---------------------------------------------
ابھی تو رُت بدلنی تھی
ابھی تو پھول کھلنے تھے
ابھی تو رات ڈھلنی تھی،
ابھی تو رات ڈھلنی تھی،
ابھی تو زخم سلنے تھے
ابھی تو سر زمین جان پہ
ابھی تو سر زمین جان پہ
اک بدل کو گھرنا تھا
ابھی تو وصل کی بارش میں
ابھی تو وصل کی بارش میں
ننگے پاؤں چلنا تھا
ابھی تو کشت غم میں
ابھی تو کشت غم میں
اک خوشی کا خواب بونا تھا
ابھی تو سینکڑوں سوچی ہوئی
ابھی تو سینکڑوں سوچی ہوئی
باتوں کو ہونا تھا
ابھی تو ساحلوں پہ
ابھی تو ساحلوں پہ
اک ہوا شاد چلنی تھی
ابھی جو چل رہی ہے
ابھی جو چل رہی ہے
یہ تو کچھ دن بعد چلنی تھی
No comments:
Post a Comment