منور چشتی
اٹھ کر تیری محفل سے جو تنہا سا گیا ہے
دستور محلات کو ٹھکرا سا گیا ہے
حالات کی یخ بستہ روایت بدل کر
ٹھٹرتے ہوئے ماحول کو سلگا سا گیا ہے
گزری ہے تیرے بعد کچھ اس طرحہر ایک شب
ہر لمحہ تری یاد کو دہرا سا گیا ہے
راستے میں اگر تھا بھی تو چشم زہر آب
منزل کی طرف جو بھی گیا پیاسا گیا ہے
الجھے ہیں تیری زلف گرہ گیر میں جب سے
تقدیر کا ہر راستہ بل کھا سا گیا ہے
لوٹے ہیں تو وہ گرد مسافت ہے بدن پر
آئنیہ ہمیں دیکھ کر دھندلا سا گیا ہے
دستور محلات کو ٹھکرا سا گیا ہے
حالات کی یخ بستہ روایت بدل کر
ٹھٹرتے ہوئے ماحول کو سلگا سا گیا ہے
گزری ہے تیرے بعد کچھ اس طرحہر ایک شب
ہر لمحہ تری یاد کو دہرا سا گیا ہے
راستے میں اگر تھا بھی تو چشم زہر آب
منزل کی طرف جو بھی گیا پیاسا گیا ہے
الجھے ہیں تیری زلف گرہ گیر میں جب سے
تقدیر کا ہر راستہ بل کھا سا گیا ہے
لوٹے ہیں تو وہ گرد مسافت ہے بدن پر
آئنیہ ہمیں دیکھ کر دھندلا سا گیا ہے
No comments:
Post a Comment