سے کاشتکاری کے لیے تازہ پانی کے دریاؤں اور جھیلوں کی رسد محدود رہتی ہے۔ اس وقت قابلِ کاشت زمین کا صرف پانچ فیصد حصے میں آب پاشی کا انتظام ہے۔
اب پہلی بار سائنسدان پورے براعظم کا زیرِ زمین پانی کے ذخائر کا جائزہ لے سکے ہیں۔ برطانوی جیولوجیکل سروے اور یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے مل کر پانی کے ان ذخائر کا ایک تفصیلی نقشہ مرتب کیا ہے۔
افریقہ میں پینے کے ثاف پانی کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔
ہیلن بونسر نے بھی اس تحقیق میں حصہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک تو زیرِ زمین پانی پر غور نہیں کیا گیا تاہم اس تحقیق کے بعد لوگوں کو اس کے ممکنہ فوائد کا اندازہ ہوگا۔
صدیوں پر محیط ماحولیاتی تبدلیوں کی وجہ سے صحارا ایک صحرا بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان زیرِ زمین ذخائر میں آخری بار پانی شاید پانچ ہزار سال پہلے بھرا ہو۔
محققین نے اس تحقیق میں اسی طرح کے موجودہ نقشوں اور حکومتی تحقیقوں سمیت دو سو تراسی مزید تجزیوں کو بھی شامل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک جنہیں ’انتہائی کم پانی والے‘ قرار دیا جا چکا ہے، ان کے نیچے پانے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بہت سارے بڑے بڑے کنویں کھودنے سے بھی مسئلہ شاید حل نہیں ہوگا۔
اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایلن مکڈونلڈ کا کہنا تھا کہ زیرِ زمین پانی کی طرز اور مقامی حالات کو پوری طری سمجھے بغیر بڑے بڑے کنویں نہیں کھودے جانے چاہئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صحیح طور پر مقامات کی نشاندہی اور کم پانی نکالنے والے دستی پمپ یا آہستہ چلنے والے دیہاتی کنویں ہی استعمال ہونے چاہئیں۔ بارش کی کمی کی وجہ سے سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ زیادہ بڑے کنویں کھودنے سے یہ ذخیرہ کہیں ختم نہ ہو جائے۔
ہیلن بونسرکے مطابق پانی نکالنے کے آہستہ طریقے کبھی زیادہ مفید ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ افریقہ میں پینے کے لیے اور کسی حد تک آب پاشی کے لیے زمینی پانی موجود ہے

پاکستان میں فضائی حادثات کی تاریخ

 بین الاقوامی فضائی حادثوں اور ہنگامی مواقع پر نظر رکھنے والے نجی دفتر، ’ائر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس‘ کے مطابق اس حادثے سے قبل پاکستان میں پینتیس ایسے حادثے ہوئے ہیں جن میں سات سو پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

راولپنڈی اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب نجی ائیر لائن کے طیارے کا حادثہ پاکستان کی تاریخ میں کسی نجی کمرشل فضائی کمپنی کا تیسرا حادثہ ہے۔
بھوجا ایئر لائن کی جو پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی ہے اس میں ایک سو ستائیس افراد سوار تھے۔

 پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب ہی اٹھائیس جولائی دو ہزار دس کو پیش آیا تھا جب ایئر بلیو کی ایک سو باون افراد سے بھری ائر بس تین سو اکیس مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔

اس سے قبل دس جولائی سن دو ہزار چھ کو سرکاری ہوائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن کا فوکر طیارہ ملتان ائر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اُس میں پینتالیس افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو بریگیڈئر اور بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔

 
مسافروں کی اموات کا سبب بننے والے حادثوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

جان لیوا حادثات

سرکاری ہوائی کمپنی پاکستان اٹرنیشنل ایئر لائنز یا ابتداء میں پاک ائر ویز، کو گیارہ حادثے اندرونِ ملک ہی پیش آئے جن میں سے پانچ حادثے فوکر طیاروں کے تھے۔
 سن دو ہزار چھ میں ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا۔
پاکستان میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے دس حادثے پیش آئے ہیں۔ آخری حادثہ پاکستان ائر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو بیس فروری سن دو ہزار تین کو پیش آیا۔ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل مصحف علی میر سترہ افسران سمیت مارے گئے تھے۔

دارالحکومت اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں میں اٹھائیس جولائی سن دو ہزار دس کو اندرونِ ملک ہونے والا حادثہ کسی کمرشل نجی ہوائی کمپنی کا پہلا اور ملکی تاریخ کا سب سے جان لیوا فضائی حادثہ ہے۔

پاکستانی فضائیہ کے لیے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ہرکولیس سی ون تھرٹی کے چار حادثوں میں سے سترہ اگست انیس سو اٹھاسی کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِ ذکر ہے جو اس وقت کے صدر اور فوجی آمر جنرل ضیاء الحق سمیت تیس اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔

