آپ بیتیاں راشد ادریس رانا
Year: 2009_UAE.
رات کے نو بجے اور میں نے جلدی جلدی دکان بند کی۔ یعنی اپنا کمپیوٹر آف کیا اور آفس سے نکلنے کی ٹھانی، آج کافی دیر ہوگئی تھی، ابوظہبی یو اے ای میں آئے ہوئے مجھے تقریبًا آٹھ نو مہینے ہو چکے تھے، جاب مستقل ہو چکی تھی اور میں بہت انجوائے کر رہا تھا، مستقبل کے تابناک خواب، سب کچھ ہرا ہرا یعٰنی سبز سبزتھا۔
اور لمبے لمبے پلان، دو سو مرغیاں روز کے ڈیڈھ سو انڈے اور میرا اپنا کاروبار، پھر اور مرغیاں اور انڈے اور پوری دنیا میں انڈے صرف میرے بزنس سے سپلائی ہونے لگے۔
لیکن میں اپنے خوابوں سے تب جاگا جب دوست نے بتایا کہ کوئی گاڑی دفتر میں موجود نہیں اور نا ہی آنے کا کوئی اندیشہ ہے۔ دفتر سے رہائش کا فاصلہ کچھ زیادہ کم بھی نہیں اور اوپر سے یو اے ای کی گرمی، شدید گرم ہوا اور حبس۔ چل چلا چل راہی چل چلا چل
نکل پڑے مجاہد پا پیادہ!!!!!!!!!!!!!
آدھے راستے تک پھر وہی خواب لیکن اب کی بار میں اکیلا نہیں بلکہ دوست بھی میری طرح میرے خوابوں میں شانہ بشانہ تھا اور خوب مزے مزے کے پلان تیار کر رہے تھے، بس اس کافائدہ یہ ہوا کہ راستہ اور راستے کی کٹھن تھوڑی کم محسوس ہو رہی تھی۔
انڈسٹرئیل ایریا کا پل کراس کیا اور بارونق شہر میں داخل ہوئے تو پھر احساس ہوا کہ پسینے میں شرابور ہو چکے ہیں اور پیاس بھی بہت لگی ہے۔ لیکن چلتے رہے۔ ایک مشہور مارکیٹ کے آگے سے گزرنے لگے اور جیسے ہی کنارے پر پہنچے تو ایک شخص سندھی ٹوپی اور شلوار قمیض میں ملبوس اچانک الٹے ہاتھ والی سائیڈ سے نمودار ہوا۔ اور قدرتی طور پر اس نے ہماری طرف دیکھا، پھر ایک دم سے ٹھٹھکا، چونکا اور رک گیا۔
بلکل یہی ردعمل میرا بھی تھا، میں بھی ٹھٹھکا، چونکا، رکا اور پھر بہت پھرتی سے میرے دماغ نے کام کیا میں نے جلدی سے اپنی ٹوپی اتاری، ڈائری اور ٹوپی ساتھ والے دوست کو تھما دی جو کہ حیرت کے سمندر میں غوطہ خوری کر رہا تھا اور پریشان تھا کہ کونسی حرکتیں ہو رہی ہیں، اس کے ساتھ نمودار ہونے والے شخص نے بھی ویسا ہی کیا اس نے فوری طور پر اپنی سندھی ٹوپی اتاری، چشمہ اتارا اور میرے ہی دوست کو پکڑاتے ہوئے بولا " بھائی صاحب یہ بھی پکڑئے گا بہت مہربانی ہو گئی"
میرا دوست مزید سٹپٹایا کہ یہ کیا ڈرامہ ہے:::::::::: اسکے بعد!!!
ہم دونوں کے منہ سے ایک دوسرے کی شان میں خوبصورت الفاظ کی بارش شروع ہو گئی جسے نے راہ چلتے ہوئے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، کچھ لوگ رک گئے اور کچھ پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے، کچھ پل یہ سلسلہ جاری رہا اور آخر کار ہم دونوں بغل گیر ہو گئے۔
جس کے ساتھ ہی دائیں بائیں والوں نے دل ہی دل میں ہمیں القابات سے نوازا اور یہ سوچتے ہوئے روانہ ہو گئے کہ
انسانوں کی بستی میں
کچھ پاگل، پاگل ہوگئے ہیں۔
میرے ساتھ چلنے والے دوست نے مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو دیکھا اور طویل ٹھنڈی سانس لی۔
اس دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ واقعی ہی
"دنیا گول ہے"۔