Tuesday, 31 May 2011

دنیا گول ہے :::::::پارٹ-ون:::::::

دنیا گول ہے (پارٹ-ون)
آپ بیتیاں راشد ادریس رانا

Year: 2009_UAE.
رات کے نو بجے اور میں نے جلدی جلدی دکان بند کی۔ یعنی اپنا کمپیوٹر آف کیا اور آفس سے نکلنے کی ٹھانی، آج کافی دیر ہوگئی تھی، ابوظہبی یو اے ای میں آئے ہوئے مجھے تقریبًا آٹھ نو مہینے ہو چکے تھے، جاب مستقل ہو چکی تھی اور میں بہت انجوائے کر رہا تھا، مستقبل کے تابناک خواب، سب کچھ ہرا ہرا یعٰنی سبز سبز
تھا۔

اور لمبے لمبے پلان، دو سو مرغیاں روز کے ڈیڈھ سو انڈے اور میرا اپنا کاروبار، پھر اور مرغیاں اور انڈے اور پوری دنیا میں انڈے صرف میرے بزنس سے سپلائی ہونے لگے۔


لیکن میں اپنے خوابوں سے تب جاگا جب دوست نے بتایا کہ کوئی گاڑی دفتر میں موجود نہیں اور نا ہی آنے کا کوئی اندیشہ ہے۔ دفتر سے رہائش کا فاصلہ کچھ زیادہ کم بھی نہیں اور اوپر سے یو اے ای کی گرمی، شدید گرم ہوا اور حبس۔ چل چلا چل راہی چل چلا چل

نکل پڑے مجاہد پا پیادہ!!!!!!!!!!!!!

آدھے راستے تک پھر وہی خواب لیکن اب کی بار میں اکیلا نہیں بلکہ دوست بھی میری طرح میرے خوابوں میں شانہ بشانہ تھا اور خوب مزے مزے کے پلان تیار کر رہے تھے، بس اس کافائدہ یہ ہوا کہ راستہ اور راستے کی کٹھن تھوڑی کم محسوس ہو رہی تھی۔

انڈسٹرئیل ایریا کا پل کراس کیا اور بارونق شہر میں داخل ہوئے تو پھر احساس ہوا کہ پسینے میں شرابور ہو چکے ہیں اور پیاس بھی بہت لگی ہے۔ لیکن چلتے رہے۔ ایک مشہور مارکیٹ کے آگے سے گزرنے لگے اور جیسے ہی کنارے پر پہنچے تو ایک شخص سندھی ٹوپی اور شلوار قمیض میں ملبوس اچانک الٹے ہاتھ والی سائیڈ سے نمودار ہوا۔ اور قدرتی طور پر اس نے ہماری طرف دیکھا، پھر ایک دم سے ٹھٹھکا، چونکا اور رک گیا۔

بلکل یہی ردعمل میرا بھی تھا، میں بھی ٹھٹھکا، چونکا، رکا اور پھر بہت پھرتی سے میرے دماغ نے کام کیا میں نے جلدی سے اپنی ٹوپی اتاری، ڈائری اور ٹوپی ساتھ والے دوست کو تھما دی جو کہ حیرت کے سمندر میں غوطہ خوری کر رہا تھا اور پریشان تھا کہ کونسی حرکتیں ہو رہی ہیں، اس کے ساتھ نمودار ہونے والے شخص نے بھی ویسا ہی کیا اس نے فوری طور پر اپنی سندھی ٹوپی اتاری، چشمہ اتارا اور میرے ہی دوست کو پکڑاتے ہوئے بولا " بھائی صاحب یہ بھی پکڑئے گا بہت مہربانی ہو گئی"

میرا دوست مزید سٹپٹایا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے:::::::::: اسکے بعد!!!


ہم دونوں کے منہ سے ایک دوسرے کی شان میں خوبصورت الفاظ کی بارش شروع ہو گئی جسے نے راہ چلتے ہوئے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، کچھ لوگ رک گئے اور کچھ پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے، کچھ پل یہ سلسلہ جاری رہا اور آخر کار ہم دونوں بغل گیر ہو گئے۔

جس کے ساتھ ہی دائیں بائیں والوں نے دل ہی دل میں ہمیں القابات سے نوازا اور یہ سوچتے ہوئے روانہ ہو گئے کہ

انسانوں کی بستی میں
کچھ پاگل، پاگل ہوگئے ہیں۔

میرے ساتھ چلنے والے دوست نے مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو دیکھا اور طویل ٹھنڈی سانس لی۔

یہ تھی میری ملاقات میرے ایک پرانے کالج کے دوست جناب سہیل صاحب سے اور وہ بھی تقریبًا سات سال کے عرصہ کے بعد اور جگہ بھی یو اے ای، جہاں نا اسے توقع تھی اور نا مجھے کہ ایک دن اچانک ایک فٹ پاتھ پر مارکیٹ کے پاس ہم یوں ملیں گے۔

اس دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ واقعی ہی
"دنیا گول ہے"۔

Monday, 30 May 2011

مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دوو) محمد سلیم)

مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دو::::::::::::::::::::::::::::::

۱۹۳۰ کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔

طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔

وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟

ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔

طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔

اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد دوبارہ اُٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔

دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔ پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔

یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر نماز پڑھ لیا کرے۔

اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔

اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔

میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ

ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔

اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟

*
اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔

*
لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔

اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔

انگور اور شراب



انگور اور شراب



مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔


اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟


شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟


کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟


شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟


شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔


کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔


چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟


شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔


کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!


ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔


کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟


مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔



مع السلامة

Saturday, 28 May 2011

دعا کی اپیل

دعا کی اپیل

یہ اپیل سعودی عرب سے ہمارے ایک دوست کی تواسط سے ہم تک پہنچی ہے سب دوستوں سے گزارش ہے کہ پلیز ان کے لیئے دعا کریں۔۔۔۔۔اور اگر ہو سکے تو دوسروں تک بھی پہنچائیں۔

شکریہ

============================

HEALTH -JUST A REQUEST FOR DUA!!!!!

JUST A REQUEST FOR DUA!!!!!

From Zubair Mahmood

Assalamualaikum Wa Rahmatullaahi Wa Barakatahu

My daughter Sana , 26 years old mother of two (1 ½ year old son and 3 ½ month daughter) is battling for life at Aga Khan University Hospital From last 2 ½ months. She is suffering from 4th stage cancer. The doctors have given us all hopes that she will recover Inshallah. I have trust in ALLAH and in the power of dua.
Therefore as a helpless father, I beg all of you to pray for my daughter, please include her as a part of each and every dua of yours..

Please pray to ALLAH that He should give her body the strength to respond to the Medication, that He should miraculously heal her of this disease and Insha Allah grant her a healthy and long life (AMEEN)

Please, please pass this message on to as many brothers and sisters as you can. If even ten percent of you would remember to pray for my daughter, it would mean a lot for us. Your duas and Allah's mercy is our ONLY hope. Jazaakalah

Please don't forget, BEFORE YOU CLOSE THIS MESSAGE PLEASE FWD.

--
Best Regards,

Muhammad Faheem
+966-501958302

Wednesday, 25 May 2011

****THIS IS LIFE****

When there is no friend,
When life is on the dead end,

When world is not a paradise,

When your confidence dies,

Tell yourself - Go on, THIS IS LIFE.....


When things don't go right,
When there is no ray of light,

And its too hard to survive,
Tell yourself - Go on, THIS IS LIFE.....


When there is competition to face,

When you are lagging behind in the race,
When you've lost faith,

When you're betrayed by a fraud,

Tell yourself - Go on, THIS IS LIFE!.....


When others don't respect you,
When you're not amongst the admirable few,

When for a question, you can't find a solution,

When all you're sure about, is confusion,
Tell yourself - Go on, THIS IS LIFE.....

When your destination is miles apart,
When you don't know where to start,
When all you see around is pain,

When your hard work is in vain,

Tell yourself - Go on, THIS IS LIFE....

Even though all this happens
just have faith in self & face the life
with smile,
things will surely change one day
because as said "THIS IS LIFE....

Monday, 23 May 2011

پرندوں کا فن:::کمال قدرت کو دیکھیں، کیا ہنر مندی ہے::::













::::مجھے تم سے محبت ہے::::شکریہ نوائے ادب **خرم شہزاد خرم**

تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں
محبت کب بھلا محتاج ہے لفظوں کی باتوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کے ساز میں شامل
سریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر اتر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے حسیں نازک سے ہونٹوں کی
محبت صندلی ہاتھوں کی نازک لرزشوں میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
جو پَل پَل ساتھ رہتی ہے
محبت آنکھ میں پلتا وہ پراسرار جذبہ ہے
جسے اب تک سمجھ کوئی نہیں پایا
نہ اس کی کوئی صورت ہے
نہ اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اس کا بہت اظہار ہوتا ہے
کچھ ایسے ہی کہ جیسے اب
تہہِ دل سے تو ہم دونوں بہت اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نجانے کیوں
تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے

Sunday, 22 May 2011

حدیثِ نبوی نبی صلى الله عليه وسلم اورسائنسی اعترافات


مولانا محمد رحمت الله ندوي


جنین کی نشوونما کے پہلے چالیس دن

ڈاکٹر جولے سمپسن، ہیوسٹن ( امریکہ ) کے بیلور کالج آف میڈیسن میں شعبہ حمل و زچگی و امراض نسوانی
چیئرمین اور سالماتی و انسانی توارث کے پروفیسر ہیں ، اس سے پہلے وہ میمفس کی یونیورسٹی آف ٹینٹیسی میں شعبہ ’ اوب گائن ‘ کے پروفیسر اور چیئرمین رہے۔ وہ امریکی باروری انجمن کے صدر بھی تھے۔ 1992ءمیں انہیں کئی ایوارڈ ملے ، جن میں ایسوسی ایشن آف پروفیسرز آف اوب گائن پبلک ریکوگنیشن ایوارڈ بھی شامل تھا۔ پروفیسر سمپسن نے نبی صلى الله عليه وسلم کی درج ذیل دواحادیث کا مطالعہ کیا:


اِنَّ احَدَکُم یَجمَعُ خَلقُہ ، فِی بَطنِ اُمِّہ ا ربَعِینَ یَومًا( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب ذکر الملائکة، حدیث :3208 ، صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیة خلق الآدمی ، حدیث : 2643 )

” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کے تمام اجزاء اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( نطفے کی صورت ) میں جمع رہتے ہیں۔ “

اِذَا مَرَّ بِالنُّطفَةِ اثنَتَانِ وَاربَعُونَ لَیلَةً ، بَعَثَ اللّٰہُ اِلَیھَا مَلَکاً ، فَصَوَّرَھَا وَخَلَقَ سَمعَھَا وَبَصَرَھَا وَجِلدَھَا وَلَحمَھَا وَعِظَامَھَا ( صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیة خلق الآدمی…. حدیث : 2645 ) ” جب نطفہ کو قرار پائے بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ ایک فرشتے کو اس کے پاس بھیجتا ہے جو ( اللہ کے حکم سے ) اس کی شکل و صورت بناتا ہے ، اور اس کے کان ، اس کی آنکھیں ، اس کی جلد ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے۔ “

پروفیسر سمپسن نبی صلى الله عليه سلم کی ان دوحدیثوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جنین کے پہلے چالیس دن اس کی تخلیق کے ناقابل شناخت مرحلے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ان احادیث میں جس قطعیت اور صحت کے ساتھ جنین کی نشوونما کے مراحل بیان کیے گئے ہیں ان سے وہ خاص طور پر متاثر ہوئے ، پھر ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے اپنے درج ذیل تاثرات پیش کیے۔

”دونوں احادیث جو مطالعے میں آئی ہیں ، وہ ہمیں پہلے چالیس دنوں میں بیشتر جنینی ارتقاء کا متعین ٹائم ٹیبل فراہم کرتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج صبح دوسرے مقررین نے بھی بار بار اس نکتے کو دہرایا ہے۔ یہ احادیث جب ارشاد فرمائی گئیں اس وقت کے میسر سائنسی علم کی بنا پر اس طرح بیان نہیں کی جا سکتی تھیں۔ میرے خیال میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جینیات مذہب کے درمیان کوئی تصادم نہیں، درحقیقت، مذہب بعض روایتی سائنسی نقطہ نظر کو الہام سے تقویت پہنچا کر سائنس کی رہنمائی کر سکتا ہے اور یہ کہ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو صدیوں بعد درست ثابت ہوئے اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں دی گئی معلومات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں“۔

انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اِذَا اَکَلَ اَحَدُکُم مِنَ الطَّعَامِ فَلَا یَمسَح یَدَہ حَتیٰ یَلعَقَھَا ا و یُلعِقَھَا ( صحیح مسلم ، الاشربة ، باب استحباب لعق الاصابع حدیث : 2031 )

” جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ اسے ( انگلیاں ) چاٹ لے یا چٹوالے۔ “

کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے چودہ صدی پہلے دیا اور اس میں جو حکمت کار فرما ہے اس کی تصدیق طبی سائنس داں اس دور میں کر رہے ہیں۔

ایک خبر ملاحظہ کیجئے : ”جرمن کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کے پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست ، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ” ای کولائی “ کہتے ہیں ، جب انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے، خاص طور پر جب انسان کو پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے ، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں“۔ ( روزنامہ نوائے وقت 30 جون 2005ء )

اہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فعل کو غیرصحت مند
( Unhigienic ) قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں ، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے کیونکہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں۔ نیز انگلیوں کے پوروں پر موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بے حد غیرصحت مند عمل ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین پیدا کی ہے تو ہاتھ سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا دونوں صحت مند افعال ہیں۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں انہی دو باتوں پر عمل کی تلقین کی گئی ہے ، یعنی ( 1 ) کھانا ہاتھ ( دائیں ) سے کھایا جائے ، ( 2 ) ہاتھ پونچھنے سے پہلے انگلیاں چاٹی جائیں۔


دائیں ہاتھ سے کھانے اور اس کے بعد انگلیاں چاٹنے کی اس اسلامی روایت بلکہ سنت کو عربوں نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جسے ماضی میں یورپ والے غیر صحت منع عمل ٹھہراتے رہے ، مگر اب انہی کے طبی محققین کی تحقیق کہہ رہی ہے کہ یہ ہرگز مضر عمل نہیں بلکہ عین صحت مند اور فائدہ مند ہے۔

کتا چاٹ جائے تو برتن کو مٹی سے دھونے کا حکم

حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا طُھُورُ اِنَائِ اَحَدِکُم اِذَا وَلَغَ فِیہِ الکَلبُ اَن یَّغسِلَہ سَبعَ مَرَّاتٍ اولَاھُنَّ بِالتُّرَابِ ( صحیح مسلم ، الطھارة، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 )

مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : فَل یُرِقہُ ”اسے چاہیے کہ اس( میں موجود کھانا یا پانی ) کو بہا دے۔ “ ( مسلم ، الطھارة، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 )

اور ترمذی کی روایت میں ہے : ا و لَاھُنَّ ا و اخرَاھُنَّ بِالتُّرَابِ ( جامع الترمذی ، باب ما جاءفی سور الکلب،حدیث : 91 ) ” پہلی یا آ خری بار مٹی سے دھونا چاہیے ۔“

اس کی توضیح بلوغ المرام من ادلةالاحکام ( انگریزی ) میں یوں کی گئی ہے :

”یہ واضح رہے کہ کسی چیز کی محض ناپاکی سے صفائی کے لیے اسے سات دفعہ دھونا ضروری نہیں ، کسی چیز کو سات دفعہ دھونے کا فلسفہ محض صفائی کرنے سے مختلف ہے۔ آج کے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کتے کی آنتوں میں جراثیم اور تقریبا 4 ملی میٹر لمبے کیڑے ہوتے ہیں جو اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے ہیں اور اس کے مقعد کے گرد بالوں سے چمٹ جاتے ہیں ، جب کتا اس جگہ کو زبان سے چاٹتا ہے تو زبان ان جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے ، پھر کتا اگر کسی برتن کو چاٹے یا کوئی انسان کتے کا بوسہ لے جیسا کہ یورپی اور امریکی عورتیں کرتی ہیں تو جراثیم کتے سے اس برتن یا اس عورت کے منہ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ انسان کے معدے میں چلے جاتے ہیں، یہ جراثیم آگے متحرک رہتے ہیں اور خون کے خلیات میں گھس کر کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں چونکہ ان جراثیم کی تشخیص خوردبینی ٹیسٹوں کے بغیر ممکن نہیں۔ شریعت نے ایک عام حکم کے تحت کتے کے لعاب کو فی نفسہ ناپاک قرار دیا اور ہدایت کی کہ جو برتن کتے کے لعاب سے آلودہ ہو جائے اسے سات بار ضرور صاف کیا جائے اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ دھویا جائے“۔ ( بلوغ المرام من ا دلة الاحکام ، انگریزی ،مطبوعہ دارالسلام ، صفحہ : 16 حاشیہ : 1 )

مکھی کے ایک پر میں بیماری ، دوسرے میں شفا

حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : اِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِی شَرَابِ ا حَدِکُم فَلیَغمِسہُ ثُمَّ لِیَنزِعہُ فَاِنَّ فِی اِحدیٰ جَنَاحَیہِ دَائ وَفِی الاُخرٰی شِفَائ ( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب اذا وقع الذباب…. حدیث : 3320 )

” اگر تم میں سے کسی کے مشروب ( پانی ، دودھ وغیرہ ) میں مکھی گر پڑے تو اسے چاہیے کہ اس کو مشروب میں ڈبکی دے ، پھر اسے نکال پھینکے ، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے تو دوسرے میں شفا۔ “

ڈاکٹر محمد محسن خاں اس ضمن میں لکھتے ہیں :

” طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوے اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی‘ بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہیے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا۔“

میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس موضوع پر جامع الازہر قاہرہ کے عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی کو خط بھی لکھا جنہوں نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوو ں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast Cells ) طفیلیوں ( Parasites ) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لیے مکھی کی تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں، اور ان خلیات کا مواد‘ ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے۔“ ( مختصر صحیح البخاری انگریزی ،مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )

اس سلسلے میں ” الطب النبوی لابن القیم “ کے انگریزی ترجمہ Medicine Of The Prophet with Healing طبع دارالسلام الریاض میں لکھا ہے :

”نبی صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں ڈبویا جائے ، اس طرح مکھی مر جائے گی ، بالخصوص اگر غذا گرم ہو ، اگر غذا کے اندر مکھی کی موت غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی صلى الله عليه وسلم اسے پھینک دینے کا حکم دیتے، اس کے برعکس نبی صلى الله عليه وسلم نے اسے محفوظ بنانے کی ہدایت کی۔ شہد کی مکھی ، بھڑ ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں ، کیوں کہ اس حدیث سے ماخوذ حکم نبوی عام ہے۔ مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں ؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ ان کا خون ان کے جسموں کے اندر رہتا ہے ، اس لیے کیڑے مکوڑے یا حشرات جن میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں۔

بعض اطباءنے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے ، اگر گھریلو مکھی کا سر الگ کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی پھنسی پر ملا جائے تو ان شاءاللہ آرام آجائے گا“۔ ( الطب النبوی : 105، 104 )

طاعون زدہ علاقے سے دور رہنے کا حکم اور اس کی حکمت :

حضرت اسامہ بن زید رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : الطَّاعُو نُ رِجز ، ارسِلَ عَلٰی بَنِی اِسرَائِیلَ ا و عَلٰی مَن کَانَ قَبلَکُم فَاِذَا سَمِعتُم بِہ بِا ر ضٍ فَلا تَقدَمُوا عَلَیہِ ، وَاِذَا وَقَعَ بِا ر ضٍ وَا نتُم بِھَا ، فَلا تَخرُجُوا فِرَاراً مِنہُ( صحیح مسلم ، الطب ، باب الطاعون ، حدیث : 2218 )

” طاعون عذاب ہے ، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر اور تم سے پہلوں پر نازل ہوا ، چنانچہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاو اور جب وہ اس علاقے میں پھوٹ پڑے جہاں تم مقیم ہو تو فرار ہو کر اس علاقے سے باہر مت جاو ۔ “