پاکستانی سرزمین پر گزشتہ تریسٹھ برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے نو فوجی اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے ہیں۔ ان میں سے تین حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔
 تیرہ جنوری انیس سو اٹھانوے کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ایئر کا مسافر طیارہ خوژک پہاڑی سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں اکاون مسافر ہلاک ہوئے اور یہ اٹھائیس جولائی دو ہزار دس سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے زیادہ جان لیوا فضائی حادثہ تھا۔

نو جنوری سن دو ہزار دو کو امریکی ائر فورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی بلوچستان کی شمسی ائر بیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور سات مسافروں کی موت کا سبب بنا۔ یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔
چوبیس فروری سن دو ہزار تین میں ایدھی ائر ایمبولینس کا سیسنا چار سو دو طیارہ کراچی کے قریب آٹھ مسافروں کی موت کا سبب بنا۔

Saturday, 21 April 2012

ہوا سے بات کرنے دو : فاخرہ بتول



ہوا سے بات کرنے دو
ہمیں اس سے گلہ ہے جو،
اُسے بھی تو بتانا ہے
کبھی آ کر کواڑوں کو بجاتی ہے
ہمیں سوتے ہوئے اکثر جگاتی ہے
کبھی پردیس سے سندیسہ لاتی ہے کہ کوئی آنے والا ہے
مگر آتا نہیں کوئی۔۔۔۔۔
یہ پلکوں پر لرزتے سب چراغوں کو بُجھاتی ہے
کبھی یہ بانسری کے سُر جگاتی ہے
کبھی یہ دھڑکنوں کی تال میں رچ بس سی جاتی ہے
پرانے خشک پتوں کو گراتی ہے
پرندوں کو اُڑاتی ہے۔۔۔۔ انہیں بےگھر بناتی ہے
ہوا سے بات کرنے دو
سمندر کے یہ سینے پر اُتر کے کشتیاں دیکھو چلاتی ہے
یہ چاروں اور کیسی آتی جاتی ہے
یہ کیسے ساحلوں کی ریت کو دھیرے سے چھو کر نت نئے چہرے بناتی ہے
پھر ان کو خود مٹاتی ہے
یہ کیسے بادلوں کو پَر بِنا اُڑنا سکھاتی ہے
پھر اُن سے لے کے بوندیں آ کے دھرتی کو سجاتی ہے
نفس کے تار میں کیسے اُتر کر مسکراتی ہے
یہ کیسے گُنگناتی ہے
یہ کیسے چلتی ہے اور کس طرح سے تھم سی جاتی ہے
ہوا سے بات کرنے دو۔۔۔۔۔

قادیانی جماعت کا ہر خلیفہ دردناک موت کا شکار ہوتا ہے۔ ایک سابق قادیانی کے انکشافات

