تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں
محبت کب بھلا محتاج ہے لفظوں کی باتوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کے ساز میں شامل
سریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر اتر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے حسیں نازک سے ہونٹوں کی
محبت صندلی ہاتھوں کی نازک لرزشوں میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
جو پَل پَل ساتھ رہتی ہے
محبت آنکھ میں پلتا وہ پراسرار جذبہ ہے
جسے اب تک سمجھ کوئی نہیں پایا
نہ اس کی کوئی صورت ہے
نہ اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اس کا بہت اظہار ہوتا ہے
کچھ ایسے ہی کہ جیسے اب
تہہِ دل سے تو ہم دونوں بہت اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نجانے کیوں
تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
صرف انقلاب ہی معاشرے سے برائیوں کو ختم کر سکتا ہے، آئیں ہم سب ملکر اپنے اندر خود احتسابی کا انقلاب برپا کریں۔ جو بات کہتا ہوں بڑی بے حجاب کہتا ہوں اسی لیئے تو زندگی کو انقلاب کہتا ہوں
Monday 23 May 2011
::::مجھے تم سے محبت ہے::::شکریہ نوائے ادب **خرم شہزاد خرم**
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment