حامد میر ... اسامہ بن لادن تاریخ کا حصہ
اسامہ بن لادن تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن القاعدہ اب
بھی ایک نئی تاریخ بنانے کیلئے پر عزم ہے ۔ امریکی حکام نے اسامہ کی شہادت کے بعد بجا طور پر یہ دعویٰ کیا کہ اب القاعدہ ایک کمزور تنظیم ہے لیکن وہ
یہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اب بھی اسامہ کی سوچ اور نظریہ
افغانستان سے لیکر یمن تک اور عراق سے فلسطین تک لڑنے والے جنگجوؤں کو ابھی
بھی متاثر کئے ہوئے ہے۔شہید اسامہ بن لادن بالکل ویسے ہی خطرناک ہے جیسا
کہ وہ اپنی زندگی میں تھا۔اوباما انتظامیہ نے 2مئی2011ء کو ہونے والی اسامہ
کی شہادت کے بعد سے امریکا میں کم از کم دہشت گردی کے 8 منصوبے ناکام
بناچکا ہے ۔صدر اوباما اسامہ کی شہادت کا سہرا تو اپنے سر باندھ سکتے ہیں
لیکن شاید وہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اسامہ نے اپنی مرضی کی موت منتخب کی
۔ یہ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ دشمن کی گرفت میں نہ آئے لیکن دشمن اسے
قتل کرے اور انہیں کسی قبر میں دفن نہ کیا جائے ۔اسامہ بن لادن نے ہمیشہ
اپنے ایک پرانے وقتوں کے دوست شفیق المدنی کی طرح شہادت کے حصول کی دعا
کی۔
شفیق کا نام میں نے پہلی بار اسامہ کی زبان سے 1997میں سنا۔ میں پہلا
پاکستانی صحافی تھا جس نے 1997میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کی اور میں آخری
صحافی ہوں جس نے 9/11کے 7ہفتوں کے بعد اسامہ کا انٹرویو کیا تھا ۔میں نے
1998میں اسامہ کی سوانح عمری تحریر کرنا شروع کی اور ایک بار میں اس سے ان
لوگوں کے بارے میں پوچھا جنہوں نے اسے متاثر کیا اور اس کی زندگی پر گہرے
اثرات مرتب کئے۔اسامہ بن لادن کا کہنا تھا کہ وہ اس لحاظ سے انتہائی خوش
قسمت رہا کہ اسے شفیق المدنی جیسا بہادر دوست ملا جس کو شہادت سے عشق تھا۔
شفیق کا تعلق مدینہ سے تھا اور وہ فٹبال کا بہترین کھلاڑی تھا لیکن اس نے
سویت فوج کے خلاف جہاد میں اسامہ کے ساتھ افغانستان میں حصہ لیا ۔ وہ
1989کے جلال آباد والے معرکے میں اولین صفوں میں تھا۔شفیق المدنی کی خواہش
تھی کہ اس کی شہادت منفرد و مختلف ہو۔ایک بار اس نے اسامہ سے کہا تھاکہ ’اے
میرے شیخ اسامہ میرے لئے دعا کیا کرو جب میں شہید ہو جاؤں تو جانورں اور
پرندوں کا معدہ میری قبر بنے ، میں مٹی میں دفن ہونا نہیں چاہتا ،میری
خواہش ہے کہ بروز قیامت پرندے اور جانور اللہ کے سامنے عرض کریں کہ اے خدا
شفیق المدنی کا جسم اسلام کے دشمنوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا کیونکہ وہ اللہ
کی راہ میں لڑ رہا تھا۔‘اسامہ نے بتایا کہ شفیق المدنی کو روسی ٹینک تباہ
کرنے میں خصوصی مہارت حاصل تھی ۔ ایک روز شفیق اور اسکے دو اور ساتھی عرب
جنگجو جلال آباد جنگ میں روسیوں کے گھیرے میں آگئے۔تینوں نے بھاگ نکلنے کی
بہت کوشش کی لیکن وہ ہر سمت سے گھر چکے تھے۔شفیق دونوں سے سینئر تھا ۔ اس
نے فیصلہ کیا کہ وہ ساتھیوں کو بھاگ نکلنے کا موقع فراہم کرے گااور اس نے
ساتھیوں کو ایسا ہی کہا ۔ اس نے سامنے سے اپنی جانب بڑھتے ٹینک کو تباہ
کیالیکن بائیں جانب سے آنے والے ایک اور ٹینک کا نشانہ بن گیا۔اس کا جسم
چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گیا اور اس کا خواب پورا ہو گیا۔وہ دشمن کی
سرزمین پر مارا گیا اور اس کی لاش بھی نہیں ملی۔اس کی تدفین بھی نہیں
ہوئی۔جانوروں اور پرندوں کا معدہ ہی اس کی قبر بن گیا۔
اسامہ بن لادن نے
کہاکہ ’اللہ تعالی نے شفیق المدنی کا خواب پورا کردیا ، وہ شہید ہوا اور
میری اللہ سے دعا ہے کہ مجھے بھی شفیق المدنی کی طرح شہادت نصیب ہو جو کہ
قبر میں دفن ہونا ہی نہیں چاہتا تھا۔‘اسامہ شفیق المدنی سے حد درجے متاثر
تھا کہ اس نے ایک اسپیڈ بوٹ خریدی اور اسے جدہ کی بندرگاہ ہر بن لادن مرینہ
میں کھڑا کردیا۔ اسامہ بن لادن نے اس بوٹ کو شفیق المدنی کا نام دیا۔ بوٹ
کا انجن تبدیل کرکے اس میں زیادہ پاورفل انجن لگایا گیا۔ یہ ’شفیق المدنی
بوٹ ‘ القاعدہ کے بحری آپریشنز کی تربیت کیلئے پہلا قدم تھا۔اسامہ بن لادن
کو سمندر سے بڑی محبت تھی ۔اسامہ نے بحیرہ قلزم میں مچھلی کے شکار کے دوران
سید قطب کی کئی کتابیں پڑھیں ۔اسامہ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا امریکی
میرینز اسے مارنے کے بعد سمندر برد کر دیں گے ، اسکی لاش غائب ہو جائے گی
اور اسے اپنے دوسف شفیق المدنی کی طرح کسی قبر میں دفن بھی نہیں کیا جائے
گا۔اوباما انتظامیہ نے القاعدہ کو قبر تو نہیں دی لیکن اسے ایک شہید ضرور
دیدیا ہے ۔ پاکستانی حکام نے ایبٹ آباد میں وہ مکان جہاں 2مئی کو اسامہ
ہلاک کیا گیا تھا ڈھا دیا ہے لیکن القاعدہ کو تباہ نہیں کیا جا سکا۔اوباما
انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ ایمن الظواہری اب بھی پاکستانی سرزمین پر موجود ہو
سکتے ہیں ، لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد سے امریکا اور پاکستان کے
مابین القاعدہ کے خلاف تعاون کا فقدان ہے۔پاکستان نے سی آئی اے کو اسامہ کے
اہلخانہ سے تفتیش کے لئے مکمل رسائی نہیں دی ۔یہ پورا خاندان چند روز قبل
سعودی حکام کے حوالے کیا جا چکا ہے ۔پاکستانی اس معاملے میں انتہائی محتاط
ہیں کیونکہ انہیں القاعدہ کی جانب سے انتہائی ردعمل کا خطرہ تھا۔ان کو
بخوبی علم ہے کہ القاعدہ کے کئی رہنماء بڑے شہروں جیسے کراچی وغیر میں
خاموشی سے روپوش ہیں اور وہ کسی بھی وقت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔پاکستان
القاعدہ کو ہلکالینے کیلئے کیوں تیار نہیں ہے؟ ان کو پتہ ہے القاعدہ کے
آپریٹر گذشتہ برس کراچی میں مہران بیس پر ہونے والے حملے کے بعد کراچی سے
افغانستان منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے ۔القاعدہ کے ان آپریٹرز نے افغان
طالبان کو نیٹو فورسز پر زیادہ منظم حملے کرنے میں مدد کی ۔ انہوں نے
طالبان کو یہ نصیحت بھی کی کہ وہ پاکستان کی امریکا سے مذاکرات شروع کرنے
کی بات پر کان نہ دھریں ۔القاعدہ کے بیشتر آپریٹرز لڑنے والے جنگجو نہیں
ہیں لیکن وہ دہشت گردی میں بھرپو ر معاونت فراہم کرتے ہیں۔یہ خود دہشت نہیں
پھیلاتے بلکہ یہ دہشت گردی کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔افغانستان میں
قرآن پاک کی بے حرمتی اور امریکی قید میں پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی جیسے
واقعات القاعدہ دہشت مشاورت کاروں کیلئے مسلمان نوجوانوں کے مذہبی جذبات
ابھارنے کیلئے کافی ہیں ۔اوباماانتظامیہ کو دنیا کویہ لازمی بتانا چاہیے کہ
امریکی مسلمان جیسے سمیع اوسماکاک اور امین الخلیفی کو امریکا میں دہشت
گردی کے حملے کی ترغیب کس نے دی۔یہ دونوں رواں برس جنوری اور فروری میں
گرفتار ہوئے تھے۔ یہ دونوں کبھی بھی پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی افغانستان
گئے ، وہ اپنی پوری زندگی میں کسی القاعدہ رہنماء سے نہیں ملے لیکن پھر بھی
ان کے دلوں میں امریکا کے خلاف نفرت کیسے پیدا ہو گئی ۔