صحیحین ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : الطَّاعُو نُ شَھَادَة لِکُلِّ مُسلِمٍ ( صحیح البخاری ، الطب ، باب ما یذکر من الطاعون ، حدیث : 5732 ) ” طاعون ہر مسلم کے لیے شہادت ہے۔ “

طبی اصطلاح میں طاعون ایک مہلک گلٹی ہے جو بہت شدید اور تکلیف دہ متعدی عارضہ ہے اور یہ تیزی سے متاثرہ حصے کے رنگ کو سیاہ ، سبز یا بھورے رنگ میں تبدیل کر دیتا ہے پھر جلد ہی متاثرہ حصے کے اردگرد زخم نمودار ہونے لگتے ہیں۔ طاعون عموماً جسم کے تین حصوں ، بغلوں ، کان کے پیچھے اور ناک پھنک یا جسم کی نرم بافتوں ( Tissues ) پر حملہ کرتا ہے۔ حضرت انس رضي الله عنه کی روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : غُدَّة ،کَغُدَّةِ البَعِیرِ یَخرُجُ فِی المَرَاق وَالِابِطِ ( التمھید لابن عبدالبر : 6/212 )

” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے۔ “

امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف ’الطب النبوی ‘میں ” نبی صلى الله عليه وسلم نے مسلمانوں کو طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا ہے “کے زیر عنوان لکھا ہے :

”طاعون کے نتیجے میں جسم میں تعدیہ یا عفونت ( Infection ) زخم ( Ulcers ) اور مہلک رسولیاں نمودار ہوتی ہیں، اطباءاپنے مشاہدے کی رو سے انہیں طاعون کی علامات قرار دیتے ہیں۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جسم کو مضر رطوبتوں سے نجات پانے میں مدد دی جائے۔ اسے پرہیزی غذا ملے اور جسم کی خشکی عموماً محفوظ رہے۔ انسانی جسم میں مضر مادے ہوتے ہیں جو بھاگ دوڑ اور غسل کرنے سے متحرک ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کے مفید مادوں سے مل کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، اس لیے جب کسی جگہ طاعون حملہ آور ہو تو وہیں ٹھہرنے میں عافیت ہے تا کہ

انسان کے جسم میں مضر مادے متحرک نہ ہوں۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے لوگوں کو طاعون سے متاثرہ علاقے میں نہ جانےد یا وہیں ٹھہرنے کا جو حکم دیا ، اس میں بڑی حکمت پنہاں ہے ، اس کا مقصد یہ ہے :

( 1 ) آدمی نقصان اور نقصان کا باعث بننے والی شے سے بچ جائے۔

( 2 ) اپنی صحت برقرار رکھے ، کیوں کہ ضرورت زندگی کے حصول اور عاقبت کے تقاضے پورے کرنے کا دارومدار اسی پر ہے۔

( 3 ) آلودہ اور مضر ہوا میں سانس لے کر بیمار نہ پڑ جائے۔

( 4 ) طاعون سے متاثرہ لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرے ، تا کہ خود اسے طاعون نہ آئے۔

( 5 ) جسم اور روح کی چھوت اور توہم سے تحفظ ہو ، جن کا نقصان صرف انہیں ہوتا ہے جو ان پر یقین رکھتے ہوں۔

غرض یہ کہ طاعون سے متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت ایک احتیاطی تدبیر اور ایک طرح کی پرہیزی غذا ہے ، جو انسان کو نقصان کی راہ سے پرے رکھتی ہے ، اور یہ طاعون سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے فیصلوں کے آگے سرجھکانے کا سبق ہے۔ پہلا حکم تعلیم و تربیت ہے جب کہ دوسرا تسلیم و اطاعت اور تمام امور اللہ کی رضا پر چھوڑ دینے کا درس دیتا ہے۔“

( الطب النبوی [ انگریزی ] کے صفحہ 53 کے حاشےے میں ” ایڈیٹر کا نوٹ “ کے زیر عنوان لکھا ہے : ” ہمارے مصنف ( ابن قیم ) کے زمانے میں ابھی قرنطینہ کا طبی تصور قائم نہیں ہوا تھا مگر یہ حدیث مصنف سے بھی تقریبا ً700 سال پہلے ارشاد ہوئی تھی۔ اس حدیث نے ایمان کی وساطت سے قرنطینہ نافذ کر دیا تھا ، اگرچہ طب کے علماء کو اس سے متعلق علم کہیں صدیوں بعد حاصل ہوا۔“

بشکریہ منصف ، حیدر آباد

::::::کلام باہو:::::::

ب بسم اللہ اسم اللہ دا ایہہ وی گہنہ بھارا ہو
نال شفاعت سرور عالم چھٹ سی عالم سارا ہو
حدوں بے حد درود نبی تے جس دا ایڈپسارا ہو
میں قربان انہاں تو باہو جنہاں ملیا نبی سہارا ہو

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھ دل دا پڑھ دا کوئی ہو
جھے کلمہ دلدا پڑھیے اوتھے جینوندے ملے نہ ڈھوئی ہو
کلمہ یار پڑھایا باہو میں سدا سہاگن ہوئی ہو
دل دا کلمہ عاشق پڑھدھے ایہہ کی جانن یار کلوئی ہو

پیر ملیاں جے پیڑ نہ جاوے اس پیر نوں کیہ کرنا ہو
مرشد ملیا ارشاد نہ ملیا او مرشد کیہ کرنا ہو
جس ہادی کولوں ہدایت نا ہیں او ہادی کیہ کرنا ہو
جے سردیتاں حق حاصل ہووے باہو اس مَوتوں کیہ ڈرنا ہو

دل میں شہر بنایا دل وچہ خاص محلہ ہو
الف دل رستوں کیتی میری ہوئی خوب تسلی ہو
سب کجھ مینوں پیا سنیوے جوبولے ماسوں اللہ ہو
درد مندداں اے رمز پچھاتی بے درداں سر کھلا ہو

تسبیح پھری تے دل نہ پھریا کی لیناں تسبیح پھڑ کے ہو
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لینا علم نوں پڑھ کے ہو
چلے کٹے تے کجھ نہ کٹھیا کی لینا چلیاں وڑ کے ہو
جاگ بناں دودھ جم دے نہ باہو پانویں لال ہون کڑھ کڑھ کے ہو

جے کر دین علم وچہ ہوندا سر نیز ے کیوں چڑھدے ہو
اٹھارہ ہزار جو عالم آیا او اگے حسین دے مردے ہو
جے کجھ ملازہ سرور دا کردے خیمے تمبو کیوں سٹردے ہو
جے کر من دے بیعت رسولی تاں پانی کیوں بند کردے ہو
صادق دیں انہاں دے باہو جو سر قربانی کردے ہو

چڑھ وے چناں تو کر روشنائی تارے ذکر کریندے تیرا ہو
تیرے جئے چن کیکن چڑھدے سانوں سجناں باہجھ اندھیرا ہو
جتھے چن اساڈا چڑھدا اوتھے قدر نئیں کوئی تیرا ہو
جس دے کارن اساں جنم گوایا باہو یار ملے اک پھیرا ہو

سن فرماد پیراں دیا پیرا میں آکھ سناواں تینوں ہو
تیرے جیا مینوں ہور نہ کوئی میں جیاں لکھ تینوں ہو
پھول نہ کاغذ بدیاں والے در توں دھک نہ مینوں ہو
میں وچہ ایڈ گناہ نہ ہوندے باہو توں بخشوندوں کنوں ہو

ایہہ تن میرا چشمہ ہووے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو
لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں اک کھولاں اک کجاں ہو
اتناں ڈٹھیاں مینوں صبر نہ آوے تے ہور کدے ول ونجاں ہو
مرشد دا دیدار ہے باہو سانوں لکھ کروڑاں حجاں ہو

چڑھ چناں توں کر رشنائی تیرا ذکر کریندے تارے ہو
گلیاں دے وچہ پھرن نمانے لعلاں دے ونجارے ہو
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو
تاڑی مار اڑا نہ باہو اسی آپے ای اڈن ہارے ہو

میں کوہجی میرا دلبر سوہنا میں کیوں کراوس نوں بھانواں ہو
ویڑے ساڈے وڑھ دا ناہیں پئی لکھ وسیلے پاواں ہو
نہ میں سوہنی نہ گن پلے میں کی کر یار مناواں ہو
ایہہ دکھ ہمیشہ رہ سی باہو کتے روندیاں نہ مرجاواں ہو

بغداد شہر دی کی اے نشانی اُچیاں لمیاں چیراں ہو
تن من میرا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں ہو
انہاں لیرا ں دی گل کفنی پا کے تے میں رلساں سنگ فقیراں ہو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہوتے کرساں میرا ں میراں ہو

سن فریاد پیراں دیا پیرا میری عرض سنی کن دھر کے ہو
میرا بیڑا اڑیا وچہ کھپراں دے جتھے مچھ نہ بیندے ڈر کے ہو
شاہ جیلا نی محبوب سبحانی میر ی خبر لیو چٹ کر کے ہو
پیرجناں دا میرا ں باہو سو کڈی لگدے تر کے ہو

دل دریا سمندروں ڈھونگے کون دلاں دیاں جانے ہو
وچے بیڑے وچے جیہڑے وچ ونج مہانے ہو
چوداں طبق دلے دے اندر تمبو وانگن تارے ہو
جو دل دا محرم ہووے باہو سویو رمز پچھانے ہو

ایمان سلامت ہر کوئی منگے عشق سلامت کائی ہو
منگن ایمان شرمان عشقوں دل نوں غیرت آئی ہو
جس منزل نوں عشق پچاوے ایمان نوں خبر نہ کائی ہو
میرا عشق سلامت رکھیں باہو ایمان نوںدیاں دہائی ہو

نہ رب عرش معلی ملیا نہ رب خانے کعبے ہو
نہ رب علم کتابیں لبھا اتے نہ وچہ محرابے ہو
گنگاتیرتھ مول نہ ملیا مارے پینڈے بے حسابے ہو
جد دا مرشد پھڑیا باہو اتے مکے کل عذابے ہو

اک جاگن تے اک جاگ نہ جانن اک جاگ دیاں وی سُتے ہو
اک ستیاں جا واصل ہوئے اک جاگ دیاں وی مٹھے ہو
کی ہویا جے کگو جاگن جہیڑا لیندا سا پُٹھے ہو
میںقربان اونہاں توں باہو جیناں کھو پریم دے جُتے ہو

