ایک تصویر نظر آتی ہے شہ پاروں میں
مشترک سوچ ہے اس عہد کے فن کاروں میں
لوگ جنگل کی ہواؤں سے ہیں اتنے خائف
کوئی روزن ہی نہیں گاؤں کی دیواروں میں
جس کی پیشانی پہ تحریر تھا محنت کا نصاب
سرِفہرست وہی شخص ہے بے کاروں میں
اور طبقات میں انسان بکھرتے جائیں
مشورے روز ہوا کرتے ہیں زرداروں میں
جب کسی لفظ نے الجھے ہوئے معنی کھولے
رنگ کچھ اور نکھر آیا ہے فن پاروں میں
تشنگی تشنہ زمینوں کی صباؔ مٹ نہ سکی
ہاں مگر بٹ گئی کاریز زمیں داروں میں
No comments:
Post a Comment