Thanks www.ahwaal.com

میں پیدائشی قادیانی تھا۔جس کا مجھے دکھ ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ۵۵سال قادیانی ماحول میں گزارے جس کا مجھے پچھتاوا ہے، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی گزری ہوئی زندگی ایک خوفناک اژدھے کی مانند دکھائی دیتی ہے جس نے زندگی کی تمام خوصورتیوں کو نگل لیا ہو۔
مجھے بچپن سے ہی جھوٹ سے شدید نفرت ہے اور قادیانیت کی چونکہ بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اس لیے مجھے قدرتی طور پر قادیانیت سے نفرت تھی۔ میں نے کبھی بھی قادیانیت کی تبلیغ نہیں کی۔ نہ ہی کسی الزام لگنے پر قادیانیت کا دفاع کیا۔ کیونکہ بطور قادیانی جتنا اندر سے قادیانیت کو میں جانتا تھا کوئی مسلمان تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں جانتا۔ پھر بھی میں ’’روایتی قادیانی‘‘ کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ یہ ’’روایتی قادیانی‘‘ کون ہیں؟ یہ دراصل عام قادیانی میں جو مرزا صاحب اور ان کے جانشینوں کی جعلی نبوتوں خلافتوں اور حماقتوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ خاموشی سے زندگی گزارے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں ایسے مرزائیوں کی کثرت ہے۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی ان کے نام نہاد خلفاء اور قادیانیوں کی ام المؤمنین(معاذ اللہ) اور چھوٹی آپا اور بڑی آپا کو اپنی نجی محفلوں میں ننگی گالیاں دیتے ہیں لیکن جماعت کے عہدیداروں کے سامنے ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک دوہری زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بجا طور پر منافقت کی زندگی ہے۔ ان کے اعصاب اس دوہری اداکاری سے ٹوٹ چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاء محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مجھے قادیانی زندگی کے عذاب سے نکالاجس کے لیے میں اللہ عزو جل کا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ باقی قادیانیوں کو بھی اس مصیبت سے نکالے۔ آمین یہ قادیانی بے چارے بے حد مجبور ہیں۔ ان کے آپس میں رشتے ہیں جنھوں نے انھیں مجبور کر رکھا ہے کہ خاموشی سے جماعت احمدیہ کے اندر ہی زندگی گزاریں۔ بعض نے تو مجبوری کی بنا پر جماعت احمدیہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ مثلاً میں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار قادیانی کو ڈنمارک کے محمد اسلم علی پوری صاحب کا مضمون پڑھنے کے لییدیا تو اس نے کہاہم نے جماعت نہ چھوڑنے کا اور جماعت کے خلاف مضامین نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ سچ کا تو سامنا کرو۔ کہنے لگا کہ ہم سچے ہیں یا جھوٹے ہم بہرحال یہ جماعت نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا رشتہ داری سب کچھ جماعت کے اندر ہی ہے ہم کہاں جائیں؟ میں نے کہا کہ تمہیں خوف ہے کہ سچ پڑھ لو گے تو جھوٹ بھاگ جائے گا ضمیر ملامت کرتا رہے گا۔ میں یہ منافقانہ زندگی گزارتے تنگ آچکا تھا۔ آخر خدا تعالیٰ کو مجھ پر ترس آگیا اور اس نے مجھے جماعت احمدیہ سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ جب میں نے جماعت احمدیہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کیا تو انھیں بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی قادیانیت چھوڑ کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بڑی جرات کا کام ہے ہمارے ماں باپ بہن بھائی بیویاں بیٹیاں داماد اور سب رشتہ دار دوست احمدی ہیں ہم ان سب کو چھوڑ کر احمدیت سے نکلنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ تم منافقت کی زندگی گزار رہے ہو اسی سے تو یہ زیادہ آسان ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے جماعت احمدیہ کو خیر باد کہہ دو اور حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دو ۔ لیکن وہ یہ جرأت نہ کر سکے اور جب میں نے احمدیت یعنی قادیانیت چھوڑی تو وہ مجھ پر رشک کرتے تھے۔ کیونکہ وہ قادیانیت کے چنگل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں وہ جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور ہیں۔ وہ جماعت کو چندے ادا کرنے سے تنگ ہیں اس مہنگائی کے دور میں غریبوں سے زبردستی چندہ لینا کہاں کی شرافت ہے؟

شرافت کی جبیں پر ہے پسینہ !

میں نے اپنے قادیانی دوستوں کو جب مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی اور جھوٹی نبوت کے بارے میں لٹریچر بھیجا تو انھوں نے مجھے کہا ہمیں لٹریچر دے کر کیا آپ نے ہمارے وارنٹ نکلوانے ہیں؟ میں نے انھیں کہا کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا سمجھتے ہو؟ تو وہ مرزا صاحب اور ان کے متعلقین کو ننگی گالیاں دینے لگے۔ میں ان لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا وگرنہ ان کے لیے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی ان کا ناطقہ بند کر دیں گے مجھے ان پر ترس آتا ہے وہ میری تحریریں پڑھ کر مسکراتے ہیں۔
الفاظ کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں وہ جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔جماعت احمدیہ کے بعض سادہ دل لوگ بڑوں کی بددعا اور لعنتوں سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ کے راہنماؤں کا وطیرہ ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے مخالفوں کو موت سے ڈراتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے زندہ رکھے جسے چاہے اپنے ہاں بلا لے۔ اس لیے وہ کسی ایسی موت کی دھمکی سے نہیں ڈرتے اور اسے ان کی دماغی بیماری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے بڑے جماعت چھوڑ کر چلے جانے والوں اور جماعت کے اندر رہ کر ان کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بددعائیں کرتے ہیں لعنتیں بھیجتے ہیں اور دنیا میں ان کے ذلیل و خوار ہونے کی پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں۔ جب کہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے والے ہمیشہ سرخرو ہوتے ہیں اور یہ ذلیل و خوار!
مرزا غلام احمد قادیانی نے امام مہدی ، مسیح موعود نبی رسول کرشن ہونے اور اس طرح دوسرے مختلفدعوے کیے۔ یہ بیمار ذہنیت کا آدمی تھا جو خود کو حاملہ ہو جانے اور حضرت عیسیٰ کی روح اپنے اندر نفخ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔(کشتی نوح مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۹،صفحہ ۵۰از مرزا غلام احمد قادیانی)
مرزا قادیانی کا ایک صحبت یافتہ قاضی یار محمد لکھتا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی (مردانہ) طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے کے لیے اشارہ کافی ہے۔‘‘ (اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر۱۳۴،ازقاضی یار محمد)

جب سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ گھٹیا سے گھٹیا ذہنیت کے کسی شخص نے بھی خالق کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی پاک ہستی پر ایسا گندا ،گھناؤنا، کفریہ اور شرمناک الزام نہیں لگایا۔ ہو سکتا ہے یہ شیطان ہو جس نے مرزا صاحب کے ساتھ یہ جنسی ڈرامہ کھیلا ہو ۔ مرزا صاحب کے گندے خیالوں اور گندی حرکتوں کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے خوفناک عذاب سے دیا اور دنیا ہی میں اپنی نجاست کے ڈھیر پر اس نے آخری سانس لیا۔ (سیرۃ المہدی،جلد۱صفحہ ۱۱،ازمرزا بشیر احمد ولد مرزا غلام احمد ،روایت نمبر۱۲)

کاش مرزائی مرزا صاحب کے خاتمہ کے حالات پڑھ کر ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیں اور قادیانیت کو خیر باد کہہ دیں! مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ہونے کے بعد ان کے پہلے گدی نشین حکیم نور الدین تھے جن کو قادیانی جماعت’’خلیفہ اول‘‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے بیٹے کی روایت کے مطابق حکیم نور الدین انتہائی گندے شخص تھے جو مدتوں نہیں نہاتے تھے۔ یہ ’’بدبودار قادیانی خلیفہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے گھوڑے کو حکم دیا کہ خلیفہ اوّل کا خاتمہ کر دو۔ وہ خلیفہ بحکم الٰہی اس گھوڑے کے بدکنے سے اس نیچے گرنے لگا تو اس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا اور نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والی جماعت کے خلیفہ کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ جب گھوڑا رکا تو قدرت اپنا حساب پورا کر چکی تھی زخموں نے گنگرین(ناسور) کی صورت اختیار کر لی اور خلیفہ اوّل نور الدین بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے عذابِ الٰہی دنیا میں جھیلتے ہوئے ملک عدم کو سدھار گئے۔ بعد میں خاندان پر بھی مصائب کا پہاڑ ٹوٹا۔ حکیم نور الدین کے درد ناک انجام کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود جسے قادیانی جماعت’’خلیفہ ثانی‘‘ کے نام سے جانتی ہے جانشین ہوا خلافت پر جھگڑا ہوا مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی مرزا قادیانی کی بیوی نے ریشہ دوانیوں سے اپنے نوجوان بیٹے کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ یہ عیاش اور لااُبالی جوان تھا جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری احتجاجاً اس جماعت سے نکل گئے۔ اور اپنا لاہور ی مرزائیوں کا گروپ تشکیل دے دیا۔ بشیر الدین محمود نے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ ان کی قصرِ خلافت نامی رہائشگاہ دراصل ’’قصرِخباثت‘‘ تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں اس مقدس عیاش نے اپنے شکار گرفت میں لانے کے لیے نہایت دلکش پھندے لگا رکھے تھے اسے معصوم لڑکیوں کو رام کرنے کا ایسا سلیقہ آتا تھا کہ قصرِ خلافت کے عشرت کدے میں جانے والی بہت سی عورتیں اپنی عزت لٹا کر واپس آئیں۔ خلیفہ ثانی مذہب کی آڑ میں عصمتوں پر ڈاکے ڈالتا رہا۔ چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں مختلف حیلوں بہانوں سے اس عیاش خلیفہ نے عصمتیں لوٹیں اور ظلم پہ ظلم کرتا رہا۔ اس خلیفہ کی رنگین داستانوں کے قادیانی جماعت کے اپنے ہی لوگوں کے تبصرے حلفی بیانات مباہلے اور قسمیں موجود ہیں۔ خدائے برتر ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ احمدی جماعت کے اس خلیفہ’’ثانی‘‘ جسے قادیانی ’’فضل عمر‘‘ بھی کہتے ہیں کی زندگی کا خاتمہ بھی انتہائی دردناک حالات میں ہوا۔ اسے زندگی کے آخری بارہ سال میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے مرتے دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس کو فالج ہو گیا تھا اس کی شکل و صورت جنونی پاگلوں کی سی بن گئی تھی۔ وہ سر ہلاتا رہتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا اس کے سرکے زیادہ تر بال اڑچکے تھے۔ پھر بھی انھیں کھینچتا رہتا،داڑھی نوچتا رہتا۔ وہ اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پر مل لیا کرتا تھا۔ بہت سے لوگ ان واقعات اور حالات کے عینی شاہد ہیں۔ اس ’’خلیفہ ثانی‘‘ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ میں اٹھانوے فیصد منافق ہیں جس کی بنا پر جماعت کو ان کے پاگل ہونے کی افواہ اڑانی پڑی۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بستر پر گزارنے کے بعد جب یہ شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کا جسم بھی عبرت کا نمونہ تھا۔ ایک لمبا عرصہ تک ایک ہی حالت میں بستر پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش اکڑ کر گویا کہ مرغ کا چرغہ بن چکی تھی۔ ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہری پر گھنٹوں ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ جسم کی کافی دیر تک صفائی کی گئی اور پھر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیز روشنی میں لاش کو اس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر مصنوعی نور نظر آئے لیکن قادیانی تو ساری باتوں سے واقف تھے۔ خدا تعالیٰ ایسے حقیقی انجام اور مصنوعی نور سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے،آمین۔
