تحریر: محمد صديق بخارى
گلی میں کھیلنے والے بچوں
کو وہ بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ ایک بچے نے دوسرے بچے کو
مارا تو مار کھانے والا روتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگا لیکن تھوڑی ہی دیر
میں پھر آ موجود ہوا۔ اب اس کے چہرے پر حد درجہ اطمینان تھا۔ جس بچے سے اس
کی لڑائی ہوئی تھی، اس کو اس نے کہا ” میں نے اپنی ماما سے کہہ دیا ہے ”اور
یہ کہہ کر وہ دوبارہ کھیل میں شامل ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس بچے کو حد
درجہ اطمینان کس چیز نے دیا ہے ۔اس کی ‘ماما’ نہ تو موقع پرآئی ہے ، نہ اس
نے دوسرے بچے کو کچھ کہا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی پیغام بھیجا ہے مگر اس کا
بیٹا پھر بھی مطمئن ہے ۔غور و فکر سے اس پر واضح ہوا کہ اس کا اطمینان در
اصل اس یقین کا نتیجہ تھا جو اس کو اپنی ماں پر تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی
ماں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس کی بے عزتی کا بدلہ لے سکے اور یہ کہ وہ
لازماً ایسا کرے گی۔مگر یہ کہ، وہ کب ایسا کرے گی، کس طریقے سے کرے گی ،
کتنا کرے گی، یہ سب کچھ اس نے اپنی ماں پر چھوڑ دیا تھا۔اور یہ بھی اس کا
یقین تھا کہ وہ یقینا بہتر ہی کرے گی۔
تفویض اور اپنے معاملات کو ایک مشفق اور طاقتور ہستی کے سپرد کرنے کا یہ
عمل اسے بہت بھایا اور ساتھ ہی وہ بہت شرمندہ بھی ہوا جب اسے یہ احساس ہوا
کہ اس کا تو اپنے مالک سے اتنا بھی تعلق نہیں جتنا کہ اس بچے کا اپنی ماں
سے ہے ۔ اس نے یاد کیا کہ اس کی زندگی میں کتنے مواقع ایسے ہیں کہ جب اس نے
سجدے میں سر رکھ کر یہ کہا ہو کہ مالک میرے بس میں جو تھا وہ تو میں نے کر
لیا اب معاملہ تیرے سپرد ہے اور یہ کہہ کر وہ اس بچے کی طرح مطمئن ہو گیا
ہو۔ اور جب تہی دامنی کی احساس نے اسے بالکل ہی سرنگوں کر دیا تو اس نے
حساب لگایا کہ اصل میں گڑ بڑ دو جگہ پر ہے ۔ اول تو اسے مالک کی طاقت ،
قدرت اور عظمت کا کامل استحضار ہی نہیں اور اگر ہے تو پھر اس کی حکمت پہ
شاید کامل ایمان نہیں۔ وگرنہ یہ ممکن نہ تھاکہ تفویض کے بعد اسے اطمینان
حاصل نہ ہو جاتا۔ اور پھر اس نے افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد
کہہ کر یہ عہد کیا کہ آئند ہ وہ تفویض کا یہ عمل بچوں سے سیکھے گا اور ہر
اہم موقع پر یہ کہہ کر اپنے ایمان کی تربیت کرے گا کہ میں نے اپنے اللہ سے
کہہ دیا ہے ۔
آہ ۔ ۔ ۔ کاش کہ میرا اپنے رب پر یقین بھی اس بچے کا سا ہو جائے آ مین
ReplyDelete