ایہہ تن رب سچے دا ہجرہ وچہ پا فقیرا جھاتی ہو
نہ کر صفت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ہو
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبھی وسط کھڑاتی ہو
مرن تھیں اگے مر رہے باہو جنہاں حق دی رمز پچھاتی ہو

نہ میں سیر نہ پا چھٹانکی نہ پوری سرساہی ہو
نہ میں تولا نہ میں ماشہ ہن گل رتیاں تے آئی ہو
رتیاں ہواں ونج رتیاں تُلاں اووی پوری ناہیں ہو
وزن تول پورا ونج ہو سی باہو جداں ہو سی فضل الٰہی ہو

بابا بلھے شاہ-01

عشق جناں نو لگ جاندے ٹٹ جاندے سک جاندے وانگ کانیاں دے

کش سک جاندے کش مک جاندے نال خلقت دے طعنیاں دے

کش عشق دا بدنام کردے کش سڑ جاندے وانگ پروانیاں دے

بلھے شاہ عشق دے بجے نی چھٹدے چھٹ جاندے قیدی جیل خانیاں دے

اویں تے دنیا ملن نی دندی ملاں گے نال بہانیاں دے

ابلیس الخبیث


:::::شداد بن عاد:::::: بشکریہ تحریم __بلاگ

:::::شداد بن عاد:::::: بشکریہ تحریم (بلاگ)


إرم ذات العماد التي لم يخلق مثلها في البلاد

بعض مفسرین نے جزیرة العرب کے بیابانوں اور عدن کے صحرائوں میں شہر ارم کے بر آمد ہونے کى ایک دلچسپ داستان بیان کى ہے جس میں وہ اس شہر کى بلند و بالا عمارات اور سامان زینت وغیرہ کى بات کرتے ہیں_لیکن مذکورہ داستان واقعیت کى نسبت خواب یا افسانے سے زیادہ تعلق رکھتى ہے_
لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قوم عاد طاقتور قبائل پر مشتمل تھی،ان کے شہر ترقى یافتہ تھے اور جیسا کہ قرآن اشارہ کرتاہے،ان جیسے شہرپھر آباد نہیں ہوسکے_
بہت سى داستانیں شداد کى جو عاد کا بیٹا تھا،زبان زد عام ہیں اور تاریخ میں مرقوم ہیں_ یہاں تک کہ شداد کى بہشت اور اس کے باغات ضرب المثل کى شکل اختیار کر گئے ہیں_لیکن ان داستانوں کى حقیقت کچھ نہیں ہے،یہ محض افسانے ہیں_یہ ایسے افسانے ہیں کہ ان کى حقیقت پر بعد میں حاشیہ آرائی کر لى گئی_

