Friday 13 May 2011

نا سنبھل سکا

کبھی موم بن کے پگھل گیا
کبھی گرتے گرتے سنبھل گیا

وہ بن کہ لمحہ گزر گیا
میرے پاس سے وہ نکل گیا

اسے روکتا تو کس طرح
کہ ہو شخص اتنا عجیب تھا

کبھی تڑپ اٹھا میری آہ سے
کبھی اشک سے نہ پگھل سکا

سرِ راہ ملا تھا وہ ، اگر کبھی
تو نظر چرا کے گزر گیا

وہ اتر گیا میری آنکھ سے
میرے دل سے کیوں نہ اتر سکا

وہ چلا گیا دیس چھوڑکے
میں وہاں سے پھر نہ پلٹ سکا

وہ سنبھل گیا یاور مگر
میں بکھر کے پھر نا سنبھل سکا

No comments:

Post a Comment