Wednesday 11 May 2011

۔۔۔۔۔۔۔۔ چھلاوا۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہم چھوٹے تھے رات کو دیر تک جاگتے اور گھر والوں کو تنگ کرتے رہتے تھے، بڑے بزرگوں نے کہنا کہ سو جاو ورنہ چھلاوا آجائے گا، ہم نے حیرانگی سے پوچھنا کہ یہ چھلاوا کیا ہوتا ہے تو انہوں نے ایک من گھڑت قصہ سنانا کہ کیسے چھلاوا اچانک کہیں سے نمودار ہوتا ہے اور کیسے گم ہو جاتا ہے۔

چھلاوا کیا کہتا ہے?
ہم نے معصومیت سے پوچھنا تو جواب میں ہر مرتبہ ایک نیا ڈر سنایا جاتا تھا کہ گلا دبا دیتا ہے، آنکھیں پھوڑ دیتا ہے، کان کاٹ لیتا ہے، اس کے دانت بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں، آنکھوں میں سے آگ نکلتی ہے۔ وہ ایک دم سے حملہ آور ہوتا ہے اور پھر ناجانے اندھیرے میں کہاں گم ہو جاتا ہے۔

سو چھلاوا سن سن کر آخر کار ہم چھلاوے سے بہت خوفزدہ رہنے لگے، لیکن کبھی چھلاوہ نظر نا آیا۔

ابھی کچھ دن پہلے پاکستان کے دارلحکومت سے صرف 101 کلومیٹر دور ایبٹ آباد میں2 مئی 2011 کو رات کے وقت ایک ڈرامہ رچایا گیا جس میں دور حاضر کے سب سے بڑے چھلاوے نے اپنا اہم کردار ادا کیا اور مجاہد اسلام اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کا دعوا کیا۔

اس چھلاوے کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ اس نے پاکستان کی سرزمین پر وہ کام کیا جس کو خود پاکستانی افواج یا مسلح فورسز بھی بہت سوچ سمجھ کر ہی کریں گی۔ اس امریکی چھلاوے نے پوری بدمعاشی اور کھلی دہشتگردی کا منہ بولتا ثبوت دیا اور دعوا کیا کہ انہوں نے ایک کامیاب آپریشن کیا جس میں اسامہ بن لادن شہید ہوگئے۔

اب یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے لیکن جو پہلی بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ ما سوائے ایک ڈرامے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔

یہ ڈرامہ رچانے کا مقصد کیا تھا تو چلیں ذرا ان باتوں پر بھی غور کرتے ہیں:

- ایک- امریکہ میں ہونے والے انتخابات اور ان انتخابات میں جیتنے کے لیئے اوبامہ کی کوششیں، تو کیوں نا ایک ایسا کام کیا جائے کہ جس سے لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہوں، الیکشن کے لیئے بہت سارا روپیہ پیسہ بھی اور ساتھ ہی ساتھ فتح کی امید بھی۔

-دو- پاکستان میں سب کچھ کرانے کا مقصد ہے کہ ایک تو پاکستان اس خوف سے اور ڈر سے کہ کہیں امریکی آقا ناراض نا ہو جائیں ہمیشہ تعاون کرتا رہے گا، دوسرا پوری دنیا کو یہ باور کرانا کہ جس "موسٹ وانٹڈ" یعنی انتہائی مطلوب شخص کے لیئے ساری دنیا کی ایجنسیاں اور خفیہ ادارے سرگرم عمل تھے وہ تو ان کی ناک کے نیچے پاکستان میں چھپا بیٹھا تھا یعنی دوسرے معنوں میں پاکستان دہشتگردی کے لیئے نا صرف ایک تربیتی کیمپ ہے بلکہ ایک اچھی پناہ گاہ بھی ہے۔

-تین- پاکستان کے وہ خفیہ ادارے اور افواج پاکستان جن کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے کہ جو کسی بھی وقت کسی بھی حالت میں بڑی سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں انکو ناکام اور نا اہل ثابت کرنا تاکہ لوگوں کا ان سے اعتماد ختم ہو جائے اور بے حس عوام مزید جہالت کے اندھیروں میں گم شد ہو جائیں۔