آئیے پھر ایک افسانہ ہی سمجھ کر پڑھیئے

شداد بن عاد

نیلے بیکراں سمندر میں ایک چھوٹا سا جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جہاز میں بہت سارے مسافروں کے علاوہ ایک عورت ایسی بھی تھی جس کی ہاںا بھی اسی وقت بچہ پیدا ہونےوالا تھا۔ پرسکون سمندر میں اچانک ہی لہریں اٹھنے لگیں اور ساتھ ہی ہوا بھی تیز ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوانے طوفان کا رخ اختیار کیا اور سمندر سے اٹھنے والی لہروں نے سے ٹکراٹکرا کر اسے ہچکولے کھانے پر پر مجبور کر دیا۔ سبھی مسافر حیران وپریشان سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک ہی موسم نے اپنا مزاج کیسے بدل لیا۔ طوفان بڑھتا جا رہا تھا اور مسافر زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن اللہ اتعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا کے تیز جھکڑوںاور سمندر کی طاقتور موجوں نے جہاز کو توڑ کر ٹکڑوں میں بدل دیا۔ جن مسافروں کو تیرنا آتا تھا۔ وہ تیر کر اپنی جان بچانے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے ۔
وہ عورت جس کو بچہ پیدا ہونے والا تھا ، جہاز ڈوبنے کے خوف اور طوفان کی دہشت سے بے ہوش ہو چکی تھی اور جہاز کے ٹوٹے ہوئے ایک تختے پر پڑی ہوئی تھی او ریہ تختہ بے اتھاہ سمندر میں تیز لہروں کے سہارے بہتا چلا جا رہا تھا اور اسی حالت میں عورت کی یہاں بچہ پیدا ہوا اور ولادت کے اگلے ہی لمحے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کرلی جائے۔ حکم کی تعمیل پلک جھپکنے سے قبل ہوئی اور وہ بچہ بے سروسامانی کی حالت میں اکیلا ہی تختے پر پڑا رہا اور وہ تختہ کئی دنوں بعد کنارے پر آلگا۔ کنارے پر موجود ایک مہتر نے جو یہ دل سوز نظارہ دیکھاتو لپک کر بچے کو اٹھا لیا۔ اور میت کو وہی قریب میں زمین کھو د کر دفن کر کے بچے کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔
مہتر جب بچہ لیکر گھر پہنچا تو بچے کو دیکھ کر اس کی بیوی بہت خوش ہوئی کیونکہ اس کی یہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور انہوںنے بچے کا نام شداد رکھا۔مہتر اور اس کی بیوی اس بچے کی لاڈو پیار سے پرورش کرنے لگے یہاں تک کہ وہ سات برس کا ہوگیا اتنی کم عمر میں شداد نہایت ہی ذہین ، عقل مند اور چالاک بھی تھا۔ ایک روز گاؤں کے باہر شداد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی شور اٹھا کہ بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔ یہ سنتے ہی سارے بچے بادشاہ کے ڈر سے بھاگئے لیکن شداد وہی قریب کے ایک ٹیلے کی اڈے میں چھپ کر بادشاہ کی سواری اور شاہی لشکر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام لشکر گزر گیا اور بادشاہ کی سواری گزرنے کے بعد کچھ پیارے، گری پڑی ہوئی چیزوں کی خبر گیری کے واسطے لشکر کے پیچھے پیچھے آئے۔ ان پیادوں میں سے ایک پیادے نے راستے میں ایک پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔ اس نے جب پوٹلی کو کھولکر دیکھا تو اس میں ایک سرمے دانی تھی۔ وہ پیادے اپنے ساتھیوں سے بولا۔
”میں نے سرمہ پایا ہے…. اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے اپنی آنکھوں میں لگاؤں کیونکہ میری بنائی بھی کچھ کمزور ہو گئی ہے شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔
اس کے ساتھیوں نے جواب دیا….اول تو راستے میں پڑی ہوئی چیز اٹھانا نہیں چاہئے۔ خیر اب تو نے اٹھا ہی لی ہے تو بغیر آزمائے ہوئے آنکھوں میں ہر گز مت لگانا کبھی فائدے کے اور نقصان نہ ہوجائے۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھ۔
یہ سنکر پیادے نے ادھر اُدھر دیکھا تو اسے شداد ایک ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا نظر آیا۔ پیادے نے اسے بڑے پیار سے بلایا اور کہا۔ آبیٹا ! ہم تیری آنکھوں میں سرمہ لگادیں تاکہ تیری آنکھیں اچھی لگیں۔
شدادنے پیادے سے سرمے دانی اور سلائی لیکر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرمہ لگاتے ہی شداد کے چودہ طبق روش ہوگئے اور اسے زمین کے اندر چھپے ہوئے تمام خزانے بالکل اسی طرح سے نظر آنے لگے جیسے صاف شفاف پانی میں چیزیں نظر آتی ہیں۔ شداد حد سے زیادہ چالاک تو تھا ہی لہٰذا اپنی چالاکی اور عقل مندی سے چلایا…. اے خانہ خراب ظالموں !…. تم نے میری آنکھیںپھوڑ دیں…. ہائے میں اندھا ہو گیا…. یہ میری آنکھ میں کیسا زہر لگوا دیا …. ہائے اب میں بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں گا اور تم کو سزا دلواؤنگا ۔
پیادوں نے جو یہ سنا تو مارے خوف کے سرمہ وہیں چھوڑ ، گرتے پڑتے اپنی جان بچانے بھاگ کھڑے ہوئے اورشداد اپنی چالاکی اور پیادوں کی بزدلی پر خوب ہنسا اورسرمہ دانی لیکر اپنے گھر آگیا اور اپنے باپ سے ساراواقعہ بیان کر دیا ۔ مہتر اپنے بیٹے کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوا اور بولا۔ ”رات کو جب سب لوگ سو جائیں گے تو ہم اپنے بھروسے کے مزدوروں کے ساتھ پھاؤڑے وغیرہ لیکر چلیں گے اور جہاں بھی تجھ کو خزانے نظر آئیں گے ہم وہاں سے کھود کر نکال لیںگے۔اور اپنے گدھوں اور خچروں پر لاد کر خزانہ لے آئیں گے۔ اس طرح شداد نے بہت سا مال و دولت اورجواہر اکٹھے کر لئے تھے۔ اور سب گاؤں والوں کو آئے دن دعوتیں کر کر کے اپنا ہم دردو رفیق بنا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد شداد نے اس گاؤں کے سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ پر خود سردار بن بیٹھا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر دوسرے حاکموں اور فوجداروں کو پہنچی تو انہوںنے شداد کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرنے ، شداد نے بھی اپنی ایک فوج تیار کر لی اور ان حاکموں فوجداروں سے مقابلہ کیا اور اپنی ذہانت اور بہادوری سے سب حاکموں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا اور اس طرح سے بڑھتے بڑھتے شداد تمام روئے زمین کا بادشاہ بن بیٹھا اور سارے جہاں کے حاکم، امراءاور سردار اس کے مطیع وفرمابردار ہوئے۔
شداد نے بے پناہ خزانے جمع کرلئے تھے۔ اور اپنا لشکر اس قدر وسیع اور مضبوط بنا لیا تھا کہ چہار سو اسی کا حکم چلتا تھا۔ اپنی طاقت اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے شداد نے اپنی سلطنت کو کمال عروج بخشا تھا اور روئے زمین کے کسی انسان کو اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ بہ پناہ خزانوں اور مال و دولت ، وسیع و عریض سلطنت ، عظیم الشان لاؤ لشکر اور اپنی ذہانت و طاقت کی وجہ سے شداد اب غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیاتھا اور اس نے دعویٰ خدائی کر ڈالا۔عالموں اور واعظوں نے اس ملعون کو پندو نصیحتیں کیں اور حق تعالیٰ کے خوف اور اس کی عبادت کی طرف رغبت دلانے کی بہت کوششیں کیں لیکن شداد کا کہنا تھا کہ دولت و حکومت جاہ ثروت، عزت وشہرت اور حشمت سب کچھ میرے پاس موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی خدا کی اطاعت کروں۔عالموں نے سمجھایا کہ یہ سب ملک و دولت فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں جنت عطاکرینگے جو اس دنیا سے کروڑہا درجے بہتر ہوگی۔شداد نے پوچھا کہ اس جنت میں کیا خوبی ہے ؟تو عالموں نے جو کچھ بھی خوبیاں اور تعریفیں جنت الفردوس کی پڑھی اور سنیں تھیں وہ سب اس کے سامنے بیان کر دیں۔ عالموں کی باتیں سنکر شداد نے حقارت سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”مجھے اس جنت کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی مجھے وہ جنت چاہئے۔ کیونکہ مجھ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ میں اس سے بھی اچھی جنت اس دنیا میں بنا سکتا ہوں“۔لہٰذا تمام عالموں واعظوں اور کو دکھلانے کی خاطر شدادنے اپنی جنت بنانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے معتبر سرداروں میں سے سو آدمیوں کا انتخاب کر کے انہیں جنت بنانے کے لئے نگراں مقرر کیا اور ہر ایک سردار کے ساتھ ہزار ہزار آدمی متعین کئے،زمین میں دفن تمام خزانے نکلوائے گئے اور معدنوں سے سونا چاندی نکلو ا کر ان کی گنگا جمنی انیٹیں تیار کروائیں اور کوہ عدن سے متصل ایک شہر مربع (چوکھٹے) کی شکل میں دس کوس لمبا ، دس کوس چوڑا اور چالیس کوس اونچامقام بنانے کا حکم دیا ۔ اس شہر کی بنیادیں اس قدر کھودیں گئیں کہ پانی کے قریب جا پہنچیں اور پھر ان بنیادوں کو سنگ سلیمانی سے بھروایا گیا جب بنیادیں زمین کے برابر ہو گئیں تو اس پر سونے اور اشرفیوں کی انیٹوں سے دیواریں چننی شروع کی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس قدر زیادہ تھی کہ جب آفتاب طلوع ہوتا تھا تو اس کی چمک سے دیواروں کی روشنی پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔
شہر کی چہار دیواری کے اندر ہزار ہزار محل تیار کئے گئے اور ہر محل ہزار ستونو ں کا اور ہر ہر ستون ، جو اہرات سے جڑا ہوا تھا اورشہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر مکان میں حوض اور چوبچے بنوائے گئے اور شہر کی بڑی ہنر سے شاخیں نکلوا کر ہر ہر مکان تک ایک ایک نہر پہنچائی گئی اور ان نہروں کو حوض اور چوبچوں سے جوڑا گیا۔ حوض اور چوبچوں کے فرش پر یاقوت ، زمرد، مرجان اور نیلم کی تہیں بچھائی گئیں اور ا ن کے کناروں پر درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی اور شاخیں اور پتے زمرد کے اور پھول و پھل انکے موتی اور یاقوت کے اور دیگرجواہرات کے بنوا کر لٹکائے گئے۔ مکانوں کی دیواروں کو خشک ، زعفران اور عنبر کو گلاب سے گہگل کر کے استرکاری کرواکر مطّلا و مذّہب کیا گیا اور یاقوت ودیگر جواہرکے خوب صورت ، خوش آواز جانور بنوا کر درختوں پر بٹھائے گئے اور ہر درخت کے پاس ایک پہرے دار کو تعینات کیا گیا۔
جب اس انداز کا شہر بن کر تیار ہوا تو حکم دیا کہ سارے شہر میں قالین اور فرش پر ریشمی زرلفت بچھادئےے جائیں اور سب مکانوں میں ترتیب سے سونے چاندی کے برتن چنوادئیے گئے اور حوضوں میں دودھ، شراب، شہد اور شربت انواع اقسام کے جاری کرادئیے گئے۔ بازاروں میں دکانوںکو بھی کمخواب زردوزی کے پردوں سے مزین کیا گیا اور ہر پیشہ اور ہنروالے کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے پیشہ اور ہنرمیں مشغول ہو جائیں اور انواع انواع اقسام کے میوے، طرح طرح کے عمدہ و لذیذ پکوان ہمیشہ ہی سبھی شہر والوں کو پہنچایا کریں۔ غرض کہ بارہ بر س میں یہ شہر بے مثال اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوا تو تمام اُمراءاور سرداروں کوحکم دیاگیا کہ وہ زینت کے ساتھ اس شہر میں جا کر رہیں اور خود بھی اپنی فوج ولشکر کو ساتھ لیکر کمال عذور وتکبر سے شہر کی طرف کوچ کیا اور راستے میں عالموں اور واعظوں کو جلانے کی خاطر کچھ دیر رک کر ان سے تکبر اور حقارت کے ساتھ کہا ”تم اسی جنت کے واسطے مجھے اس کے سامنے ،جس کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہو، سر جھکانے اور ذلیل ہونے کے لئے کہتے تھے نا! اب تم کو میری قدرت اور ثروت دیکھنی ہو تو میرے ساتھ چلو! میں نے اس ان دیکھی جنت سے بھی زیادہ حسین و دلکش اور خوبصورت جنت بنوائی ہے جس کو دیکھ کر لینے کے بعد تم اپنے خدا کی جنت کو بھی کم سمجھوگے۔
شداد جب اپنی بنائی ہوئی جنت کے قریب پہنچا تو اس شہر کے باشندوں کے غول اس کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے سے باہر آکر اس پرزرو جواہر نچھاور کرنے لگے۔ اس طرح سے جب شداد شہرکے دروازے پر پہنچا تو اس کا ایک قدم دروازے کے باہر اور ایک قدم اندر تھا کہ آسمان سے ایک ایسی سخت کڑک دار آواز آئی کہ تمام مخلوق ہلاک ہوگئی اور بادشاہ بھی وہیں دروازے پر گر پڑا اور مر گیا ۔ اس شہر کو دیکھنے کی حسرت کہ کس محنت اور مشقت سے اس کو تیار کیاتھا دل میں لے گیا۔ تمام مخلوق کے ہلاک ہونے کے بعد …. اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا ۔تجکو کس بندے کی روح قبض کرتے وقت کبھی رحم بھی آیا یا نہیں ؟ملک الموت نے عرض کیا۔ اللہ رب الغزت ! مجھکو دو ذی روحوں کی جان نکالنے میں کمال رقت ہوئی تھی ، اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ہرگز ان کی جان نہ نکالتا۔
ارشادہوا: بتاؤ‘ وہ دو لوگ کون تھے؟
عرض کیا :ایک تو وہ بچہ تھا جو نیا پیدا تھا اور اپنی ماں کے ساتھ جہاز کے ٹوٹے ہوئے تختے پر بے سروسامانی کی حالت میں بحر بیکراں میں تیراتا جا رہا تھا۔ اس وقت اس بچے کا واحد سہارا تمام کائنات میں اس کی ماں تھی تو مجھے حکم ہوا کہ اسکی ماں کی روح قبض کرلے۔ اس وقت مجھے اس بچے پر بے حد بے حد رحم آیاتھا کیونکہ اس بچے کا اس کا ماں کے سوا کوئی دوسرا خبر گیر نہ تھا اور بھوکا پیاسا بچہ اپنی ماں کے دودھ کے لئے ترس رہاتھا۔ اور باری تعالیٰ ! دوسرا یک بادشاہ تھا جس نے ایک شہر کمال آرزو سے ایسا بنوایا تھاکہ ویسا شہر دنیا میں کہیں نہیںتھا، جب وہ شہر تیار ہو گیا اور بادشاہ اپنے شہر کو دیکھنے پہنچا تو جس وقت ایک قدم اس کا شہر کے دروازے میں تھا تو مجھے حکم ہوا اور اس کی جان قبض کر لے اس وقت بھی مجھے بہت رونا آیا تھا کہ وہ بادشاہ کیاکچھ حسرتیں اپنے دل میں لے گیا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:عزرائیل ! تمہیں ایک ہی شخص پر دوبار رحم آیا ہے! کیونکہ یہ بادشاہ وہی بچہ تھا جس کو ہم نے بغیر ماں باپ کے بناکسی سہارے کے سمندر کی تیز وتندلہروں اور طوفانوں میں بھی محفوظ رکھا اور اس کو حشمت وثروت کی بلندیوں پر پہنچایا اور جب یہ اس مرتبے کو پہنچا تو ہماری تابعداری سے منہ موڑا اور تکبر کرنے لگا اور آخرکار اپنی سزا کو پہنچا۔
معتبر تفسیروں میں لکھا ہے کہ شداد اور اس کے لشکر اور اس شہر کے تمام لوگوں کے ہلاک ہونے کے بعد اللہ پاک نے اس شہر کو دنیا والوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دیا ہے مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن کے گردو نواح کے لوگوں کو اس جگہ چمک دار روشنی دکھائی دیتی ہے جسکے بارے میں خیال ہے کہ یہ روشنی اسی شہر کی دیواروں کی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ذکر ہے کہ اس شہر کو اللہ پاک نے لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ کر دیا ہے اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک شخص اپنے اونٹ کو ڈھونڈھتا ہوا اس شہر میں جائے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔
اس شہر کی اس سے زیادہ کوئی کیا تعریف کرے گا کہ خود اللہ رب العزت باوجود احاطہ علم اورتمام معلومات کے ارشاد فرمایا ہے کہ

التی لم یخلق مژلہا فی البلاد
یعنی وہ شہر کے ہرگز پیدا نہیں کیا گیا ویسا روئے زمین کے شہروں میں
ماخوذ:تفسیر فتح العذیز

تاریخ کے طالب علموں سے درخواست ہے مدرجہ بالا مضمون اپنی دلچسپی کے تحت لکھا ہے کچھ غلطی و کوتاہی ہو تو درستگی کے لئے مطلع کر دیجئے گا۔

