ظہیرالدین بابر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کی فوج آج ایسے نقصان سے دوچار ہے جسے شاید اُس کی تاریخ کے سب سے بڑے غیر جنگی نقصان میں شمار کیا جائے گا۔
سیاچن گلیشیئر کا گیاری سیکٹر، دنیا کے سب سے
اونچے میدانِ جنگ کے دل کا کردار ادا کر رہا تھا جہاں آج سِکس ناردرن لائٹ
انفنٹری کا صدر دفتر وہاں پر تعینات ایک سو پینتیس افراد کے فوجی اور غیر
فوجی عملے سمیت برف کے وسیع تودے تلے دبا ہوا ہے۔
اتوار کو علاقے کا دورہ کرنے والے ایک دوست کے بقول ’برف کے میدان میں
نام و نشان نہیں دکھائی دیتا کہ یہاں ایک بٹالین کا ہیڈکوارٹر تھا۔ امدادی
کارروائیوں کے لیے پہنچنے والی بھاری مشینری چیونٹیوں کی طرح دکھائی دیتی
ہے‘۔
خیال ہے کہ ایک مربع کلومیٹر چوڑے برفانی تودے کی
گہرائی سو فُٹ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی اِتنی کھدائی کے بعد ہی فوجی نام و نشان
ملنا شروع ہو سکتے ہیں۔
حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو نہ صرف جانی بلکہ
دفاعی اعتبار سے بھی پاکستانی فوج کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ اگرچہ
سیاچن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہے لیکن روایتی حریف ہونے
کے باعث، دونوں افواج کا سیاچن جیسے یخ بستہ مقام پر بھی چوکنا رہنا
ناگزیر ہے۔
گیاری سیکٹر کے دب جانے سے اگلی سرحدی چوکیوں کے
راشن پانی اور اسلحے کی ترسیل کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے یا دنیا کی مشکل
ترین فوجی سپلائی لائن کا زخم بھرنے کے لیے دوبارہ کتنے جتن کرنا پڑیں گے،
اِن سوالوں کے جواب، دفاعی نزاکت کے باعث شاید پاکستانی فوج مستقبل قریب
میں نہ دے لیکن ایک سو پینتیس افراد کے لیے اُن کے عزیز و اقارب کے ہاں،
حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے کہ حقیقت مان کر صفِ ماتم بچھائی جائے یا
امید کی دعا کے لیے صف آراء ہوا جائے۔
میجر ذکاء الحق بھی گیاری سیکٹر میں موجود تھے جب
برفانی تودے نے اُن کے ہیڈ کوارٹر کو آ لیا۔ مجھ سمیت، اُن کے تمام دوست
اور والدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
ضلع مظفر گڑھ کے قصبے چوک مُنڈا میں اُن کے
زمیندار والد سردار عبدالحق چانڈیہ کے ہاں خیر خبر لینے والوں کا تانتا لگا
ہوا ہے لیکن وہ اِس کشمکش میں ہیں کہ خیر بتائیں یا خبر۔ مجھ سے ٹیلی فون
پر بات کرتے ہوئے بھی، وہ تازہ صورتحال جاننا چاہتے تھے۔
’پہلے موت کی خبر آئی اور پھر ملتان سے ایک بریگیڈئر صاحب نے آ کر حوصلہ دیا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ دعا کریں‘۔
چوک مُنڈا یا چوک سرور شہید جیسے پسماندہ پاکستانی
قصبوں میں بہت کم گھرانے ایسے ہوتے ہیں، جہاں پر آٹھ بھائیوں میں سے ایک
افسری کے پھول پہنتا ہے اور اُس کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن
جاتی ہے۔
میجر ذکاء الحق اُن لوگوں میں سے ہیں جو خاندان، قصبے اور معاشرے کی
وراثتی اور روایتی حدوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، قابلیت کے بل بوتے پر نیا
مقام بناتے ہیں۔
انیس سو ترانوے میں مجھ سے ایک جماعت پیچھے ہونے
کے باوجود انہوں نے پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک، کیڈٹ کالج
