Sunday, 22 April 2012

گھر چھوڑنے لگے تو کوئی یاد آگیا : فاخرہ بتول

گھر چھوڑنے لگے تو کوئی یاد آگیا
آنسو نکل پڑے تو کوئی یاد آگیا
گھر کو بنانے والا تو کوئی مٹی میں سو گیا
حصّے جو بٹ گئے تو کوئی یاد آگیا
جن کیلئے ٹھکرا دیا وہی
ٹھکرا کر چل دئیے تو کوئی یاد آگیا
دن بھر تو اسکے یاد سے غافل رہے مگر
جلنے لگے دئیے تو کوئی یاد آگیا
اس نے بھی تو کئے تھے ،مگر نبھائے نہیں
وعدے کبھی کئے تو کوئی یاد آگیا

3 comments:

  1. دن بهر تو اسكى ياد سے غافل رهے مگر
    جلنے لگے ديے تو كوى ياد اگيا

    حاصل غزل شعر هے باقى سب مصرعون كو بهى اسى  درجۂ كے شعرون مين لايا جاسكتا هے

    ReplyDelete
  2. اپكى إجازت كے بغير اپكےاشعار  سے چهـيڑ چهـاڑ كى معافى كا خواستگارهون 

    گهـر چهـوڑنے لگے تو كوى ياد ا گيا
    آنسو چهـپالئے تو كوى ياد اگيا

    گهر كو بنانے والے تو مٹى مين سو گئے
    ورثے جو بٹ گئے تو كوى ياد اگيا

    چهـوڑا تها عيش  جهان جن كے لئے وهى
    ٹهـکرا كے چل دئے تو كوى ياد اگيا

    دن بهر تو انكى ياد سے غافل رهے مگر
    جلنے لگے دئے تو كوى ياد اگيا

    إيفاے عهد همكو ملا هى نهين  كبهي
    وعدے كبهى كئے تو كوى ياد اگيا

    ReplyDelete
  3. بھائی ابراہیم علی،

    بہت زبردست تبدیلی کی آپ نے ، جذبات کی عکاسی اور سچے الفاظ کا اضافہ کیا ہے آپ نے۔ بہت بہت شکریہ۔

    بلاگ بنائے آپ کا کوئی بھی بلاگ نہیں ہے۔ ہماری ضرورت ہو تو بھائی حاضر ہیں آپ کی مدد اور خدمت کے لیئے۔

    جزاک اللہ۔

    ReplyDelete