اور ان کے علاوہ

-چار- جس دہشتگردی کو بنیاد بنا کر امریکہ دنیا کے وسائل پر قابض ہوتا جا رہا ہے اور جس کی بنیاد پر اچھے خاصے ممالک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل کر اپنے مضموم مقاصد کا حصول ہے اگر اس دہشتگردی کے خلاف کوئی خاص کامیابی نہیں ہو گی تو کیا بڑے بڑے ادارے اور ملک جو روپیہ پیسا دیتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لیئے امریکہ کو شا
باشی دیتے ہیں وہ یہ سب بند نہیں کر دیں گے۔

در حقیقت امریکہ خود ایک غنڈے اور بدمعاش کا کردار بہت اچھے طریقے سے انجام دے رہا ہے، دنیا میں جہاں پر کچھ بھی ہو امریکہ فوری طور پر خدائی مددگار بن کر پہنچ جاتا ہے، جھگڑا چاہے کم ہو یا زیادہ جنگ سے حل ہونے والا ہو یا بات چیت سے، امریکہ اس میں اپنی مداخلت سے اس کو اس حال تک لے جاتا ہے کہ جہاں صرف تباہی ہی تباہی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں پر امریکی مداخلت کے بعد امن قائم ہوا ہو۔

ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ امریکی تا حیات ایک کینسر اور ناسور کی طرح اس جگہ پر پلنے اور پھلنے پھولنے لگتےہیں۔ یہ ایک ایسی آکاس بیل ہے جو درخت کا خون چوس چوس کر نا صرف اسکو ختم کر دیتی ہے بلکہ خود بہت زور شور سے بڑھتی ہے۔

ہم امریکہ کے آگے کیسے بول سکتے ہیں جب ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ تک امریکی قرض میں مقروض پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے ملک کو چھوڑ کر امریکی گرین کارڈ کے چکر میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
ہم ہر وقت ہر جگہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا? لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا،

اگر آپ ابھی پاکستان کے موجودہ حالت کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم لوگوں کو مارنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔

ہم چاہے ایک ڈاکٹر ہوں
یا چاہے ایک انجینیر ہوں
ایک سائنسدان ہوں
یا ایک سیاست دان
ایک ریڑھی فروش ہوں
یا ایک دکان دار

ہم ایک دوسرے کو برے طریقے سے نوچ رہے ہیں اور کھا رہے ہیں ہم ایک دوسرے کا خون پی رہےہیں اور ساری برائیاں دوسروں پر ڈال دیتے ہیں

ہر روز یہ چھلاوا آتا ہے اور سب کچھ تہس نہس کر کے چلا جاتا ہے، اور بے
حسی کی انتہا دیکھیں کہ ہمیں پتا ہی نہں چلتا۔ ہم پہنچتے ہیں تو صرف ٹکڑے اکھٹے کرنے کے لیئے۔

ہم زمین سے فضا اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل بناتے ہیں اور کامیاب ٹیسٹ فائر کرتے ہیں لیکن جب چھلاوا آتا ہے تو جانے ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کس غفلت کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے وہ دعویدار کہاں چلے جاتے ہیں جو ہر تقریر میں ملکی سالمیت کی باتیں کرتے ہیں۔

اسامہ بن لادن اللہ کی راہ پر چلنے والا بندہ، جو حرمین شریفین کی تعمیر کرانے والوں میں سے ایک ہے وہ کیسے کسی بے گناہ کو تباہ و برباد کرے گا،یا کسی کومارے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہے بھی یا نہیں یا اس کا نام استعمال کیا جا رہا ہے، سب اللہ ہی بہتر جانتا ہے
بس بات اتنی ہے کہ!!!
ہم لوگ اللہ کے عذاب کے شکار ہیں اور پھر بھی انتظار کر رہے ہیں کہ کب آسمان ٹوٹ کر ہم پر گرے یا زمین ہمیں نگل لے۔ ہم لوگ خود اپنی بے بسی اور بد نمائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہوں گے تب تک امریکہ کیا دنیا کا کوئی بھی ملک دہشتگردی کا بہانا بنا کر ہمیں ایک چھلاوے کی طرح ہر دن اور ہر رات اپنے انتقام اور ہوس کا شکار بناتا رہے گا۔

اب دیکھتے ہیں کہ یہ چھلاوا کب اور کیسے کہاں سے نمودار ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے۔

گھر کے بھیدی لنکا ڈھاتے رہیں گے اور چھلاوے آتے رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment