Monday, 30 April 2012

ماں کا قرض

===========================
فرانس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں سات آٹھ سال کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی ضعیف ماں بھی رہتی تھی۔ اس کی ماں جنگل سے لکڑیاں توڑ توڑ کر لاتی اور شہر میں جا کر بیچ دیتی۔ اس طرح دن بھر میں جتنی مزدوری وہ کما لاتی تھی اس سے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالا کرتی تھی۔ بدقسمتی سے ایک دن اچانک وہ بیمار پڑ گئی اور دوسرے دن ہی اس کا انتقال ہوگیا۔

لڑکا اس کی ماں کے موت سے بے حد غمگین ہوگیا کیونکہ اس کا کوئی سہارا نہیں رہ گیا۔ ایک دن یہ معصوم لڑکا بیٹھا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ یہ پی
سہ بھی کیا عجیب چیز ہے ، پیسے کی بدولت ہی سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اب مجھے بھی کسی طرح پیسہ کمانا ہوگا، یہی سوچ کر اس نے نوکری کی تلاش کرنے شروع کی۔ اور ایک ہوٹل میں اس کو نوکری مل گئی۔ بڑی محنت اور لگن سے وہ گاہکوں کی خدمت کرنے لگا۔ جو کچھ بھی وہ کماتا تھا اُسے وہ اپنی پڑھائی پر خرچ کرتا تھا۔ اس نے آدھی زندگی مفلسی میں گزاری تھی ، پڑھ لکھ کر وہ ایک دن فوج میں بھرتی ہوگیا۔ وہ بڑا محنتی اور بہادر تھا۔ دھیرے دھیرے اُسے فوج میں ترقی ملتی گئی، اور ایک دن وہ فوج کا آفیسر بن گیا۔

ایک دن
وہ تفریح کی غرض سے اپنی درسگاہ کی طرف نکل گیا، درسگاہ دیکھ کر اُسے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیا۔ آہستہ آہستہ بچپن کے دنوں کے واقعات اس کے ذہن سے اُتر کر اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے درسگاہ کے قریب بیٹھے لوگوں سے اس نے سوال کیا۔ ’’مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے اس درسگاہ کے پاس ایک پھل بیچنے والی عورت رہا کرتی تھی ، کیا آپ لوگ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ آج کل کہاں ہے؟‘‘
لوگوں نے اس عورت کا پتہ دے دیا، وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اُس چھونپڑی کے پاس پہنچ گیا، جہاں وہ پھل بیچنے والی
عورت رہا کرتی تھی۔


عورت کے پاس پہنچ کر اُس نے پوچھا ’’ماں جی! کیا آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘

عورت نے اُس کو غور سے دیکھنے کے بعد بھی پہچان نہ سکی، کون ہو تم؟ اور میرے پاس کیوں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا ’’میں اچھی طرح آپ کو پہچانتا ہوں۔ برسوں پہلے آپ اس درسگاہ کے پاس پھل بیچا کرتی تھیں ہے نا۔‘‘
عورت نے کہا ’’ہاں !یہ ٹھیک ہے، لیکن تمہیں اس سے کیا سروکار ہے؟‘‘
اس نے کہا ’’شاید آپ کو یاد ہوگا کہ ایک لڑکا آپ سے پھل لیا کرتا تھا، وہ لڑکابے حد غریب تھا، کبھی کبھی اُدھار لیا کرتا تھا، اور کبھی پیسے ادا کرتا تھا۔

عورت نے کہا ’’درسگاہ کے بہت سارے لڑکے مجھ سے پھل خریدا کرتے تھے ۔ لیکن مجھے اب تو اتنا یاد نہیں کہ کون غریب تھا اور کس نے پیسے نہیں چکائے۔‘‘

اُس شخص (روہانسی آواز میں) نے کہا: ’’وہ غریب لڑکا آپ کے سامنے کھڑا ہے۔‘‘
میں آپ کا قرض ادا کرنے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اگر آپ مجھے بتادیں گی کہ کتنا باقی رہ گیا تھا میں فوری آپ کا قرض ادا کر دوں گا اور آپ کا قرض ادا کرنے سے مجھے بے حد خوشی ہوگی۔

عورت نے کہا، بیٹا مجھے اس بڑھاپے میں اب کچھ یاد نہیں آتا ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ میں تمہاری آواز کو پہچان گئی ہوں، بچپن میں تم بہت شریر تھے۔ اکثر میری ٹوکری سے ایک دو پھل اُڑا لے جاتے تھے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ اتنے دنوں کی بات تم اب کیوں یاد کررہے ہو۔ اور ایک معمولی سی بات کے لیے تم کتنی دور سے چل کر میرے پاس آئے ہو۔ خیر میں تمہیں بتا رہی ہوں کہ میرا کوئی قرض تمہارے پاس باقی نہیں ہے۔ تم اس بات کو بھول جاؤ اور ہمیشہ خوش رہا کرو اور دوسروں کی خدمت کیا کرو۔ یہی میری نصیحت ہے ، اب تم جاؤ اور میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔


جانتے
ہیں وہ شخص کون تھا

 وہ شخص فرانس کا بادشاہ نپولین بونا پاٹ تھا، عورت کی باتیں سُن کر بادشاہ کو بڑی خوشی ہوئی۔ اُس نے کوٹ کی جیب سے ایک تھیلی نکالی اور اُس عورت کے قدموں میں رکھ دی۔ تھیلی میں کافی مقدار میں سونے کی مہریں تھیں، بادشاہ خاموشی سے لوٹ گیا اور عورت اس کو تعجب سے دیکھتی رہی۔

اُس کے جانے کے بعد آس پاس کے لوگ عورت کے پاس آئے اور اُس ے پوچھا ’’ماں جی! کیا آپ جانت
ی ہیں وہ کون تھا؟
عورت نے کہا ’’نہیں میں نہیں جانتی۔ لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ وہ مجھ سے پھل خریدا کرتا تھا۔
لوگوں نے عورت کو بتایا ’’ماں جی ابھی جو آپ کے گھر آئے تھے وہ فرانس کے بہت بڑے بادشاہ ہیں، بڑی خوش قسمت ہیں آپ۔
اتنا سُن کر عورت نے کہا ’’کیسا ایماندار تھا وہ ، سچ ہے انسان کی ایمانداری اور اچھا اخلاق ہی ترقی کی منزلوں پر لے جاتا ہے۔

جب عورت مر گئی تو بادشاہ نے اُس کی ایک سونے کی قدم آدمی مورتی بنوائی اور اپنے محل کے سامنے ہی اس کو نصب کروایا، مورتی کے اوپر سونے کے حرفوں میں کتبہ درج تھا
ماں کا قرض

2 comments:

  1. جس نے ماں کا قرض ادا کیا وہ سرخرو ہو گیا

    ReplyDelete
  2. she was not her mother.... then why ماں کا قرض?????

    ReplyDelete