قادیانی جماعت کے خلیفہ دوم کی تدفین کے بعد اس کے عزیز واقارب اور پوری جماعت احمدیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کے خاطر انھی کے بڑے بیٹے مرزا ناصر احمد گدی نشین ہوئے۔ یہ حضرت گھوڑوں کی ریس کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے اس شہنشاہی شوق نے چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لے لی۔ خلیفہ مرزا ناصر احمد نے ۷۸ سال کی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ایک ۲۷ سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’آج دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا‘‘ اس ۷۸ سالہ بوڑھے دولہا نے اپنے ازکار رفتہ اعضاء میں جوانی بھرنے کے لیے کشتوں کا استعمال شروع کر دیا اور کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ اس کا جسم پھول کر کپا ہو گیا اور آناً فاناً خدائے قہار کے قہر کی گرفت میں آکر کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر ملک عدم کو سدھار گیا۔
آنجہانی مرزا ناصر احمد کا چھوٹا بیٹا مرزا لقمان شادی شدہ تھا اس کا ایک بیٹا تھا۔ مرزا طاہر احمد نے اپنی گدی نشینی کا پروگرام ترتیب دیا تو اس سودے بازی میں اپنی بیٹی کا رشتہ بہت پہلے مرزا لقمان سے کر دیا اس کی پہلی بیوی کو طلاق دلوائی گئی اور اس سے اس کا بیٹا چھین لیا۔ جب مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو ان کے بڑے سوتیلے بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آگئے۔ ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سراپا احتجاج بن گئے اور سڑکوں پر آگئے۔ لیکن انھیں بزور قوت اپنے گھروں میں دھکیل دیا کر ’’خلافت‘‘ پر قبضہ کر لیا گیا۔ مرزاطاہر احمد جماعت کے چوتھے خلیفہ آمرانہ مزاج کے حامل تھے۔ ان کی شروع سے یہ عادت تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے ان کی فرعونی عادات نے نہ صرف مرزا طاہر بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل کیا۔ اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن اپنے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے دور خلافت میں بھی کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں تھی وہ جب چاہتے اور جسے بھی چاہتے پل بھر میں ذلیل کر دیتے ۔ انھوں نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ قادیانی لڑکیوں کو سدا سکھی رہنے کی دعا دینے والا یہ خلیفہ دس لاکھ کا حق مہر لکھوانے کے باوجود اپنی بیٹی کو طلاق سے نہ بچا سکا آخر مرزا لقمان کی پہلی بیوی نے طلاق لینے اور بچہ چھیننے پر بددعا دی ہو گی! مرزا طاہر احمد ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہر احمد چاہتے تھے کہ عورتیں صرف ’’احمدی لڑکے‘‘ ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘پیدا کرنے کی گولیاں دیتے رہے جن میں مردانہ طاقت بند ہونے کا دعویٰ کیا جاتا۔ شاید قدرت ان کے ان ہتھکنڈوں پر ہنس رہی تھی دوسروں کو لڑکے دینے والا یہ ڈاکٹر (ہومیو پیتھک) اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور ان کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جن سے دنیا حقیقت جان گئی۔ خلیفہ طاہر احمد نے اپنی عمر کے آخری چند سالوں میں اس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولے کہ کراماً کاتبین بھی ان کے جھوٹ لکھتے ہوئے حیران ہوتے ہوں گے وہ جھوٹ کی انتہا پر پہنچتے ہوئے ایک روز بیس کروڑ احمدیوں کی جماعت کا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔ ان کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے۔ کبھی باوضو نماز پڑھاتے تو کبھی بے وضو ہی پڑھا دیتے۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع ۔ کبھی دوران نماز ہی یہ کہتے ہو ئے گھر کو چل دیتے کہ ٹھہرو! ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے پیشرؤں کی طرح گرتے پڑتے اٹھتے بیٹھتے لیٹتے روتے مرزا طاہر احمد کی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی پھر پرستاروں کے دیدار کے لیے جب لاش رکھی گئی تو چہرہ سیا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک تعفن اٹھا اور ان پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور لاش بند کر کے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ مناظر براہِ راست ٹی وی پر دیکھے۔ کافی لوگ اس کے گواہ ہیں۔
میں اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ نے تو اپنے روحانی سربراہوں کی حیات اور اموات کو دیکھا ہے پھر قادیانی چنگل سے کیوں نہیں نکل جاتے؟ مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کیونکہ میرا اور آپ کا ۵۵سال کا ساتھ رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اس نے قادیانیت سے نکلنے میں میری غیبی مدد فرمائی ہے اس طرح باقی قادیانیوں کی بھی مدد فرمائے اور وہ منافقت کی زندگی چھوڑ کر حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دیں ۔ آمین یا رب العالمین

