والدہ کے چچا تھے لیکن ہمیں ہمیشہ نانا جان سے بڑھ کر پیار ملا بلکہ جو اور جتنا پیار ان سے ملا کسی سے نا ملا ہو گا:
وہ اپنے بچپن کے بارے بتاتے کہ:
ایک بار بہت بیمار تھا بیماری سے تھوڑا ہوش آیا تو بے بے (ماں جی) سے کھانے کی فرمائش کی کہ بے بے روٹی کھانی ہے لیکن مکھن کے ساتھ۔ بے بے نے خالی سی نظروں سے صحن میں پھیلی غربت کو دیکھا اور ڈبڈبائی آنکھوں سے پیار کیا اور کہا اچھا میرا پت میں لائی۔
بے بے نے سفید کپاہ (روئی) کا پھمبا لیا اور اسکو دھو کے صاف کرکے روٹی کے ساتھ رکھ کے مجھے دیا اور کہا لے پت مکھن کے ساتھ روٹی کھا لے میرا شیر چنگا ہو جا بس۔
میں نیم تندرست سا مزے سے روٹی کھانے لگا۔
چند دن گزرے تو کچھ چلنے پھرنے لگا، تایا جان کے گھر چلا گیا، شام ہوئی تو تائی نے پاس بلایا ماتھا چوما اور پوچھا میرا پت (بیٹا) کیا کھائے گا، میں نے کہا تائی روٹی کھاوں گا پر مکھن کے ساتھ، سالن کھاتا ہوں تو پیٹ میں پیڑ (درد) ہونے لگتی ہے۔ تائی نے پیار سے بٹھایا اور روٹی کے ساتھ کولی (رکابی) میں مکھن کا پیڑہ رکھ کر دیا کہ کھا میرا پت۔ میں نے حیرانگی سے مکھن کو دیکھا اور جب کھانے لگا تو اس کا سواد (ذائقہ) ہی اور تھا۔ ڈٹ کے روٹی کھائی تائی کا پیار لیا اور گھر آ گیا۔
آتے ہی بے بے سے بولا بے بے جوں مکھن تم نے مجھے دیا تھا اور تھوڑا بھی تھا اور اسکا تو کوئی سواد بھی نہیں تھا۔
بے بے کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو امڈ آئے مجھے سینے سے لگا کر بولی پتر وہ مکھن نہیں تھا وہ تو رووں (روئی) تھی۔ اپنے گھر مکھن کہاں سے آیا، تو میرا پت ناراض نا ہو جب اللہ سوہنا ہمیں مجھ (بھینس) دے گا تو ہمارے گھر بھی مکھن ہو گا فئر تو میرا پت رج رج کھائی۔
(نانا صدیق مرحوم کی یاد میں)
*اللہ پاک غریق رحمت کرئے، الھم آمین یا رب العالامین*
No comments:
Post a Comment