حبس کے موسموں کے پرندے:::مستنصر حسین تارڑ کاکالم ہزار داستان

ایک کہاوت ہے کہ حبس کے موسموں میں پرندے مرجاتے ہیں لیکن ہم کیسے پرندے ہیں کہ جب سے آنکھ کھولی ہے تب سے نہ بہار آئی ہے ،نہ گل کھلے ہیں اورنہ ان سے ملے ہیں بس حبس کے موسموں کی بادشاہت ہے اورہم منہ کھولے مٹھی بھرہوا کی آس میں بمشکل زندہ ہیں جانے ہم مرکیوں نہیں گئے کبھی کبھارہوا کاایک جھونکا آتاہے توہم جی اٹھتے ہیں چونچیں کھول کرچہچہانے لگتے ہیں کہ بالآخر حبس کے موسموں کاخاتمہ ہورہاہے جمہوریت کادور شروع ہورہاہے عوام الناس نے بہار کے حق میں ووٹ دیاہے الیکشن میں کامیاب ہونے والی تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی پلیٹ فارم پرجمع ہوگئی ہیں ان کاآپس میں کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ،اوراتفاق ہے توپاکستان کے بہتر مستقبل پر ،ایک ایسے جمہوری نظام پرجس میں راج کرے گی خلق خدا مری ڈیکلریشن میں آتاہے تولوگوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں تیس دن کے اندراندر عدلیہ بحال کی جارہی ہے قدم سے قدم ملا کرچلیں گے سب بھائی بھائی ہیں اور الطاف حسین توپہلے سے ہی بھائی ہیں ہرجانب مسکراہٹیں ہیں اورپھر یہ مسکراہٹیں پھیکی پڑنے لگتی ہیں تعلقات جن میں گرمی کی شدت تھی اب سرد ہوکرمنجمد ہونے لگتے ہیں حکومت کی جانب سے اگرچہ اعلان ہورہے ہیں کہ کولیشن قائم کیے جارہے ہیں ن لیگ کے وزراء پھرچلے جاتے ہیں اورآپ انہیں موردالزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے کہ وہ ججوں کی بحالی کے مسئلے پرالیکشن جیتے ہیں اورحلف اٹھائے ہیں اور قوم سے وعدہ بھی کیاگیاتھا کہ تیس دن کے اندر اندر عدلیہ بحال ہوجائے گی تووہ کس منہ سے حکومت میں بیٹھے رہتے اب کس آئینی پیکج کی بات ہورہی ہے کہ بس آپ جلد ہی ایک خوشخبری سنیں گے اورجب خوشخبری آتی ہے تومزیدمہنگائی اورپٹرول کی قیمتوں میں ایک ظالمانہ اضافے کی صورت میں آتی ہے۔ میں صبح کی سیرکے فوراً بعد ایک مارکیٹ سے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء پھل اورسبزی وغیرہ خریدتا ہوں ڈبل روٹی،مکھن دہی اورگوشت وغیرہ خریدتاہوں اوردوسرے تیسرے روز مجھے اپنے بجٹ میں اسی خریداری کیلئے کم ازکم دوسوروپے کااضافہ کرناپڑتاہے حالانکہ بہت احتیاط برتتاہوں ، پھل خریدتے ہوئے کیلے ایک درجن کی بجائے صرف نصف درجن اورسیب یاآڑو بھی ایک کلوسے کم کرکے نصف کلو کردیتاہوں اوراس کے باوجود بجٹ پورانہیں پڑتا۔ چنانچہ اب روزانہ پھل نہیں خریدتا دہی کے بغیر گزارہ کر لیتاہوں اور سوچتا ہوں کہ گھریلو ملازم اس دور میں کیسے زندہ رہ رہے ہیں ادھر وہ حضرات جو پچھلے آٹھ برس سے سیاہ وسفید کے مالک تھے وہ بھی پر پرزے نکال رہے ہیں ،عوام کی ہمدردی میں آنسو بہاتے بیان دیتے ہیں کہ حکومت کے سودن پورے ہوگئے ہیں تو ابھی تک آٹے کے بحران پرقابو کیوں نہیں پایاگیا حالانکہ آج کے بیشتر بحران جن میں لوڈشیڈنگ بھی شامل ہے موجودہ حکومت کوورثے میں ملے ہیں اگرچہ یہ بھی اس ورثے کوگلے لگائے بیٹھے ہیں اس کے بارے میں کچھ کرتے نہیں ادھر اپنے شیخ رشید صاحب ایک نئی پارٹی تشکیل دے کرملک وقوم پر احسان کررہے ہیں الیکشن میں بری طرح شکست کھانے کے بعد وہ گھرنہیں بیٹھ گئے بلکہ قوم کومزیدمشورے دینے کیلئے میدان میں آگئے سب سے زیادہ رنج پاکستان کے مقبول ترین صدرکے بیانات پرہوتاہے وہ اپنے قصرصدارت میں آرام سے گوشہ نشین ہیں اورقوم کادکھ برابر محسوس کررہے ہیں شکایت کرتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ،مہنگائی پرقابو کیوں نہیں پایا جارہا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سوال اگر وہ اپنے پتلی وزیراعظم سے کرتے تو کوئی بات بھی تھی جوالیکشنوں کے فوراً بعد یوں غائب ہوتے ہیں جیسے ایک جانورکے سرسے سینگ۔ آٹھ برس تک راج انہوں نے کیااورپھرمزے سے بوریابستر سنبھالا کہ بھئی ہم توحلوہ کھانے آئے تھے وہ جی بھر کے کھالیا اوراب خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں اورغائب۔ ادھرالیکشن کے فوراً بعد ہمیں مسلسل یہ خوشخبری سنائی جارہی تھی کہ آئندہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کرے گی عوامی نمائندے کریں گے۔ لیکن یہ کیاکہ وہی پارلیمنٹ ہمیں کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہی اورفیصلے ہوتے چلے جارہے ہیں یہ فیصلے کون کرتاہے اس کے بارے میں عوام کوکچھ علم نہیں اگر سرحد میں یاوزیرستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کافیصلہ ہوتا ہے تو پارلیمنٹ بے چاری کوبھی اس کاعلم اگلے روز کے اخباروں سے ہوتاہے حالانکہ یہ ایک ایسامسئلہ تھا جس کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی ہم کسی دشمن ملک پرتو حملہ کرنے نہیں جارہے کہ اس کافیصلہ خفیہ رکھاجائے اپنوں کے ساتھ کچھ اختلافات ہیں انہیں مل بیٹھ کرطے کرنا ہے اوراب ان دنوں تونہایت ہی مزاحیہ صورتحال سے دوچارہوگئے ہیں جی ہاں وہی نوٹیفکیشن کہ آئی ایس آئی اب وزیراعظم کی بجائے وزارت داخلہ کے تابع ہوگی اورابھی اس نوٹیفکیشن کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسے واپس لے لیاگیا کہ معاف کیجئے گا کچھ غلط فہمیاں پیداہونے کاخدشہ تھا اس لیے فی الحال اسے معطل سمجھئے ۔ اہل اقتدار بیان دے رہے تھے کہ یہ تبدیلی باہمی مشاورت سے عمل میں لائی گئی ہے اورملک وقوم کی بہتری کیلئے ہے اورادھرباوردی حضرات کانوں کوہاتھ لگارہے ہیں کہ جناب قسم لے لیجئے جوہم سے اس نوعیت کاکوئی مشورہ کیاگیاہو۔ صدرصاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اورنوٹیفکیشن واپس۔
شطرنج کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بادشاہوں کاکھیل ہے اورواقعی بادشاہ اوربادشاہ گر شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھے ہیں کوئی دبئی سے چال چل رہاہے کوئی لندن سے ،کوئی لاہورسے اورکوئی قصر صدارت سے اوروہ اس کھیل سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں اورپرندے حبس کے موسموں میں چونچیں کھولے تازہ ہوا کے ایک جھونکے کوترس رہے ہیں ان کے حلق سوکھ رہے ہیں اوروہ مرنے کوہیں شجرسے بدستور پیوستہ ہیں اورامیدبہار رکھ رہے ہیں لیکن کب تک۔ کیاشطرنج کے کھلاڑی تب ہوش میں آئیں گے جب ان کی بساط پرمردہ پرندے گرنے لگیں گے۔