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں!!!!!!!!!! افسوس صد افسوس!!!!!!!!!


Thursday, 19 April 2012

حصول روزگار

حصول روزگارکے لیئے اللہ کو ہر وقت یاد کریں کیوں کہ وہی خالق ہے وہی رازق ہے وہی رحمان ہے وہی رحیم ہے۔

فجر کی نماز کے بعد اور سورج کے نکلنے سے پہلے

اول درود شریف

سورت فاتح___________ایک مرتبہ
آیتہ الکرسی___________ ایک مرتبہ
چار قل ______________ ایک مرتبہ

آخر درود شریف



اللہ تعالٰی ہم سب کودوسروں کے لیئے آسانیاں مہیاکرنے والے اور اچھے اخلاق والے بنائے، آمین

جب مجھےلوٹا گیا۔


Tuesday, 17 April 2012

::::::::::::::::::.....سنتی ہو.....:::::::::::::::

سنتی ہو!!!!!
تم میرے دل میں رہتی ہو
میں تو تمہارا ساجن ہوں
ہر پل ،ہر دم اور ہر لمحہ
بس تم سے پیار کرتا ہوں
بس تم پہ ہی تو مرتا ہوں

کہتی ہو!!!!!
میں تمہارا ساجن ہوں
بس تم پہ ناز کرتا ہوں
تم میرے خیالوں میں
ہر پل
تم میرے خوابوں میں
ہر دم
تم میرے سوچ کا محور
ہر لمحہ

بس تم سے پیار کرتا ہوں
بس تم پہ ہی تو مرتا ہوں

Thursday, 12 April 2012

بہتر مخلوق، انتخاب:تلاش: ممتاز مفتی


میڈھیا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں!!!!!



ناجانےکیوں سیاچین کی برف نے میرے آنسووں کوبھی منجمد کر دیا ہے، دل اسی وسوسے اور خوف میں مبتلا ہے کہ ابھی تک منوبرف تلے دبے ہوئے پاک فوج کے جوانوں کا کیا ہوا ہو گا۔ بہت کوشش کی جارہی ہے لیکن شاید ابھی تک کوئی نشان بھی نہیں ملا۔

کیا ابھی بھی امید کرنی چاہئے?

اگر میں یہ سوال سب سے پوچھوں تو نا جانے کیا جواب آئے لیکن دل کہتا ہے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے۔

کانوں میں پھر ایک آوازسرسراتی ہے

"میڈھیا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں"
"تینوں رب دیاں رکھاں"

کاکول سے پاس آوٹ کرنے والے اس فوجی جوان نے کبھی سوچابھی نا ہوگا کہ اچانک ایک دن ایسا آئے گا جب اس کے حرکت کرنے سے قبل ہی اس پرایک ایسی آفت کا حملہ ہو گا کہ جس کے خلاف نا تو وہ بندوق تان سکتا ہے اور نا ہی پستول-
 
وہ سرد ہوا جو کبھی اسے ماں کی لوری اور باپ کی شفقت بھر سرگوشیاں سناتی ہوگی وہ اچانک اتنی اجنبی ہو جائے گی،
 
جو اس کے معصوم بیٹے کی پہلی کلکاری اس تک پہنچاتی ہوگی اور اچانک سے اتنی بے رحم ہوجائےگی،
 
وہ یخ بستہ ہوا جو اس کو ارض پاک کے ازلی دشمنوں کے سامنے اقبال کے عقاب کی مانند اڑاتی ہو گی وہی ہوا آج اتنی ظالم ہو جائے گی کہ اس کو کئی من وزنی برف کے نیچے چند سانسیں دینے کی روادار بھی نہیں ہوگی۔


نا جانے کیا کیا باتیں اور وسوسے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر اسی سرد ہوا کے ساتھ کہیں گم ہو جاتے ہیں۔

اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!!!!!!
تمہں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔

Monday, 9 April 2012

سیاچین گریندیاں برفاں

سیاچین گریندیاں برفاں
 ایناں برفاں توں میں نا ہرساں
 کہ ایک پھول موتیے دا 
مارکے جگا سوہنئے