حسن ابدال میں آٹھویں جماعت کے لیے داخلے کا امتحان پاس کیا۔
مظفر گڑھ کے نامور مثالی پبلک سکول میں ٹاٹوں، مٹی
کے میدانوں اور درختوں کی چھاؤں تلے، صاف اور میلے کپڑوں سے بے نیاز ہو
کر، فارغ التحصیل ہونے کے بعد، کیڈٹ کالج کی فوجی چمک دمک اور نظم و نسق
میں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا جس کا احساس مجھے ذکاء الحق کے
ایک سال بعد وہاں پہنچنے پر ہوا۔
وہاں ذکاء الحق مجھ سے سینئر ہو گئے اور چار سال
کے دوران، ہر موقع پر میں نے انہیں، روایتی حدیں توڑ کر آگے بڑھتے ہوئے
دیکھا۔ زندہ دل شخصیت کے ساتھ ساتھ، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں سے نام
بنایا۔
ہاکی، باسکٹ بال، ایتھلیٹکس اور گھُڑ سواری کے
علاوہ اُن کی ایک تقریر میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے جو انہوں نے ایک مقابلے
کے دوران، ٹھیٹ سرائیکی ہونے کے باوجود، خالص انگریزی لہجے میں کی لیکن
اپنے دیہی خد و خال کے باعث، انگریز ظاہری پن پر زیادہ یقین رکھنے والے جج
صاحبان کو اول پوزیشن کے لیے مرعوب نہ کر سکے۔
بالآخر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں انہوں نے بہترین
مقرر کا اعزاز حاصل کیا جہاں ایک سو پانچ لانگ کورس میں انہیں دو ہزار دو
میں کمیشن ملا۔ سیاچن میں پوسٹ ہونے سے پہلے وہ پاکستان کے فعال محاذ جنوبی
وزیرستان میں تعینات رہے اور اقوامِ متحدہ کے مشن پر بیرونِ ملک بھی گئے۔
یہی شخصی یادیں ہیں جو شاید آج امید کا سہارا نہیں
چھوڑنے دے رہیں۔ میجر ذکاء الحق کے فیس بُک نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے
اُن کے دوستوں کو جمع کر دیا ہے۔
فوج نے تو سیاچن جیسے مشکل مقام پر تعیناتی کے لیے
اپنے افسر پر جو محنت اور سرمایہ کاری کی ہو گی، لیکن دوست احباب کے فیس
بُک پیغامات سے یہی لگ رہا ہے کہ ذکاء جیسا بندہ، سو فٹ گہری برف کے نیچے
سے نکل باہر آئے گا۔
ہر چند منٹ بعد ذکاء کی فیس بُک پروفائل پر کوئی دوست، اُن کے ساتھ اپنی
پرانی تصویر شائع کر رہا ہے، کوئی اگلی ظہر پر ساتھ دیکھنا چاہتا ہے تو
کوئی اُن کی زندگی کی دعاؤں کا طلبگار ہے۔
سیاچن میں پوسٹِنگ کے بعد اور روانگی سے پہلے میجر ذکاءالحق نے ایک شعر پوسٹ کیا تھا۔
’کھڑے ہیں سرحدِ ایماں پہ، کے ٹو کی طرح
دشتِ کفر سے سیاچن کو بچانے کے لیے‘
اور ساتھ ہی انہوں نے لکھا، ’کچھ دن بعد میں وہاں
ہوں گا جہاں عاصمہ جہانگیر کو ہونا چاہیے‘۔ پانچ جولائی دو ہزار گیارہ کی
اِس پوسٹ پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ شاید اسی لیے میجر ذکاء نے بھی نہیں
بتایا کہ عاصمہ جہانگیر کو سیاچن میں کیوں ہونا چاہیے؟
لیکن میجر ذکاء الحق کی فیس بُک پر جس آخری پوسٹ
نے میری توجہ کھینچی، وہ ایک ویڈیو ہے جو انہوں نے پچیس فروری کو یو ٹیوب
سے لِنک کی۔ ویڈیو میں شہزادی جیسی گڑیا کا کیک بنانے کی ترکیب بتائی گئی
ہے۔ ذکاء کی بڑی بیٹی مریم تین سال کی ہے اور بیٹا جہانزیب ایک سال کا ہو
گیا ہے۔
فیس بُک کے محبوب قول کے حصے میں میجر ذکاء الحق
نے یہ تحریر ہمیشہ کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ ’امید ایک اچھی چیز ہے، شاید
بہترین چیز اور اچھی چیز کبھی نہیں مرتی‘۔
No comments:
Post a Comment