ہمیشہ ایک دفعہ کا ذکر کیوں

ایک دفعہ کا ذکر ہے

جی تو جناب بات ہو رہی ہے کہ ہمیشہ ایک دفعہ کا ذکر کیوں ہوتا ہے،
تو بات کچھ یوں ہے کہ میرے ایک دوست کچھ عرصہ پہلے دبئی گئے، واپسی پر بورڈنگ کے دوران اچانک انہیں ایک خوبصورت لڑکی نظر آئی جو بہت پریشانی کے عالم میں‌کھڑی تھی اور بار بار داخلی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی، تو جناب میرے دوست حسب عادت فوراً اس کے پاس گئے اور اس سے بہت مہذب طریقے سے پریشانی کی وجہ دریافت کی، لڑکی نے جلدی جلدی سے بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ دبئی میں رہتی ہے اور زندگی میں پہلی بار پاکستان جا رہی ہے، لیکن جن صاحب نے اس کو گائیڈ کرنا تھا وہ ابھی تک نہیں آیا تھا اور فلائیٹ کا وقت ہو چکا تھا، اب جناب ہمارے دوست صاحب نے انہیں‌تسلی دی اور کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کو پاکستان میں کسی قسم کی بھی مدد کی ضرورت ہو گی تو آپ مجھ پر اعتماد کر سکتی ہیں۔
قصہ المختصر کہ جناب ان دونوں میں پاکستان آنے تک اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔ اس کہ بعد پاکستان میں آکر ان دونوں نے اچھا خاصہ وقت ساتھ ساتھ گزارا، ہمارے دوست نے کچھ ایسا اچھا امپریشن دیا کہ وہ لڑکی نا صرف ان سے متاثر ہو گئی بلکہ اس نے ان کو شادی کی آفر بھی کردی۔
اب جناب یہ صاحب بہت خوش ہوے شادی تو کرنی ہی تھی سو ایک اچھی لڑکی مل گئی، ان کے گھر والوں نے بھی رضامندی کا اظہار کر دیا اور طے یہ ہوا کہ وہ واپس جائے گی اپنے والدین سے بات کرے گی اور جلد ان کے ساتھ واپس آجائے گئ۔ اسکے بعد شادی کی جائے گی۔
یہ صاحب خود انکو چھوڑنے ائر پورٹ گئے، اور کافی گرمجوشی اور عہدوفا کے بعد اسکو رخصت کر آئے،
کچھ عرصہ تک اس لڑکی کا کوئی فون نہ آیا، پہلے تو سب یہی سمجھتے رہے کہ کوئی مصروفیت ہو گی لیکن کافی دن گزرنے کے بعد سب کو تشویش ہوئی، اب ان صاحب نے اس کے موبائل پر رابطے کی کوشش کی تو اگے سے ایک بزرگ نے فون ریسیو کیا ان کے پوچھنے پر جو خبر اسکو ملی وہ ایک انتہائی خوفناک اور افسوسناک بات تھی وہ یہ کہ دبئی میں ائرپورٹ سے واپسی پر اس لڑکی کا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ چند گھنٹوں بعد ہی وفات پا گئی تھی۔
یہ صاحب بہت دلبرداشتہ ہوئے، کافی عرصہ تک کام وام بھی نہ کیا، بہت پریشانی کے عالم میں بلکل پاگلوں جیسی حالت بنا کر گھومتے رہے، لیکن وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے، آہستہ آہستہ یہ دوبارہ اپنی اصل زندگی میں لوٹ آئے۔
اب آپ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ کہانی ختم تو جناب نہیں
اب کیا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد وہ لڑکی ان کے خواب میں آئی اور وہ بھی اس حالت میں کہ خون سے لت پت اور ان کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی پھر اس نے ان کی قمیض کا کالر پکڑ لیا، یہ صاحب ڈر کہ اٹھ گئے،
پھر یہ خوابوں کا سلسلہ لگاتار ہوتا گیا، ان صاحب نے ادویات کا استعمال شروع کردیا، سائکاٹرسٹ کو ملے اس سے بھی دوائی لی مگر ہر مرتبہ دوائی استعمال کرنے کہ بعد اسکا اثر الٹا ہوتا، خواب بار بار آتا اور اب تو یہ بھی ہونے لگا کہ اکیلے میں بیٹھے بیٹھے اسکو وہ لڑکی اپنے سامنے نظر آنے لگتی،
آخر کار گھر والوں نے ان کی شادی انکی ایک کزن سے کردی تاکہ اسکی اس لڑکی کے بھوت سے جان چھوٹ جائے، اسکے بعد اسکی زندگی میں کچھ دن کہ لئے بہت اچھی تبدیلی آئی لیکن اب کیا ہوا کہ ایک دن یہ صاحب تو گئے ہوئے تھے دفتر، ان کی بیوی جو ان کی شرٹ/قمیض دھونے لگی تو کیا دیکھتی ہے کہ قمیض کے کالر پر تازہ خون کے دھبے تھے، ڈر کے مارے وہ کانپنے لگی، اسکے بعد اس نے جلدی جلدی سے اس شرٹ کو دھونا شروع کر دیا لیکن حیرت کی بات تھی کہ خون کے داغ صاف ہی نہیں ہو رہے تھے اور اسکی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی اسی دوران دروازے پر بیل ہوئی وہ دوڑتی ہوئی باہر آئی دروازہ کھولا، دیکھا تو دروازے پر ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی، اس نے پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھا کہ فرمائے بڑی بی کیا بات ہے،
بوڑھی عورت نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ جو تم صاف کرنا چاہتی ہو وہ اس طرح صاف نہیں ہو گا،
تو کس طرح صاف ہو گا؟
لڑکی نے پریشانی سے پوچھا،
حیرت سے اسکا رنگ پیلا پڑ چکا تھا،
بوڑھی عورت نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
"صرف ایک چیز سے یہ داغ صاف ہو سکتے ہیں"
وہ کیا ؟ (لڑکی نے پریشانی سےگھبرائی ہوئی آواز میں پھر پوچھا)
بوڑھی نے جواب دیا
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
صرف اور صرف SURF EXCEL

Friday, 20 May 2011

خوشحالی

ایک دفعہ ایک بلڈنگ میں اوپر نیچے کے دو فلیٹس میں شادی شدہ جوڑے رہتے تھے،

نیچے کے فلیٹ سے ہر وقت لڑائی جھگڑے اور اونچی اونچی آوازیں آتی رہتی تھیں،

جبکہ اوپر کے فلیٹ میں سے ہر وقت قہقہوں کی آوازیں اتی رہتی تھیں،
ایک دن نیچے والے صاحب، اوپر کے فلیٹ میں گئے اور صاحب فلیٹ کو باہر بلایا،
پوچھنے لگے
"یار کمال ہے تم لوگ ہر وقت خوش رہتے ہو، جبکہ ہم ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، تمھاری خوشحالی کی وجہ کیا تم لوگ کبھی نہیں‌لڑتے کیوں؟

پڑوسی نے مسکرا کر جواب دیا،

یار اصل میں‌لڑتے تو ہم بھی ہیں،

بس فرق صرف یہ ہے کہ جب میری بیوی مجھے وائپر یا بیلن مارتی ہے اور وہ مجھے نہیں‌لگتا تو میں زور زور سے ہنستا ہوں اور اگر اسکا نشانہ صحیح لگ جائے تو وہ زور زور سے ہسنے لگتی ہے،
یہ ہے ہماری خوشحالی کا راز۔

Why is a man allowed to have more than one wife in Islam?

Q. Why is a man allowed to have more than one wife in Islaam? i.e. why is polygamy allowed in Islaam?

Answer.
1. Definition of Polygamy
Polygamy means a system of marriage whereby one person has more than one spouse. Polygamy can be of two types. One is polygyny where a man marries more than one woman, and the other is polyandry, where a woman marries more than one man. In Islaam, limited polygyny is permitted; whereas polyandry is completely prohibited.
Now coming to the original question, why is a man allowed to have more than one wife?

2. The Qur'ân is the only religious scripture in the world that says, "marry only one".

The Qur'ân is the only religious book, on the face of this earth, that contains the phrase ‘marry only one’. There is no other religious book that instructs men to have only one wife. In none of the other religious scriptures, whether it be the Vedas, the Ramayan, the Mahabharat, the Geeta, the Talmud or the Bible does one find a restriction on the number of wives. According to these scriptures one can marry as many as one wishes. It was only later, that the Hindu priests and the Christian Church restricted the number of wives to one.

Many Hindu religious personalities, according to their scriptures, had multiple wives. King Dashrat, the father of Rama, had more than one wife. Krishna had several wives.

In earlier times, Christian men were permitted as many wives as they wished, since the Bible puts no restriction on the number of wives. It was only a few centuries ago that the Church restricted the number of wives to one.

Polygyny is permitted in Judaism. According to Talmudic law, Abraham had three wives, and Solomon had hundreds of wives. The practice of polygyny continued till Rabbi Gershom ben Yehudah (960 C.E to 1030 C.E) issued an edict against it. The Jewish Sephardic communities living in Muslim countries continued the practice till as late as 1950, until an Act of the Chief Rabbinate of Israel extended the ban on marrying more than one wife.

3. Hindus are more polygynous than Muslims

The report of the ‘Committee of The Status of Woman in Islam’, published in 1975 mentions on page numbers 66 and 67 that the percentage of polygamous marriages between the years 1951 and 1961 was 5.06% among the Hindus and only 4.31% among the Muslims. According to Indian law only Muslim men are permitted to have more than one wife. It is illegal for any non-Muslim in India to have more than one wife. Despite it being illegal, Hindus have more multiple wives as compared to Muslims. Earlier, there was no restriction even on Hindu men with respect to the number of wives allowed. It was only in 1954, when the Hindu Marriage Act was passed that it became illegal for a Hindu to have more than one wife. At present it is the Indian Law that restricts a Hindu man from having more than one wife and not the Hindu scriptures.

Let us now analyse why Islam allows a man to have more than one wife.

4. Qur'ân permits limited polygyny

As I mentioned earlier, Qur'ân is the only religious book on the face of the earth that says ‘marry only one’. The context of this phrase is the following verse from Surah Nisa of the Glorious Qur’an:
"Marry women of your choice, two, or three, or four; but if ye fear that ye shall not be able to deal justly (with them), then only one." [Al-Qur'ân 4:3]

Before the Qur'ân was revealed, there was no upper limit for polygyny and many men had scores of wives, some even hundreds. Islam put an upper limit of four wives. Islam gives a man permission to marry two, three or four women, only on the condition that he deals justly with them.

In the same chapter i.e. Surah Nisa verse 129 says: "Ye are never able to be fair and just as between women...." [Al-Qur'ân 4:129]

Therefore polygyny is not a rule but an exception. Many people are under the misconception that it is compulsory for a Muslim man to have more than one wife.
Broadly, Islam has five categories of Do’s and Don’ts:
(i) ‘Fard’ i.e. compulsory or obligatory

(ii) ‘Mustahab’ i.e. recommended or encouraged

(iii) ‘Mubah’ i.e. permissible or allowed

(iv) ‘Makruh’ i.e. not recommended or discouraged

(v) ‘Haraam’ i.e. prohibited or forbidden

Polygyny falls in the middle category of things that are permissible. It cannot be said that a Muslim who has two, three or four wives is a better Muslim as compared to a Muslim who has only one wife.

5. Average life span of females is more than that of males
By nature males and females are born in approximately the same ratio. A female child has more immunity than a male child. A female child can fight the germs and diseases better than the male child. For this reason, during the paediatric age itself there are more deaths among males as compared to the females.

During wars, there are more men killed as compared to women. More men die due to accidents and diseases than women. The average life span of females is more than that of males, and at any given time one finds more widows in the world than widowers.

6. India has more male population than female due to female foeticide and infanticide

India is one of the few countries, along with the other neighbouring countries, in which the female population is less than the male population. The reason lies in the high rate of female infanticide in India, and the fact that more than one million female foetuses are aborted every year in this country, after they are identified as females. If this evil practice is stopped, then India too will have more females as compared to males.