اردو:
سیاچین میں برف گرر ہی ہے
اس برف سے میںنہیں ہاروں گا
ایک پھول مجھے مارو
اور جگا دو میری محبوبہ۔

یہ ہے وہ گانا جسے سننے کے بعد میری آنکھوں کے آگے سفید برف، پاکستان آرمی کے سیاچن گلیشیئر کا گیاری سیکٹر،سِکس ناردرن لائٹ انفنٹری کا صدر دفتر وہاں پر تعینات ایک سو پینتیس افراد کا فوجی اور غیر فوجی عملہ آگیا ہے۔

اور پھر دماغ سننے اور سمجھنے سے بلکل قاصر ہو گیا۔ صرف دل ہے جو دھڑک رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس معجزے کی دعا کر رہا ہے جو ہمارے ان جوانوں کو اس تقریباایک مربع کلومیٹر چوڑے اور سو فُٹ گہرے تودے سے نکال لائے۔

یہ کوئی حادثہ تھا یا سازش یہ کہنا یا سوچنا کافی جلد بازی ہوگی، حقائق کیا ہیں یہ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے۔ بس دعا ہے کہ اللہ تعالٰی کوئی معجزہ کردے اور کسی طرح سے ہمارے سب فوجی جوانوں کو زندہ سلامت اس آفت ناگہانی سے باہر نکال دے۔
آمین ثم آمین


سب سے دعا اور تہہ دل سے دعا کی گزارش ہے۔

حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے________

ظہیرالدین بابر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان کی فوج آج ایسے نقصان سے دوچار ہے جسے شاید اُس کی تاریخ کے سب سے بڑے غیر جنگی نقصان میں شمار کیا جائے گا۔

سیاچن گلیشیئر کا گیاری سیکٹر، دنیا کے سب سے اونچے میدانِ جنگ کے دل کا کردار ادا کر رہا تھا جہاں آج سِکس ناردرن لائٹ انفنٹری کا صدر دفتر وہاں پر تعینات ایک سو پینتیس افراد کے فوجی اور غیر فوجی عملے سمیت برف کے وسیع تودے تلے دبا ہوا ہے۔
اتوار کو علاقے کا دورہ کرنے والے ایک دوست کے بقول ’برف کے میدان میں نام و نشان نہیں دکھائی دیتا کہ یہاں ایک بٹالین کا ہیڈکوارٹر تھا۔ امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچنے والی بھاری مشینری چیونٹیوں کی طرح دکھائی دیتی ہے‘۔

خیال ہے کہ ایک مربع کلومیٹر چوڑے برفانی تودے کی گہرائی سو فُٹ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی اِتنی کھدائی کے بعد ہی فوجی نام و نشان ملنا شروع ہو سکتے ہیں۔

حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو نہ صرف جانی بلکہ دفاعی اعتبار سے بھی پاکستانی فوج کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ اگرچہ سیاچن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہے لیکن روایتی حریف ہونے کے باعث، دونوں افواج کا سیاچن جیسے یخ بستہ مقام پر بھی چوکنا رہنا ناگزیر ہے۔

گیاری سیکٹر کے دب جانے سے اگلی سرحدی چوکیوں کے راشن پانی اور اسلحے کی ترسیل کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے یا دنیا کی مشکل ترین فوجی سپلائی لائن کا زخم بھرنے کے لیے دوبارہ کتنے جتن کرنا پڑیں گے، اِن سوالوں کے جواب، دفاعی نزاکت کے باعث شاید پاکستانی فوج مستقبل قریب میں نہ دے لیکن ایک سو پینتیس افراد کے لیے اُن کے عزیز و اقارب کے ہاں، حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے کہ حقیقت مان کر صفِ ماتم بچھائی جائے یا امید کی دعا کے لیے صف آراء ہوا جائے۔

میجر ذکاء الحق بھی گیاری سیکٹر میں موجود تھے جب برفانی تودے نے اُن کے ہیڈ کوارٹر کو آ لیا۔ مجھ سمیت، اُن کے تمام دوست اور والدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

ضلع مظفر گڑھ کے قصبے چوک مُنڈا میں اُن کے زمیندار والد سردار عبدالحق چانڈیہ کے ہاں خیر خبر لینے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے لیکن وہ اِس کشمکش میں ہیں کہ خیر بتائیں یا خبر۔ مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بھی، وہ تازہ صورتحال جاننا چاہتے تھے۔

’پہلے موت کی خبر آئی اور پھر ملتان سے ایک بریگیڈئر صاحب نے آ کر حوصلہ دیا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ دعا کریں‘۔

چوک مُنڈا یا چوک سرور شہید جیسے پسماندہ پاکستانی قصبوں میں بہت کم گھرانے ایسے ہوتے ہیں، جہاں پر آٹھ بھائیوں میں سے ایک افسری کے پھول پہنتا ہے اور اُس کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن جاتی ہے۔

میجر ذکاء الحق اُن لوگوں میں سے ہیں جو خاندان، قصبے اور معاشرے کی وراثتی اور روایتی حدوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، قابلیت کے بل بوتے پر نیا مقام بناتے ہیں۔

انیس سو ترانوے میں مجھ سے ایک جماعت پیچھے ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں آٹھویں جماعت کے لیے داخلے کا امتحان پاس کیا۔

مظفر گڑھ کے نامور مثالی پبلک سکول میں ٹاٹوں، مٹی کے میدانوں اور درختوں کی چھاؤں تلے، صاف اور میلے کپڑوں سے بے نیاز ہو کر، فارغ التحصیل ہونے کے بعد، کیڈٹ کالج کی فوجی چمک دمک اور نظم و نسق میں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا جس کا احساس مجھے ذکاء الحق کے ایک سال بعد وہاں پہنچنے پر ہوا۔

وہاں ذکاء الحق مجھ سے سینئر ہو گئے اور چار سال کے دوران، ہر موقع پر میں نے انہیں، روایتی حدیں توڑ کر آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ زندہ دل شخصیت کے ساتھ ساتھ، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں سے نام بنایا۔

ہاکی، باسکٹ بال، ایتھلیٹکس اور گھُڑ سواری کے علاوہ اُن کی ایک تقریر میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے جو انہوں نے ایک مقابلے کے دوران، ٹھیٹ سرائیکی ہونے کے باوجود، خالص انگریزی لہجے میں کی لیکن اپنے دیہی خد و خال کے باعث، انگریز ظاہری پن پر زیادہ یقین رکھنے والے جج صاحبان کو اول پوزیشن کے لیے مرعوب نہ کر سکے۔

بالآخر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں انہوں نے بہترین مقرر کا اعزاز حاصل کیا جہاں ایک سو پانچ لانگ کورس میں انہیں دو ہزار دو میں کمیشن ملا۔ سیاچن میں پوسٹ ہونے سے پہلے وہ پاکستان کے فعال محاذ جنوبی وزیرستان میں تعینات رہے اور اقوامِ متحدہ کے مشن پر بیرونِ ملک بھی گئے۔

یہی شخصی یادیں ہیں جو شاید آج امید کا سہارا نہیں چھوڑنے دے رہیں۔ میجر ذکاء الحق کے فیس بُک نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اُن کے دوستوں کو جمع کر دیا ہے۔

فوج نے تو سیاچن جیسے مشکل مقام پر تعیناتی کے لیے اپنے افسر پر جو محنت اور سرمایہ کاری کی ہو گی، لیکن دوست احباب کے فیس بُک پیغامات سے یہی لگ رہا ہے کہ ذکاء جیسا بندہ، سو فٹ گہری برف کے نیچے سے نکل باہر آئے گا۔
ہر چند منٹ بعد ذکاء کی فیس بُک پروفائل پر کوئی دوست، اُن کے ساتھ اپنی پرانی تصویر شائع کر رہا ہے، کوئی اگلی ظہر پر ساتھ دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی اُن کی زندگی کی دعاؤں کا طلبگار ہے۔

سیاچن میں پوسٹِنگ کے بعد اور روانگی سے پہلے میجر ذکاءالحق نے ایک شعر پوسٹ کیا تھا۔

’کھڑے ہیں سرحدِ ایماں پہ، کے ٹو کی طرح

دشتِ کفر سے سیاچن کو بچانے کے لیے‘

اور ساتھ ہی انہوں نے لکھا، ’کچھ دن بعد میں وہاں ہوں گا جہاں عاصمہ جہانگیر کو ہونا چاہیے‘۔ پانچ جولائی دو ہزار گیارہ کی اِس پوسٹ پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ شاید اسی لیے میجر ذکاء نے بھی نہیں بتایا کہ عاصمہ جہانگیر کو سیاچن میں کیوں ہونا چاہیے؟

لیکن میجر ذکاء الحق کی فیس بُک پر جس آخری پوسٹ نے میری توجہ کھینچی، وہ ایک ویڈیو ہے جو انہوں نے پچیس فروری کو یو ٹیوب سے لِنک کی۔ ویڈیو میں شہزادی جیسی گڑیا کا کیک بنانے کی ترکیب بتائی گئی ہے۔ ذکاء کی بڑی بیٹی مریم تین سال کی ہے اور بیٹا جہانزیب ایک سال کا ہو گیا ہے۔

فیس بُک کے محبوب قول کے حصے میں میجر ذکاء الحق نے یہ تحریر ہمیشہ کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ ’امید ایک اچھی چیز ہے، شاید بہترین چیز اور اچھی چیز کبھی نہیں مرتی‘۔