7. World female population is more than male population In the USA, women outnumber men by 7.8 million. New York alone has one million more females as compared to the number of males, and of the male population of New York one-third are gays i.e sodomites. The U.S.A as a whole has more than twenty-five million gays. This means that these people do not wish to marry women. Great Britain has four million more females as compared to males. Germany has five million more females as compared to males. Russia has nine million more females than males. God alone knows how many million more females there are in the whole world as compared to males.

8. Restricting each and every man to have only one wife is not practical

Even if every man got married to one woman, there would still be more than thirty million females in U.S.A who would not be able to get husbands (considering that America has twenty five million gays). There would be more than four million females in Great Britain, 5 million females in Germany and nine million females in Russia alone who would not be able to find a husband.

Suppose my sister happens to be one of the unmarried women living in USA, or suppose your sister happens to be one of the unmarried women in USA. The only two options remaining for her are that she either marries a man who already has a wife or becomes public property. There is no other option. All those who are modest will opt for the first.

In Western society, it is common for a man to have mistresses and/or multiple extra-marital affairs, in which case, the woman leads a disgraceful, unprotected life. The same society, however, cannot accept a man having more than one wife, in which women retain their honourable, dignified position in society and lead a protected life.

Thus the only two options before a woman who cannot find a husband is to marry a married man or to become public property. Islam prefers giving women the honourable position by permitting the first option and disallowing the second.

Polygamy solves the problem of adultery among men, who by nature are polygamous, or are not happy with their wives, It prevents the prevalence of AIDS and other similar diseases arising from illicit sexual relations among people of loose morals.

It minimizes divorce as men are given the option to marry other women of their choice without divorcing their present wives. This subsequently, prevents the occurrence of juvenile delinquencies among children of broken families.

Furthermore, polygamy gives the opportunity for more unmarried women to be married, considering the fact that women exceed men in number. This in turn eliminates fornication and prostitution, thus greatly reducing the number of children born out of wedlock. Unfortunately, children born out of wedlock are being ostracized in the same way as their mothers are being look down by the society. In polygamy, children are recognized as legal offspring of their fathers just as their mothers are respected as legally married women.

There are several other reasons, why Islaam has permitted limited polygyny, but it is mainly to protect the modesty of women.


Copied from Dr. Zakir Naik

نام میں‌کیا رکھا ہے ::::ایک انتخاب

کہتے هیں که
نام میں کیا رکها ہے؟
گوبهی کے پهول کو آگر آپ گلاب بهی کہـ لیں تو اس کا سالن بن هی جاتا ہے ـ
اور گلاب کو گوبهی کہنے سے بهی اس کا گل قند بن هی جاتا ہے ـ اور اس کی خوشبو اور نزاکت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ـ
لیکن یه تهیوری کوئی فارمولا نہیں ہے ـ
مسلمان بچوں کے نام رکهنے میں ایک فارمولا مد نظر رکهنا پڑتا ہےـ
یه نام ایسا هونا چاهیے که اس سے کسی غیر اللّه سے نسبت کا تاثر نه ملے ـ
لیکن کاسه سر میں مغز کی زیادتی کے مغالطے میں مبتلا لوگ مسلمانوں کے نام عربی لوگوں جسے هونے کو بتاتے هیں ـ اسلام کے ظہور سے پہلے اگر ایک شخص کا نام عمر تها تو اسلام قبول کرنے کے بعد بهی یه شخص عمر هی کہلوائے گا مگرکوئی اور شخص اسلام کی قبولیت سے پہلے اگر دهرم داس کہلواتا تها تو اس کو نام بدلنا پڑے گا ـ
مائی سکهاں اسلام قبول کرکے بهی مسلمان نہیں هو سکتی اگر وه اپنا نام نه بدلے ـ لیکن آمنه خدیجه فاطمه کو نام بدلنے کی ضرورت نہیں هے ـ
بیچارے لوگ ہر چیز امپورٹ کی گئی هی پسند کرتے هیں چلو اسلام تو امپورٹ کر لیا اس کے بعد هی کوئی دیسی چیز استعمال کر لیا کریں ـ

جاپان میں آگر کوئی جاپانی اسلام قبول کر لے تو سارے هی نیم عقلمند اس کا نام بدلنے کا تقاضا شروع کر دیتے هیں ـ
کوئی بهی اس بات کا شعور نہیں رکهتا که اس ادمی نے جاپانی معاشرے میں پرورش پائی ہے اس کے دوست اور رشتے دار بهی هیں جو اس کو اس کے نام سے کتنی دهائیوں سے بلا رہے هیں اور یه نام اس کی پہچان ہے اور اگر اس کا نام کسی غیر اللّه کی بندگی کی طرف اشاره نہیں کر رها تو اس کو اس نام کے استعمال کی اجازت دے دیں که اس نو مسلم کو اسلام قبول کر کے شرمندگی نه هو ـ

جاپانیوں کے نام بڑے دلچسپ هیں ہر نام کا کوئی معنی هوتا ہے ـ
جاپانیوں کے خاندانی ناموں پر بات کرتے هیں ـ
ہر جاپانی کا نام کچھ اس طرح هوتا ہے که پہلے خاندانی نام اور اس کے بعد ذاتی نام بے تکلف دوست ذاتی نام سے بلاتے هیں اور باتکلف لوگ خاندانی نام سے ـ

ایشی کاوا کا معنی هوتے هیں پتهریلا دریاـ

کی مورا کے معنی هیں چوبی گاؤں
او شیما کا معنی هیں بڑا جزیره
اسی طرح چهوٹا کهیت بڑا کهیت
اوپر والا باغیچه اونچا پل
وغیره وغیره قسم کے نام هوتے هیں خاندانی نام ـ

یه نام ان لوگوں کو عجیب لگتے هیں جو آپنے کلچر سے ناواقف هیں مگر دیسی معاشرے کا علم رکهنے والے کو معلوم ہے که پنجاب میں بهی اس طرح کے نام هیں اور ان لوگوں کے خاندانی نام کی حثیت رکهتے هیں اور ان کی پہچان هیں ـ

کهوه یعنی کنواں هوا کرتے تهے پرانے زمانے میں اور ہر کھوه کا ایک نام هوا کرتا تها ـ
نام کچھ اس طرح هوا کرتے تهے
ککڑاں والا کهوه
روپے والا کهوه
کیکر والا
ککهاں والا
ڈینگاں والا
سنیار والا
رانجهیاں والا
بیری والا
بهرو والا
ہمارے گاؤں میں یه سارے کهوه هوا کرتے تهے مگر پهر اشتعمال هوئی اور ان کے وجود بدل گئے مگر ان کنوؤں پر کاشت کرنے والے خاندانوں کے نام اب بهی ایسے هی پکارے جاتے هیں ـ
گاؤں کے مشرق کی طرف رانجهیاں والا تها جہاں هماری فیملی کی کاشت کاری تهی
اسکے علاوه تهے روپے والا بهرو والا اور چنبے والا ـشمال میں تهے
ان جگہوں کے نام سے اب ان خاندانوں کی پہچان ہے جو اس رقبے پر کاشت کیا کرتے تهے ـ
جاٹ چیمه هونے کے بعد اب یه لوگ اپنے کهوه کے نام سے پہچانے جاتے هیں ـ
ککڑاں والیے
بیری والیے
روپے والیے
آپنے نام کے ساتھ کہلواتے هیں ـ
ان خاندانوں کی اپنی آپنی عادات اور روایات هیں اور علاقے کے لوگ ان سے ان روایات کی روشنی میں معامله کرتے هیں اور اگر آپ ان روایات سے ناواقف هیں تو آپ کو دکھ بهی اٹهانے پڑ سکتے هیں ـ
میں ان خاندانوں کی عادات اور روایات پر بهی لکهنا چاهتا تها
مگر
یه بات پهر کبهی سہی
لیکن مختصر یه که زیاده تر خاندان مہمان نواز اور دیالو لوگ هیں
پرانی والیے مہمان نواز تو هیں مگر دهیالو نہیں هیں ـ
ڈینگاں والیے صرف ایک خاندان ہے که جن کی کوئی بهی تعریف نہیں کرتا ـ

بہرحال جاپانی نام اور ہمارے نام بهی ایک جیسے هوسکتے هیں بلکه تهے ـ

ایک اور بات بهی پاکستان اور جاپان میں تعلق بنا سکتی هے اگر ہمارے حکومتی لوگوں کو علم احساس اور عقل هو تو ـ
جاپان میں کهیلوں سے دولت کمانے والے لوگ هیں فٹ بال اور بیس بال کے پروفیشنل کهلاڑی لوگ اور
ان هی کی طرح دولت مند هوتے هیں جاپان کے سومو پہلوان ـ سومو نام کی کشتی کبهی آپ نے دیکهی هے ؟ بہت هی موٹے موٹے سے پہلوان جنہوں نے ایسا لنگوٹ پہنا هوتا ہو جس سے ان کے جوتڑ باہر نکلے هوتے هیں ـ
خالص جاپان کی اس کشتی میں بهی اب جب سے جاپان نے معاشی ترقی کی ہے غیر ملکی پہلوان در آئے هیں اور خاصی دولت کما رهے هیں ـ
ہمارے پاکستان میں سندھ کے علاقے میں ایک کشتی هوتی ہے جس کو ملاکھڑا کہتے هیں ـ
اور اس کے پہلوان کو ملاکهو کہتے هیں ـ ملاکهو پہلوان بهی سومو پہلوانوں کی طرح کا پٹکا یا بیلٹ کہـ لیں کمر سے باندھ کر ایک دوسرے سے زور آزمائی کرتے هیں ـ تهوڑی سی کوشش سـے جاپانی سومو اور مکهو کی کشتی کروائی جاسکتی هے اور اس سے جاپان اور پاکستان کے تعلقات بہتر بنائے جاسکتے هیں ـ
لیکن پہلے ہم پاکستانیوں کو تو معلوم هو که ملاکهڑا هوتا کیا ہے اور کہاں هوتا ہے ـ
ہم پاکستانی آپنی دیسی باتوں کا تو علم نہیں رکهتے اور تهوڑی سی انگریزی سیکھ کر دنیا جہان کی باتوں کا علم بکهارنے لگتے هیں ـ

یاد رہے پاکستان کو سب سے زیاده قرضه دینے والا ملک ہے جاپان ناں که امریکه
ہاں جاپان کا یه قرضه امریکه کی گارنٹی پر دیا جاتا ہے ـ